حضرت علی علیه السلام کی والد گرامی جناب ابوطالب (ع)

جناب ابوطالب (ع) مؤمن قريش

ايمان ابوطالب(ع)

آخر ميں ايك ايسے موضوع پر اختصار كے ساتھ گفتگو كرنا ضرورى خيال كرتا ہوں جس پر مسلمانوں كے درميان ہميشہ اختلاف رہا ہے_

اہلبيت رسول(ص) اور ان كے شيعہ حضرت ابوطالب(ع) كے مومن ہونے پر متفق الخيال ہيں_ (1) يہ بھى مروى ہے كہ وہ اوصياء ميں سے تھے (2)اور ان كا نور قيامت كے دن پيغمبر(ص) آئمہ(ع) اور حضرت فاطمہ(ع) زہرا كے نوركے سوا ہر نور پر غالب ہوگا(3)_

اگرچہ ہميں ان احاديث كى صحت پر اطمينان حاصل نہيں ليكن رسول(ص) الله كى رسالت پر حضرت ابوطالب(ع) كا ايمان نيز خدا كے اوامر ونواہى كے آگے ان كا سر تسليم خم رہنا روز روشن كى طرح واضح ہے_

اہلبيت معصومين(ع) سے منقول بہت سارى احاديث آپ كے ايمان پر دلالت كرتى ہيں_ علماء نے ان احاديث كو الگ كتابوں كى شكل ميں جمع كيا ہے_ تازہ ترين كتابوں ميں سے ايك جناب شيخ طبسى كى كتاب ''منية الراغب فى ايمان ابيطالب'' ہے_ واضح ہے گھر والے دوسروں كے مقابلے ميں گھر كے اسرار كو زيادہ جانتے ہيںاورابن اثير كہتے ہيں كہ نبي(ص) كے چچاؤں ميں حضرت حمزہ، حضرت عباس اور (اہل بيت (ع) كے بقول)حضر ت ابوطالب (ع) كے سوا كسى نے اسلام قبول نہ كيا تھا_ (4)

________________________________________

1_ روضة الواعظين ص 138، اوائل المقالات ص 13، الطرائف از ابن طاؤس ص 298، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 14ص 165، بحارالانوار ج 35ص 138، الغدير ج 7ص 384كتب مذكورہ سے، التبيان ج 2ص 398، الحجة از ابن معد ص 13اور مجمع البيان ج 2ص 287 _

2_ الغدير ج 7 ص 389_

3_ الغدير ج7 ص 387 كئي ايك منابع سے_

4_ بحارالانوار ج 3ص 139اور الغدير ج 7 ص 369_

171

ان باتوں كے علاوہ بھى ان كے مومن ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہيں _ان كے ايمان كے اثبات ميں شيعوں اور سنيوں دونوں كى طرف سے بہت سى كتابيں لكھى گئي ہيں _كچھ حضرات نے ان كتابوں كى تعداد تيس تك بتائي ہے_ان كتابوں ميں سے ايك استاد عبدالله الخنيزى كى كتاب (ابوطالب مومن قريش) ہے_ اس كتاب كو لكھنے كے جرم ميں قريب تھا كہ وہ اپنى زندگى سے ہاتھ دھو بيٹھتے _كيونكہ سعودى عرب كے وہابي، اس كتاب كى تاليف كے جرم ميں ان كے پروانہ قتل كو عملى جامہ پہنانے كى تيارى ميں تھے ليكن خدانے اپنى رحمت سے انہيں نوازا _يوں وہ ان كے شرسے نجات پاگئے_

يہ ان متعددابحاث كے علاوہ ہيں جو مختلف چھوٹى بڑى كتابوں ميں بكھرى ہوئي ہيں_ يہاں ہم علامہ امينى كى كتاب الغدير كى جلد 7 اور 8ميں مذكور بيان كے تذكرے پر اكتفا كريں گے_

علامہ امينى رحمة الله عليہ نے اہل سنت كى ايك جماعت سے نقل كيا ہے كہ وہ بھى يہى عقيدہ ركھتے ہيں اور ان ميں سے كئي حضرات نے اس بات كے اثبات ميں كتابيں لكھى اور بحثيں كى ہيں_ مثال كے طور پر برزنجى نے اسنى المطالب (ص 6_ 10) ميں، الاجھوري، اسكافي، ابوالقاسم بلخى اور ابن وحشى نے شہاب الاخبار كى شرح ميں، تلمسانى نے حاشيہ شفاء ميں، شعراني، سبط ابن جوزي، قرطبي، سبكي، ابوطاہر اور سيوطى وغيرہ نے اس مسئلے پر بحث كى ہے_ بلكہ ابن وحشي، الاجہورى اور تلمسانى وغيرہ نے تو يہ فيصلہ ديا ہے كہ جو حضرت ابوطالب سے كينہ ركھے وہ كافر ہے اور جو ان كا ذكر برائي كے ساتھ كرے وہ بھى كافر ہے_ (1)

ايمان ابوطالب(ع) پر دلائل

حضرت ابوطالب كو مومن ماننے والوں نے كئي ايك امور سے استدلال كيا ہے مثلا:

1) رسول(ص) الله اور آئمہ معصومين(ع) سے منقول وہ احاديث جو ايمان ابوطالب(ع) پر دلالت كرتى ہيں اور واضح ہے كہ اس قسم كے امور ميں يہى ہستياں تمام دوسرے لوگوں كى نسبت زيادہ باخبر ہيں _

________________________________________

1_ رجوع كريں: الغدير ج 7ص 382اور 383اور دوسرى كتب_

172

2)جيساكہ گذر چكا ہے كہ ان كى جانب سے رسول(ص) الله كى حمايت و نصرت اور عظيم مشكلات و مصائب ميں ان كى استقامت، اپنى معاشرتى حيثيت و مقام كى قربانى يہاں تك كہ اپنے بيٹے كو بھى قربانى كيلئے پيش كرنا اور ايك ايسى جنگ كيلئے ان كى آمادگى جو ہر خشك و تر كو نابود كردے_ يہ سب باتيں دلالت كرتى ہيں كہ اگر وہ نعوذ بالله كافر ہوتے تو كيونكر ان سب باتوں كو برداشت كرتے؟ كيا وجہ ہے كہ حضرت محمد(ص) كى حمايت ميں حضرت ابوطالب(ع) كو جن مشكلات سے دوچار ہونا پڑا ان كے بارے ميں ہم حضرت ابوطالب سے ملامت و توبيخ كا ايك لفظ بھى نہيں سن پاتے_

رہا يہ احتمال كہ حضرت ابوطالب مزيد جاہ ومقام كى لالچ ميں حضور(ص) كى حمايت كرتے تھے تو يہ احتمال ہى غلط ہے كيونكہ وہ نہايت عمر رسيدہ ہوچكے تھے چنانچہ جب ان كى وفات ہوئي تو ان كى عمر اسى سال سے كہيں زيادہ تھي_ ادھر حضرت ابوطالب(ع) قوم كے نزديك اپنى اور حضرت محمد(ص) كى حيثيت سے بھى باخبر تھے انہيں يہ اميد نہيں تھى كہ اس مقام كے حصول تك وہ زندہ رہيں گے جيساكہ گردوپيش كے حالات و قرائن سے وہ اس امر كا بخوبى اندازہ لگا سكتے تھے_

3) سبط ابن جوزى نے حضرت ابوطالب كے ايمان پر يوں استدلال كيا ہے، (جيساكہ نقل ہوا ہے) اگر حضرت علي(ع) كے باپ كافر ہوتے تو معاويہ اور اس كے حامى نيز زبيرى خاندان اور ان كے طرفدار اور علي(ع) كے باقى دشمن اس بات پر ان كى شماتت كرتے، حالانكہ علي(ع) ان لوگوں كو ان كے آباء اور ماؤں كے كافر ہونے نيز نسب كى پستى كا طعنہ ديتے تھے_ (1)

4) خود حضرت ابوطالب كے بہت سارے صريح كلمات اور بيانات ان كے ايمان كو ثابت كرتے ہيں_ يہاں ہم بطور نمونہ ان كے چند اشعار نقل كرنے پر اكتفا كرتے ہيں جن كے بارے ميں ابن ابى الحديد معتزلى نے يوں كہا ہے كہ مجموعى طور پريہ سارے اشعار تو اتركے ساتھ ثابت ہيں_ (2)

________________________________________

1_ رجوع كريں: ابوطالب مومن قريش ص 272_273 مطبوعہ سنہ 1398 ھ از تذكرة الخواص_

2_ شرح نہج البلاغہ ج 14ص 78اور بحار الانوار ج 35ص 165_

173

يہاں ہم ان كى صلب سے پيدا ہونے والے بارہ اماموں كى تعداد كے عين مطابق ان كے بارہ اشعار تبركاً پيش كرنے كى سعادت حاصل كررہے ہيں:

1_

ألم تعلموا انا وجدنا محمداً

نبياً كموسى خط فى اول الكتب

كيا تم لوگ نہيں جانتے كہ ہم نے موسي(ع) كى طرح محمد(ص) كو بھى خدا كا نبى پايا ہے؟ يہ امر تمام كتابوں كى ابتداء ميں مذكورہے_

2_

نبى اتاہ الوحى من عند ربہ

ومن قال لا يقرع بہا سن نادم

وہ ايسے نبى ہيں جن كے پاس الله كى طرف سے وحى آئي ہے جو اس كا منكر ہو وہ ندامت كے دانت پيستارہ جائے گا_

3

يا شاہد الله عل فاشہد

إنى على دين النب احمد

من ضل فى الحق فانى مہتد

اے شاہد خدا ميرے بارے ميں گواہ رہ كہ ميں احمد مرسل كے دين پر ہوں،

اگر كوئي حق كے بارے ميں گمراہى كا شكار ہوا تو مجھے كيا ميں تو ہدايت يافتہ ہوں_

4_

انت الرسول رسول الله نعلمہ

عليك نزل من ذى العزة الكتب

ہم آپ(ص) كو الله كا رسول(ص) سمجھتے ہيں صاحب عزت ہستى كى طرف سے آپ(ص) كے اوپر كتابيں نازل ہوئي ہيں_

5_

انت النبى محمد

قرم اغر مسود

آپ الله كے رسول(ص) محمد(ص) ہيں جو نورانى سيد اور سردار ہيں_

6_

او تومنوا بكتاب منزل عجب

على نبى كموسى او كذى النون

پيغمبر(ص) پر نازل ہونے والى اس عجيب كتاب پر ايمان لے آؤ ،كہ يہ پيغمبر(ص) موسى (ع) اور يونس (ع) كى مانند ہيں_

7_

وظْلم نبى جاء يدعوا الى الہدي

وا مر ا تى من عند ذى العرش قيم

174

جو نبى ہدايت كى طرف بلانے آيا تھا اس پر ظلم ہوا ، وہ صاحب عرش كى طرف سے آنے والى گراں بہا چيز كى طرف لوگوں كو بلانے آيا تھا_

8_

لقد اكرم الله النبى محمدا

فاكرم خلق الله فى الناس احمد

الله نے اپنے نبى محمد(ص) كو تعظيم سے نوازا لہذا سب سے زيادہ با عزت ہستى احمد(ص) ہيں_

9_

وخير بنى ہاشم احمد

رسول(ص) الالہ على فترة

بنى ہاشم ميں سب سے افضل، احمد ہيں وہ زمانہ فترت (جاہليت)(1) ميں الله كے رسول(ص) ہيں_

10_

والله لااخذل النبى ولا

يخذلہ من بنى ذوحسب

الله كى قسم نہ ميں نبى كو بے يار ومدد گار چھوڑوں گا اور نہ ہى ميرے شريف ونجيب بيٹے آپ(ص) كو تنہا چھوڑ سكتے ہيں_

11_

أتعلم ملك الحبش ان محمدا

نبيا كموسى والمسيح ابن مريم

اتى بالہدى مثل الذى اتيا بہ

فكل بامر الله يہدى ويعصم

وانكم تتلونہ فى كتابكم

بصدق حديث لاحديث الترجم

فلا تجعلوا الله نداً فا سلموا

فان طريق الحق ليس بمظلم

(نجاشى كو دعوت اسلام ديتے ہوئے :)اے بادشاہ حبشہ كيا تجھے معلوم ہے كہ محمد رسول(ص) الله كى مثال حضرت موسي(ع) ور حضرت عيسي(ع) كى طرح ہے_

ان دونوں كى طرح وہ بھى ہدايت كا پيغام ليكر آئے _ وہ سب بحكم خدا ہدايت كرتے ہيں اور (ہميں شر سے) بچاتے ہيں_

تم لوگ اپنى كتاب ميں اس كے بارے ميں پڑھتے ہو شك وابہام كے ساتھ نہيں بلكہ صدق دل كے ساتھ_

الله كے ساتھ كسى كو شريك قرار نہ دو اور مسلمان ہوجاؤ كيونكہ حق كا راستہ تاريك نہيں_

________________________________________

1_ دو نبيوں كى بعثت كے درميانى زمانے كو فترت كہتے ہيں يہاں مراد عيسي(ع) كے بعد كا زمانہ ہے جسے زمانہ جاہليت بھى كہا جاتا ہے_

