گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت ھو اکہ خد ا کی طرف سے امام کا تعین دنیاوی” مطلق العنان “ نظام سے بالکل مختلف ھے ، لوگوں میں قوانین الٰھی کی روشنی میں حکم کرنے اور انصاف قائم کرنے کیلئے جو حاکم خدا کی طرف سے معین ھوتا ھے ، اس کی حکومت روئے زمین پر قابل تصور حکومتوں میں سب سے زیادہ عادل اور مستحکم حکومت ھے ۔
اس قسم کی حکومت میں ، حاکم و فرماں روا خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے ۔ خدا بھی اپنے حکیمانہ ارادہ سے ھمیشہ بھترین وشائستہ ترین فرد کو رھبر کے عنوان سے منتخب کرتا ھے اور خدا کے علم و تشخیص میں کسی بھی قسم کی غلطی و خطا یا غیر منطقی میلان کا امکان نھیں پایا جاتا ۔
خدائے تعالیٰ انسان کے بارے میں مکمل آگاھی رکھتا ھے اور اپنے بندوں کے بارے میں ان کی مصلحتوں اور ضرورتوں سے ان سے زیادہ واقف ھے ۔ جس طرح خدا کے قوانین اور احکام بھترین اور عالی ترین قوانین و احکام ھیں اور کوئی بھی قانون خدا کے قانون کے برابر نھیں ھے ، اسی طرح خدا کی طرف سے معین شدہ پیشوا اور رھبر بھی بھترین پیشوا اور شائستہ ترین و رھبر ھوگا ایک ایسا قائد و فرمان روا جس کی زندگی دسیوں سھو و خطا اور نفسانی خواھشات سے آلودہ ھو وہ خدا کی طرف سے منتخب شدہ رھبر وقائد کا ھم پلہ ھرگز نھیں ھوسکتا ھے۔
گزشتہ بحثوں میں یہ بھی ثابت ھوا کہ اسلامی معاشرہ ھمیشہ ایک ایسے معصوم امام کا محتاج ھے جو الٰھی قوانین اور احکام سے آگاہ ھوتا ھے،کہ امت کیلئے فکری اور علمی پناہ گاہ بن سکے ۔
اصولی طور پر اسلامی معاشرہ فکری اور علمی لحاظ سے ارتقا ء کی اس حد تک نھیں پھنچا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اپنا نظم و نسق خود سنبھال سکے اور اس قسم کے ایک الٰھی رھبر سے بے نیا ھوجائے۔
اب ھم غور کریں اور دیکھیں کہ ان تمام حالات کے تناظر میں پیغمبر الٰھی نے اسلامی امت کی قیادت کیلئے کس کو معین فرمایا تھا اور اس مسئلہ کو ھمیشہ کیلئے حل کردیا تھا ۔
یھاں پر ھم ایسے نقلی دلائل کا سھارا لیتے ھیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صادر ھوئے اور اصطلاحاً متواتر ھیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ھرگز امکان نھیں ھے ۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ھے کہ ان ، کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ھو کہ ھر قسم، کے شک و شبہہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کیلئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رھے۔
لہذا ھم یھاں پر چند ایسے نقلی دلائل کی طرف اشارہ کریں گے جن کی روایت پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قطعی اور مقصود کے بارے میں ان کی دلالت بھی واضح ھے۔ کتاب کے صفحات اور قارئین کرام کے وقت کی کمی کے پیش نظر ھم یھاں لوگوں پر امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی پیشوائی و ولایت کے سلسلے میں نقل ھوئے دلائل کی ایک بڑی تعداد میں سے حسب ذیل کا انتخاب کرتے ھیں :
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لہذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی (علیہ السلام) اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!
مدینہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے دوستوں کیلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لہذا حضرت علی (علیہ السلام) اس افواہ کی تردید کیلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (علیہ السلام) نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی، انّہ لا ینبغی ان اذھب الّا و انت خلیفتی “
” یعنی کیا تم اس پر راضی نھیں ھو کہ تمھیں مجھ سے وھی نسبت ھے جیسی ھارون (علیہ السلام) کو موسی (علیہ السلام) سے تھی ، بس فرق یہ ھے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا؟ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ھی میرے جانشین اور خلیفہ ھوگے “
یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ” غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ھے ، جنھوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ھے کہ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو ۱۵۰ طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں ۱۰۰ طریقے اھل سنت علماء و محدثین تک منتھی ھوتے ھیں[1]
مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ” المراجعات “ میں اس حدیث کے اسناد کو اھل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ھے اور ثابت کیاھے کہ یہ حدیث ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ھوئی ھے “[2]
اس حدیث کے صحیح ھونے کے لئے اتنا ھی کافی ھے کہ اھل سنّت کے صحا ح لکھنے والوں ”بخاری“ اور ” مسلم “ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ھے [3] اس حدیث کے محکم ھونے کے بارے میں یھی کافی ھے کہ امیر المؤمنین کے دشمن ” سعد و وقاص “ نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ھے ۔
جب معاویہ اپنے بیٹے ” یزید“ کے حق میں بیعت لینے کیلئے مکہ میں داخل ھوا ، اور ” الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے بعض شخصیتیں جمع ھوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ھی حضرت علی (علیہ السلام) کو بر ابھلا کھنے سے کیا، اسے امید تھی ، کہ ” سعد و وقاص“ بھی اس کی ھاں میں ھاں ملائے گا ۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کھا: جب بھی مجھے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ھیں تو صدق دل سے کھتا ھوں کہ کاش ! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ھوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل ھیں :
۱۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے کھا:
” تمھیں مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھاون کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا“
۲۔ (پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:
” کل میں علم ایسے شخص کے ھاتھ میں دوںگا جسے خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوست رکھتے ھیں اور وہ فاتح خیبر ھے ۔ فرار کرنے والا نھیں ھے“ ( اس کے بعد آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علم علی (علیہ السلام) کے ھاتھ میں دیدیا )۔
۳۔ ” نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ کے دن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) ، فاطمہ (علیہ السلام) ، حسن (علیہ السلام) ، و حسین (علیہ السلام) کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:
”پروردگارا ! یہ میرے اھل بیت (علیہ السلام) ھیں “ [4]
لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہٴ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔
اس حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ذات سے حضرت علی علیہ السلام کی نسبت کو حضرت ھارون (علیہ السلام) کو ، حضرت موسی (علیہ السلام) سے نسبت کے مانند بیان فرمایا ھے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ھے ، وہ یہ ھے کہ حضرت ھارون (علیہ السلام) پیغمبر تھے لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ خاتم النبیین(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھیں لہذا آپ (علیہ السلام) کے بعد کوئی پیغمبر نھیں ھوگا ۔ اور علی (علیہ السلام) پیغمبری کے مقام پر فائز نھیں ھوں گے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ھارون (علیہ السلام) کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) ( بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے اس حدیث کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ھے ) ان کے مالک تھے ۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ حضرت موسیٰ نے خدائے تعالی سے حضرت ھارون کیلئے درج ذیل منصب چاھے تھے اور خد ا نے حضرت موسی(علیہ السلام) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ھارون (علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے:
۱۔ وزارت کا عھدہ : حضرت موسیٰ بن عمران(علیہ السلام) نے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ھارون (علیہ السلام) کو ان کا وزیر قراردے :
<وَاجْعَلْ لِی وَزِیراً مِنْ اٴَھْلِی ، ھَ-ٰرُون اٴَخِی>
” پروردگارا! میرے اھل بیت میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر قرار دیدے “[5]
۲۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدا سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ھارون (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کی تائید و تقویت فرمائے:
<اُشْدُدْ بِہِ اٴَزْرِی >
اس سے میری پشت کو مضبوط کردے [6]
۳۔ رسالت کا عھدہ : حضرت موسی (علیہ السلام) بن عمران نے خدائے تعالی سے درخواست کی کہ حضرت ھارون (علیہ السلام) کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے :
< وَ اَشْرِکہُ فِی اٴَمْرِی > [7]
اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دیدے ۔
قرآن مجید اشارہ فرماتا ھے کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت موسی(علیہ السلام) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دیکر یہ تمام عھدے حضرت ھارون (علیہ السلام) کو عطا کئے :
< قَدْ اُوتِیتَ سُوْلَکَ یَٰمُوسَیٰ >[8]
یعنی اے موسی (علیہ السلام) ! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمھیں عطا کردیے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی غیبت کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ھارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر کرتے ھوئے فرمایا:
<وَ قَالَ مُوسیٰ لِاٴَخِیہِ ھَٰرُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی >
یعنی ، موسی نے ھارون سے کھا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ھو۔ [9]
مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ھارون (علیہ السلام) کے منصب اور عھدے بخوبی معلوم ھوتے ھیں اور حدیث منزلت کی رو سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عھدے حضرت علی علیہ السلام کیلئے ثابت ھونے چاہئیں۔
اس صورت میں حضرت علی (علیہ السلام) ، امام ، وزیر ،ناصر و مدد گاراور رسول خدا (علیہ السلام) کے خلیفہ تھے اورپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رھبری و قیادت کے عھدہ دار تھے۔
ممکن ھے یہ کھا جائے کہ حضرت علی علیہ السلام کیلئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانشینی انھیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے باھر تشریف لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔
لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ھوجاتا ھے۔
ایک : حضرت علی علیہ السلام پھلے اور آخری شخص نھیں تھے۔ جنھیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی عدم موجودگی میں مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا ھو ۔ بلکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران ، جب کبھی مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین مقرر کرکے ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جملہ کے ذریعہ امام (علیہ السلام) کو ھارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ (علیہ السلام) کے مدینہ میں عدم موجودگی کے دوران امام (علیہ السلام) کی جانشینی تھا ، تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جملہ اپنے دیگر جانشینوں کیلئے کیوں نھیں فرمایا ، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھاد یا حج خانہ خدا کیلئے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے ، آپ کے جانشین ھوا کرتے تھے ؟پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟
دو: ایک مختصر مدت کیلئے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ھی نھیں تھی!
