آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زھد،جھاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ھیں دنیائے اسلام میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نھیں ھوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ھو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ھیں ، تمام مو رخین کا اس بات پر اتفاق ھے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نھیں ھے ھم ذیل میں آپ(ع) کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررھے ھیں :
تمام مورخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ آپ(ع) کی ولادت با سعادت خانہ کعبہ میں ھوئی۔ [1]آپ کے علاوہ کو ئی اور خانہ کعبہ میں نھیں پیدا ھوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ھے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ھے :
اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا
”آپ وہ بلند و بالا شخصیت ھیںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ھیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ھوئی ھے “۔
بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شھر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ھو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجا و ماویٰ پیدا ھوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی(ع) رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ھے۔
اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نھیں کیا جا سکتا۔
امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رھبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پھلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ھوئے ۔[2]
امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ھیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ھیں :
آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ھی نے سب سے پھلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ھونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ھیں :
”اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم ‘ ‘۔ [4]
”میں صدیق اکبر ھوں ابوبکر سے پھلے ایمان لایاھوں اور اس سے پھلے اسلام لایاھوں “۔
آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ(ع) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وصی ھیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ھوئے فرمایا : ”اِنَّ وَصِیّي،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ“۔[5]
”میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ھیں “۔
امام(ع) کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ھیں۔یہ لقب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی احادیث سے اخذ کیا گیا ھے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ھے کہ نبی نے حضرت علی(ع) کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا :”اِنّ ھٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وھٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَھٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَھٰذَا فَارُوْقُ ھٰذِہِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ“۔[6]
”یہ مجھ پر سب سے پھلے ایمان لائے ،یھی قیامت کے دن سب سے پھلے مجھ سے مصافحہ کریں گے ،یھی صدیق اکبر ھیں ،یہ فاروق ھیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ھیں “۔
لغت میں یعسوب الدین شھد کی مکھیوں کے نَر کو کھا جاتا ھے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کےلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے القاب میں سے ھے ،نبی اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو یہ لقب دیتے ھوئے فرمایا: ھٰذَا(واشارَالی الامام )یَعْسُوْبُ المُومِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ“۔[7]
”یہ (امام(ع) کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا )مو منین کے یعسوب ھیں اور مال ظالموں کا یعسوب ھے “۔
آپ کا سب سے مشھور لقب امیر المو منین ھے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ھے روایت ھے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کیا ھے کہ آپ نے فرمایا ھے :” یاانس، ”اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً “اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ“پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:” اے انس اس دروازے سے جو بھی تمھارے پاس سب سے پھلے آئے وہ امیر المو منین ھے ، مسلمانوں کا سردار ھے ،قیامت کے دن چمکتے ھوئے چھرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ھے “ ، انس کا کھنا ھے :میں یہ فکر کررھاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ھو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی(ع) تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس ) نے عرض کیا : علی(ع)۔ آپ نے مسکراتے ھوئے کھڑے ھوکر علی(ع) سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چھرے کا پسینہ اپنے چھرے کے پسینہ سے ملایااور علی(ع) کے چھرے پر آئے ھوئے پسینہ کو اپنے چھرے پر ملا اس وقت علی(ع) نے فرمایا: ”یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پھلے کبھی ایسا کرتے نھیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:”میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پھنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رھنما ئی کرنے والے ھو “[8]
آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ھے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ھدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”میںاور علی(ع)اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ھیں“۔[9]
یہ آپ(ع) کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ھم نے آپ(ع) کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پھلے حصہ میںبیان کئے ھیںجیسا کہ ھم نے آپ(ع) کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ھے۔
حضرت امیر المو منین(ع) نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ھر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طھارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔
امام(ع) کے عھد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رھے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ھے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب(ع) کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نھیں تھے تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کےلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب(ع) کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ھاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ(ع) (علی(ع) ) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ھی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گھرائی میںپیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ھی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ھی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔
مو لائے کا ئنات(ع)نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گھری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :”تم جانتے ھی ھو کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ھی تھا کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پھلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پھلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ھے، آپ ھر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے “۔
آپ نے نبی اور امام(ع) کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاھدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی(ع) کی مھربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی(ع) کی لطف و مھربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پائی؟