175

12_

فصبراً ابايعلى على دين احمد

وكن مظہراً للدين وفقت صابرا

وحط من اتى بالحق من عند ربہ

بصدق وعزم ولا تكن حمز كافرا

فقد سرنى ان قلت انك مومن

فكن لرسول الله فى الله ناصرا

وباد قريشا فى الذى قد اتيتہ

جہارا وقل ما كان احمد ساحرا

(اپنے بيٹے حمزہ سے مخاطب ہوكر :)اے ابويعلى (حمزہ) دين احمد پر ثابت قدم رہ اور اس كا اظہار كر خدا تجھے توفيق صبر عطا كرے گا_

اے حمزہ جو شخص اپنے رب كى جانب سے حق كے ساتھ آيا ہے اسكى حفاظت صدق دل اور عزم راسخ كے ساتھ كرو، كہيں كافر نہ ہوجانا_

اگر تم اپنے ايمان كا اقرار كرو تو يہ ميرے لئے باعث مسرت ہوگا پس رضائے الہى كيلئے رسول(ص) الله كى مدد كر _

قريش كے سامنے اپنے عقيدے كا كھل كر اظہار كرو اور كہو كہ احمد جادو گر نہيں_

حضرت ابوطالب كے وہ اشعار جو ان كے ايمان پر دلالت كرتے ہيں زيادہ ہيں ليكن ہم اسى پر اكتفا كرتے ہيں تاكہ ان كے علاوہ ديگر باتوں كے تذكرے كا بھى موقع فراہم ہو جو اس موضوع كے حوالے سے كہى گئي ہيں يا كہى جاسكتى ہيں_

5)ابن ابى الحديد معتزلى كہتے ہيں كہ ہمارے ساتھى على ابن يحيى بطريق رحمة الله عليہ كہا كرتے تھے اگر نبوت كى طاقت اور پوشيدہ حقيقت كارفرما نہ ہوتى تو حضرت ابوطالب جيسے قريش كے صاحب عزت بزرگ اور سردار شخصيت اپنے اس بھتيجے كى تعريف وتمجيد نہ كرتے جو نوجوان تھا، ان كى گودميں پلا تھا ،ايك يتيم تھا جس كى انہوں نے پرورش كى تھى اوران كے بيٹے كى حيثيت ركھتا تھا اورا ن كى تعريف ميں يوں رطب اللسان نہ ہوتے_

وتلقوا ربيع الابطحين محمدا

على ربوة فى را س عنقاء عيطل

وتا وى اليہ ھاشم ان ہاشما

عرانين كعب آخر بعد ا ول

176

اور تم لوگ ديكھو گے كہ سرزمين حجاز كى بہار (حضرت) محمد مصطفى (ص) بلند و بالا اونچى گردن والے اونٹ پر نہايت نماياں طور سے بيٹھے ہوں گے اور ان كے ارد گردہر طرف ہاشمى جوان ہوں گے كيونكہ اول سے آخر تك بنى ہاشم (ع) كے تمام افراد نہايت عالى وقار سيد و سردار ہيں_

اور يہ اشعار نہ كہتے:

وابيض يستسقى الغمام بوجھہ

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يطيف بہ الھلاك من آل ھاشم

فھم عندہ فى نعمة و فواضل

درخشندہ چہرے والا جس كے رخ زيبا كا واسطہ دے كر بارش كى دعا كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہگاہ اور بيواؤں كا والى و وارث ہے_ بنى ہاشم كے ستم رسيدہ افراد اسى كى پناہ چاہتے ہيں كيونكہ وہ ان كے لئے (درحقيقت اللہ كى ) ايك بڑى نعمت اور بہت بڑا احسان ہے_

كسى ما تحت اور تابع شخص كى تعريف ميں اس قسم كے اشعار نہيں كہے جاسكتے _اس طرح كى مدح سرائي تو بادشاہوں اور عظيم شخصيات كى ہوتى ہے _جب آپ اس حقيقت كا تصور كريں كہ يہ اشعار حضرت محمد(ص) كى شان ميں ايك صاحب عزت اور عظيم شخصيت يعنى ابوطالب(ع) نے كہے ہيں جبكہ حضرت محمد(ص) جوان تھے اور قريش كے شرسے بچنے كيلئے حضرت ابوطالب(ع) كى پناہ ميں تھے، حضرت ابوطالب نے ہى بچپن سے آپ كى پرورش كى تھى لڑكپن كا دور آيا تو اپنے كاندھوں پراٹھاتے تھے اور جب جوان ہوئے تو اپنے ہمراہ ركھا آپ(ص) حضرت ابوطالب كے مال سے كھاتے پيتے تھے اوران كے گھر ميں رہتے تھے ، تب آپ كو نبوت كى حيثيت اورعظيم مقام ومرتبے كا ضروراندازہ ہوگا_ (1)

اس طرح كا مذكورہ بالا قصيدہ لاميہ (2) جس ميں انہوںنے يہ كہا تھا وابيض يستسقى الغمام بوجہہ ... (جو بہت طويل ہے) بنى ہاشم اپنے بچوں كو يہ قصيدہ ياد كراتے تھے (3) اس ميں بہت سے ايسے

________________________________________

1_ شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 14ص 63و ماذا فى التاريخ ج 3 ص 196_197 (از اول الذكر) _

2_ يعنى وہ قصيدہ جس كے آخر ميں لام كا تكرار ہوتا ہے_ (مترجم) _

3_ مقاتل الطالبيين ص 396 _

177

نكات نہاں ہيں جن سے ان كے ايمان كى صداقت كا اندازہ ہوتا ہے_ابن ہشام ،ابن كثير اور ديگر حضرات نے اس كا تذكرہ كيا ہے_

6)ہم نے مشاہدہ كيا كہ جوحضرت ابوطالب(ع) بادشاہ حبشہ كو دعوت اسلام دے رہے ہيں_ وہى اپنے بيٹے حضرت جعفر كو بلاكر حكم ديتے ہيں كہ اپنے چچازاد بھائي كے ساتھ نماز كى صف ميں شامل ہوجائے_ (1)انہوں نے اپنى زوجہ فاطمہ بنت اسد كو اسلام كى دعوت دى (2) اور حضرت حمزہ كو دين اسلام پر ثابت قدم رہنے كى تلقين كى اور ان كے مسلمان ہونے پر خوشى كا اظہار كيا_ يہى حال اپنے نور چشم اميرالمؤمنين علي(ع) كے بارے ميں بھى تھا اور مختلف موقعوں پر ان كے كلام اور ان كے طرزعمل كى تحقيق سے مزيد نكات ہاتھ آتے ہيں_

7) حضرت ابوطاب (ع) نے اپنى وصيت ميں يہ تصريح كردى تھى كہ '' ميں رسول (ص) اللہ كے معاملہ ميں دشمنيوں كے ڈ رسے تقيہ اختيار كئے ہوئے تھا اور محمد (ص) كى تعليمات كو ميرا دل تو قبول كرتا تھا ليكن زبان سے انكار جارى ہوتا '' (3) _ اور انہوں نے قريش كو رسول كريم (ص) كى دعوت اسلام پر لبيك كہنے اور فرمانبردارى كرنے كى بھى وصيت كى تھى كہ اسى ميں ہى ان كى كاميابى اور سعادت ہے(4)

8)نبى كريم(ص) بار بار خدا سے حضرت ابوطالب(ع) كيلئے طلب رحمت ومغفرت فرماتے تھے اوران كى وفات سے حضور(ص) بے تاب ہوئے_ (5)

واضح ہے كہ كسى غيرمسلم كيلئے طلب رحمت نہيں ہوسكتي_ اسى لئے آپ(ص) نے سفانہ بنت حاتم طائي سے فرمايا: ''اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو ہم اس كيلئے خدا سے طلب مغفرت كرتے''_ (6)

________________________________________

1_ رجوع كريں: الاوائل از ابى ہلال عسكرى ج 1 ص 154، روضة الواعظين ص 140اور شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13ص 269 ، السيرة الحلبيہ ج1 ص 269 ، اسنى المطالب ص 17 ، الاصابہ ج4 ص 116 ، اسد الغابہ ج1 ص 287 اور الغدير ج7 ص 357_

2_ شرح نہج البلاغہ معتزلى ج13ص 272_

3_ قابل تعجب بات تو يہ ہے كہ كچھ لوگ حضرت عمر كے كرتو توں پر پردہ ڈالنے كے لئے كہتے ہيں كہ ان كا دل برا نہيں تھا صرف زبان كے برے تھے اور اعمال كا دارو مدار نيتوں پر ہے جبكہ حضرت ابوطالب كے معاملے ميں ان كے تقيہ كے پيش نظر كئے ہوئے زبانى انكار كو بہانہ بناتے ہوئے انہيں كافر سمجھتے ہيں (از مترجم) _

4_ الروض الانف ج 2 ص 171 ، ثمرات الاوراق ص 94 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 300تا 301، سيرہ حلبيہ ج 1 ص 352، بحار ج 35ص 107 اور الغدير ج 7 ص 366 مختلف منابع سے_

5_ تذكرة الخواص ص 8_

6_ السيرة الحلبية ج 3ص 205 _

178

يہ لوگ زيد بن عمرو ابن نفيل (عمر بن خطاب كے چچازاد بھائي) اس كے بيٹے سعيد ابن زيد، ورقہ بن نوفل، قس بن ساعدہ نيز ابوسفيان (جو ہميشہ منافقين كيلئے جائے پناہ تھا، اور جنگ احد كے حالات ميں ہم اس كے كچھ صريح بيانات اور اقدامات كا تذكرہ كريں گے) وغيرہ كے بارے ميں كيونكرمسلمان ہونے كا فتوى ديتے ہيں؟ يہاں تك كہ يہ لوگ رسول(ص) خدا سے روايت كرتے ہيں كہ آپ(ص) نے اميہ ابن صلت كے بارے ميں فرمايا: ''قريب تھا كہ وہ اپنے اشعار كے ذريعے مسلمان ہوجاتا''_ (1)

شافعى ،صفوان بن اميہ كے بارے ميں كہتے ہيںكہ اس كے مسلمان ہونے ميں گويا شك كى گنجائشے نہيں ہے كيونكہ جب اس نے جنگ حنين كے دن كسى كوكہتے سنا كہ قبيلہ ھوازن كو فتح حاصل ہوئي اور محمد(ص) قتل ہوگئے تو اس نے كہا تھا :''تيرى زبان جل جائے والله قريش كا خدا ميرے نزديك ھوازن كے خدا سے زيادہ محبوب ہے''_

ملاحظہ كريں يہ لوگ ان سارے افراد كو كيونكر مسلمان مانتے ہيں جبكہ انہوں نے اسلام كو سمجھا ہى نہيں اور اگر سمجھابھى تو قبول نہيں كيا يا يہ كہ ظاہراً مسلمان ہوئے ليكن دل كے اندر كفر كو چھپائے ركھا؟ اس كے بر عكس وہ اس ابوطالب كو كافر قرار ديتے ہيں جو كئي بار اپنے اقوال واعمال كے ذريعے خدا كى وحدانيت اور اس كے رسول(ص) كى نبوت و رسالت كا صريحاً اعلان كرتے رہے امويوں اور ان كے چيلوں كا كہناہے كہ اس شخص كے متعلق دليليں جتنى بھى زيادہ ہوجائيں پھر بھى اس شخص كو ہم مؤمن نہيں مانيں گے چاہے خود رسول اكرم(ص) ہى كيوں نہ كہيں _ پس زمانہ جاہليت كے طاغوتوں اور سركشوں كے نقش قدم پر چلنے والے اموى اور ان كے چيلے كتنے برے لوگ ہيں_

واضح ہے كہ كسى شخص كے مسلمان ہونے يا نہ ہونے كا علم چار چيزوں سے ہوتا ہے_

(الف) اس كى عملى پاليسيوں سے اور يہ بھى واضح ہے كہ حضرت ابوطالب كى عملى پاليسياں دين اسلام كے بارے ميں ان كے اخلاص اور جذبہ فداكارى كى اس قدر واضح دليل ہے كہ اس سے زيادہ وضاحت كى ضرورت نہيں_

(ب) شہادتين كے زبانى اقرار سے، اس حوالے سے حضرت ابوطالب(ع) كے ان متعدد اشعار كى طرف اشارہ كافى ہے جو انہوں نے متعدد موقعوں پر كہے_

________________________________________

1_ صحيح مسلم ج 7ص 48_49 نيز الاغانى مطبوعہ ساسى ج 3ص 190 اور التراتيب الاداريہ ج1 ص 213 _

179

(ج) اس شخص كے بارے ميں نمونہ اسلام اور كارواں سالار حق يعنى نبى اعظم(ص) كے موقف سے، چنانچہ حضرت ابوطالب كے بارے ميں آپ(ص) كا محبت آميز اور پسنديدہ موقف بھى مكمل طور پر ثابت ہے_