اس کے علاوہ اس قسم کی جا نشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ھوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی (علیہ السلام) کے خاص فضائل میں شمار نھیں ھوتی کہ برسوں کے بعد سعد و قاص اس فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا ! اور خو د حضرت علی (علیہ السلام) کے انتھائی اھم فضائل ( فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ میں نفس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اھل بیت (علیہ السلام) )کے مقام تک پھنچنے کی آرزو کرتا !!
تین : اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف جنگ تبوک کیلئے جانے کے موقع پر اس تاریخی جملہ کو بیان فرمایا ھوتا تو کسی کے ذھن میں ایسا سوال پیدا ھونا بجا تھا ۔ لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ اھم جملہ دیگر مواقع پر بھی فرمایا ھے اورتاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ھوچکے ھیں ۔ ھم یھاں پر اس کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں [10]
۱۔ ایک دن حضرت ابو بکر ، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی علیہ السلام کے شانہ پر رکھ کر فرمایا:
” یا علی انت اول المؤمنین ایماناً و اوّلھم اسلاماً ، و انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ “ [11]
” اے علی ! تم وہ پھلے شخص ھو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی“
۲۔ ھجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار کو جمع کیا اور انھیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی علیہ السلام کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، آپ (علیہ السلام) نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی: یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ھوئی ھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھر فرد کیلئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے کسی کا انتخاب نھیں کیا؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یھاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وھی تاریخی جملہ دھرایا:
” وَ الَّذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی و انت منی بمنزلة ھارون من موسی غیر انہ لا نبیّ بعدی و انت اخی و وارثی “
” قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ھے ، میں نے تمھیں صرف اپنا بھائی بنانے بنانے کیلئے یہ تاخیر کی ھے ، اور تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون (علیہ السلام) کو موسی (علیہ السلام) سے تھی ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نھیں ھوگا ، تم میرے بھائی اور میرے وارث ھو“[12]
حضرت علی (علیہ السلام) ان تمام عھدوں اور منصبوں کے مالک تھے جو حضرت ھارون (علیہ السلام) کو ملے تھے اس بات کی ایک اور دلیل یہ ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے حکم سے مختلف طریقوں سے کوشش فرماتے تھے کہ لوگ اس سے آگاہ ھوجائیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی حیثیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت وھی ھے جو ھارون (علیہ السلام) کی موسی (علیہ السلام) کی بنسبت تھی اور نبوت کے علاوہ اس میں کسی اور قسم کی کمی نھیں ھے۔
لہذا جب حضرت زھرا علیھا السلام سے حضرت علی علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ھوئے ، تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان کے نام ” حسن (علیہ السلام) و حسین (علیہ السلام) “ رکھیں جیسا کہ ھارون (علیہ السلام) کے بیٹوں کے نام ” شبر وشبیر “ تھے کہ عربی زبان میں ان کا مطلب حسن و حسین ھوتا ھے ۔
ان دو جانشینوں (یعنی حضرت علی (علیہ السلام) اور حضرت ھارون (علیہ السلام) )کے بارے میں تحقیق و جستجو سے چند دیگر مشابھتوں کا سراغ بھی ملتا ھے ھم یھاں پر ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ھیں ، مرحوم شرف الدین نے کتاب ” المراجعات “ میں اس سلسلے میں مفصل بحث کی ھے۔ [13]
اسلام کی عالمی تحریک ، ابتداء سے ھی قریش بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے عام بت پرستوں کی طرف سے جنگ اور مخالفتوں سے روبرو ھوئی ۔ جو گوناگوں سازشوں کے ذریعہ اس شمع الٰھی کو بجھانے کے در پے تھے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی خاص کا میابی حاصل نہ کرسکے۔ ان کی آخری خیالی امید یہ تھی کہ اس عظیم تحریک کے پائے اس کے پیشوا اور بانی کی وفات کے بعد اس طرح ڈھہ جائیں گے جس طرح پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھلے بعض لوگوں کی یکتا پرستی کی دعوت [14]ان کی وفات کے بعد خاموش ھوگئی۔
قرآن مجید جس نے اپنی بھت سی آیات میں ان کی سازشوں اور منصوبوں سے پردہ اٹھایا تھا اس دفعہ بت پرستوں کی آخری خیالی امید یعنی وفات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں درج ذیل آیت میں اشارہ فرماتا ھے :
<اٴَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْبَ الْمَنُونِ { قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّی مَعَکُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِینَ{ اٴَمْ تَاٴْمُرُھُمْ اٴَحْلَامُھُمْ بِھَذَا اٴَمْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ> [15]
” یا یہ لوگ یہ کھتے ھیں کہ پیغمبر شاعر ھے اور ھم اس کی موت کا انتطار کررھے ھیں ۔ تو آپ کھدیجئے کہ بیشک تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ھوں! کیا
ان کی خام عقلیںانھیں اس بات پر آمادہ کرتی ھیںیا وہ واقعاً سرکش قوم ھیں “
مناسب ھے کہ یھا ںپر بت پرستوں کی طرف سے رسالتماب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چھیڑی گئی بعض خائنانہ جنگوں اور روڈے اٹکانے کی منحوس حرکتوں کی ایک فھرست بیان کی جائے اور اس کے بعد دیکھا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان کی آخری امیدوں کو کیسے ناکام بنایا اور آغوش پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حضرت علی (علیہ السلام) جیسے لائق و شائستہ شخص کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین کی حیثیت سے منتخب کرکے ان کی سازشوں کو خاک میں ملادیا ۔
کفار مکہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شاعر ، کاھن ، دیوانہ اور جادوگر ھونے کی تھمتیں لگا کر یہ کوشش کی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کے اثرات کم کریں ، لیکن سماج کے مختلف طبقوں میں اسلام کی نمایاں ترقی نے ثابت کردیا کہ آپ کی مقدس ذات ان تھمتوں سے بالاتر تھی ۔
کفار مکہ کا ایک اور منصوبہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرؤوں کو آزار پھنچانا اور انھیں جسمانی اذیتیں دینا اور قتل کرنا تھا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات و ھدایت کے وسیع اثرات کو روک سکیں ۔ لیکن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامیوں کی ھر ظلم و جبر اور اذیت و آزار کے مقابلے میں استقامت و پامردی نے قریش کے سرداروں کو اپنے منحوس مقاصد تک پھنچنے میں ناکام بنادیا ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامیوں کی آپ کے تئیں والھانہ عقیدت و اخلاص نے دشمنوں کو حیرت زدہ کردیا ، حتی ابو سفیان کھتا تھا، ” میں نے قیصر وکسریٰ کو دیکھا ھے لیکن ان میں سے کسی کو اپنے پیرؤوں کے درمیان محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا با عظمت نھیں دیکھا جن کے پیرؤوں نے ان کے مقاصد کی راہ میں اس قدر جاںبازی اور فداکاری کا ثبوت دیا ھے [16]
قرآن مجید کے روحانی اور جذباتی اثرات سے کفار قریش حیرت زدہ تھے اور تصور کرتے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو سننے کیلئے لوگوں کا پروانہ وار دوڑنا اس سبب سے ھے کہ قرآن مجید میں گذشتہ اقوام کی داستانیں اورکھانیاں بیان ھوئی ھیں ۔ اس لئے کفار مکہ نے دنیائے عرب کے سب سے مشھور داستان گو ” نصر بن حارث “ کو دعوت دی کہ وہ خاص موقعوں پر مکہ کی گلی کوچوں میں ’ ایران “ اور ” عراق“ کے بادشاھوں کے قصے سنائے تا کہ اس طرح لوگوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مائل ھونے سے روک سکیں ! یہ منصوبہ اس قدر احمقانہ تھا کہ خود قریش یہ داستانیں سننے سے تنگ آچکے تھے اور اس سے دور بھاگتے تھے۔
قریش کا ایک اور منحوس منصوبہ قرآن مجید سننے پر پابندی عائد کرنا تھا اس شمع الٰھی کے پروانوں کی استقامت سے ان کا یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ قرآن مجید کی زبر دست شیرینی اور دلکشی نے مکہ کے لوگوں کو اس قدر فریفتہ بنا دیا تھا کہ وہ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکل کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ جاتے تھے تا کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز شب اور تلاوت قرآن مجید کیلئے اٹھیں تو وہ قرآن کی تلاوت سن سکیں ۔ قریش کے کفار صرف لوگوں کو قرآن سننے سے ھی منع نھیں کرتے تھے بلکہ لوگوں کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے جلنے سے منع کرتے تھے ۔ جب عرب کی بعض بزرگ شخصیتیں جیسے ، اعشی و طفیل بن عمر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کیلئے مکہ میں آئے تو قریش نے مختلف ذرایع سے ان کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پھنچنے سے روک دیا[17]
کفار قریش نے ایک دستور کے ذریعہ لوگوں میں یہ اعلان کیا کہ کسی کو بنی ھاشم یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرفداروں کے ساتھ لین دین کرنے کا حق نھیں ھے ۔ جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھیوں اور اعزّہ کے ساتھ ” شعب ابی طالب (علیہ السلام) “ میں پورے تین سال تک انتھائی سخت اور قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ھوئے ۔ لیکن قریش کے بعض سرداروں کے اقدام اور بعض معجزات کے رونما ھونے کی وجہ سے یہ بائیکاٹ ختم ھوگیا۔
