دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ھے لغت میں امام کے معنی رھبر ا ور پیشوا کے ھیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رھبری مراد ھے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ھے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دھی ھے۔
یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ھونے کا مقصد ایک ھے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وھی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ھے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ھے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ھو اور صاحب عصمت ھو نیز خطا ونسیا ن سے دور ھو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پھچاننا وحی کے بغیر ناممکن ھے اسی لئے شیعہ معتقد ھیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰھی منصب ھے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ھو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نھیں ھے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ھے اور ھماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ھے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔
شیعوںکاکھنا ھے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی جانشین ھیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یھی بنیادی اختلاف ھے ۔
ھمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ھے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ھم ا س بات کے معتقد ھیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چھرہ مذھب شیعہ میں پایا جاتا ھے اورصرف شیعہ ھیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میںپھچنوا سکتے ھیں لہٰذا ھمیںاس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔
امامت عامہ
دلیل لطف : شیعہ معتقد ھیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ھے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رھبر کے نہ رھیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ھونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ھیں وھی دلیلیںاس بات کی متقاضی ھیں کہ امام کا ھو نابھی ضروری ھے تاکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رھبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نھیں ھے کہ وہ مھربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بغیر کسی ھادی اوررھبر کے چھو ڑدے ۔
ھشام کا شمار امام جعفر صادقں کے شاگردو ںمیں ھے : کھتے ھیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وھاں کی مسجد میں داخل ھوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اھل سنت) وھاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میںلئے ھوئے سوال وجواب کر رھے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکھا :میں اس شھر کانھیں ھوں کیا اجازت ھے کہ میں بھی سوال کروں ؟کھا جو کچھ پوچھنا ھو پوچھو: میںنے کھا آپ کے پاس آنکھ ھے ؟ اس نے کھا دیکھ نھیں رھے ھو یہ بھی کوئی سوال ھے۔ ؟
میں نے کھا میرے سوالات کچھ ایسے ھی ھیں کھا اچھا پوچھو ھر چند کہ یہ بیکارھے انھو ں نے کھا جی ھاں آنکھ ھے ،میں نے کھا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ھیں؟ کھا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ھو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ھو ں ، میںنے کھا زبان ھے ؟کھا جی ھا ں ، میں نے کھااس سے کیا کرتے ھیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاھوں میں نے کھا ناک ھے ؟کھنے لگے جی ھا ں میں نے کھا اس سے کیا کرتے ھیں؟ کھا خوشبو سونگھتا ھو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ھوں میں نے کھا کان بھی ھے ؟جواب دیا جی ھا ں ،میں نے کھا اس سے کیا کرتے ھیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ھو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ھو ں، میں نے کھا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ھے ؟کھا جی ھا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ھیں؟جواب دیا اگر ھما رے اعضاء وجوارح مشکوک ھو جاتے ھیں تواس سے شک کو دور کرتا ھو ں ۔
قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ھدایت کرنا ھے ،ھشام نے کھا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کھا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ھدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کھنا صحیح ھے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رھبر کے نھیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بغیر ھادی ورھبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ھو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔
قرآن میں بھت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ھیں< ھَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الاٴَرضِ جَمِیعاً>وہ خدا وہ ھے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ھی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔ [1] <سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّھارَ والشَّمسَ وَالقَمَر>”اور اسی نے تمھارے لئے رات و دن اورآفتاب وماھتاب سب کو مسخر کردیا “۔[2]
چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ھوئی ھے اور انسان عبادت اور خدا تک پھونچنے کے لئے خلق ھو اھے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پھونچ سکے، اس