(د) اس كے قريبى ذرائع سے ، مثال كے طور پر اس كے گھر والوں اور اس كے ساتھ رہنے والوں كے توسط سے، اس سلسلے ميں ہم پہلے عرض كرچكے كہ وہ (اہلبيت) حضرت ابوطالب كے مومن ہونے پر متفق الخيال ہيں_

بلكہ وہ لوگ جو حضرت ابوطالب عليہ السلام كو كافر قرار ديتے ہيں جب وہ ان كى عملى پاليسيوں كا انكار نہ كرسكے، اور نہ ان كے صريح بيانات كو رد كرسكے تو انہوں نے ايك مبہم جملے كے ذريعے عوام كو دھوكہ دينے كى كوشش كى اور كہا كہ وہ دل سے مطيع اور فرمانبردار نہ تھے_ (1)

يہ سب اوٹ پٹانگ اور خيالى باتيں ہيں جو حق وحقيقت پر بہتان باندھنے كہ سوا كچھ نہيں تاكہ يوں ان روايات كو صحيح قرار دے سكيں جو انہوں نے مغيرة بن شعبہ اور اس جيسے دوسرے دشمنان آل ابوطالب سے نقل كى ہيں_ آئندہ صفحات ميں ان كى بے بنياد دليلوں كا ذكر كرتے ہوئے اس بات كى طرف اشارہ كريں گے انشاء الله تعالي_

حضرت ابوطالب عليہ السلام كے احسانات كا معمولى سا حق ادا كرنے كى غرض سے يہاں ہم ان كے ايمان كى بعض دليليں جو زيادہ تر غير شيعہ مآخذ سے لى گئي ہيں بيان كرتے ہيں اور ديگر متعدد دلائل كا تذكرہ نہيں كرتے كيونكہ چند مثالوں سے زيادہ بيان كرنے كى گنجائشے نہيں_

پہلى دليل: عباس نے كہا:'' اے رسول(ص) خدا آپ(ص) ابوطالب كيلئے كس چيز كى آرزو كرتے ہيں؟'' فرمايا:'' ميں ان كيلئے خدا سے تمام اچھى چيزوں كى آرزو كرتا ہوں''_ (2)

________________________________________

1_ سيرت دحلان ج 1ص 44_47 اور الاصابة ج 4ص 116_199 كى طرف رجوع كريں _

2_ الاذكياء ص 128، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 14ص 68، طبقات ابن سعد ج 1حصہ اول ص 79اور بحار الانوار ج 35ص 151اور 159_

180

دوسرى دليل: حضرت ابوبكر اپنے باپ ابوقحافہ (جو بوڑھا اور نابينا تھا) كو لے كر فتح مكہ كے دن رسول(ص) الله كى خدمت ميں آئے تو رسول(ص) الله نے فرمايا:'' اس بوڑھے كو اپنے گھر چھوڑ آتے تاكہ ہم اس كے پاس جاتے'' _حضرت ابوبكر نے كہا:'' ميں نے چاہا كہ الله اسے اجر دے مجھے اپنے باپ كے مسلمان ہونے كى بہ نسبت ابوطالب كے مسلمان ہونے پر زيادہ خوشى ہوئي تھى ،خدا كرے كہ اس سے آپ(ص) كى آنكھوں كو ٹھنڈك ملے''_ (1)

اگرچہ علامہ امينى نے الغدير ميں اس بات سے اختلاف كيا ہے كہ رسول(ص) الله نے حضرت ابوبكر سے مذكورہ جملے كہے ہوں_ انہوں نے اس موضوع پر نہايت عمدہ بحث كى ہے اور ہم بھى اس مسئلے ميں ان كے ہم خيال ہيں_

تيسرى دليل: ابن ابى الحديد معتزلى كہتے ہيں كہ متعدد سندوں كے ساتھ( جن ميں سے بعض عباس بن عبدالمطلب كے ذريعے اور بعض حضرت ابوبكر ابن ابوقحافہ سے منقول ہيں) مروى ہے كہ حضرت ابوطالب نے اپنى موت سے پہلے لا الہ الا الله محمد رسول(ص) الله كا اقرار كيا_ (2)

چوتھى دليل: نبى كريم(ص) نے ابوطالب عليہ السلام كيلئے طلب رحمت واستغفار اور دعا كى يہاں تك كہ جب آپ(ص) نے مدينہ والوں كيلئے بارش كى دعا كى اور بارش ہوئي تو آپ(ص) نے حضرت ابوطالب كو ياد كيا اور منبر پر بيٹھ كر ان كيلئے مغفرت طلب كى (3)آپ(ص) نے ان كے جنازے ميں شركت كى حالانكہ ان لوگوں كى روايت كے مطابق مشركين كے جنازے ميں شركت حرام ہے_ نيز يہى لوگ روايت كرتے ہيں كہ رسول(ص) الله

________________________________________

1_ مجمع الزوائد ج 6ص 174الطبرانى اور بزار سے نقل كيا ہے حياة الصحابہ ج 2ص 344المجمع سے، الاصابة ج 4ص 116اور شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14ص 69_

2_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14 ص 71، الغدير ج 7 ص 329 البداية و النہاية ج 3 ص 123 سے نقل كيا ہے، سيرت ابن ہشام ج 2 ص 87، الاصابة ج 4 ص 116، عيون الاثر ج 1 ص 131، المواہب اللدنية ج 1 ص 71، السيرة الحلبية ج 1 ص 372 و السيرة النبوية (از دحلان حاشيہ كے ساتھ) ج 1 ص 89، اسنى المطالب ص 20، دلائل النبوة (بيہقي)، تاريخ ابوالفداء ج 1ص 120 اور كشف الغمة ( شعراني) ج 2 ص 144_

3_ مراجعہ ہو : عيون الانباء ص 705_

181

نے حضرت على (ع) كو حكم ديا كہ وہ ابوطالب كو غسل و كفن ديں اور دفن كريں_ (1) ہاں ان كو نماز جنازہ پڑھنے كا حكم نہيں ديا كيونكہ نماز جنازہ اس وقت تك فرض نہيں ہوئي تھي_ اسلئے كہتے ہيں كہ جب حضرت خديجہ(س) كى وفات ہوئي تو حضرت نے ان پر نماز جنازہ نہيں پڑھى حالانكہ آپ عالمين كى عورتوں كى سردار ہيں_

پانچويں دليل: جب حضرت ابوطالب(ع) كى وفات ہوئي تو ان كے فرزند حضرت على (ع) نے يہ مرثيہ كہا:

اباطالب عصمة المستجير

وغيث المحول ونور الظلم

لقد ھد فقدك اہل الحفاظ

فصلى عليك ولى النعم

ولقاك ربك رضوانہ

فقدكنت للطہر من خيرعم (2)

اے ابوطالب اے پناہ ڈھونڈنے والوں كى جائے پناہ اے خشك زمينوں كيلئے باران رحمت اور تاريكيوں كو روشن كرنے والے نور تيرى جدائي نے (اسلام كي) حمايت كرنے والوں كو نڈھال كر كے ركھ ديا_ نعمتوں كے مالك (خدا) كى رحمتيں آپ(ع) پر نازل ہوں خدانے آپ كو اپنى خوشنودى سے ہمكنار كرديا_ آپ(ع) نبى پاك(ص) كے بہترين چچا تھے_

چھٹى دليل: اميرالمومنين علي(ع) نے معاويہ كوايك طويل خط لكھا جس ميں مذكور ہے كہ نہ اميہ، ہاشم كى مانند ہے، نہ حرب عبدالمطلب كے مساوى اور نہ ابوسفيان ابوطالب كے برابر، نہ آزاد شدہ غلام ہجرت كرنے

________________________________________

1_ رجوع كريں (ان تمام باتوں كے بارے ميں) تذكرة الخواص ص 8، شرح نہح البلاغة معتزلى ج 14 ص 81، سيرت حلبى ج 1 ص 147، المصنف ج 6 ص 38 السيرة النبوية ( دحلان) ج1 ص 87، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 35و طبقات ابن سعد ج 1 ص 78، تاريخ بغداد ( خطيب) ج3 ص 126 اور ج 13 ص 196، تاريخ ابن كثير ج 3 ص 125 و الطرائف (ابن طاؤس) ص 305 از حنبلى در نہاية الطلب نيز البحار ج 35 ص 151 و التعظيم و المنة ص 7 و لسان الميزان ج 1 ص 41، الاصابة ج 4 ص 116، الغدير ج 7 ص 372 و 374 و 375از مذكورہ كتب اور شرح شواہد مغنى (سيوطي) ص 136اعلام النبوة (ماوردي) ص 77 و بدائع الصنائع ج1 ص 283 و عمدة القارى ج 3 ص 435 و اسنى الطالب ص 15 و 21 و 35 و طلبة الطالب ص 43، دلائل النبوة ( بيہقي) ا ور برزنجي، ابن خزيمہ، ابوداؤد اور ابن عساكر_

2_ تذكرة الخواص ص 9_

182

والے كا ہم پلہ ہے اور نہ ہى خودساختہ نسب والا صحيح النسب انسان كے برابر_ (1)

اگر حضرت ابوطالب كافر ہوتے اور ابوسفيان مسلمان تو حضرت علي(ع) كسى كافر كو ايك مسلمان پر كيسے ترجيح دے سكتے تھے؟ ليكن حقيقت اس كے بالكل برعكس ہے كيونكہ ابوسفيان وہ ہے جس نے كہا تھا كہ اسے معلوم نہيں جنت كيا ہے اور جہنم كيا ہے (اس كا ذكر جنگ احد كے حالات كے آخر ميں ہوگا)_ يہاں يہ بھى ظاہر ہوتا ہے كہ اميرالمؤمنين(ع) معاويہ كے مجہول النسب ہونے كى طرف اشارہ فرما رہے ہيں_ بہرحال اس بحث كا مقام الگ ہے_

ساتويں دليل: پيغمبر خدا سے منقول ہے كہ آپ نے(ص) فرمايا: ''اذا كان يوم القيامة شفعت لابى وامى وعمى ابيطالب واخ لى كان فى الجاہلية'' (2) يعنى قيامت كے دن ميں اپنے والدين، اپنے چچا ابوطالب اور اپنے اس بھائي كى شفاعت كروں گا جو ايام جاہليت ميں زندہ تھا_

آٹھويں دليل: نيز آپ(ص) نے فرمايا كہ خدا نے آپ(ص) كو جبرئيل كى زبانى بتايا ''حرمت النار على صلب انزلك و بطن حملك وحجر كفلك اما الصلب فعبد الله و اما البطن فآمنہ و اما الحجر فعمہ يعنى اباطالب و فاطمہ بنت اسد'' يعنى خدانے آتش كو حرام كيا ہے اس صلب پر جس نے تجھے اتارا اور اس بطن پر جس ميں تو رہا اور اس دامن پر جس ميں تونے پرورش پائي، (3) يہاں صلب سے مراد حضرت عبدالله ہيں بطن سے مراد حضرت آمنہ ہيں اور دامن يا گود سے مراد آپ(ص) كے چچا حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد ہيں_ يہى مضمون مختصر فرق كے ساتھ ديگر روايات ميں بھى موجود ہے_

________________________________________

1_ وقعة صفين نصر بن مزاحم ص 471 ، الفتوح ابن اعثم ج 3 ص 260 ، نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ ج 3 ص 18، خط 17 ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 15 ص 117 ، الامامة و السياسة ج 1 ص 118، الغدير ج 3 ص 254 ، مذكورہ كتب سے و از ربيع الابرار زمخشرى باب 66 و مروج الذہب ج 2 ص 62 اور ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج 3 ص 260 و مناقب خوارزمى حنفى ص 180_

2_ ذخائر العقبى ص 7 مكمل طور پر الفوائد رازى سے ، الدرج المنيفہ سيوطى ص 8 ، مسالك الحنفاء ص 14 از ابن النعيم و غيرہ اور مذكور ہے كہ حاكم نے اسے صحيح قرار ديا ہے ، تفسير قمى ج 1 ص 380 ، تفسير برہان ج 2 ص 358 ، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 35 اور تاريخ الخميس ج 1 ص 232_

3_ اصول كافى ج 1 ص 371 ، بحار ج 35 ص 109 ، التعظيم و المنة سيوطى ص 27 اور ملاحظہ ہو ، روضة الواعظين ص 139 ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 14 ص 67، الغدير ج 7 ص 378 مذكورہ كتب سے و از كتاب الحجة (ابن معد) ص 8و تفسير ابوالفتوح ج 4 ص 210

183

نويں دليل: حضرت امام سجاد عليہ السلام سے ايمان ابوطالب(ع) كے بارے ميں سوال ہوا تو انہوں نے فرمايا:'' تعجب كى بات ہے خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل كيا كہ كوئي مسلمان عورت كسى كافر كے حبالہ عقد ميں باقى نہ رہے اور فاطمہ بنت اسد اسلام كى اولين عورتوں ميں سے ہيں وہ حضرت ابوطالب كى موت تك ان كے عقد ميں رہيں؟''_ (1)