قریش کے سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے قریش کے چالیس جوان رات کے اندھیرے میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پر حملہ آور ھوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے بسترہ پر ھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔ لیکن خداوند کریم (جو ھر وقت آپ کا حافظ و نگھبان تھا )نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمنوں کی اس سازش سے آگاہ کردیا اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کے حکم سے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنے بسترہ پر سلا کر خود مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ھجرت اور اوس و خزرج جیسے قبیلوں کا اسلام کی طرف مائل ھونا اس کاباعث ھوا کہ مسلمانوں کو ایک امن کی جگہ مل گئی اور پراکندہ مسلمان ایک پر امن جگہ پر جمع ھوکر دین کا دفاع کرنے کے لائق ھوگئے۔
مسلمانوں کے مدینہٴ منورہ میں اکٹھا ھونے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کو دیکھتے ھوئے جزیرہ نمائے عرب کے بت پرست خوفزدہ ھوگئے اور اس دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ ھدایت کی شمع فروزاں کو جنگ اور قتل و غارت کے ذریعہ ھمیشہ کیلئے بجھادیں ۔ اسی غرض سے کفار نے مسلمانوں سے بدر، احد ، خندق اور حنین کی خونین جنگیں لڑیں ۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے یہ جنگیں مسلمانوں کی فوجی طاقت میں اضافہ کا باعث بنیں اور انھوں نے بت پرستوں کو عرب میں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔
دشمنوں نے اپنے ناپاک عزائم کے سلسلے میں آخری امید پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے باندھی تھی ۔ وہ سوچ رھے تھے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ھی اس تحریک کی بنیادیں اکھڑ جائیں گی اور اسلام کا بلند پایہٴ محل زمین بوس ھوجائے گا ۔ اس مشکل کو دور کرنے اور اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے دو راستے موجود تھے :
۱۔ امت اسلامیہ کی فکری و عقلی نشو و نما اس حد تک پھنچ جائے کہ مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کی اس نئی تحریک کی عھد رسالت کے مانند ھدایت و رھبری کرسکیں اور اسے ھر قسم کے انحراف سے بچاتے ھوئے ” صراط مستقیم“ پر آگے بڑھائیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت کی ھمہ جھت قیادت کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ابھی جو بد قسمتی سے امت کے افراد میں سازگار حالات نھیں پائے جاتے تھے ۔ اس وقت یہ مناسب نھیں ھے کہ ان حالات کے ھونے یا نہ ھونے پر مفصل بحث کریں ، لیکن مختصر طور درج ذیل چند اھم نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے :
الف) ایک ملت کی مختلف میدانوں میں ترقی اور بنیادی انقلاب کا پیدا ھونا چند روز یا چند سالوں میں ممکن نھیں ھوتا اور مختصر مدت میں ایسے مقاصد تک نھیں پھنچا جاسکتا ھے بلکہ انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے اور اسے لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں میں اتارنے کیلئے ایسے ممتاز اور غیر معمولی فرد یا افراد کی ضرورت ھوتی ھے جو اس تحریک کے بانی کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور انتھائی ھوشیاری اور پیھم تبلیغ کے ذریعہ سماج کو ھر قسم کے غلط رجحانات سے بچا سکیں تا کہ پرانی نسل کی جگہ ایک ایسی نئی نسل لے لے جو ابتدا ء سے ھی اسلامی آداب و اخلاق کے ماحول میں پلی ھو ۔ ورنہ دوسری صورت میں تحریک کے بانی کی وفات کے ساتھ ھی بھت سے لوگ اپنی پرانی روش کی طرف پلٹ جائیں گے ۔
اس کے علاوہ تمام الٰھی تحریکوں میں اسلام ایسی خصوصیت کا حامل تھا جس میں اس تحریک کے استحکام کیلئے ممتاز افراد کی اشد ضرورت تھی ۔ دین اسلام ایسے لوگوں کے درمیان وجود میں آیاتھا جو دنیا کی پسماندہ ترین قوم شمار ھوتے تھے اور اس معاشرہ کے لوگ سماجی و اخلاقی قواعد و ضوابط کے لحاظ سے انتھائی محرومیت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے مذھبی آداب و رسوم کے طور پر وہ اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ھوئی ( جو خرافات اور برائیوں سے بھری تھیں ) کے علاوہ کوئی اور چیز نھیں جانتے تھے ۔ حضرت موسی (علیہ السلام) اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کے دین نے ان کی سرزمین پر کوئی اثر نھیں ڈالا تھا اور حجاز کے اکثر لوگ اس سے محروم تھے اور اس کے مقابلہ میں جاھلیت کے عقائد اور رسم و رواج ان کے دلوں میں راسخ ھوکر ان کی روح میں آمیختہ ھوچکے تھے۔
ممکن ھے کہ ایسے معاشروں میں مذھبی اصلاح زیادہ مشکل نہ ھو لیکن اس کا تحفظ اور اس کی بقا، ایسے لوگوں میں جن کی روح میں منفی عوامل نفوذ کرچکے ھوں ، انتھائی مشکل کام ھوتا ھے اس کیلئے مسلسل ھوشیاری اور تدبیر کی ضرورت ھوتی ھے تا کہ ھر قسم کے انحرافات اور رجعت پسندی کو روکا جاسکے ۔
” احد“ اور ” حنین“ کے دل دوز حوادث کے مناظر ، جب گرما گرم جنگ کے دوران تحریک کے حامی رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان کارزار میں تنھا چھوڑ کر باگ کھڑے ھوئے تھے اس بات کے واضح گواہ ھیں کہ تحریک کے مؤمن افراد ، جو اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے پر حاضر تھے ، بھت کم تھے اور معاشرے کے زیادہ تر لوگ فکری و عقلی رشد و بلوغ کے لحاظ سے اس مقام پر نھیں پھنچے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظام کی باگ ڈور ان کے ھاتھ میں دیدیتے اور دشمن کی آخری امید یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے انتظار، کو ناکام بنادیتے ۔
یہ وھی امت ھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اختلاف و تفرقہ کا مرکز بن گئی اور رفتہ رفتہ ۷۲ فرقوں میں بٹ گئی۔
جو باتیں ھم نے اوپر بیان کیں اس سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے وقت فکری اور عقلی رشد کے لحاظ سے امت اسلامیہ اس حد تک نھیں پھنچی تھی کہ دشمنوں کے منصوبے ناکام ھوجاتے اسلئے کسی دوسری چارہ جوئی کی ضرورت تھی کہ ھم ذیل میں اس کی طرف اشارہ کرتے ھیں :
۲۔ تحریک کو استحکام بخشنے کیلئے آسان اور سادہ طریقہ یہ ھے کہ تحریک کے اصول و فروع پر ایمان و اعتقاد کے لحاظ سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا ایک لائق و شائستہ شخص تحریک کی قیادت و رھبری کیلئے خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے انتخاب کیا جائے اور وہ قوی ایمان ، وسیع علم اور عصمت کے سائے میں انقلاب کی قیادت کو سنبھال کر اس کو استحکام اور تحفظ بخشے۔
یہ وھی مطلب ھے جس کے صحیح اور مستحکم ھونے کا دعویٰ شیعہ مکتب فکر کرتا ھے ۔ اس سلسلے میں بھت سے تاریخی شواھد بھی موجود ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجة الوداع سے واپسی کے دوران ۱۸ ذی الحجة کو خدا کے حکم سے اس گتھی کو سلجھادیا اور خدا کی طرف سے اپنا جانشین اور ولی مقرر فرما کر اپنی رحلت کے بعد اسلام کو استحکام اور تحفظ بخشا۔اس کا واقعہ یوں ھے ، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۱۰ ھ میں حج بجالانے کیلئے مکہ کی طرف عزیمت فرمائی ، چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حج کا یہ سفر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا آخری سفر تھا اس لئے یہ حجة الوداع کے نام سے مشھور ھوا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شوق سے یاا حکام حج کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھنے کیلئے جن لوگوں نے اس سفر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیا ان کی تعداد کے بارے میں مؤرخین نے ایک لاکھ بیس ہزار کا تخمینہ لگایا ھے ۔
حج کی تقریبات ختم ھوئیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم راھی مدینہ ھوئے جوق در جوق لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الوداع کررھے تھے لیکن مکہ میں آپ سے ملحق ھونے والوں کے علاوہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ھمسفر تھے ۔ کاروان ، جحفہ سے تین کلو میٹر کی دوری پر ” غدیر خم“ کے ایک صحرا میں پھنچا ، اچانک وحی الٰھی نازل ھوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رکنے کا حکم ملا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حکم دیا کہ سب حجاج رک جائیں تا کہ پیچھے رھنے والے لوگ بھی پھنچ جائیں ۔
پیغمبر کی طرف سے ایک تپتے ریگستان میںد وپھر کو تمازتِ آفتاب میں رکنے کے حکم پر لوگ تعجب میں تھے۔ اور سرگوشیاں کررھے تھے کہ ضرور خدا کی طرف سے کوئی خاص حکم پھنچا ھے اور اس کی اھمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امر ھوا ھے کہ وہ ان نامساعد حالات میں لوگوں کو روک کر فرمان الٰھی پھنچائیں۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ فرمان الٰھی درج ذیل آیہٴ شریفہ کے ذریعہ ملا ۔
< یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ > [18]
” اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا آپ خدا کی رسالت کو نھیں بجا لائے اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اس آیہٴ شریفہ کے مضمون پر غور کرنے سے ھمیں مندرجہ ذیل نکات کی طرف ھدایت ملتی ھے :
اولاً: جس حکم الٰھی کو پھنچانے کی ذمہ داری پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی تھی وہ اتنا اھم اور عظیم تھا کہ اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( بفرض محال ) اسے پھنچانے سے ڈرتے اور نہ پھنچاتے تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی رسالت کا کام ھی انجام نھیں دیا ھوتا ، بلکہ -( آیندہ اس کی وضاحت کریں گے کہ ) اس ماٴموریت کو بجالانے سے ھی آپ (علیہ السلام) کی رسالت مکمل ھوتی ھے ۔
دوسرے الفاظ میں < مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ > ( جو آپ پر نازل کیا گیا ھے ) کا مقصود قرآن مجید کی تمام آیات اور احکام اسلامی نھیں ھوسکتے ھیں ،کیونکہ یہ بات بالکل واضح ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احکام الٰھی نہ پھنچاتے تو اپنی رسالت کو انجام ھی نہ دیا ھوتا اور اس قسم کے بدیھی امر کے بارے میںکچھ کھنے اور آیت نازل کرنے کی ضرورت ھی نھیںتھی ، بلکہ اس کا مقصد ایک خاص موضوع کو پھنچانا ھے کہ اس کا پھنچانا رسالت پھنچانے کے برابر شمار ھوتا ھے اور جب تک اسے نہ پھنچا یا جائے ، رسالت کی عظیم ذمہ داری اپنے کمال تک نھیں پھنچتی۔
