حضرت علی(علیه السلام) کی وصیت قرآن کے متعلق

امیر المومنین حضرت علی(علیه السلام) کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ھونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ھونے کی خبر دی ھے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ھیں: ”فَکُونُوا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِہِ“[1]قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ھو جاوٴ، ”وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُمْ“ قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رھنما ھے جو خدا کی طرف تمھاری رھنمائی کرتا ھے۔ اس الٰھی رھنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ھے ایمان لاوٴ۔

وَاسْتَنْصِحُوہُ عَلٰی اٴَنفُسِکُمْ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ھے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواھانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ھے جو ھرگز تم سے خیانت نھیں کرتا ھے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ھدایت کرتا ھے۔

اس بنا پر حضرت علی(علیه السلام) مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصیت فرماتے ھیں کہ قرآن کو اپنا رھنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ <إِنَّ ہٰذَا الْقُرآنَ یَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ اٴَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُوٴمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًا کَبِیراً>[2]

”بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ھدایت کرتا ھے جو بالکل سیدھا ھے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ھے جو نیک اعمال بجالاتے ھیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ھے“۔

جو نکتہ یھاں پر قابل تاکید ھے، یہ ھے کہ اس آیہٴ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ھے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ھو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواھشات سے پاک و صاف نہ کرے ھر لمحہ ممکن ھے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ھو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواھشات سے میل کھاتے ھوں ۔

واضح ھے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواھشات اور حیوانی میلانات کے موافق نھیںھیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواھشات رکھتا ھے اور وہ یہ چاہتا ھے کہ قرآن بھی اس کی خواھش کے مطابق ھو، اس بنا پر فطری بات ھے کہ جھاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواھشات کے برخلاف بولے گا انسان اس سے ذرا سا بھی خوش نہ ھوگا اور جھاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواھشات کے موافق ھوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔

البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ھی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاھر ھوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ھے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پھلے، انسان اپنے ذھن کو ھر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواھشات اور ھوا و ھوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ھے اور نھایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰھی معارف کو قبول کرتا ھے۔

تفسیر بالرائے

واضح ھے کہ نفسانی خواھشات سے ھاتھ اٹھانا او رالٰھی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ھونا نہ صرف ایک آسان کام نھیں ھے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نھیں ھیں ان کے لئے نفسانی خواھشات سے چشم پوشی کرنا نھایت ھی مشکل کام ھے، اسی وجہ سے اسے جھاد اکبر بھی کھا جاتا ھے۔

معلوم ھوتا ھے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یھیں سے پیدا ھوتا ھے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ھونے کے سبب اپنی نفسانی خواھشات اور ھوا و ھوس کو چھوڑ نھیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ھے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ھے کہ ایسے انسان کے فکر و ذھن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔

خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ھو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ھوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ھے اس لئے کہ شیطان جانتا ھے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ھے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ھو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ھیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پھلے فتویٰ صادر کرتے ھیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مھارت رکھتے ھوں ، اظھار نظر کرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ قرآن بھی ھمارا ھی نظریہ رکھتا ھے۔

واضح سی بات ھے کہ ایسے انسان اپنے نفسانی خواھشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاھرمبھم سے مبھم آیات سے تمسک کرتے ھیں۔

بدیھی ھے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نھیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فھمی اور حق سے منحرف ھونے کا راستہ بھی کھل جاتا ھے۔

قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فھم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ھے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہ اور برتاوٴ سمجھا جاتا ھے۔

قرآن دین اور آیات الٰھی کے ساتھ اس طرح کے برتاوٴ کو استھزاء (مذاق) سمجھتا ھے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ھے:

<وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَةَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ وَ مَااٴَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَةِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْا اٴَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمٍ>[3]

یعنی ”خبردار! آیات الٰھی کو مذاق نہ بناوٴ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس نے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ھے اور اللہ سے ڈرتے رھو اور یاد رکھو! کہ وہ ھر شے کا جاننے والا ھے“۔

جیسا کہ اس کے پھلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ھدایت سے اب ھوتے ھیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ھوں ، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ھو جاتے ھیں کہ اپنی نفسانی خواھشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیھیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بھرہ ھیں۔

 یھاں پر مناسب ھے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:

قال رسول اللّٰہ (ص) : قال اللّٰہ جلّ جلالہ: مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَاٴیِہِ کَلامِی“[4] پیغمبر (ص)، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ھیں کہ خدا فرماتا ھے: وہ شخص ھرگز مجھ پر ایمان نھیں لایا ھے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ھے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر (ص) سے نقل ھوا ھے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: ”مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَاٴیِہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰہِ الکَذِبَ“[5]  جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ھے۔ پیغمبر (ص) کا یہ ارشاد اس وجہ سے ھے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ھو جائے کہ آیات الٰھی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰھی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ھے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰھی کی اس طرح کی تفسیر و تفھیم اتنی مذموم اور خطرناک ھے اور ایسی ضلالت و گمراھی کا باعث ھوتی ھے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاھوں گے۔

حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ھیں : ”مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَاٴیِہِ فَلْیَتَبَوَّاٴْ مَقْعَدہ مِنَ النَّار“[6]  جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جھنم ھے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رھنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے پرھیز کرنے اور ضلالت و گمراھی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ھے کہ نفسانی خواھشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ھے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نھیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرھیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ھو جائیں۔