البتہ كافر عورتوں كے ساتھ ازدواجى رابطہ باقى ركھنے سے منع كرنے والى آيت كے مدينہ ميں نزول سے مذكورہ روايت كو كوئي ٹھيس نہيں پہنچتى اور نہ وہ اس روايت كے بطلان كا باعث ہے كيونكہ ممكن ہے كہ قرآنى آيت كے نزول سے قبل ہى آپ(ص) كى زبانى مذكورہ امر سے ممانعت ہوئي ہو_ رہا بعض مسلمانوں كا اس حكم پر (اس زمانے ميں) عمل نہ كرنا تو ممكن ہے كہ بعض مخصوص حالات كے تحت وہ اس امر پر مجبور ہوئے ہوں_

دسويں دليل: بعض لوگوں نے حضرت ابوطالب(ع) كے مسلمان ہونے يا نہ ہونے كے بارے ميں خط كے ذريعے امام على ابن موسى الرضا (ع) سے سوال كيا تو انہوں نے جواب ميں لكھا (و من يشاقق الرسول من بعد ما تبين لہ الہدى ويتبع غير سبل المومنين ...) (سورہ نساء آيت 115) يعنى جو شخص راہ ہدايت كے واضح ہونے كے بعد بھى رسول(ص) كى مخالفت كرے اور مومنين كے راستے سے ہٹ كر كسى اور راہ پر چلے ..._ اس كے بعد فرمايا: ''اگر تم حضرت ابوطالب كے ايمان كا اعتراف نہ كرو تو تمہارا ٹھكانہ جہنم ہوگا''_(2)

گيارہويںدليل: جنگ جمل كے موقع پر جب جناب محمد بن حنيفہ نے اہل بصرہ كے ايك آدمى پر قابو پايا تو اسى كا كہناہے كہ جب ميں نے اس پر قابو پاليا تو اس نے كہا : '' ميں ابوطالب كے دين پر ہوں '' پس جب ميں نے اس كى مراد سمجھ لى تو اسے چھوڑ ديا (3)

بارہويںدليل: غزوہ بدر كے ذكر ميں عنقريب آئے گا كہ حضرت رسول اكرم(ص) نے شہيد بدر عبيدہ بن حارث سے اپنے چچا ابوطالب كے متعلق چھوٹے سے طعنے كو بھى برداشت نہيں كيا _ حتى كہ اس كا يہ كہنا بھى برداشت نہيں ہوا كہ ابوطالب نے جو يہ كہا ہے:

________________________________________

1،2_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14 ص 68، الغدير ج 7 ص 381 اور 394 نے كراجكى ص 85 سے اور كتاب الحجة (ابن معد) ص 24،16 سے و الدرجات الرفيعہ و البحار اور ضياء العالمين سے نقل كيا ہے اور امام سجاد (ع) كى حديث كے تواتر كا دعوى بھى كيا گيا ہے_

3_ طبقات ابن سعد ج5 ص 68 مطبوعہ ليدن_

184

كذبتم و بيت اللہ بيدى محمد

و لما نطاعن دونہ ونناضل

و نسلمہ حتى نصرع دونہ

و نذہل عن ابنائنا و الحلائل

خدا كى قسم كبھى نہيں ہوسكتا كہ ہم رسول خدا(ص) كا ساتھ چھوڑ ديں ( بلكہ ہم تو ان كى حمايت ميں ) تم سے نيزوں اور تلواروں كے ذريعہ سے مقابلہ كريں گے _

تو ہم لوگ ا س سے كہيں بہتر ہيں _ پس جب نبى كريم (ص) اس جيسے طعنے پر بھى غضبناك ہوسكتے ہيں تو كيا آپ كے خيال ميں اپنے چچا كے متعلق مشرك كا حكم لگاكر خوش ہوں گے ؟ اور انہيں دوزخ كے ايك كنارے پر ٹھہرائيں گے جس كى آگ سے ان كا بھيجہ ابل رہا ہوگا؟ يہ بے انصافى كہاں تك رہے گي؟

يہاں ہم انہى مثالوں پر اكتفا كرتے ہيں جو حضرت ابوطالب كے ايمان كو ثابت كرنے كيلئے كافى ہيں مزيد تحقيق كے متلاشى متعلقہ كتب كى طرف رجوع كريں_

بے بنياد دلائل

حضرت ابوطالب عليہ السلام كو نعوذ بالله كافر سمجھنے والوں نے بے بنياد دلائل اور روايات كا سہارا ليا ہے_ يہاں ہم ان ميں سے چند ايك كى طرف جو زيادہ اہميت كى حامل ہيں اشارہ كرتے ہيں_

1_ حديث ضحضاح

ابوسعيد خدرى سے منقول ہے كہ نبى كريم(ص) كے پاس آپ(ص) كے چچا ابوطالب(ع) كا ذكر ہوا تو آپ(ص) نے فرمايا: شايد ان كو ميرى شفاعت روز قيامت فائدہ دے اور آگ كے ايك ضحضاح ( كنارے) ميں ركھا جائے جہاں ان كے ٹخنوں تك آگ پہنچے جس سے ان كا دماغ كھولنے لگے_ ايك اور روايت كے مطابق حضرت عباس نے نبى اكرم(ص) سے عرض كيا آپ(ص) اپنے چچا سے بے نياز نہ تھے والله وہ آپ(ص) كى حفاظت كرتے اور آپ(ص) كى خاطر غضبناك ہوتے تھے فرمايا:'' وہ آگ كے ايك حوض ميں ہيں اگر ميں نہ ہوتا تو وہ جہنم كے

185

سب سے نچلے حصے ميں ہوتے''_ (1)

اس حوالے سے ہم درج ذيل عرائض پيش كرتے ہيں_

(الف) علامہ امينى نے الغدير (ج 8 ص 23_24) ميں اور خنيزى نے ''ابوطالب مومن قريش'' نامى كتاب ميں اس روايت كى اسناد سے بحث كى ہے_ ان دونوں حضرات نے اس روايت كے كمزور اور بے بنياد ہونے، نيز اس كے الفاظ وعبارات كے درميان تضاد كو واضح طور پر ثابت كيا ہے_

(ب) جب پيغمبر(ص) ابوطالب(ع) كو فائدہ پہنچاتے ہوئے جہنم كے آخرى حصے سے انہيں نكال كر گوشہ آتش تك لے آسكتے ہيں تو پھر تھوڑى سى مہربانى اور كرتے ہوئے ان كو اس كنارے سے ہى باہر كيوں نہيں نكال لاتے؟ اس كے علاوہ چونكہ اس وقت رسول(ص) الله زندہ تھے اور قيامت برپانہيں ہوئي تھى اس لئے يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ كيا دنيا ميں شفاعت ہوسكتى ہے؟

(ج) يہى لوگ روايت كرتے ہيں كہ رسول(ص) خدا نے ابوطالب(ع) كو موت كے وقت كلمہ لا الہ الا الله محمد رسول الله ، جارى كرنے كيلئے كہا تاكہ اس طرح بروز قيامت انہيں آپ كى شفاعت نصيب ہو ليكن ابوطالب نے ايسا نہيں كيا _يہ روايت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ كلمہ كے بغير كسى قسم كى شفاعت نہيں ہوسكتي، (2) پھر كيونكر ابوطالب(ع) كى شفاعت ممكن ہوئي (اگرچہ ايك حد تك ہى سہي) حالانكہ ان لوگوں كے بقول انہوں نے كلمہ شہادت زبان پر جارى نہيں كيا جس كى وجہ سے شفاعت ممكن ہوسكتي_

نيز كيايہى لوگ روايت نہيں كرتے كہ مشرك كى شفاعت نہيں ہوسكتي؟ پھر كيونكر اس مشرك كى شفاعت

________________________________________

1_ صحيح بخارى مطبوعہ سن 1309 ج 2 ص 209 اور ج 4 ص 54، المصنف ج 6 ص 41، النسب الاشرف (بہ تحقيق محمودي) ج 2 ص 29_30، صحيح مسلم كتاب الايمان، طبقات ابن سعد ج 1حصہ اول ص 79مسند احمد ج 1 ص 206 و 207 البداية و النہاية ج 3 ص 125، الغدير ج 8ص 23 كہ بعض مذكورہ كتب اور عيون الاثر ج 1ص 132 سے نقل كيا ہے اور شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14 ص 66_

2_ الترغيب و الترھيب ج 4 ص 433 از احمد (دو صحيح سندوں كے ساتھ) از بزاز اور طبرى (مختلف اسانيد كے ساتھ جن ميں سے ايك اچھى ہے) اور ابن حبان (اپنى صحيح ميں) نيز رجوع ہو الغدير ج 2 ص 25 _

186

ہوئي اور وہ اس كے سبب جہنم كے آخرى طبقے سے نكال كر آتش كے كنارے ميں منتقل كئے گئے_(1)

(د) ابن ابى الحديد معتزلى نے مذہب اماميہ اور مذہب زيديہ سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ ان كا كہنا ہے حديث ضحضاح ( كنارہ آتش والى حديث) كو تمام لوگ صرف ايك ہى فرد سے نقل كرتے ہيں اور وہ ہے مغيرہ بن شعبہ حالانكہ بنى ہاشم خصوصاً حضرت على (ع) سے اس كا بغض و عناد ہر خاص و عام كو معلوم ہے_ نيز اس كى داستان اور اس كا فاسق ہونا كسى سے مخفى نہيں_ (2)

ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ وہ (غيرشيعہ حضرات) اس روايت كو مغيرہ كے علاوہ ديگر افراد سے بھى نقل كرتے ہيں جيساكہ بخارى وغيرہ نے نقل كيا ہے_ پس ممكن ہے كہ مغيرہ كے علاوہ ديگر افراد سے نقل كرنے كا عمل بعد كى پيداوار ہو كيونكہ يہ معقول نہيں كہ شيعہ حضرات ان پر بے جا طور پر مذكورہ اعتراض كريں جبكہ معتزلى نے شيعوں كے اعتراض كے آگے خاموشى اختيار كرلى ہے گويا اس نے بھى يہى احتمال ديا تھا جو ہم نے ديا ہے ، وگرنہ وہ اس اعتراض كا جواب دے سكتے تو ضرور ديتے_

(ہ) امام باقرعليہ السلام سے لوگوں كے اس قول (كہ ابوطالب(ع) آگ كے گوشے ميں ہيں) كے بارے ميں سوال ہوا تو انہوں نے فرمايا:'' اگر ابوطالب(ع) كا ايمان ترازو كے ايك پلڑے ميں ڈالاجائے اور لوگوں كاايمان دوسرے پلڑے ميں تو بے شك ابوطالب(ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى ہوگا''_ پھر فرمايا:'' كيا تمہيں نہيں معلوم كہ اميرالمومنين على (ع) اپنى زندگى ميں حضرت عبدالله ، ان كے بيٹے اور حضرت ابوطالب كى نيابت ميں حج بجالانے كا حكم ديا كرتے تھے اور انہوں نے ان كى طرف سے حج بجالانے كى وصيت كي''_ (3)

________________________________________

1_ مستدرك الحاكم ج 2 ص 336اور تلخيص مستدرك (ذہبي) (ان دونوں نے اسے صحيح قرار ديا ہے) المواہب اللدنية ج 1 ص 71، الغدير ج 8 ص 24 از مستدرك مواھب لدنيہ اور از كنز العمال ج 7 ص 128 سے نقل كيا ہے شرح المواہب (زرقاني) ج 1 ص 291 كشف الغمة (شعراني) ج 2 ص 124 اور تاريخ ابوالفداء ج 1 ص 120_

2_شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14ص 70و بحار الانوار ج 35ص 112 _

3_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14ص 68، الدرجات الرفيعة ص 49، بحار ج 35ص 112، الغدير ج 8ص 380_390 (ان دونوں اور السيد كى كتاب الحجة كے ص 18سے) از طريق شيخ الطائفة ازصدوق اور ضياء العالمين (مصنف فتوني) _

187

(و) كوفہ كے مضافات (رحبہ) ميں جب على (ع) سے پوچھا گيا كہ كيا آپ (ع) كے والد عذاب جہنم ميں مبتلا ہوں گے يا نہيں ؟ تو آپ (ع) نے اس آدمى سے فرمايا:'' خاموش تيرى زبان جلے_ حضرت محمد (ص) كو بر حق نبى بناكر بھيجنے والى ذات كى قسم اگر ميرے والد روئے زمين كے تمام گناہگاروں كى بھى شفاعت كريں تو خدا ان سب كو معاف كردے_ واہ باپ تو جہنم كے عذاب ميں مبتلا ہو اور بيٹا ہو قسيم النار والجنة''؟ (جنت و دوزخ تقسيم كرنے والے بيٹے كى موجودگى ميں باپ دوزخ ميں جلے؟ معاذ اللہ )(1)

(ز) روايات ضحضاح ميں اختلاف و تناقض ملاحظہ فرمايئے ايك روايت تو يہ كہتى ہے كہ شايد ميرى شفاعت كام كرجائے اور قيامت كے دن دوزخ كے كنارے پر ٹھہرائے جائيں _ جبكہ دوسرى روايت يقين كے ساتھ كہتى ہے كہ وہ ابھى دوزخ كے كنارے پر موجود ہيں _ ملاحظہ فرمائيں_