اس بنا پر اس ماٴموریت کا مسئلہ اسلام کے اھم اصولوں میں سے ایک ھونا چاہئے جو اسلام کے دوسرے اصول و فروع سے پیوستہ ھو اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی طرح یہ بھی ایک اھم مسئلہ ھو ۔
ثانیاً : سماجی حالات اور ان کے محاسبات کے پیش نظر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ گمان کرتے تھے کہ اس ماٴموریت کو انجام دینے کی صورت میں ممکن ھے لوگوں کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان پھنچے ، اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کو قوت بخشنے کیلئے فرمایا:
< و َ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>
” خدا آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
اب یہ دیکھنا ھے کہ مفسرین اسلام نے اس آیت کے موضوع کے بارے میں جو احتمالات [19]
بیان کئے ھیں ان میں سے کون سا احتمال اس آیہٴ شریفہ کے مضمون سے قریب تر ھے ۔شیعہ محدثین کے علاوہ اھل سنت محدثین کے تیس [20] افراد نے لکھا ھے کہ یہ آیہ شریفہ غدیر کے دن نازل ھوئی ھے ، جس دن خدا نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مامور کیا کہ علی (علیہ السلام) کو ”مؤمنین کے مولا “ کے طور پر پھچنوائیں۔
امت پر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جانشینی کے عنوان سے امام (علیہ السلام) کی قیادت کا مسئلہ ھی اتنا ھی اھم اور سنجیدہ تھا کہ اس کا پھنچانا رسالت کی تکمیل کا باعث اور نہ پھنچانا رسالت کے نقصان اور رسول کی زحمتوں کے
اس حکم الھی کو پھنچانے سے ڈرتے تھے کہ کھیں وہ دنیا کو ترجیح نہ دیں۔
۴۔ یہ آیت ، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ بولے بیٹے زید کے واقعہ سے متعلق ھے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خدا کی طرف سے حکم ھوا کہ وہ زید کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کرلیں۔
۵۔ یہ آیت لوگوں اور منافقین کو جھاد کی طرف دعوت دینے سے مربوط ھے ۔
۶۔ بتوں کی برائی کرنے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاموشی سے مربوط ھے۔
۷۔یہ آیت حجة الوداع میں اس وقت نازل ھوئی ھے جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شریعت اور مناسک بیان فرمارھے تھے۔
۸۔ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) قریش ، یھود اور نصاری سے ڈرتے تھے اس لئے یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادے کو قوت بخشنے کیلئے نازل ھوئی ھے۔
۹۔ ایک جنگ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک درخت کے سایہ میں آرام فر مارھے تھے ، ایک عرب ننگی تلوار لے کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ھوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ھوکر کھا: ” اب تمھیں مجھ سے کون بچا سکتا ھے“ ، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا: ” خدا “ اس وقت دشمن پر خوف طاری ھوا وہ پیچھے ھٹ گیا اور اس کا سر درخت سے ٹکرا کر پھٹ گیا ، اس وقت یہ آیت نازل ھوئی <والله یعصمک من الناس> آیہ شریفہ کے مفاد کا مذکورہ احتمالات کے مطابق ھونا ( مثلا ً آخری احتمال) بھت بعید ھے جب کہ غدیر خم کے واقعہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے ۔
اسی طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتماعی محاسبات کے پیش نظر خوف و تشویش سے دوچار ھونابجا تھا، کیونکہ حضرت علی (علیہ السلام) جیسے صرف ۳۳ سالہ شخص کا جانشین اور وصی قرار پانا اس گروہ کیلئے انتھائی سخت اور دشوار تھا جو عمر کے لحاظ سے آپ (علیہ السلام) سے کھیں زیادہ بڑے تھے [21]
اس کے علاوہ ایسے افراد بھی مسلمانوں کی صفوں میں موجود تھے جن کے اسلاف مختلف جنگوں میں حضرت علی (علیہ السلام) کے ھاتھوں قتل ھوچکے تھے اور قدرتی طور وہ کینہ توز ایسے شخص کی حکومت کی شدید مخالف کرتے ۔
اس کے علاوہ حضرت علی (علیہ السلام) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے، اور تنگ نظر لوگوں کی نظر میں ایسے شخص کو خلافت کے عھدہ پر مقرر کرنا اس کا سبب ھوتا کہ وہ اس عمل کو کنبہ پروری تصور کرتے۔
لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود خدائے تعالی کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جانشین مقررفرما کر اسلامی تحریک کو تحفظ بخشے اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمی رسالت کا رھبر و راھنما مقرر کرکے اسے تکمیل تک پھنچائے۔
اب اس تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
۱۸ ذی الحجة کی دوپھر کا وقت تھا ، سورج کی تمازت نے غدیر خم کی سرزمین کو جھلسا رکھا تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد__جس کے بارے میں ۷۰ ہزار سے ۱۲۰ ہزار تک لکھا گیا__ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے وھاں پر پڑاؤ ڈالے ھوئے تھی اور یہ لوگ اس دن رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کررھے تھے۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ، لوگوں نے اپنی ردائیں تہ کرکے آدھی سر پر اور آدھی پاؤں کے نیچے رکھی تھیں ۔
ان حساس لمحات میں اذان ظھر کی آواز سے تمام صحرا گونج اٹھا ، اور لوگ نماز ظھر کیلئے آمادہ ھوئے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عظیم اور پرشکوہ اجتماع __ کہ سرزمین غدیر پہ ایسا عظیم نھیں ھوا تھا__کے ساتھ نماز ظھر ادا کی ۔ اس کے بعد آپ لوگوں کے درمیان تشریف لائے اور اونٹوں کے پالان سے بنے ایک بلند منبر پرجلوہ افروز ھوکر بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا اور فرمایا:
” حمد و ستائش تنھا خدا کے لئے ھے ، ھم اسی سے مدد چاھتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں ، اور اسی پر توکل کرتے ھیں ، اور اپنے نفس امارہ اور برائی کے شر سے محفوظ رھنے کیلئے اس خدا کی پناہ لیتے ھیں ، جس کے سوا گمراھوں کی ھدایت و راھنمائی کرنے والا کوئی نھیں ھے ۔ ھم گواھی دیتے ھیں کہ جس کی خداوند کریم ھدایت کرے کوئی اسے گمراہ نھیں کرسکتا ھم اس خدا کی گواھی دیتے ھیں جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھے ۔
اے لوگو! خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ھے کہ ھر پیغمبر کی رسالت کی مدت اس سے پھلے کی رسالت کی آدھی ھوتی ھے ، اور میں جلدی ھی دعوت حق کو لبیک کھنے والا اور تم سے رخصت ھونے والا ھوں ، میں ذمہ دار ھوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ھو ، میرے بارے میں کیا سوچتے ھو؟
اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین خدا کی تبلیغ کی ، ھمارے بارے میں خیر خواھی کی اور ھماری نصیحت فرمائی اور اس راہ میں سعی و کوشش کی ، خدائے تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔
مجمع پر خاموشی چھاگئی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی خدا نھیں ھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھے ، جنت ، جھنم اور موت حق ھے ۔ بے شک قیامت آئے گی اور خدائے تعالیٰ زمین میں دفن لوگوں کوپھر سے زندہ کرے گا ؟
اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جی ھاں ! جی ھاں ! ھم گواھی دیتے ھیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : میں تم لوگوں کے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رھا ھوں تم لوگ ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو گے؟
ایک شخص : یہ دو گراں قدر چیزیں کیا ھیں ؟
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ثقل اکبر خدا کی کتاب ھے کہ اس کا ایک سرا خدا سے وابستہ اور دوسرا سرا تمھارے ھاتھ میں ھے ، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ ے رھو تا کہ گمراہ نہ ھواور ” ثقل اصغر“ میری عترت اور اھل بیت (علیہ السلام) ھیں ۔ خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دو یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی۔
خبردار، اے لوگو: خدا کی کتاب اور میری عترت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا اور نہ ان سے پیچھے رھنا تا کہ نابودی سے بچے رھو۔
اس موقع پر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کا ھاتھ پکڑ کر انھیں اس قدر بلند کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغل کے نیچے کی سفیدی نمایاں ھوگئی اور تمام لوگوں نے علی (علیہ السلام) کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھلومیں دیکھا اور انھیں اچھی طرح سے پھچان لیا۔ سب سمجھ گئے کہ اس اجتماع کا مقصد، علی (علیہ السلام) سے مربوط کوئی اعلان ھے ۔ سب شوق و بے تابی کے ساتھ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سننے کے منتظر تھے۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : اے لوگو! مؤمنوں پر ، خود ان سے زیادہ سزاوار کون ھے ؟
اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : خدا اور اس کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھتر جانتے ھیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ” خدا میرا مولا اور میں مؤمنوں کا مولا اور ان پر ، خود ان سے زیادہ اولی و سزاوار ھوں ۔ اے لوگو ! ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ یعنی جس جس کا میں مولا ---__ خود اس سے زیادہ اس پر سزاوار __ ھوں اس کے علی (علیہ السلام) بھی مولا ھیں “ اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جملہ کو تین بار فرمایا .
اس کے بعد فرمایا: پروردگارا! اس کو دوست رکھ ، جو علی (علیہ السلام) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی (علیہ السلام) سے دشمنی کرے۔ خدایا ! علی (علیہ السلام) کے دوستوں کی مدد فرما اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ خداوندا ! علی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرکز حق قرار دے “
اس کے بعد پیغمبر نے فرمایا: ضروری ھے کہ اس جلسہ میں حاضر لوگ اس خبر کو غیر حاضروں تک پھنچادیں اور دوسروں کو بھی اس واقعہ سے باخبر کریں۔