مقصد کی رسائی کے لئے رھبر کی ضرورت ھے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رھبر وھادی ھے ۔
مھربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :
<لَقَد جَا ءَ کُم رَسُولُ مِن اٴَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیہ مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُوٴمنینَ رَوٴُفُ رَحِیمُ > یقینا تمھا رے پاس وہ پیغمبر آیا ھے جو تمھیں میں سے ھے اور اس پر تمھاری ھر مصیبت شاق ھو تی ھے وہ تمھاری ھدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ھے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مھربان ۔[3]
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے چاھے مقصد جنگ ھو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راھنمائی کر سکے آپ شھروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مھربان ھوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میںکبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رھبر کے نھیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نھیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رھبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساھلی وسھل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مھار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کھتی ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاھے مادی ھو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر دیا ھو اور اس نے سب سے اھم مسئلہ یعنی رھبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ھو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاھو!۔
عقل وسنت نیزقرآن کی نظر میں عصمت امامت کے لئے بنیادی شرط ھے اورغیر معصوم کبھی اس عھدہ کا مستحق قرار نھیں پاسکتا، نبوت کی بحث میں جن دلیلوں کا ذکر انبیاء کی عصمت کے لئے لازم ھونے کے طور پر پیش کیا گیاھے ان کو ملاحظہ فرمائیں۔
<وَاِذابتلیٰ اِبراھیمَ رَبُّہُ بِکلماتٍ فَاٴَتَمَّھُنَّ قالَ اِنِّی جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنالُ عَھدیِ الظَّالَمِینَ>اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کاامتحان لیا اور انھو ںنے پوراکردیا تو اس نے کھا کہ ھم تم کو لوگوں کاامام اورقائد بنا رھے ھیں انھوںنے عرض کیا کہ کیا یہ عھدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشاد ھو اکہ یہ عھدئہ امامت ظالمین تک نھیں پھونچے گا ۔[4]
ظالم اور ستمگر کون ھے ؟
اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ اس بلند مقام کاحقدار کو ن ھے او ر کون نھیں ھے یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن نے کسے ظالم کھا ھے ۔؟
کیونکہ خدانے فرمایاھے :کہ میرا یہ عھدہ ظالمین کو نھیں مل سکتا ۔قرآن نے تین طرح کے لوگو ں کو ظالم شمار کیاھے ۔
۱۔ جولوگ خدا کا شریک مانیں <یَا بُنَيَّ لَاتُشرِک باللَّہِ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمُ عَظِیمُ> لقمان نے اپنے بیٹے سے کھا:بیٹا خبردار کسی کو خد ا کاشریک نہ بنانا کیونکہ شرک بھت بڑا ظلم ھے۔ [5]
۲۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر ظلم کرنا:<اِنَّما السَّبیلُ عَلیٰ الَّذینَ یَظلِمُونَ النَّاسَ وَیَبغُونَ فِی الاٴَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ اٴُولئِک لَھُم عَذَابُ اٴلِیمُ >الزام ان لوگوں پر ھے جولوگوں پر ظلم کرتے ھیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلا تے ھیں انھیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ھے۔ [6]
۳۔ اپنے نفس پر ظلم کرنا:<فَمِنھُم ظَالمُ لِنَفسِہِ وَمِنھُم مُقتَصِدُ وَمِنھُم سَابِقُ بِالخَیراتِ> ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ھیں اور بعض اعتدال پسند ھیں اور بعض خداکی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ھیں ۔[7]
انسان کو کمال تک پھنچنے اور سعادت مند ھو نے کے لئے پیدا کیا گیاھے، اب جس نے بھی اس راستہ سے روگردانی کی او رخدا ئی حد کو پار کیا وہ ظالم ھے <وَمَنْ یَتعَدَّ حُدُودَاللَّہِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَہُ>جس نے بھی خدا کے حکم سے روگردانی کی، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ [8]
قرآن میں ان تینوں پر ظلم کااطلاق ھوتاھے لیکن حقیقت میں پھلی اوردوسری قسم کے ظلم کااطلاق بھی اپنے نفس ھی پر ھوتاھے ۔
نتیجہ :چار طرح کے لوگ ھیں
۱۔ جوابتداء زندگی سے لے کر آخر عمر تک گناہ اور معصیت کے مرتکب ھوتے رھے ۔
۲۔ جنھو ںنے ابتداء میں گناہ کیا،لیکن آخری وقت میں توبہ کر لیا اورپھر گناہ نھیں کرتے ۔
۳ کچھ ایسے ھیں جو ابتدا میں گناہ نھیں کرتے لیکن آخری عمر میں گناہ کرتے ھیں۔
۴۔ وہ لوگ جنھوں نے ابتداء سے آخر عمر تک کوئی گناہ نھیں کیا۔
قرآ ن کی رو سے پھلے تین قسم کے لوگ مقام امامت کے ھرگز حقدار نھیں ھوسکتے ،کیو نکہ ظالمین میںسے ھیں اور خدا نے حضرت ابراھیم سے فرمایاکہ ظالم اس عھدہ کا حقدار نھیں بن سکتا، لہٰذا مذکورہ آیة سے یہ نتیجہ نکلاکہ امام او ررھبر کو معصوم ھونا چاہئے اور ھر قسم کے گناہ او رخطا سے پاک ھو اگر ان تمام واضح حدیثوں کو جو رسول اسلام سے امام علی(علیہ السلام) اور گیارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں ھیں، یکسر نظر اندا ز کر دیا جائے، تب بھی قرآن کی رو سے مسند خلا فت کے دعویدار افراد خلا فت کے مستحق او رپیغمبر کی جانشینی کے قابل بالکل نھیں تھے کیو نکہ تاریخ گواہ ھے کہ یہ ظالم کے حقیقی مصداق تھے اور خدا نے فرمایا ھے کہ ظالموں کو یہ عھدہ نھیں مل سکتا اب فیصلہ آپ خو د کریں!