2_ عقيل اور ارث ابوطالب(ع)

كہتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كى وراثت عقيل نے پائي نہ كہ على (ع) اور جعفر (ع) نے اور اسكى وجہ يہ بتاتے ہيں كہ ابوطالب(ع) مشرك تھے اور يہ دونوں مسلمان تھے پس ان دونوں فريقوں كے دين مختلف ٹھہرے اور دو مختلف اديان كے پيروكار ايك دوسرے سے وراثت نہيں پاتے_ (2) ان كى يہ دليل بھى صحيح نہيں ہے اور اس كى وجوہات درج ذيل ہيں_

(الف) يہ كہاں سے ثابت ہوا كہ جعفر (ع) اور على (ع) نے وراثت نہيں پائي_

(ب) ان كا يہ كہنا كہ دو مختلف اديان كو ماننے والے ايك دوسرے سے وراثت نہيں پاسكتے درست ہے اور ہم بھى اس كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ لفظ توارث باب تفاعل سے ہے _باب تفاعل كام كيلئے دو طرف كے ہونے پر دلالت كرتا ہے اور ہم بھى مسلمانوں اور كافروں كے درميان توارث (دونوں طرف سے ايك دوسرے سے وراثت پانے) كے قائل نہيں_

________________________________________

1_ بحار الانوار ج 5 3 ص 110 اور كنز الفوائد ص80 مطبوعہ حجريہ_

2_ المصنف ج 6ص 15اور ج 10 ص 344 اور اس كى جلد ششم كے حاشيے ميں بخارى (ج 4 ص 293) سے مروى ہے نيز طبقات ابن سعد ج 1حصہ اول ص 79 _

188

لفظ توارث كا تقاضا يہ ہے كہ يہ عمل دو طرفہ ہو جس طرح تضارب (ايك دوسرے سے كو مارنا) جو بغير طرفين كے نہيں ہوسكتا_ بنابريں مكتب اہلبيت كا نظريہ ہى درست ہے يعنى يہ كہ مسلمان كافر سے وراثت پاسكتا ہے ليكن كافر مسلمان سے نہيں_ (1)

(ج) حضرت عمر سے منقول ہے كہ ہم مشركين سے وراثت پاتے ہيں ليكن وہ ہم سے نہيں_ (2) نيز بہت سے فقہاء نے فتوى ديا ہے كہ مرتد كى ميراث مسلمانوں كو ملتى ہے اور ہم ان سے وراثت پاتے ہيں ليكن وہ ہم سے نہيں_ (3)

(د) وہ لوگ خود ہى كہتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كے وقت و فات تك ميراث ابھى فرض ہى نہيں ہوئي تھى اور معاملہ وصيت كے ساتھ چلتا تھا_ تو اس بناپر ہوسكتاہے كہ جناب ابوطالب (ع) نے عقيل كے ساتھ محبت كى وجہ سے اس كے نام وصيت كى ہو(4)_

3_ وھم ينہون عنہ، وينأون عنہ

ابوطالب پر اعتراض كرنے والوں نے ذكر كيا ہے كہ آيت (وہم ينہون عنہ و يناون عنہ) ابوطالب(ع) كے بارے ميں نازل ہوئي ہے حضرت ابوطالب پيغمبر(ص) كو ستانے سے لوگوں كو منع كرتے تھے ليكن خود دائرہ اسلام ميں داخل ہونے سے دورى اختيار كئے ہوئے تھے_ (5)جبكہ ہم كہتے ہيں كہ :

1_ خنيزى نے اس روايت كى سند پر جو اعتراضات كئے ہيں وہ كافى ہيں لہذا اس كى سند پر ہم بحث نہيں كرنا چاہتے ... (6)

________________________________________

1_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14 ص 69 كى طرف رجوع كريں _

2_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج 10 ص 339 اور ج 6 ص 106 _

3_ المصنف ج 6 ص 104_107 اور 105 اور ج 10 ص 338_341_

4_ مراجعہ ہو: اسنى المطالب ص 62_

5_ الاصابة ج 4 ص 115، تفسير ابن كثير ج 2 ص 127، طبقات ابن سعد ج 1 ص 78 حصہ اول بھجة المحافل ج 1 ص 116 انساب الاشراف بہ تحقيق محمودى ج 2 ص 26، الغدير ج8 ص3 ميں مذكورہ افراد اور تفسير خازن ج2 ص11 سے نيز تفسير ابن جزى ج2 ص6، نيز طبرى اور كشاف سے نقل كيا گيا ہے اور دلائل النبوية (بيہقي) مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج2 ص 340 و 341_

6_ كتاب ابوطالب مومن قريش ص 305_306_

189

2_ اسى طرح ہم ديكھتے ہيں كہ يہ آيت كسى لحاظ سے ابوطالب(ع) پر منطبق نہيں ہوسكتى كيونكہ اللہ تعالى نے اس سے قبل ارشاد فرمايا ہے: (و ان يروا كل آية لا يومنوا بھا حتى اذا جائوك يجادلونك يقول الذين كفروا ان ھذا الا اساطير الاولين و ہم ينھون عنہ ...) (1) يعنى اور اگر وہ تمام تر معجزے ديكھ ليں تو بھى وہ اس پر ايمان نہيں لائيں گے يہاںتك كہ جب وہ تمہارے پاس آئيں گے تو تم سے بھى جھگڑا كريں گے اور وہ لوگ جو كافر ہوگئے كہيں گے، يہ نہيں مگر پہلوں كى كہانياں اور وہ اس سے روكتے ہيں ...

اس آيت ميں جمع كى ضمائر مثلاً'' ھم'' اور ''ينھون و ينأون ''كے فاعل كى ضمير جمع انكى طرف لوٹ رہى ہے جن كا ذكر اللہ تعالى نے اس آيت ميں كيا ہے اور وہ ايسے مشرك ہيں جو ہر آيت اور معجزے كو ديكھنے كے باوجود اس پر ايمان نہيں لاتے اور ان معجزات كے بارے ميں رسول(ص) (ص) سے جھگڑا كرتے ہيں اور اپنے عناد كى وجہ سے اس معجزے كو گذشتہ لوگوں كا افسانہ قرار ديتے ہيں_ ان كى ہٹ دہرمى كى حد اتنى ہى نہيں بلكہ وہ اس سے بھى آگے قدم بڑھاتے ہوئے لوگوں كو نبى اكرم(ص) كى باتيں سننے سے روكتے ہيں جس طرح كہ وہ خود بھى ان سے دور رہتے ہيں ...

ان ميں سے كوئي بات بھى حضرت ابوطالب(ع) پر پورى نہيں اترتي، وہ ابوطالب (ع) جوہميشہ نبى اكرم(ص) كى اطاعت پر حوصلہ افزائي كرتے تھے اور اپنے ہاتھ اور زبان كے ساتھ نبي(ص) كى تائيد كرتے بلكہ ہم تو يہ ديكھتے ہيں كہ وہ دوسرے لوگوں كو بھى اس دين كے دائرے ميں آنے كى دعوت ديتے اور خود بھى اس دين پر ڈٹے رہے اور اس سلسلے ميں ہر مشكل كا خندہ پيشانى سے سامنا كيا ،جس طرح كہ ان كى بيوي، حمزہ(ع) ، جعفر(ع) ، حضرت علي(ع) اور بادشاہ حبشہ كى بھى يہى صورت حال تھي_

مفسرين نے بھى اس آيت سے عموم ہى سمجھا ہے اور اس سے سب كفار مراد لئے ہيں اور اس كا يہ معنى كيا ہے كہ وہ لوگ كفار كو روكتے تھے اور اتباع رسول(ص) سے منع كرتے تھے اور خود بھى اس سے دور رہتے تھے ...ابن عباس، حسن، ... قتادہ، ابى معاذ، ضحاك، ابن الحنفيہ، السدي، مجاہد الجبائي اور ابن جبير سے بھي

_1_ سورہ انعام، آيت 25_26_

190

يہى تفسيرتفسير مروى ہے_ (1)

3_علامہ امينى فرماتے ہيں مذكورہ روايت كہتى ہے كہ سورہ انعام كى آيت (وہم ينہون عنہ و يناون عنہ) حضرت ابوطالب كى وفات كے وقت نازل ہوئي_ دوسرى روايت كہتى ہے كہ آيت (انك لا تھدى من اجبت ...) بھى ان كى وفات كے وقت نازل ہوئي جبكہ قرآن كى يہ آيت سورہ قصص كى ہے، جس كى تمام آيات ايك ساتھ نازل ہوئيں اور سورہ قصص پانچ سورتوں كے فاصلے كے ساتھ سورہ انعام سے قبل نازل ہوئي_ (2) يہ اس بات كى دليل ہے كہ مذكورہ آيت حضرت ابوطالب كى وفات كے كافى عرصے بعد نازل ہوئي_

بنابر ايں ان لوگوں كا يہ كہنا كہ يہ آيت وفات ابوطالب(ع) كے وقت نازل ہوئي كيونكر معقول ہو سكتا ہے؟

4_ مشرك كيلئے طلب مغفرت سے منع كرنے والى آيت

بخاري، مسلم اور ديگر محدثين نے ابن مسيب سے اور اس نے اپنے باپ سے ايك روايت نقل كى ہے جس كا خلاصہ يہ ہے كہ رسول(ص) الله نے وفات ابوطالب(ع) كے وقت ان سے لا الہ الا الله كہنے كى خواہش كى تاكہ اس كے ذريعے آپ(ص) خدا كے نزديك ان كى مغفرت كيلئے دليل قائم كرسكيں اس وقت ابوجہل اور عبدالله بن اميہ نے ابوطالب(ع) سے كہا:'' كيا آپ عبدالمطلب كے دين سے منہ موڑنا چاہتے ہيں؟ ''رسول(ص) الله ابوطالب(ع) كو كلمہ توحيد كى دعوت ديتے رہے اور وہ دونوں مذكورہ بات دہراتے رہے يہاں تك كہ ابوطالب(ع) نے آخرى جملہ يہ كہا (عبدالمطلب كے دين پر ہوں) اور لا الہ الا الله كہنے سے احتراز كيا_

يہ ديكھ كر رسول(ص) الله نے فرمايا : ''خدا كى قسم جب تك خدا كى طرف سے ممانعت نہ ہو آپ كيلئے طلب

________________________________________

1_ رجوع كريں: مجمع البيان ج 7 ص 35، 36، تفسير ابن كثير ج 2 ص 127، الغدير ج 8 ص 3 درالمنثور ج 3 ص 8_9، ان سب نے تمام يا بعض مطالب كو قرطبي، طبري، ابن منذر، ابن ابى حاتم، ابن ابى شيبہ ، عبد بن حميد اور ابن مردويہ سے نقل كيا ہے_ قرطبى ج 6 ص 406 _

2_ الدر المنثور ج 2ص 3 ،تفسير شوكانى ج 3، ص 91_92، تفسير ابن كثير ج 2ص 122اور الغدير ج8 ص 5 نے نقل كيا ہے از افراد مذكور و از تفسير قرطبى ج 6ص 386 و383 ،ان سب نے نقل كيا ہے از ابى عبيد و ابن منذر و طبرانى و ابن مردويہ و نحاس ...