ابھی غدیر کا اجتماع برقرار تھا کہ فرشتہٴ وحی تشریف لایا اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو بشارت دی کہ خداوند کریم فرماتا ھے : میں نے آج اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں
۱۔ احمد بن حنبل کا کھنا ے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جملہ کو چار بار فرمایا اور اس پر راضی ھو اکہ یہ کامل شدہ اسلام تمھارا دین ھو [22]
یھاں پر پیغمبر اسلام نے تکبیر کی آواز بلند کرتے ھوئے فرمایا: میں خدا کا شکر گزار ھوں کہ اس نے اپنے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمام کردی اور میری رسالت اور میرے بعد علی (علیہ السلام) کی ولایت پر خوشنود ھوا۔
اس کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جگہ سے نیچے تشریف لائے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب گروہ گروہ آگے بڑھے اور علی (علیہ السلام) کو مبارکباددی اور انھیں اپنے اور تمام موٴمنین و مومنات کا مولا کھا۔
اس موقع پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شاعر ” حسان بن ثابت “ اٹھا اور اس نے اس تاریخی روداد کو شعر کی صورت میں بیان کرکے اسے ابدی رنگ دیدیا۔ اس کے اس قصیدہ سے صرف دو ابیات کا ترجمہ یھاں پر ذکر کرتے ھیں :
” پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) سے فرمایا : کھڑے ھوجاؤ! میںنے تمھیں اپنے بعد لوگوں کی قیادت اور راھنمائی کیلئے منتخب کیا ھے ۔[23] جس کا میں مولا ھوں ، اس کے علی (علیہ السلام) بھی مولا ھیں ۔
لوگو! تم لوگوں پر لازم ھے کہ علی (علیہ السلام) کے سچے اور حقیقی دوست رھو ۔
اوپر بیان شدہ روداد غدیر کے واقعہ کا خلاصہ ھے جو اھل سنت علماء کے اسناد و مآخذمیں ذکر ھوا ھے ۔ شیعوں کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔
مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب ” احتجاج“ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا سے ایک مفصل خطبہ نقل کیا ھے ، شائقین اس کتاب میں اس خطبہ کا مطالعہ کرسکتے ھیں [24]
خدائے تعالیٰ کا حکیمانہ ارادہ یھی تھا کہ غدیر کا تاریخی واقعہ تمام زمانوں اور صدیوں میں ایک زندہ تاریخ کی صورت میں باقی رھے تا کہ ھر زمانے کے لوگ اس کی طرف جذب ھوں اور ھر زمانے میں اسلام کے اھل قلم تفسیر ، حدیث ، کلام اور تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت اس موضوع پر لکھیں اور مذھبی مقررین ، وعظ و سخن کی مجلسوں میں اسے بیان کرتے ھوئے اس کو امام (علیہ السلام) کے ناقابل انکار فضائل میں شمار کریں ۔ ادباء و شعراء بھی اس واقعہ سے الھام حاصل کرکے اپنے ادبی ذوق و شوق کو اس واقعہ سے مزین کرکے مولا کے تئیں اپنے جذبات مختلف زبانوں میں بھترین ادبی نمونوں کی صورت میں پیش کریں۔
یہ بات بلا سبب نھیں کہ انسانی تاریخ میں بھت کم ایسے واقعات گزرے ھیں جو واقعہ غدیر کی طرح علماء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین ، فلاسفہ ، مقررین ، شعراء ، مؤرخین و سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ھیں ان سب نے اس واقعہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عقیدت کے پھول نچھاور کئے ھیں ۔
بیشک اس واقعہ کے لافانی اور جاویدانی ھونے کا ایک سبب یہ بھی ھے کہ اس واقعہ سے مربوط قرآن مجید میں دو آیتیں[25] نازل ھوئی ھیں ۔چونکہ قرآن لافانی اور ابدی ھے اس لئے یہ واقعہ بھی لافانی ھوگیا ھے اور ھر گز ختم ھونے والا نھیں ھے۔
اس کے علاوہ چونکہ گزشتہ زمانہ میں اسلامی معاشرہ اور آج کا شیعہ معاشرہ اس روز کو مذھبی عیدوں میں ایک عظیم عید شمار کرتا ھے اور اس مناسبت سے ھر سا ل با شکوہ تقریبات منعقد کرتا ھے لہذا قدرتی طور پر غدیر کے تاریخی واقعہ نے ابدیت کا رنگ اختیار کرلیا ھے اور کبھی فراموش ھونے والا نھیں ھے۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ ۱۸ ذی الجة الحرام کا دن مسلمانوں کے درمیان عید غدیر کے طور پر معروف تھا ، یھاں تک کہ ” ابن خلکان “ فاطمی خلیفہ مستعلی بن المستنصر کے بارے میں لکھتا ھے :
” سن ۴۸۷ ھ عید غدیر کے دن ، کہ ۱۸ ذی الحجة الحرام ھے ، لوگوں نے اس کی بیعت کی [26]المستنصر بالله کے بارے میں ” العبیدی“ لکھتا ھے:
” وہ سن ۴۸۷ ھ میں جب ماہ ذی الحجة میں ۱۲ شبیں باقی بچی تھیں ، فوت ھوا ،یہ شب وھی ۸ اویں ذی الحجة کی شب ھے ، اور شب عید غدیر ھے“[27]
ابن خلکان نے ھی اس شب کو عید غدیر کی شب کا نام نھیں دیا ھے بلکہ ” مسعودی“[28]اور ”ثعالبی“[29]نے بھی اس شب کوامت اسلامیہ کی مشھور و معروف شبوں میں شمار کیا ھے۔
عید غدیر کے دن جشن و سرور کی تقریبات کا سلسلہ اس دن خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے شروع ھوا ھے۔ کیونکہ اس دن پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے مھاجرین و انصار بلکہ اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا تھا کہ علی (علیہ السلام) کے پاس جاکر انھیں اس عظیم فضیلت کی مبارکباد دیں۔
زید بن ارقم کھتے ھیں : مھاجرین میں سے سب سے پھلے جن افراد نے علی (علیہ السلام) کے ھاتھ پر بیعت کی ، ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ اور زبیر تھے اور مبارکبادکی یہ تقریب اس دن سورج ڈوبنے تک جاری رھی۔
اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کیلئے اتنا ھی کافی ھے کہ ۱۱۰ صحابیوں نے اسے نقل کیا ھے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اتنی بڑی جمعیت میں سے صرف ان ھی افراد نے غدیر کے واقعہ کو نقل کیا ھے، بلکہ سنی علماء کی کتابوں میں اس واقعہ کے صرف ۱۱۰ راوی ذکر ھوئے ھیں ۔ یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکھ کے مجمع میں تقریر فرمائی، لیکن ان میں بھت سے لوگ حجاز سے دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ، جن سے کوئی حدیث نقل نھیں ھوئی ھے ، یا اگر نقل ھوئی بھی ھو تو ھم تک نھیں پھنچی ھے۔ ان میں سے اگر کسی جماعت نے اس واقعہ کو نقل بھی کیا ھے تو تاریخ ان کے نام درج کرنے میں کامیاب نھیں ھوئی۔
دوسری صدی ھجری میں -- __جو عصر تابعین کے نام سے مشھور ھے __ نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
بعد والی صدیوں میں حدیث کے بھت سے راوی سنی علماء تھے ان میں سے تین سو ساٹھ راویوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور ان میںسے بھت سے لوگوں نے اس حدیث کے صحیح اور محکم ھونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔
تیسری صدی ھجری میں ۹۲ (بانبے) سنی علماء نے، چوتھی صدی میں تینتالیس( ۴۳)، پانچویں صدی میں جوبیس (۲۴) ، چھٹی صدی میں بیس (۲۰)، ساتویں صدی میں اکیس (۲۱) ، آٹھویں صدی میں اٹھارہ (۱۸) ، نویں صدی میں سولہ (۱۶)، دسویں صدی میں (۱۴) چودہ ، گیارھوں صدی میں بارہ (۱۲) ، بارھویں صدی میں تیرہ (۱۳) ، تیرھویں صدی میں بارہ (۱۲) اور چودھویں صدی میں بیس (۲۰) سنی علماء نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔
مذکورہ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث کی نقل پر ھی اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ اس کے اسناد اور مفھوم پر مخصوص کتابیں لکھی ھیں۔
عالم اسلام کے عظیم اور نامور تاریخ دان ، طبری نے ” الولایة فی طرق حدیث الغدیر “ کے موضوع پر کتاب لکھی ھے اور اس میں اس حدیث کو ستر(۷۰) سے زیادہ طریقوں سے ، پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ھے۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ” ولایت“ میں اس حدیث کو ایک سو پچاس (۱۵۰) افرادسے نقل کیا ھے۔
جن افراد نے اس تاریخی واقعہ کی خصوصیات کے بارے میں مخصوص کتابیں لکھی ھیں ، ان کی تعداد چھبیس (۲۶) ھے ۔ ممکن ھے اس سے زیادہ افراد ھوں جنھوں نے اس موضوع پر کتابیں یا مقالات لکھے ھیں لیکن تاریخ میں ان کا نام درج نھیں ھوا ھے یا ھماری رسائی ان تک نھیں ھے۔
شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعہ پر گراں بھا کتابیں لکھی ھیں کہ ان تمام کتابوں میں جامع ترین اور تاریخی کتاب علامہ مجاھد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی کتاب ” الغدیر“ ھے ۔
ھم نے امام (علیہ السلام) کی زندگی کے اس پھلوکے بارے میں ان کی اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ھے۔
گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ھوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ کرنا بدیھی امور میں شک کرنے کے مترادف ھے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ھی کوئی ایسی حدیث ھو جو متواتر اور قطعی ھونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔
اس لئے ھم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نھیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ھے کہ جملہٴ ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ھوجائے گا ۔
سب سے پھلے یہ امر قابل غور ھے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ھو ا ھے ، جیسے:
۱۔< فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاٴْوَاکُمُ النّارُ ھِیَ مَولَ-ٰک-ُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ>
تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ھے وھی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ھے اور تمھارا بدترین انجام ھے۔ [30]
اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہٴ شریفہ کی تفسیر میں کھتے ھیں : اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ھے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ھوئے ھیں تو ان کیلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نھیں ھے[31]
۲۔< یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّہُ اٴَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہِ لَبِئْسَ الْمَولٰی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ>
”یہ اس بت کو پکارتا ھے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ھے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ھے “۔[32]