۱۔ وہ لوگ جو ابتداء عمر سے ھی کافر تھے ۔
۲۔ وہ لوگ جنھوں نے بشریت پر بالخصوص حضرت علی (علیہ السلام) وفاطمہ زھرا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ظلم کیا ۔
۳۔وہ لوگ جنھو ںنے خو د اعتراف کیا کہ میں نے احکام الٰھی کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر ظلم کیا، کیا ایسے لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اور جانشین بن سکتے ھیں۔ ؟
امام کو چاہئے کہ وہ ان تمام احکام وقوانین کوجانتا ھو جولوگوں کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کے لئے ضروری ھیں یعنی امام کا علم اھل زمین کے تمام لوگو ں سے زیادہ ھو، تاکہ وہ رھبری کا حقدار بن سکے وہ تمام دلیلیں جو امام کی ضرورت کے لئے ھم نے بیان کی ھیں، وھی یھاں بھی امام کے افضل واعلم ھونے پر دلالت کر تی ھیں، قرآن نے اس کی طرف اس طرح اشارہ کیا ھے :<اٴَفَمَنْ یَھدِی اِلیٰ الحَقِّ اٴَحَقُ اٴنْ یُتَّبَعَ اٴمَنَ لَایَھدِّیِ اِلَّا اٴنْ یُھدیٰ فَما لَکُمْ کَیفَ تَحکُمُونَ>او رجو حق کی ھدایت کرتا ھے وہ واقعا قابل اتباع ھے یا جو ھدایت کرنے کے قابل بھی نھیں ھے مگر یہ کہ خود اس کی ھدایت کی جائے آخر تمھیں کیا ھوگیاھے اورتم کیسے فیصلے کر رھے ھو۔ [9]
جب ھم نے امام کے صفات اور کمالات کوپھچان لیاتو اب یہ دیکھنا ھے کہ
ایسے امام کو کس طریقہ سے معین ھونا چاہئے۔
آج کل کی دنیا میں ذمہ دار اور عھدہ دار کے چننے کابھترین طریقہ انتخا بات ھے( چناؤ کے ذریعہ ) البتہ یہ چناوٴ را ہ حل تو ھوسکتا ھے لیکن ھمیشہ راہ حق نھیںھوتا کیونکہ چناؤ واقعیت کو تبدیل نھیں کر سکتا نہ حق کو باطل اور نہ باطل کو حق بنا سکتا ھے،ھر چندکہ عملی میدان میں اکثریت کو مد نظر رکھا جاتاھے لیکن یہ چنے ھو ئے فرد کی حقانیت کی دلیل نھیں ھے ،تاریخ گواہ ھے کہ انتخابات میں بعض لوگ اکثریت کے ذریعہ چنے گئے پھر تھوڑے یازیادہ دن کے بعدیہ پتہ چل جاتا ھے کہ یہ انتخاب اور چناؤسے آنے والا شخص غلط تھا حقیقت یہ ھے کہ ھم علم غیب یاآئندہ کی بات نھیں جانتے لوگوں کے باطن کے سلسلہ میں ھم کس طرح حتمی فیصلہ یا صحیح فیصلہ کر سکتے ھیں۔؟
لہٰذا کبھی بھی اکثریت حق کی دلیل اور اقلیت باطل کی دلیل نھیں بن سکتی دوسری طرف قرآن نے تقریبا ً اسی مقامات پر اکثریت کی مذمت کی ھے اور سورہ انعام کی آیة ۱۱۶ میں ارشاد ھوتا ھے:<وَاٴنْ تُطِع اٴَکثَرمَنْ فیِ الاٴرضِ یُضلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللَّہِ اِن یَتَّبِعُونَ اِلاَّالظَّنَّ وَاِن ھُم اِلَّایَخرصُوُنَ>اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کریں گے تویہ راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ھیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ھیں۔