191

مغفرت كرتا رہوں گا''_ اس مناسبت سے يہ آيت اترى (ما كان للنبى والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين ولو كانوا اولى قربى من بعد ما تبين لہم انہم اصحاب الجحيم) (1) يعنى پيغمبر(ص) اور مومنين كيلئے روا نہيں كہ وہ مشركين كيلئے مغفرت طلب كريں اگرچہ وہ ان كے قرابت دارہوں بعد اس كے كہ ان كا جہنمى ہونا واضح ہوجائے، نيز خدا نے ابوطالب(ع) كے بارے ميں يہ آيت اتارى (انك لاتہدى من احببت ولكن الله يہدى من يشائ) (2) يعنى اے رسول آپ(ص) ہر اس شخص كى ہدايت نہيں كرسكتے جسے آپ چاہيں بلكہ خدا جسے چاہتا ہے ہدايت ديتا ہے_

ہم نہ تو اس مقطوعہ روايت كى سندوں پر بحث كرنا چاہتے ہيں (3)اور نہ ابن مسيب جيسے لوگوں پر جن كى حضرت على (ع) سے دشمنى واضح ہے اور بعض لوگوں نے تواس كى تصريح كى ہے_ (4) البتہ درج ذيل امور كى طرف اشارہ كريں گے_

1) وہ آيت جو (مشركين كيلئے) طلب استغفار سے منع كرتى ہے سورہ توبہ كى ہے اور اس بات ميں شك كى گنجائشے نہيں كہ يہ سورت مدينہ ميں رسول(ص) پر اترنے والى آخرى سورتوں ميں سے ايك ہے بلكہ بعض حضرات نے يہ دعوى كيا ہے كہ آخرى سورہ يہى ہے_ (5) يہ بات غيرمعقول ہے كہ يہ آيت دس سال سے زيادہ عرصے تك تنہا پڑى رہى ہو پھر جب سورت توبہ نازل ہوئي تو اس ميں شامل كر دى گئي ہو كيونكہ قرآنى آيات كسى سورہ كے ساتھ اس صورت ميں ملحق ہوتى ہيں جبكہ وہ سورت اس سے قبل نازل ہوچكى ہو_اور يہ بات قرآن كى لمبى سورتوں سے متعلق ہے نہ كہ ديگر سورتوں سے جس كى تمام آيات ايك ساتھ اترتى تھيں_

________________________________________

1_ سورہ توبہ، آيت 113_

2_ سورہ قصص آيت 56روايت بخارى مطبوعہ 1309كى ج 3ص 111وغيرہ ميں

3_ رجوع كريں: ابوطالب مومن قريش ص 313_340اور انساب الاشراف بہ تحقيق محمودى ج 2ص 25اور 26 نيز دلائل النبوة (بيہقي) مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج2 ص 342 و 343_

4_ الغارات (ثقفي) ج 2ص 569

5_ الغدير ج 8ص 10، ابوطالب مومن قريش ص 341از بخاري، كشاف، بيضاوي، تفسير ابن كثير، الاتقان، ابن ابى شيبہ، نسائي، ابن الضريس، ابن منذر، نحاس، ابوالشيخ اور ابن مردويہ_

192

بنابريں رسول(ص) خدا اس قدر طويل عرصے تك ابوطالب(ع) كيلئے طلب مغفرت و رحمت كرتے رہے حالانكہ يہ عمل كافر سے محبت كا واضح ترين نمونہ ہے اور خدا نے سورہ توبہ كے نزول سے قبل ہى متعدد آيات ميں كفار كى محبت سے منع كيا تھا جيساكہ اس آيت ميں فرماتا ہے:(لا تجد قوماً يومنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسولہ ولو كانوا آبائہم اَو ابنا ھم اواخوانھم اوعشيرتہم) (1) يعنى اے رسول(ص) آپ(ص) الله اور يوم آخرت پر ايمان ركھنے والوں كو الله اور اس كے مخالفين سے محبت كرتے ہوئے نہيں پائيں گے اگرچہ وہ ان كے باپ يا بيٹے يا بھائي يا رشتہ دار ہى كيوں نہ ہوں_

نيز فرمايا ہے: (يايہا الذين آمنوا لا تتخذوا الكافرين اولياء من دون المؤمنين) (2) يعنى اے مومنوا مومنين كے بجائے كافروں كو اپنا دوست اور حامى نہ سمجھو_

يا يہ فرمايا ہے: (الذين يتخذون الكافرين اولياء من دون المؤمنين ايبتغون عندہم العزة) (3) يعنى جو لوگ مومنين كو چھوڑ كر كافروں سے دوستى كرتے ہيں كيا وہ عزت ان كے ہاں ڈھونڈتے ہيں؟

نيز فرمايا: (لايتخذ المؤمنون الكافرين اولياء من دون المؤمنين) (4) يعنى مومنين كو چاہيئے كہ وہ مومنوں كے بجائے كافروں كو اپنا دوست اور ہمدرد نہ بنائيں_

انكے علاوہ اور بھى آيات موجود ہيں جن كے بارے ميں تحقيق كى يہاں گنجائشے نہيں_

2)خدانے سورہ منافقين ميں جو بنابر مشہور ہجرت كے چھٹے سال ميں سورہ توبہ سے پہلے، نيز غزوہ بنى مصطلق سے قبل نازل ہوئي فرمايا ہے:(سواء عليہم استغفرت لہم ام لم تستغفرلہم لن يغفر الله لہم) يعنى كہ آپ ان كيلئے خواہ طلب مغفرت كريں يا نہ كريں(ايك ہى بات ہے) خدا ان كو كبھى نہيں

________________________________________

1_ سورہ مجادلہ 22نيز يہ سورہ توبہ سے سات سورتوں كے فاصلے پر پہلے نازل ہوئي (جيساكہ الاتقان ج 1ص 11تفسير ابن كثير ج4ص 329فتح القدير ج 5ص 186اور الغدير ج 8ص 10ميں ان سے اور تفسير آلوسى ج 28و 37سے منقول ہے) ابن ابى حاتم، طبراني، حاكم، بيہقي، ابونعيم وغيرہ نے كہا ہے كہ يہ سورہ بدر يا احد ميں نازل ہوئي_

2_ سورہ نساء آيت 144 _

3_ سورہ نساء آيت 139_

4_ سورہ آل عمران، آيت 28_

193

بخشے گا_

پس جب آپ(ص) كو يہ علم تھا كہ خدا كافروں كو ہرگز نہ بخشے گا خواہ آپ(ص) ان كيلئے استغفاركريں يا نہ كريں ، تو پھرآپ خواہ مخواہ كى زحمت كيوں كرتے؟ حالانكہ واضح سى بات ہے كہ يہ امر عقلاء كے نزديك معقول نہيں_

3)ہم ديكھتے ہيں كہ رسول خدا(ص) نے صاف صاف فرمايا: ''اللہم لاتجعل لفاجر او لفاسق عندى نعمة''(1) يعنى اے خدا كسى فاسق يا فاجر كيلئے ميرے پاس كوئي نعمت اور احسان قرار نہ دے_

نيز آپ(ص) نے حكيم بن حزام كا تحفہ اس كے كافر ہونے كى بنا پر واپس كرديا تھا_ عبيدالله كہتا ہے ميرا خيال ہے آپ(ص) نے فرمايا تھا: ''ہم مشركين سے كوئي چيز قبول نہيں كرتے ليكن اگر تم چاہو توقيمت كى ادائيگى كے ساتھ قبول كريں گے''_ (2)

پيغمبر اكرم(ص) نے عامر بن طفيل كا تحفہ بھى قبول نہيں فرمايا تھا كيونكہ وہ اس وقت تك مسلمان نہيں ہوا تھا_اس كے علاوہ آپ(ص) نے ملاعب الاسنہ ( بوڑھوں كا مذاق اڑانے والوں )كا ہديہ بھى رد كرديا تھا_ آپ (ص) نے فرمايا ميں كسى مشرك كا تحفہ قبول نہيں كرتا_ (3)

عياض مجاشعى سے منقول ہے كہ اس نے نبى اكرم(ص) كے پاس كوئي تحفہ بھيجا ليكن آپ(ص) نے اسے لينے سے

________________________________________

1_ رجوع كريں ابوطالب مومن قريش (خنيزي)

2_ مستدرك الحاكم ج 3ص 484اور تلخيص مستدرك (ذہبي) اس صفحے كے حاشيہ پر_ ان دونوں نے اس روايت كو صحيح گردانا ہے_ نيز كنز العمال ج6ص 57و 59از احمد، طبرانى الحاكم اور سعيد بن منصور ، حيات صحابہ ج2 ص 258 و 259 ، 260 از كنزالعمال و از مجمع الزوائد ج8 ص 278 اور التراتيب الاداريہ ج2 ص 86_ يہاں پر ملاحظہ ہو كہ آپ(ص) نے وقت ہجرت جناب ابوبكر سے بھى صرف قيمت دے كر اونٹ لئے تھے_

3_ كنز العمال ج 3ص 170طبع اول از ابن عساكر طبع ثانى ج 6ص 57از طبراني، المصنف (عبدالرزاق) ج 1ص 446و 447 اورحاشيہ ميں مغازى اور ابن عقبہ سے منقول ہے اور مجمع البيان ج1 ص 353_

194

انكار كيا اور فرمايا مجھے كافروں كے عطيات سے منع كيا گيا ہے_ (1)

آنحضرت(ص) كے اس عمل كى وجہ سوائے اس كے كچھ نہيں كہ كفار كے تحائف كا قبول كرنا آپ(ص) كے دل ميں ان كيلئے محبت واحترام كا گوشہ پيدا كرنے كا باعث نہ ہو_

4)صحيح سند كے ساتھ حضرت علي(ع) سے مروى ہے (جيساكہ علامہ امينى نے ذكر كيا ہے )كہ انہو ں نے سنا ايك شخص اپنے والدين كيلئے طلب مغفرت كررہا ہے جبكہ وہ دونوں مشرك تھے، حضرت علي(ع) نے يہ بات پيغمبر(ص) خدا كو سنائي تو مذكورہ آيت اتري_ (2)

ايك روايت كى رو سے مسلمانوں نے كہا كيا ہم اپنے آباء كيلئے طلب مغفرت نہ كريں؟ اس كے جواب ميں مذكورہ آيت نازل ہوئي_ (3)

ايك اور روايت كے مطابق جب پيغمبر(ص) خدانے الله سے اپنى والدہ كيلئے طلب مغفرت كى اجازت چاہى تو خدانے آپ(ص) كو اجازت نہ دى اور يہ آيت اترى پھر آپ(ص) نے ان كى قبر پر جانے كى اجازت مانگى تو اس كى اجازت مل گئي_ (4)

________________________________________

1_ كنز العمال ج 6ص 57و 59ابوداؤد اور ترمذى سے، احمد او ر طيالسى اور بيہقى نے اسے صحيح قرار ديا ہے_ نيز رجوع كريں كنزالعمال ج 6ص 57 و 59ميں عمران بن حصين سے مروى روايت كى طرف نيز المنصف (عبد الرزاق) ج 10ص 447اور اس كے حاشيے ميں ج 2ص 389اس نے ابوداؤد احمد اور ترمذى سے روايت كى ہے او ر ملاحظہ ہو الوسائل ج12 ص 216 از كافى اور المعجم الصغير ج1 ص 9_

2_ الغدير ج 8ص 12نيز ديگر مآخذ از طيالسي، ابن ابى شيبہ، احمد، ترمذي، نسائي، ابويعلي، ابن جرير، ابن منذر، ابن ابى حاتم، ابوشيخ، ابن مردويہ، حاكم (جس نے اسے صحيح قرار ديا ہے)، بيہقى (در شعب الايمان)، ضياء (المختارة ميں)، الاتقان، اسباب النزول، تفسير ابن كثير، كشاف، اعيان الشيعة، اسنى المطالب ص 18 (دحلان)، ابوطالب مومن قريش، شيخ الابطح اور مسند احمد ج 1ص 130_131_

3_ مجمع البيان ج 5 ص 76 از حسن، تفسير ابن كثير ج 2 ص 393، ابوطالب مومن قريش ص 348 از مجمع البيان اور تفسيرابن كثير سے اور الاعيان ج 39 ص 158 و 159ميں ابن عباس اور حسن سے، كشاف، ج 2 ص 246_

4_ تفسير طبرى ج 11ص 31و الدر المنثور ج 3 ص 283 و ارشاد السارى ج 7 ص 282 اور 158 از صحيح مسلم، تفسير ابن كثير ج 2 ص 394، مسند احمد، سنن ابوداؤد، ابن ماجہ، حاكم، بيہقي، ابن ابى حاتم، طبراني، ابن مردويہ، كشاف ج 2 ص 49 اور ابوطالب مومن قريش ص 349 _

195

يہاں اگرچہ ہمارا عقيدہ تو يہ ہے كہ اس آخرى روايت كا صحيح ہونا بہت بعيد ہے كيونكہ ہمارے عقيدے كے مطابق آپ(ص) كى والدہ مومنہ تھيں جيساكہ ہم حضور(ص) كے آباء كے ايمان كے بارے ميں ذكر كرچكے ہيں ليكن اس سے قطع نظر يہ روايت گزشتہ روايات كے منافى ہے_ شايد راويوں نے اپنى صوابديد كے مطابق عمداً يا سہواً اس آيت كو حضرت آمنہ پر منطبق كيا ہے ليكن صحيح روايت اميرالمؤمنين علي(ع) سے مروى مذكورہ بالا روايت ہى ہے وگرنہ يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ رسول(ص) الله اپنى زندگى كے آخرى ايام تك اپنى والدہ كيلئے استغفار كرنا بھول جاتے؟ يہ ان باتوں كے علاوہ ہے جن كا ذكر گزرچكا ہے_

5)(انك لا تہدى من اجبت) والى آيت كے بارے ميں كہتے ہيں كہ يہ احد كے دن اترى جب رسول(ص) الله كا دندان مبارك شہيد ہوا اور چہرہ مبارك پر زخم آيا_ اس وقت آپ(ص) نے فرمايا تھا خدايا ميرى قوم كو ہدايت دے كيونكہ وہ نادان ہيں پس خدانے يہ آيت نازل كى (انك لا تہدى من احببت ...)(1)

يہ بھى كہا گيا ہے كہ يہ آيت حارث بن عثمان بن نوفل كے بارے ميں نازل ہوئي ہے كيونكہ رسول(ص) الله كى خواہش تھى كہ وہ مسلمان ہوجائے كہا گيا ہے كہ يہ مسئلہ اجماعى ہے_ (2)