یہ آیہٴ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ھے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ھی ان کو پکارتے تھے۔
ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _ جن کے ذکر سے ھم صرف نظر کرتے ھیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ھوتا ھے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وھی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ھیں ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ جملہ ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“ کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد وھی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ھونا ھے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ھے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ھے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ھے۔
بے شمار قرائن اس کے گواہ ھیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وھی پھلا معنی ھے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ھے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ھے:
<اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ اٴَنْفُسِھِمْ > [33]
بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ھے۔
اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ھو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یھی اختیار رکھتا ھوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف ھو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ھے۔
اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاہئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رھنا چاہئے۔
یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ذاتی طور پر ھرگز اس منصب و مقام کے حامل نھیں تھے۔
واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ھے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ھے ۔ آپ کو ھر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ھیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ھے ۔
چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ھو چکا ھے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وھی ھیں جو آیہٴ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ھیں ، لہذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی (علیہ السلام) اسی منصب و مقام کے حامل ھوئے جس کے آیہٴ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ، یعنی اپنے زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رھبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یھی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ھے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ھے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ھوتی ھے )
اب ھم وہ قرائن و شواھد بیان کرتے ھیں جن سے پوری طرح ثابت ھوتا ھے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف) اور صاحب اختیار ھونے کے علاوہ کچھ اور نھیں ھے۔
ذیل میں ایسے چند شواھد ملاحظہ ھوں:
۱۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ھوئے اورپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یھاں قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ھادی کا لفظ استعمال کیا ھے ، ملاحظہ ھو:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ھادی مقرر کردیا ھے “
واضح رھے کہ حسّان نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام میں موجود لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ھدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نھیں لئے ھیں [34]
صرف حسّان ھی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نھیں سمجھے ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے__ نے بھی اس لفظ سے وھی معنی لئے ھیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔
۲۔ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ھے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول الله یوم غدیر خم
” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ھے “
علی (علیہ السلام) سے بھتر کون ھوسکتا ھے جو ھمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ (علیہ السلام) کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ۔ چنانچہ ھم دیکھتے ھیں کہ حضرت (علیہ السلام) حدیث غدیر سے استدلال کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
” پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“
کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نھیں نکلتا ھے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (علیہ السلام) کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رھبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نھیں سمجھا تھا؟
خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ھیں جو اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس جملہ کا وھی مطلب ، یعنی حضرت علی (علیہ السلام) کا ” اولی بالتصرف“ و صاحب اختیار ھوناھے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ” من کنت مولاہ “ فرمانے سے پھلے یوں فرمایا تھا :
”الست اولیٰ بکم من انفسکم“
کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا ھوں ؟
اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ھے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ھے ۔
اس کے فوراً بعد فرماتے ھیں : ” من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ“
ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نھیں ھے کہ علی (علیہ السلام) بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ھیں جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وھی منصب و مقام جس کا میں حامل ھوں ، علی (علیہ السلام) بھی اسی منصب کے حامل ھیں “ اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پھلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ھی نھیں تھی۔
۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ھوئے فرمایا:
”اٴَلَسْتمُْ تَشْھُدُون َ اٴَنَّ لاإِلہ إِلَّا اللهَ و َ اٴَنَّ مُحمّداً عَبْدُہُ وَ رَسُولُہُ وَ اٴَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ“
یعنی ، کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نھیں ھے ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا بندہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھے اور بھشت و جھنم حق ھیں۔
یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام لوگوں کے ذھنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاھتے تھے کہ علی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ھیں وہ انھی اصولوں کے مانند اھم ھے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ھے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ھے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ھی ٹوٹ جاتا ھے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ھوجاتی ھے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (علیہ السلام) خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جھاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں تھی چہ جائیکہ علی (علیہ السلام) جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اھتمام و شاٴن کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اھم بھی نھیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔
۵۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :
” انہ یوشک ان ادعی فاجیب “
” قریب ھے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد کیلئے کوئی اھتمام و اقدام کرنا چاھتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ھونے والے خلاٴ کو پر کریں۔
اور بلاشبہ واضح ھے کہ جو چیز اس خلاٴ کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی (علیہ السلام) اپنے ھاتھ میںلے لیں ، نہ کہ علی (علیہ السلام) کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !
۶۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہٴ ”من کنت مولا ہ“کے بعد یوں فرمایا:
الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب
میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی (علیہ السلام) ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ھوں۔
۷۔ اس سے واضح اور بھتر کیا گواھی ھوسکتی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی (علیہ السلام) کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رھا؟
مزے کی بات یہ ھے کہ شیخین پھلے افراد تھے جنھوں نے امام (علیہ السلام) سے کھا:
”ھنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة“
” مبارک ھو آپ کو یہ منصب ، اے علی (علیہ السلام) ! کہ آپ ھر مومن زن و مرد کے مولیٰ ھوگئے“
حقیقت میں حضرت علی (علیہ السلام) اس روز امت کی سرپرستی و رھبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نھیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اھتمام کیا گیا ۔
۸۔ اگر مقصد صرف علی (علیہ السلام) کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نھیں تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکھ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔
کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نھیں پکارا ھے ؟ جیسا کہ فرمایا ھے :
<اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ >[35]
” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ھیں“
کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نھیں کرایا ھے جیسا کہ فرماتا ھے :
< و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیاءُ بَعْضٍ>
”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ھیں “[36]