اس سے ھٹ کر امامت اوررھبری کاکام فقط دین اور سماجی زندگی کو چلانے کا نام نھیں ھے بلکہ امام دین کا محافظ اور دین ودنیا میںلوگوں کی حفاظت کرنے والا ھے لہٰذا ضروری ھے کہ وہ ھرگز گناہ وخطا سے معصوم ھواور تمام لوگوں میں افضل واعلم ھو اور ایسے شخص کو لوگ نھیں چن سکتے کیونکہ لوگوں کو کیا معلوم کہ کو ن شخص صاحب عصمت اور علوم الٰھی کاجاننے والا اوردوسری فضیلتوں کامالک ھے تاکہ اسے چنا جائے چونکہ صرف خدا انسان کے باطن اور مستقبل سے باخبر ھے لہٰذا اس کو چاہئے کہ بھترین شخص کو اس مقام کے لئے چنے اور اسے اس کی شایان شان کمال سے نواز کر لوگوں کے سامنے پھچنوائے ۔
رسول کے بعد امامت وپیشوای یعنی کار رسالت کوانجام دینا،امام اوررسول میںبس فرق یہ ھے کہ رسول بانی شریعت اور صاحب کتاب ھوتاھے اور امام اس کے جانشین کی حیثیت سے محا فظ شریعت اور اصول دین وفروع دین کابیا ن کرنے والا اورنبوت کی تمام ذمہ داریوں کونبھانے والاھوتا ھے جس طرح نبی کاانتخاب خدا کے ھاتھ میں ھے اسی طرح امام کاانتخاب بھی خدا کی جانب سے ھوناچاہئے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیة ۱۲۴ میںھے کہ امامت عھدخداوندی ھے اورخدا کاعھدہ انتخاب اور چناؤ سے معین نھیں ھوسکتا کیونکہ چناؤ اورشوری لوگوں سے مربوط ھے۔
جن دوآیتوں میںمشورت کا ذکر کیاھے وھاں لفظ امر آیا ھے <وَاَٴمرُھُم شُوریٰ بَینَھم ><وشَاورْھُم فیِ الاٴَمرِ> ان دو آیتوں میں جومشورت کے لئے کھاگیاھے وہ معاشرتی امور لوگو ں کے لئے ھے اور یہ خدا کے عھدوپیمان میں شامل نھیں ھو گا سورہ قصص کی ۶۸ آیة میں ارشاد ھوتا ھے<و َرَبُّک یَخلُقُ مَا یَشاءُ وَ یَختَارُ مَا کَانَ لَھُمُ الخِیَرةُ>اور آپ کا پرور دگار جسے چاھتا ھے پیدا کرتاھے اور پسند کرتاھے ۔
ان لوگوں کو کسی کا انتخاب کرنے کاکوئی حق نھیں ھے مرحوم فیض کاشانی تفسیر صافی میں اس آیت مذکورہ کے ذیل میں حدیث نقل کرتے ھیں کہ: جب خداوند عالم کسی کو امامت کے لئے منتخب کردے تو لوگ دوسرے کی طرف ھرگز نھیں جاسکتے اور دوسری حدیث میں ارشاد ھوا :
چناؤ میں خطا کے امکان کی بناپر اس کی اھمیت کم ھو جا تی ھے صرف خدا کاچناھوا اھمیت کا حامل ھوسکتا ھے چونکہ صرف وہ ھمارے باطن اور مستقبل کوجانتا ھے لمّاکَانَ النبّیِّ یَعرضُ نَفسَہُ علیٰ القبائل جاءَ الیٰ بنَی کلابِ فقالوا : نُبایعک علیٰ اٴَن یکون لنا الاٴمر بعَدک فقال: الاٴَمر للَّہ فاِن شاَء کان فیکم اٴَوفیِ غیرکم ،جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلوں میںجاکر لوگوں کو دعوت دیتے تھے جب قبیلہ بنی کلاب میں گئے تو ان لوگوں نے کھا ھم اس شرط پرآپ کی بیعت کریں گے کہ امامت آپ کے بعد ھمارے قبیلہ میں رھے حضرت نے فرمایا: امامت کی ذمہ داری خداکے ھاتھ میں ھے اگروہ چاھے گا تو تم میں رکھے گا یاتمھارے علاوہ کسی او ر میں۔ [10]