6)جب رسول(ص) الله چاہتے تھے كہ حضرت ابوطالب ايمان لے آئيں تو يقيناً يہى بات خدا بھى چاہتا تھا كيونكہ رسول(ص) كسى ايسے امر كو پسند نہيں فرماتے جو خدا كو ناپسند ہو_ رہا ان لوگوں كا يہ كہنا كہ آپ(ص) كو ايك وحشى كا قبول اسلام پسند نہ تھا ليكن وہ ايمان لے آيا تو يہ صحيح نہيں كيونكہ يہ امر خدا اور پيغمبر(ص) كے درميان اختلاف اور تضاد كى علامت ہے يعنى يہ كہ ان دونوں ميں توافق نہ ہو_ ليكن اگر توافق موجود ہو تو پھر يہ كيسے

________________________________________

1_ ابوطالب مومن قريش 368 از اعيان الشيعة ج 39 ص 259، الحجة ص 39 اس روايت كے بعض مآخذ كا ذكر جنگ احد كے بيان ميں ہوگا نيز ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 198 از استيعاب_

2_ ابوطالب مؤمن قريش ص 369از شيخ الابطح ص 69_

196

ممكن ہے كہ الله اور رسول(ص) الله ايك شخص كے ايمان كو ناپسند كريں؟ (1)

7) '' انك لا تھدى من احبيت ...'' والى آيت جناب ابوطالب (ع) كے ايمان سے مانع نہيں ہے كيونكہ جس طرح روايات دلالت كرتى ہيں خدا نے جناب ابوطالب (ع) كا مؤمن ہوناپسند كيا ہے اور يہ آيت رسول اكرم(ص) كويہ بتانا چاہتى ہے كہ صرف آپ (ص) كى محبت ہى كسى شخص كے ہدايت يافتہ ہونے كے لئے كافى نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ خدا كى مرضى بھى ساتھ ہونى چاہيئے_

آخر ميں يہ بھى عرض كرتے چليں كہ گذشتہ معروضات كى رو سے جناب عبدالمطلب نہ كافر تھے نہ مشرك بلكہ وہ مؤمن اور دين حنيف كے پيروكار تھے بلكہ مسعودى نے تو اپنى ايك كتاب ميں صاف كہہ ديا ہے كہ وہ اسلام پر مرے_ (2) پس حضرت ابوطالب كا يہ كہنا كہ ميں عبدالمطلب كے دين پر ہوں ان كے كفر پر دلالت نہيں كرتا_ اگر بالفرض انہوں نے ايسا كہا بھى ہو تو پھر اس كى وجہ لازماً يہى ہوسكتى ہے كہ وہ قريش كو اس وقت كى بعض مصلحتوں كى بناپر بے خبر ركھنا چاہتے تھے_

باقيماندہ دلائل

يہ تھے ابوطالب(ع) كو نعوذ بالله كافر سمجھنے والوں كے اہم دلائل ليكن ہم نے ديكھا كہ يہ دلائل صحيح اور عالمانہ تحقيق كے آگے نہيں ٹھہرسكتے _ان دلائل كے علاوہ بعض روايات باقى ہيں جن سے ممكن ہے كہ مذكورہ مطلب (كفر ابوطالب) پر استدلال كيا جائے حالانكہ ان روايات ميں كوئي ايسا نكتہ نہيں جو اس بات كو ثابت كرسكے_ ہم نہايت اختصار كے ساتھ ان كى طرف اشارہ كرتے ہوئے عرض كرتے ہيں كہ ان لوگوں كى روايت كے مطابق:

________________________________________

1_ رجوع كريں حاشيہ كتاب انساب الاشراف جلد 2 كے صفحہ 28پر_

2_ الروض الانف ج 2ص 170_171_

197

1) رسول(ص) الله نے وسوسے سے رہائي كے بارے ميں ابوبكر سے فرمايا ہے كہ تمہيں چاہ يے كہ وسوسے سے نجات كيلئے وہ جملہ پڑھو جس كے پڑھنے كا ميں نے اپنے چچا كو حكم ديا تو انہوں نے نہيں پڑھا يعني: لا الہ الاالله محمد رسول الله كى شہادت (1)_ عمر سے مروى ہے كہ وہ كلمہ تقوى جس كى تاكيد رسول(ص) الله نے حضرت ابوطالب كو ان كى موت كے وقت كى كلمہ شہادت ہے ... (2)

ليكن واضح رہے كہ بعض لوگ رسول(ص) الله سے اس بارے ميں سوال كرتے تھے ا ور اسے اپنى زبان پر جارى بھى كرتے تھے ليكن اس كے باوجود وسوسے كا شكار تھے_ مگر يہ كہ اس سے آپ (ص) كى مراد شہادتين كا تكرار اور كثرت تلفظ ليا جائے_ جيساكہ يہ روايت ايك معتبر سندكے ساتھ بھى مروى ہے اور اس ميں آيا ہے كہ سعد اور عثمان كے درميان اختلاف ہوا_ حضرت عمرنے ان دونوں كے درميان فيصلہ كيا اور كہا كہ حضرت يونس(ع) كى دعا يہ تھى (لا الہ الا انت سبحانك انى كنت من الظالمين) ليكن اس نے ابوطالب(ع) كا ذكر نہيں كيا_(3)

2)جب ابوقحافہ نے مسلمان ہونے كيلئے بيعت كا ہاتھ بڑھايا تو حضرت ابوبكر روئے، رسول(ص) الله نے پوچھا :''كيوں روتے ہو؟'' بولے:'' اس خيال سے روتا ہوں كہ كاش اس كے بدلے آپ(ص) كے چچا كا ہاتھ ہوتا جو بيعت كر كے مسلمان ہوتا اور يوں الله آپ(ص) كى آنكھوں كو ٹھنڈك بخشتا تو مجھے زيادہ خوشى ہوتي''_ (4) ليكن يہى روايت قبل ازيں مختلف مآخذ سے ايك اور انداز سے بيان ہوچكى ہے جس سے ابوطالب(ع) كے

________________________________________

1_ حياة الصحابة ج 2 ص 540 و 541 و كنز العمال ج 1 ص 259_261 از ابى يعلى و البوصيرى (زوايد ميں) اور طبقات ابن سعد ج 2 ص 312 سے _

2_ مجمع الزوايد ج 1 ص 15 و كنز العمال ج 1 ص 262 و 63 از ابى يعلى و ابن خزيمہ و ابن حبان و بيہقى وغيرہ جن كى تعداد زيادہ ہے_

3_ مجمع الزوائد ج 7 ص 68 از احمد (اس سند كے راوى صحيح بخارى كے راوى ہيں سوائے ابراہيم بن محمد بن سعد كے جو ثقہ ہے) اور حياة الصحابة ميں احمد، ترمذى اور الكنز ج 1 ص 298 ميں ابى يعلى اور طبرانى سے_ طبرانى نے اسے صحيح قرار ديا ہے_

4_ الاصابة ج 4ص 116اور الحاكم (جس نے اس روايت كو صحيح قرار ديا ہے، بخارى و مسلم كے معيار كے مطابق) از عمر بن شبہ، ابويعلي، ابوبشر سمويہ (در فوائد) و نصب الراية ج 6 ص 281 و 282 (بعض مآخذ سے جن كا ذكر حاشيہ ميں ہوا ہے) المصنف ج 6 ص 39 اور اس كے حاشيہ ميں نقل ہوا ہے از ابن ابى شيبہ ج 4 ص 142 اور 95، ابوداؤد ص 458 اور مسند احمد ج 1 ص 131 _

198

ايمان كى تائيد ہوتى ہے_ لہذا اس كا اعادہ نہيں كرتے_ بلكہ يہ بھى منقول ہے كہ جب ابوقحافہ مسلمان ہوا تو حضرت ابوبكر كو اس كے قبول اسلام كا پتہ ہى نہ چلا يہاں تك كہ رسول(ص) الله نے ان كو خوشخبرى دي_ (1)

بنابر اين حضرت ابوبكر نے مذكورہ بات اس وقت جب ان كے باپ نے بيعت كيلئے ہاتھ بڑھاياكيسے كہي؟

3)ايك روايت ميں مذكور ہے جب حضرت ابوطالب(ع) كى وفات ہوئي تو حضرت علي(ع) رسول(ص) الله كے پاس آئے اور عرض كيا كہ آپ(ص) كا بوڑھا اور گمراہ چچا چل بسا_

ايك اور روايت كے مطابق حضرت علي(ع) نے ابوطالب(ع) كے غسل و كفن كے بارے ميں رسول(ص) الله كا حكم ماننے سے انكار كرديا چنانچہ رسول (ص) الله نے آپ كو حكم ديا يہ كام كسى اور كے ذمے ڈال ديں_(2)

جبكہ امام احمد نے بھى اپنى مسند ميں اس روايت كو نقل كيا ہے ليكن اس ميں لكھا ہے آپ كا بوڑھا چچا وفات پاچكا ہے اس ميں گمراہ كا لفظ نہيں آيا_ (3)يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آپ (ص) نے (نعوذ باللہ) ايك مشرك كو غسل دينے كا حكم كيسے ديا ؟ اوريہاں پر يہ سوال بھى پيدا ہوتا ہے كہ آخر رسول(ص) الله نے عقيل اور طالب كو جو مشرك تھے غسل دينے كا حكم دينے كى بجائے علي(ع) كو كيوں حكم ديا؟ پھر يہ بات رسول(ص) كے غمگين ہونے، ابوطالب(ع) كيلئے طلب مغفرت و رحمت كرنے، ان كے جنازے كو كندھا دينے اور جنازے كے ساتھ چلنے سے كيسے ہماہنگ ہوسكتى ہے؟ جبكہ يہى لوگ روايت كرتے ہيں كہ پيغمبر(ص) مشرك كے جنازے كے ساتھ چلنے كو جائز نہيں سمجھتے؟ (4)

________________________________________

1_ المحاسن والمساوى جلد 1 صفحہ 57_

2_ المصنف ج 6ص 39 نيز ملاحظہ ہو: كنز العمال ج17 ص 32 و 33 ، نصب الرايہ ج2 ص 281 و 282 اور اسى كے حاشيہ ميں مختلف منابع سے مذكور احاديث_

3_ مسند الامام احمد ج1 ص 129 اور 35 1و انساب الاشراف بہ تحقيق المحمودى ج 2 ص 24 اس ميں مذكور ہے كہ آپ نے انكو بذات خود حكم ديا تو انہوں نے انہيں دفن كرديا_

4_ اس بحث كى ابتدا ميں بعض مآخذ كا ذكر ہوچكا اور يہ بھى كہ مشرك كے جنازے ميں شركت جائز نہيں ہے_ رجوع كريں سنن بيہقى وغيرہ جيسى كتب احاديث كى طرف_

199

اس كے علاوہ كيا يہ درست ہوسكتاہے كہ حضرت علي(ع) نے رسول(ص) كا حكم ماننے سے انكار كيا ہو يہاں تك كہ رسول(ص) الله ان سے يہ كہنے پر مجبور ہوں كہ يہ كام كسى اور كے ذمے لگادو؟ كيا حضرت علي(ع) اس قسم كى باغيانہ ذہنيت ركھتے تھے؟ نہيں ايسا ہرگز نہيں ہوسكتا_

اس كے علاوہ يہ لوگ متعدد مآخذ سے منقول اس حقيقت كے بارے ميں كيا جواب ديں گے جن كے مطابق حضرت علي(ع) نے خود بہ نفس نفيس ابوطالب(ع) كو غسل ديا، دفن كيا اور ان كو غسل دينے كے بعد غسل مس ميت كيا جو كسى بھى مسلمان ميت كو چھونے پر واجب ہوتا ہے؟(1)

پس جب يہ واضح ہوگيا كہ ابوطالب سچے مسلمان تھے تو پھر مدينى جيسے افراد كى يا وہ گوئي پرجو نہ عقل كے مطابق ہے نہ شرع كے، كان دھرنے كى كيا ضرورت ہے؟ يہ لوگ چاپلوسى اور نيكى كے دكھا وے كے ذريعے كوئي نتيجہ حاصل نہيں كرسكتے جيسا كہ مدينى كہتا ہے كہ ميرى آرزو تھى كہ ابوطالب(ع) مسلمان ہوتے يوں رسول(ص) الله كو خوشى حاصل ہوتى اگرچہ اس كے بدلے مجھے كافر ہونا پڑتا_ (2)

ابوطالب(ع) نے اپنا ايمان كيوں چھپايا؟

اگر ہم دعوت اسلامى كے تدريجى سفر اورابوطالب(ع) كے طرز عمل كا مطالعہ كريں تو پتہ چلتا ہے كہ وہ پہلے پہل ہوبہو مومن آل فرعون كى طرح اپنا ايمان چھپاتے تھے_ ان كى روش يہ رہى كہ كبھى اس كو ظاہر كرتے اور كبھى مخفى ركھتے يہاں تك كہ بنى ہاشم شعب ابوطالب ميں محصور ہوئے اس كے بعد انہوں نے اسے زيادہ ظاہر كرنا شروع كيا_

امام صادق(ع) سے منقول ہے كہ حضرت ابوطالب(ع) كى مثال اصحاب كہف كى سى ہے جنہوں نے اپنا ايمان چھپايا اور شرك كا دكھاوا كيا پس خدانے ان كو دگنا اجر عنايت كيا_ (3)