علی (علیہ السلام) بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ھی نھیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اھتمام کے ساتھ علی (علیہ السلام) کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!
جو کچھ ھم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی (علیہ السلام) کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“
دوست یا ناصر کے معنی میں ھے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بھت بچگانہ باتیں ھیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ھوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ھی معنی ھے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ھونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ھے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ھے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰھی سیادت ھے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ھے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یھاں دو سوال سامنے آتے ھیں۔
۱)۔جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ھوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟
۲)۔امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نھیں کیا؟
اگرچہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ھوئے غدیر کے الٰھی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بھت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے -- جن کی مثالیں ھر معاشرہ میں بھت زیادہ نظر آتی ھیں-- --- --ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اھم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رھے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نھیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پھلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ھوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ھوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدہٴ اسلمی ، ابوھثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ھی بھت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر الموٴمنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ھے۔
تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ھے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رھے ۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔ [37]
افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ھی نھیں ھے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواھی کے مطابق خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے اس کتاب کے موٴلف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ“ کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ھے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماٴخذ کے ساتھ بیان کئے ھیں اور یہ کتاب چند جلد وں میں شائع ھوگی۔
دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض اصحاب جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو اپنے باطنی خواھشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نھیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواھشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بات پر جمے رھتے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔
ذیل میں ھم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ھیں:
۱)۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ھو۔لیکن وھاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجھ بوجھ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ھے لہٰذا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!
ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ھوئے کھا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ھوئی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکھ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ھو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کھا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاھتے تھے نہ کر سکے۔ [38]
۲)۔مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ“رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ھوگئے اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ھاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگھاں اسی روز آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ھوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ“جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ھوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت قطعی ھوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باھر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نھیں ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ھوتے تھے تو آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاھر ھونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ھوجاوٴ۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ھی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ھوچکے ھیں،ان افراد نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔
۳)۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یھی دو مذکورہ نمونے نھیں ھیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ“ پر بھی،جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش سے صلح کی قرار داد باندھ رھے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ھے۔کیونکہ ان ھی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی
کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنھیں فرادیٰ پڑھنا چاہئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔
ان میں سے ھر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نھیں ھے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات ۲۱۸۔۲۸۲تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ھوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ھے۔
اصحاب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑھ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انھیں سخت انداز میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ھے:
”فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنة او یصیبھم عذاب الیم“ [39]
یعنی جو لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرمان کی مخالفت کرتے ھیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کھیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ھوں۔
اور فرماتاھے :
”یا اٴیھا الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی اللہ و رسولہ واتقوا اللّٰہ ان اللہ سمیع علیم“[40]
اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو
کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ھے۔
جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انھیں بھی وارننگ دیتا ھے:
”واعلموا ان فیکم رسول اللہ لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم“ [41]
اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی شخصیت موجود ھے۔اگر بھت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوٴگے۔
یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ھیں کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاہئے اطاعت نھیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰھی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نھیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔
افسوس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یھی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰھی کو اپنی باطنی خواھشات کے مخالف پایا لہٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔
جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ھے ،یہ یاد دلانا ضروری ھے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیاھے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔
نہ صرف حضرت امام علی (علیہ السلام) بلکہ بنت رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت فاطمہ زھرا(علیہ السلام) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(علیہ السلام) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور۔۔۔۔ نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاھے۔
حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (علیہ السلام) کے زمانہ سے آج تک جاری ھے اور ھر زمانہ وھر صدی میں حضرت (علیہ السلام) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاھے۔ھم یھاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ھیں:
۱۔سب جانتے ھیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چھ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (علیہ السلام) تک نھیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (علیہ السلام) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاھر تھا کہ وہ حضرت علی (علیہ السلام) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔
بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (علیہ السلام) نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ھوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاھوں جس سے کوئی شخص انکار نھیں کرسکتا یھاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ھو ”من کنت مولاہ فھذا علیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ وانصر من نصرہ لیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی میں جس جس کا مولاھوں یہ علی (علیہ السلام) بھی اس کے مولا ھیں۔خدا یاتواسے دوست رکھ اور اس کی مدد فرما جو علی (علیہ السلام) کی مدد کرے۔حاضرین ھر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔
اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے ھوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نھیں پائی جاتی۔[42]
امام علی (علیہ السلام) کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نھیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ھے۔
۲۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رھے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ھے وہ کھڑے ھو کر گواھی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ھوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ھے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ھے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ھوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواھی دی۔
یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب یہ بات ھوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ھوئے پچیس سال ھوچکے تھے۔اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نھیں تھے،یا اس سے پھلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواھی دینے سے کوتاھی کی تھی۔
”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ھیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔ [43]
۳۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جمع ھوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یھاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ھجرت کی آئی اور قریش کا ھر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رھا اور لوگ باتیں کرتے رھے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رھے۔اچانک مجمع آپ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ھوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یھاں تک کہ فرمایا:
کیا تم لوگوں کو یاد ھے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ھی لوگوں کے سامنے علی (علیہ السلام) کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاھے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰھی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اے لوگو! تم جانتے ھو کہ خدا میرا مولا ھے اور میں مومنین کا مولا ھوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ھوں؟سب نے کھا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹھ کھڑا ھوا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (علیہ السلام) مولا ھیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکھ جو علی (علیہ السلام) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی (علیہ السلام) سے دشمنی کرے۔
اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے دریافت کیا : علی (علیہ السلام) ھم پر کیسی ولایت رکھتے ھیں ؟پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:”ولائہ کولائی ،من کنت اولی بہ من نفسہ ،فعلیّ اولی بہ من نفسہ “ یعنی تم پر علی (علیہ السلام) کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ھوں علی (علیہ السلام) بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ھیں۔ [44]
۴۔ صرف حضرت علی ںنے ھی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نھیں کیا ھے بلکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پارہ ٴجگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رھی تھیں، تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:
کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا تھا :
”من کنت مولاہ فھٰذ ا علی مولاہ“ جس کا میں مولا ھوں یہ علی اس کے مولا ھیں۔
۵۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ھو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:
”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت (علیہ السلام) کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ھمیں منتخب کیا اور ھر طرح کی رجس و کثافت کو ھم سے دور رکھا … یھاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسی (علیہ السلام) سے تھی“
تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتھ تھام کرلوگوں سے فرمایا:
” من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ“ [45]
۶۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں ---جس میں اصحاب
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ---خطبہ دیتے ھوئے فرمایا:
”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم جانتے ھو کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کھا : ھم گواھی دیتے ھیں ۔
۷۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ھم عرض کر چکے ھیں ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ھے ۔ [46]
[1] غایة المرام ، ص ۱۰۷ ۔ ۱۵۲۔
[2] المراجعات ، ص ۱۳۱۔ ۱۳۲
[3] صحیح بخاری ج ۳، ص ۵۸ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۳۲۳۔
[4] صحیح مسلم ، ج ۷ ص ۱۲۰۔
[5] طٓہ / ۲۹۔۳۰۔
[6] طٓہ / ۳۱۔
[7] طٓہ / ۳۲
[8] طٓہ/ ۳۶اس کے علاوہ قرآن مجید ایک دوسری آیت میں حضرت ھارون (علیہ السلام) کی نبوّت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے : <وَوَھَبْنَا لَہُ ِمن رَحْمَتِنَآ اٴَخاَہُ ھَٰرُونَ نَبِیًّا>(مریم / ۵۳)
[9] اعراف / ۱۴۲۔ ایک اور آیت میں حضرت ھارون کی وزارت کے بارے میں صراحت سے فرماتا ھے: <وَجَعَلْنَا مَعَہُ اَخَاہُ ھَٰرُونَ وَزِیراً > ھم نے موسی کے بھائی ھارون کو ان کا ویزر قرار دیا“ (فرقان / ۳۵ )
[10] پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملہ کو مختلف مواقع پر سات بار بیان فرمایا ھے ، لیکن ھم اختصار کی وجہ سے یھاں پر صرف دو مورد کا ذکر کرتے ھیں۔
[11] کنز العمال ، ج ۶، ص ۳۹۵ ، حدیث نمبر ۶۰۳۲ ۔
[12] منتخب کنزل العمال ( مسند کے حاشیہ میں ) ج ۵، ص ۳۱
[13] المراجعات / ص ۱۴۱ ، ۱۴۷
[14] جیسے ، ورقةبن نوفل جس نے عیسائی کتابوں کے مطالعہ کے بعد بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذھب قبول کرلیا تھا۔
[15] طور/ ۳۰ ۔۳۲
[16] سیرہ ابن ھشام ، ج ۲ ، ص ۱۷۲
[17] سیرہٴ ابن ھشام ، ج۱ ص ۳۸۶، ۴۱۰
[18] مائدہ /۶۷
[19] فخرر ازی نے اپنی تفسیر (ج۳، ص ۶۳۵) میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس ماموریت کے بارے میں دس احتمالات بیان کئے ھیں جب کہ ان میں سے ایک احتمال بھی __ جبکہ ان کا کوئی صحیح ماخذ بھی نھیں ھے __ مذکورہ دو شرائط کا حامل نھیں ھے ، جنھیں ھم نے مذکورہ آیت سے اس کے موضوع کے تحت بیان کیا ھے ، ان میں سے زیادہ تر احتمالات ھرگز اس قدر اھم نھیں ھیں کہ ان کے نہ پھنچانے پر رسالت کو کوئی نقصان پھنچتا یا پیغامات کا پھنچانا خوف و وحشت کا سبب بن جاتا یہ احتمالات حسب ذیل ھیں :
۱۔ یہ آیت ، گناہگار مردوں اور عورتوں کو سنگسار کرنے کے بارے میں ھے ۔
۲۔یہ آیت ، یھودیوں کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کے بارے میں نازل ھوئی ھے۔
۳۔ جب قرآن مجید نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ دنیا کے زر و زیور کو چاھیں گی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ا ن کو طلاق دیدیں گے ، پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
[20] مرحوم علامہ امینی نے ان تیس افراد کے نام اور خصوصیات اپنی تالیف ، الغدیر ، ج ۱، ص ۱۹۶ ۔ ۲۰۹۔میں مفصل بیان کئے ھیں ان میں ، طبری ، ابو نعیم اصفھانی ، ابن عساکر ، ابو اسحاق حموینی اور جلال الدین سیوطی وغیرہ جیسے افراد بھی شامل ھیں کہ انھوں نے ابن عباس، ابو سعید خدری اور براء بن عازب سے یہ حدیث نقل کی ھے ۔
[21] خاص طور پر عرب قوم میں ھمیشہ بڑے عھدوں کو قبیلہ کے عمر رسیدہ لوگوں کے سپرد کرنے کی رسم تھی اور جوانوں کو اس بھانے سے ایسے عھدے سونپنے کے قائل نہ تھے کہ جو ان زمانہ کا تجربہ نھیں رکھتے ھیں ۔ لہذا جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ” عتاب بن ولید“ کو مکہ کا گورنر اور اسامہ کو سپہ سالار مقرر فرمایا تو عمر رسیدہ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کیا پھر لوگ اس امر کی طرف توجہ نھیں دیتے کہ حضرت علی (علیہ السلام) دیگر جوانوں سے مختلف ھیں ، یہ لائق اور شائستہ شخص الھی عنایتوں کے سایہ میں ایسے مقام تک پھنچا ھوا ھے کہ ھر قسم کی خطا اور لغزشوں سے محفوظ ھے اور ھمیشہ عالم بالا سے امداد حاصل کرتاھے۔
[22] < اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِینًا >(مائدہ/ ۳)
[23] فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیا
فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
[24] احتجاج طبرسی ، ج ۱ ص ۷۱ تا ۷۴ طبع ، نجف ۔
[25] آیہٴ ، < یَا اٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّک ۔۔> (مائدہ / ۶۷ )، اور آیہٴ شریفہ < اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَ اٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی۔۔> (مائدہ /۳)
[26] وفیات الاعیان ، ج۱، ص ۶۰ ۔
[27] وفیا ت الاعیان ، ج۱، ص ۲۲۳۔
[28] التنبیہ و الاشراف ، ص ۲۲ ۔
[29] ثمارة القلوب ، ص ۵۱۱۔
[30] حدید/ ۱۵
[31] ای اولی لکم ما اسلفتم من الذنوب۔
[32] حج / ۱۳۔
[33] احزاب ۶
[34] مناقب خوارزمی ص ۸۰ وغیرہ۔
[35] حجرات / ۱۵
[36] توبہ / ۷۱
[37] سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رھے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/۱۷۷تاص۱۹۲ میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ھے ۔
[38] صحیح بخاری ج/۱،ص/۲۲(کتاب علم)
[39] نور /۶۳
[40] حجرات /۱
[41] الحجرات/۷
[42] مناقب خوارزمی ،ص/۲۱۷
[43] الغدیر، ج/۱،ص/۱۵۳۔۱۷۱
[44] فرائد السمطین،باب۵۸۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ھے۔
[45] ینابیع المودة ص/۴۸۲
[46] مزید آگاھی کے لئے ”الغدیر “ ج/۱ص/۱۴۶تا ص/۱۹۵ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ھیں۔