جب رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاھلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ھوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کےلئے بھرپور کو شش کی اور اس کےلئے ھرممکنہ طریقہ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام (ع) ھی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رھے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ھوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔
تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ھیں کہ امام ھی سب سے پھلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ھی نے نبی کی دعوت پر لبیک کھا،اور آپ ھی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پھلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ھوں: ”لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ “۔ ”میں نے ھی اس امت میں سب سے پھلے اللہ کی عبادت کی ھے “۔[10]
اس بات پر تمام راوی متفق ھیں کہ امیر المو منین(ع) دور جا ھلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رھے ھیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نھیں سکا،آپ ھر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نھیں ھوئے ۔
مقریزی کا کھنا ھے :(علی بن ابی طالب(ع) ھاشمی نے ھر گز شرک نھیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔[11]
قابل ذکر بات یہ ھے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی(ع) اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ھیں :”وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُھُمَا“۔[12]”اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نھیں ھوا تھا “۔
ابن اسحاق کا کھنا ھے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پھلے علی ایمان لائے “۔[13]
حضرت علی(ع) کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔ [14]مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ آپ سب سے پھلے اسلام لائے ،جو آپ کےلئے بڑے ھی شرف اور فخر کی بات ھے ۔
آپ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:”کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن الماءِ الباردِعلیَ الظّمْا۔۔۔“۔[15]
”خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے “۔
حضرت علی(ع) کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کھا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ھر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یھاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔[16]
نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ھے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ھم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب” حیاة الامام امیر المومنین(ع)“میںذکر کرچکے ھیں ۔
حضرت علی(ع) کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکھا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لھب شامل تھے ،جب وہ حاضر ھوئے تو امام(ع) نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رھااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔
جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے کھڑے ھوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لھب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کھنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ، اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ھو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سب کو بلایا، جب سب جمع ھوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے یوں خطبہ دیا :”اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاھدہ نھیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ھو ،میں تمھارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ھوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ھے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ھوگا؟“۔
پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ھوں ،اس وقت امام(ع) کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ(ع) نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کھا :”اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ(ع) کی مدد کروں گا “۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) کے کندھے پر ھاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ھو کر فرمایا : ” بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو “۔
یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ھونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ھوئے ابوطالب(ع) سے کھا:”تمھیں حکم دیا گیا ھے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو “۔[17]
علماء کا اتفاق ھے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین(ع) کی امامت پر دلالت کر تی ھے ،آپ(ع) ھی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ھیں ،اور ھم نے یہ حدیث اپنی کتاب”حیاة الامام امیرالمو منین(ع) “کے پھلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ھے۔
قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)
کو وھاں رھنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ھو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ھو سکے ، اور وہ آپ کے اذھان کو جا ھلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ھاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاھدے پر دستخط کئے :
۱۔وہ ھاشمیوں سے شادی بیاہ نھیں کریں گے ۔
۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ھاشمی عورت سے شادی نھیں کر ے گا ۔
۳۔وہ ھاشمیوں سے خرید و فروخت نھیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مھر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔
پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ھاشمی جن میں سر فھرست حضرت علی(ع) تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وھیں رھے اور اس سے باھر نھیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رھے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یھاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شعب میں اپنے اھل بیت(ع) کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رھے ، یھاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاھدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پھنچا ئی کہ عھد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ھے وہ جلدی سے عھد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ھی پایا جیسا کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ھوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اھل بیت(ع)کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے شعب سے باھر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نھیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی(ع) اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یھی لوگ آپ(ع) کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ(ع) کی ھمت افزائی کر رھے تھے :
اذھب بنيّ فماعلیک غضاضةُ
اذھب وقرّ بذاک منک عیونا
واللّٰہ لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِھِمْ
حتی اُوسد فی التراب دفینا
وَدعوتني وعلِمتُ انکّ ناصِحِي
ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا
وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ
مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا
فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ
وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا[18]
”بیٹے جاؤ تمھیں کو ئی پریشانی نھیں ھے ،جاؤ اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔
خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نھیں پھنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جاؤں ۔
تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ھو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ھو ،تم نے سچ کھا اور پھلے بھی تم امانتدار تھے ۔