________________________________________

1_ تاريخ الخميس ج 1 30

2_ عيون الاخبار ج 1ص 263 (ابن قتيبہ) _

3_ امالى صدوق ص 551، شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14 ص 70، اصول كافى ج 1 ص 373، روضة الواعظين ص 139، بحار الانوار ج 35 ص 111، الغدير ج 7 ص 385_390 از مآخذ مذكور، الحجة (ابن معد) ص 17اور 115، تفسير ابى الفتوح ج 4 ص 212، الدرجات الرفيعة اور ضياء العالمين_

200

شعبى نے ذكر سندكے بغير اميرالمؤمنين حضرت علي(ع) سے نقل كيا ہے كہ والله ابوطالب بن عبدالمطلب بن عبد مناف مسلمان اور مومن تھے اور اس خوف سے اپنا ايمان چھپاتے تھے كہ قريش بنى ہاشم كے خلاف اعلان جنگ نہ كريں_ ابن عباس سے بھى اسى طرح كى بات مروى ہے_ (1) اسكى تائيد ميں اور بھى متعدد احاديث موجود ہيںجنكے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں_ (2)

ليكن ايك اور روايت كا تذكرہ ضرورى معلوم ہوتا ہے جو شايد حقيقت سے قريب تر ہو_ اسے شريف نسابہ علوى (معروف بہ موضح) نے اپنى اسناد كے ساتھ يوں بيان كيا ہے جب ابوطالب(ع) كى وفات ہوئي تو اس وقت مْردوں پر نماز نہيں پڑھى جاتى تھى پس نبي(ص) نے ان كى اور حضرت خديجہ كى نماز جنازہ نہيں پڑھى _بس اتنا ہوا كہ حضرت ابوطالب كا جنازہ گزرا جبكہ حضرت علي(ع) ، جعفر(ع) اور حمزہ(ع) بيٹھے ہوئے تھے_ (3) تب وہ كھڑے ہوگئے اور جنازے كى مشايعت كى پھر ان كيلئے مغفرت كى دعا كي_

پس بعض لوگوں نے كہا ہم اپنے مشرك مردوں اور رشتہ داروں كيلئے دعا كرتے ہيں_ (لوگوں نے يہ خيال كيا كہ حضرت ابوطالب كى حالت شرك ميں وفات ہوئي اسلئے كہ وہ ايمان كو چھپاتے تھے) چنانچہ خدا نے اس آيت ميں حضرت ابوطالب كو شرك سے منزہ ،نيز اپنے نبي(ص) اور مذكورہ تين ہستيوں كو خطاسے برى قرار ديا ہے (ما كان للنبى والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين و لوكانوا اولى قربي) يعنى نبى اور مومنين كيلئے روانہيں كہ وہ مشركين كيلئے طلب مغفرت كريں اگرچہ وہ ان كے قريبى رشتہ دارہى كيوں نہ ہوں_

پس جو بھى حضرت ابوطالب كو نعوذ بالله كافر سمجھے تو گويا اس نے نبي(ص) كو خطا كار ٹھہرايا حالانكہ خدانے آپ(ص) كے اقوال و افعال كو خطاسے منزہ قرار ديا ہے_ (4)

________________________________________

1_ امالى صدوق ص 550، الغدير ج 8 ص 388 از كتاب الحجة ص 24، 94، 115 _

2_ رجوع كريں الغدير ج 7 ص 388_390 از الفصول و المختارة ص 80، اكمال الدين ص 103 اور كتاب الحجة (ابن معد) از ابوالفرج اصفہاني_

3_ حضرت جعفر حبشہ گئے ہوئے تھے پس يا تو وہ مختصر مدت كيلئے وہاں سے لوٹنے كے بعد پھر واپس ہوئے تھے يا راوى نے اپنى طرف سے عمداً يا سہواً ايسى بات لكھ دى ہے_

4_ الغدير ج 7ص 399 از كتاب الحجة (ابن معد) ص 168_

201

ايمان ابوطالب (ع) كو چھپانے كى ضرورت كيا تھي؟

ہم جرا ت كے ساتھ يہ كہہ سكتے ہيں كہ ابوطالب(ع) كا اپنے ايمان كو مخفى ركھنا اسلام كى ايك شديد ضرورت تھى اور اس كى وجہ يہ تھى كہ دعوت اسلامى كو ايك ايسے بااثر فرد كى ضرورت تھى جو اس دعوت كيپشت پناہى اور اس كے علمبردار كى محافظت كرتا بشرطيكہ وہخود غير جانبدار ہوتا تاكہ اس كى بات ميں وزن ہو _يوں اسلامى دعوت اپنى حركت و كاركردگى كو غير مؤثر بنانے والے ايك بہت بڑے دباؤ كا سامنا كئے بغير اپنى راہ پر چل نكلتي_

ابن كثير وغيرہ نے كہا ہے اگر ابوطالب(ع) مسلمان ہوجاتے (ہم تو يہ كہتے ہيں كہ وہ مسلمان تھے ليكن اس حقيقت كو چھپاتے تھے) تو مشركين قريش كے پاس ان كى كوئي حيثيت نہ رہتى اور نہ ان كى بات ميں وزن ہوتا _نيز نہ ان پر آپ كى ہيبت باقى رہتى اور نہ وہ ان كا احترام ملحوظ ركھتے بلكہ ان كے خلاف ان ميں جسارت پيدا ہوتى اور اپنے دست و زبان سے ان كى مخالفت كرتے_ (1)

ابوطالب (ع) پر تہمت كيوں؟

شايد حضرت ابوطالب كا واحد جرم يہ ہو كہ وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے والد تھے_ درحقيقت اس قسم كى ناروا تہمتوں كا اصلى ہدف حضرت ابوطالب(ع) نہيں بلكہ ان كے بيٹے حضرت علي(ع) ہيں جوامويوں، زبيريوں اور دشمنان اسلام كى آنكھوں كا كانٹا تھے _ان لوگوں كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ حضرت على (ع) سے مربوط ہر كام ميں عيب نكاليں يہاں تك كہ نوبت ان كے بھائي جعفر اور ان كے والد ابوطالب(ع) تك بھى جا پہنچى _بلكہ ہم تو ديكھتے ہيں كہ ان كے حق ميں مختلف فرقوں كے نزديك صحيح سند كے ساتھ ثابت كوئي فضيلت ايسى نہيں جس كى نظير خلفاء ثلاثہ كيلئے بھى بيان نہ كى گئي ہو (البتہ ضعيف اسناد كے ساتھ) تمام تعريفيں اس خدا كيلئے ہيں اور برہان كامل بھى اس كى ہى ہے_

ہم يقين كے ساتھ كہتے ہيں كہ اگر ابوسفيان يا حضرت على (ع) كے ديگر دشمنوں كے آباء و اجداد ميں سے كسي

________________________________________

1_ البداية و النہاية ج 3 ص 41 نيز رجوع كريں السيرة النبوية (دحلان) ج 1 ص 46_

202

ايك نے بھى ابوطالب(ع) جيسى خدمات كا دسواں حصہ انجام ديا ہوتا تو اس كى خوب تعريفيں ہوتيں اور اسے زبردست خراج تحسين پيش كياجاتا _اس كى شان ميں احاديث كے ڈھير لگ جاتے_ نيز دنيوى و اخروى لحاظ سے اس كى كرامتوں اور شفاعتوں كا زبردست چرچاہوتا بلكہ ہر زمانے اور ہر مقام پر ان چيزوں ميں مسلسل اضافہ ہى ہوتا رہتا_

عجيب بات تو يہ ہے كہ معاويہ كا باپ ابوسفيان جس نے حضرت عثمان (كے خليفہ بننے كے بعد ان )كى محفل ميں يہ كہا: '' يہ حكومت تيم اور عدى سے ہوتے ہوئے اب تم تك آئي ہے اسے اپنے درميان گيند كى طرح لڑھكا تے رہو اور بنى اميہ كو اس حكومت كے ستون بناؤ ، كيونكہ يہ تو صرف حكومت كا كھيل ہے_ قسم ہے اس كى جس كى ابوسفيان قسم كھاتا ہے نہ جنت كى كوئي حقيقت ہے نہ جہنم كي''(1) وہ تو ان كى نظر ميں مؤمن متقى عادل اور معصوم ٹھہرا ليكن حضرت ابوطالب (بہ الفاظ ديگر حضرت علي(ع) كے والد) كافر و مشرك ٹھہرے اور جہنم كے ايك حوض ميں ان كا ٹھكانہ ہو جس كى آگ ان كے ٹخنوں تك پہنچے اور جس كى حرارت سے ان كا دماغ كھولنے لگے_ (نعوذ بالله من ذلك) آگے آگے ديكھئے ہوتا ہے كيا

ابولہب اور پيغمبر(ص) كى نصرت؟

مذكورہ بالا معروضات كے بعداس بات كى طرف اشارہ ضرورى ہے جس كا بعض لوگ اس مقام پر ذكر كرتے ہيں اور وہ يہ كہ ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد ابولہب نے پيغمبر(ص) كى مدد كرنے كيلئے اپنى آمادگى كا اعلان كيا _ قريش نے از راہ حيلہ ابولہب سے كہا كہ پيغمبر(ص) كہتا ہے كہ تمہارا باپ عبدالمطلب جہنمى ہے_ ابولہب نے پيغمبر(ص) سے سوال كيا تو آپ(ص) نے اسے جو جواب ديا وہ ان لوگوں كے قول كے مطابق تھا پس ابولہب نے آپ(ص) كى مدد سے ہاتھ كھينچ ليا پھر زندگى بھر آپ(ص) كى دشمنى اختيار كي_ (2)

________________________________________

1_ النزاع و التخاصم ص 20 عجيب بات يہ بھى ہے كہ معاويہ جس كے باپ كے نظريات او پر مذكور ہوچكے ہيں اور بيٹا يزيد جو يہ كہتا ہو كہ ''لعبت ہاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل'' بنى ہاشم نے حكومت كا كھيل كھيلا وگرنہ حقيقت ميں نہ تو كوئي خبر آئي ہے نبوت كى اور نہ ہى كوئي وحى اترى ہے _ يہ سب كے سب اور ان كے ماننے والے تو پكے مسلمان ليكن ابوطالب اورانہيں مسلمان ماننے والے ... ؟ از مترجم _

2_ بطور مثال رجوع كريں : البداية والنہاية ج3 ص 43 از ابن جوزى اور تاريخ الخميس ج1 ص 302_

203

ہميں يقين ہے كہ يہ واقعہ جھوٹا ہے اور اس كى وجوہات درج ذيل ہيں_

پہلى وجہ: يہ ہے كہ ابولہب كو پيغمبر(ص) كے ساتھ دس سالہ دشمنى كے دوران كيونكر علم نہ ہوا كہ پيغمبر(ص) اور اسلام كا نقطہ نظر حالت شرك ميں مرنے والے ہر شخص كے بارے ميں يہى ہے كہ وہ جہنمى ہوتا ہے؟ پھر وہ اتنى مد ت تك كس بنا پر پيغمبر(ص) كا مقابلہ كرتا رہا؟

نيز اس نے حضرت ابوطالب(ع) كى زندگى ميں حضوراكرم(ص) سے كيوں دشمنى كى اور ان كى وفات كے بعد آپ(ص) كى حمايت اور نصرت پر كيوں اتر آيا؟ وہ بتائيں كہ ابوطالب(ع) نے ابولہب كى روش كيوں نہيں اپنائي اورابولہب نے حضرت ابوطالب(ع) كى روش كيوں اختيار نہيں كي؟

دوسرى وجہ: ہم پہلے ہى بيان كرچكے كہ عبدالمطلب مشرك نہيں تھے بلكہ سچے مؤمن تھے_

يہ روايت كيوں گھڑى گئي؟

اس روايت كو جعل كرنے كى وجہ شايد يہ تأثر دينا ہو كہ حضرت ابوطالب كى حمايت خاندانى جذبے، نسلى تعصب يا بھتيجے كے ساتھ فطرى محبت كى بنا پر تھي_ ليكن يہاں يہ سوال اٹھتا ہے كہ اس سے قبل ابولہب كا خاندانى تعصب اور جذبہ كہاں تھا؟ يا بھتيجے كے ساتھ اس كى فطرى محبت كہاں گئي ہوئي تھي؟ خاص كر اس وقت جب قريش نے بنى ہاشم كا شعب ابوطالب ميں محاصرہ كرركھا تھا اور وہ بھوك كى وجہ سے قريب المرگ ہوگئے تھے؟

نيز اس كے بعد بھى اس كا قومى اور خاندانى جذبہ كہاں چلاگيا؟ ابولہب ہى تھا جو آنحضرت(ص) كو ستانے اور لوگوں كو آپ(ص) سے دور ركھنے كيلئے جگہ جگہ آپ(ص) كا تعاقب كرتا تھا _حضرت ابوطالب(ع) كى قربانيوں كے ذكر ميں ہم نے اس بارے ميں بعض عرائض پيش كئے تھے، لہذا ان كا اعادہ مناسب نہيں_

 -----------------------------------