حضرت علی(علیه السلام) کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرھیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ھے کہ انسان ایسے خیالات اور خواھشات رکھتا ھے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نھیں ھوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ھے کہ قرآن بھی اس کی خواھش اور نظر کے موافق ھو، یھاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ھے کہ وہ خواھشات و خیالات اس کی قرآن فھمی میں اثر انداز ھوں ۔ چونکہ ایساخطرہ ھر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ھے اور شیطان بھی ھر لمحہ گھات میں لگا ھوا ھے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فھم دین کے دعویدار ھیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ھے کہ حضرت علی(علیه السلام) کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی(علیه السلام) کج فھمی سے محفوظ رھنے اوراحتمالی انحراف سے پرھیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ھیں:

”وَاتَّھِمُوا عَلَیہِ آرَائَکُم“[7]  جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاھو تو اپنے

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواھشات کو چھوڑ دو، اور حضرت (ع) کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متھم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ھے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ھوتا ھے کہ قرآن فھمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نھایت لازم ھے، اس لئے کہ حضرت (ع) فرماتے ھیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذھنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نھیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ھے وھی حق ھے، قرآن سے روبرو ھونا چاہئے پھر کھیں قرآن کی تفھیم و تفسیر کے لئے آمادہ ھونا چاہئے۔

 ”وَاسْتَغِشُّوا فِیہِ اَھوَائَکُمْ“ اپنے خواھشات او رھوا و ھوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ھمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ھوگے۔

اس بنا پر دین کا جوھر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ھونا ھے، اقتضا کرتا ھے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ھو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ھوگی، واضح ھے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰھی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ھوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ھیں:

۱۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ھے۔

۲۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواھشات کواصل قرار دیتا ھے اور کوشش کرتا ھے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواھشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ”ھیومن ازم“ [8](Humanism) کھا جاتا ھے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ھوتا ھے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ھے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ھے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاھر ھو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ھو اور دوسری وہ فکر و فھم جو کہ نفسانی خواھشات سے متاثر ھو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرھیز کیا جائے اور قرآن جیسا ھے اسے ویسا ھی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی(علیه السلام) کی وصیت کی توضیح کرچکے ھیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرھیز کرنا اور نفسانی خواھشات سے ذھن کو خالی رکھنا لازم ھے۔ اس نظریئے میں حضرت (ع) کے کلام کے مخاطب دونوں گروھوں کو ھم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ھونے سے پرھیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ھونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواھش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رھنے کی نصیحت کر رھے تھے۔

جب ھم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گھرائی سے کرتے ھیں تو ھمیں پھلے سے کھیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ھوتے ھیں، ھمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروھوں میں تقسیم ھونے کے متعلق حضرت علی(علیه السلام) کے کلام کا اعجاز معلوم ھوتا ھے اور دین و احکام الٰھی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت (ع) کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ھوتے ھیں۔

امیر المومنین حضرت علی(علیه السلام) دو اھم خصوصیات کو بیان کرتے ھیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروھوں میں تقسیم کرتے ھیں اور ھر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ھیں کہ جن کی طرف ذیل میں ھم اشارہ کر رھے ھیں:

۱ -: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ھے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواھشات سے مقابلہ کرتے ھیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواھشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ھیں۔

فطری بات ھے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ھیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ھیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔

حضرت علی(علیه السلام) اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ھیں:

”إِنَّ مِنْ اٴَحَبِّ عِبَادِ اللّٰہِ عَبداً اٴَعَانَہُ اللّٰہُ عَلٰی نَفْسِہِ“[9]  بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ھے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواھشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ھے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ھیں: ”قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِہِ فَہُوَ قَائِدُہُ وَ اِمَامُہُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُہُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُہُ“[10]  یہ گروہ جو  مومنین و متقین کا گروہ ھے وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ھے لہٰذا وھی اس کی قائد اور پیشوا ھے ۔ جھاں قرآن کا سامان اترتاھے وھیں وہ لوگ بھی وارد ھوجاتے ھیں اور جھاںاس کی منزل ھوتی ھے وھیں وہ بھی پڑاوٴ ڈال دیتے ھیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ھے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ھے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ھے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ھیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ھے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رھنے کا باعث سمجھتے ھیں۔

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نھیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوں اور الٰھی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ھیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ھیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ھیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وھی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

۲  -:پھلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ھیں کہ قرآن یا ھر دینی متن یا ھر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذھنیتوں کی تابع ھے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ھے، یعنی قرآن یا ھر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ھے اور اس کا کوئی مقصد نھیں ھے، لیکن چونکہ ھر انسان کچھ خاص ذھنیتوں کا حامل ھوتا ھے یہ ذھنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ھیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ھے تووہ اپنی ذھنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ھے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نھیں کیا ھے بلکہ یہ انسان کی فھم اور سمجھ ھے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ھے۔

واضح ھے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ھر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ھیں اور یہ انسان کی ذھنیتیں ھیں جو ان الفاظ کو معنی و مفھوم بخشتی ھیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاھر ھوتا ھے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نھیں رکھتا بلکہ ھر شخص اپنی ذھنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ھے۔

واضح سی بات ھے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاھری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ھے لیکن حقیقت میں دین اور اھل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ھے۔

---------------------------------------------------------------------



[1] نھج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵۔

[2] سورہ اسراء، آیت ۹۔

[3] سورہ بقرہ، آیت ۲۳۱۔

[4] توحید صدوقۺ ، ص ۶۸۔

[5] بحار الانوار، ج۳۶، ص ۲۲۷ ۔

[6] عوالی اللعالی، ج ۴، ص ۱۰۴ ۔

[7] نھج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵ ۔

[8] یہ ایسا نظریہ ھے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ھوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ھے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ھومانسٹ کھے جاتے ھیں جن میں سے اکثر مذھب پروٹسٹ کی طرف مائل ھوگئے۔

[9] نھج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

[10] نھج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