مجھے یقین ھو گیا ھے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ھے۔
لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ھو ،تم خوش رھواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو “۔
یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پھلے مجاھد ھونے پر دلالت کر تے ھیں ،اور ان کے ھاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نھیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جھنم ھے ،حالانکہ ان کو یہ علم ھے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جھنم کی تقسیم کرنے والا ھے ۔
بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ھیں ،اگر آپ(ع) ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ھوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ھی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔
یہ امام کی ایسی خو بی ھے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ھوتا ھے یعنی آپ(ع) نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ھے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاھے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پھلے فدا ئی تھے۔
جب قریش نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رھیں ،امام(ع) نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نھیں دیکھا تھا، نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ھو ئی اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اُن کے منحوس چھروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ھوئے پھینکی:”شاھت الوجوہ ذُلّاً“ ، ”رسوائی کی بنا پر چھرے بگڑ جا ئیں ‘ ‘، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:
<وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِھِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاھُمْ فَھُمْ لَایُبْصِرُوْنَ>۔[19]
” اور ھم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ھے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ھے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نھیں رہ گئے ھیں “۔
حضرت علی(ع) کا نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بستر پر رات گذارنا آپ(ع) کے جھاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ھے جس کا جواب نھیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ(ع) کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :
<وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ>۔[20]
”لوگوں میں کچھ ایسے بھی ھیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰھی خرید لیتے ھیں “۔
اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اھمیت ھے جس تک کو ئی بھی مسلمان نھیں پھنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ھاشم کعبی امام(ع) کی یوں مدح سرا ئی کرتے ھیں :
وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ
بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا
فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِديْ
تُھْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً
فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُوَادِ کَاَنَّمَا
یُھْدِي الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً
فَکَفَیْتَ لَیْلَتَہُ وَقُمْتَ مُعَارِضا
جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا
رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالھُدیٰ
اَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالھُدیٰ مَرْصُوداً؟
”(اے علی(ع))حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ھیں ۔
چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ(ع) کو گھیرے ھوئے تھے ۔
پھر بھی آپ(ع) نھایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ(ع) کے گوش مبارک میں نغمہ معنویت گونج رھا تھا ۔
آپ(ع) نے اس شب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پھاڑاور بے مثال شھسوار کی مانند بیدار ھوئے ۔
انھوں نے مخزن ھدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نھیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ھدایت ان کے انتظار میں تھا“۔
امام(ع) نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔
جب صبح نمودار ھو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی(ع) ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ھوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی(ع) کو دیکھا تو ان کے ھوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م(ع) سے کھنے لگے :محمد کھا ں ھیں ؟
امام(ع) نے ان کے جواب میں فرمایا:”جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْہِ؟“
”کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟“۔
وہ بہت ھی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کے ھاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ھمت کا محل تعمیر کرنے کےلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ھی تیز نگاھوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نھیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ھوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔
جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی(ع) نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ(ع) ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ(ع) وھاں کچھ دیر ٹھھر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ھونے کےلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ(ع) کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ(ع) کا راستہ روکنا چاھا ،لیکن آپ(ع) نے بڑے عزم وھمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔
امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پھنچے ،آپ(ع) صرف رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پھنچ گئے ،ایک قول یہ ھے :آپ(ع) نے مدینہ میں داخل ھونے سے پھلے مسجدقبا میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ملاقات کی ، نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ(ع) کی آمد سے بہت خوش ھوئے کیونکہ آپ(ع) کی ھر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس پھنچ گئے تھے ۔
[1] مروج الذھب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مھمہ مولف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد )، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ھوا ھے کہ :”متواتر احادیث میں آیا ھے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ھوئے “۔
[2] حیاةالامام امیر المو منین(ع)،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔
[3] تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔
[4] معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔
[5] کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
[6] مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔
[7] مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔
[8] حلیة الاولیاء، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔
[9] کنوز الحقائق ”المناوی“،صفحہ ۴۳۔
[10] صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔
[11] امتاع الاسماء، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔
[12] حیاةالامام امیر المومنین(ع)،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔
[13] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔
[14] صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔
[15] خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔
[16] تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔
[17] تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔
[18] حیاةالامام امیر المو منین(ع)،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔
[19] سورئہ یس، آیت ۹۔
[20] سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