ھم گذشتہ بحثوں میں امام کی صفات اور ضروری خصوصیات سے آگاہ ھوچکے ھیںلہٰذا اب ھم کو یہ تحقیق کرناچاہئے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان کا حقیقی جانشین کون ھے اوریہ صفات کن میں پائے جا تے ھیں تاکہ وہ عقیدہ جوھمارے پاس ھے اس کا عقلی ونقلی دلیلوں سے اثبات ھوسکے تاکہ جولوگ حق وحقانیت سے دور ھیں ان کی ھدایت کرسکیں۔
مولائے کا ئنات ں کی امامت اور ولایت پر عقلی دلیل
دومقدمہ ایک نتیجہ
۱۔ مولائے کائنات تمام انسانی فضائل وکمالات کے حامل تھے جیسے علم تقوی ،یقین ،صبر ، زھد ، شجاعت ، سخاوت ،عدالت ،عصمت ، اور تمام اخلاق حمیدہ یھاں تک بلا شک وشبہہ(دشمنوں کوبھی اعتراف تھا ) تمام کمالات میں سب سے افضل وبرتر ھیں اور یہ فضائل شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں بھرے پڑے ھیں ۔
۲۔عقل کی روسے مفضول کوفاضل پر ترجیح دینا قبیح ھے اور جو بھی مذکورہ فضائل کاحامل نھیںھے اس شخص پر جو ان فضائل کاحامل ھے ترجیح دینا قبیح ھے۔
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب(علیہ السلام) ھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حقیقی جانشین ھیں۔
جیسا کہ بیان ھوچکاھے کہ عقلی ونقلی اعتبار سے امام کا معصوم ھونا ضروری ھے اور ھر خطا وغلطی سے پاک اور دور ھوناچاھیئے، آئندہ بحث میں انشاء اللہ قران وحدیث سے ھم ثابت کریں گے کہ یہ صفات وخصوصیات صرف اھل بیت (علیہ السلام) سے مخصوص ھیں، لہٰذ ا حضرت علی(علیہ السلام) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علا وہ کوئی عھدئہ امامت کے لائق نھیںھے ۔
ھم پھلے کہہ چکے ھیں کہ امام کا معصوم ھونا ضروری ھے ،اب یہ دیکھیں کہ معصوم کو ن ھے ؟< اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھِّرکُم تَطھِیراً>[11] (بس اللہ کا ارادہ یہ ھے کہ اے اھل بیت! تم سے ھر برائی دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ھے۔
شیعہ اور سنی کی بھت سی متواتر حدیثیں اس بات پر دلا لت کرتی ھیں کہ آیة تطھیر رسول اکرم اور اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے یہ حدیثیں اھلسنت کی معتبر کتا بو ں میں موجود ھیں جیسے صحیح مسلم ، مسنداحمد، درالمنثور،مستدرک حاکم ،ینابیع المو دة ،جامع الاصول ،الصواعق المحرقہ ،سنن ترمذی ،نور الابصار مناقب خوارزمی وغیرہ اور شیعوں کی لا تعداد کتب میں موجود ھیں۔
امام حسن ںنے اپنے خطبہ میں فرمایا : ھم اھل بیت ھیں جن کے واسطے خدا وند عالم نے قرآن میں فرمایا : < اِنَّمَایُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھِّرکُم تَطھِیرا> [12]
انس بن مالک کھتے ھیں کہ : رسو ل خد ا چھ مھینے تک نماز کے وقت جب جناب زھرا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پھونچتے تھے فرماتے تھے اے اھل بیت وقت نماز ھے < اِنَّمَایُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھِّرکُم تَطھِیرا>[13]
ابن عباس بیان کرتے ھیں : کہ رسول خدا نو مھینے تک وقت نماز جنا ب امیر علیہ السلام کے دروازے پر آکر فرماتے تھے سلام علیکم یا اٴَھلَ البَیت:
< اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھرّکُم تَطھِیراً>[14]
مولا ئے کائنات فرماتے ھیں کہ رسول خدا ھر روز صبح ھمارے گھر کے دروازے پر آکر فرماتے تھے خدا آپ پر رحمت نازل کرے نماز کے لئے اٹھو :
< اِنَّمَایُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھِّرکُم تَطھِیرا>[15]
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافی دن اس پر عمل کرتے رھے تاکہ اھل بیت(علیہ السلام) کی پھچان ھوجائے اور ان کی اھمیت لوگوں پر واضح ھوجائے ۔
شریک ابن عبداللہ بیان کرتے ھیں کہ رسول خدا کی وفات کے بعد مولائے کائنات نے اپنے خطبہ میںفرمایا : تم لوگوںکو قسم ھے اس معبود کی بتاوٴکہ کیا میرے اورمیرے اھل بیت کے علاوہ کسی اور کی شان میں یہ آیة نازل ھو ئی ھے : < اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھرِّکُم تَطھِیراً>[16]لوگوں نے جواب دیا نھیں ۔
حضرت علی ںنے ابوبکر سے فرمایا تمھیں خداکی قسم ھے بتاؤ آیة تطھیر میرے اور میری شریک حیات اور میرے بچوں کی شان میں نازل ھو ئی ھے یا تمھارے اور تمھارے بچوں کے لئے ؟جواب دیا :آپ اور آپ کے اھل بیت کی شان میں نازل ھو ئی ھے۔ [17]
لوگو ں کاکھنا ھے کہ آیة تطھیر پیغمبر کی ازواج کی شان میں نازل ھوئی ھے کیونکہ اس کے پھلے اور بعد کی آیات پیغمبر کی ازواج کے سلسلے میں ھے یا کم ازکم پیغمبر کی ازواج بھی اس میں شامل ھیں ۔اسی لئے یہ ان کی عصمت کی دلیل نھیںھوسکتی ھے کیونکہ کوئی بھی پیغمبر کی ازواج کومعصوم نھیں مانتا ھے۔
علامہ سید عبد الحسین شرف الدین نے اس کے چند جواب دیئے ھیں ۔
۱۔ یہ اعتراض اور شبہ نص کے مقابلہ میں اجتھا د کرناھے کیونکہ بے شمار روایتیں اس سلسلے میں آئی ھیں جوتواتر کے حد تک ھیں کہ آیة تطھیر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ زھرا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی (علیہ السلام) ، وحسنین(علیہ السلام) کی شان میں نازل ھو ئی ھے ۔
۲۔ اگر آیة تطھیر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کی شان میں ھو تی تو مخاطب مونث ھوناچاہئے نہ کہ مذکر ،یعنی آیت اس طرح ھو نی چاہئے ” اِنَّمَایُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُنَّ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھِّرکُنَّ تَطھِیرا“
۳۔آیة تطھیر اپنے پھلے اور بعد کی آیت کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر ھے اور یہ چیز عربوں میں فصیح مانی جاتی ھے اور قرآن میں بھی آیا ھے: <فَلَمَّا رَاٴیٰ قَمِیصہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قالَ اِنَّہ مِنْ کَیدِ کُنَّ اِنَّ کَیدَ کُنَّ عَظِیمُ یُوسُف اٴَعرِض عَن ھَذا وَاستغفِریِ لِذَنبِکِ انک کُنتِ مِنْ الخَاطِئیِنَ> ”یُوسُف اٴَعرِض عَن ھَذا“: مخاطب یو سف ھیں اور یہ جملہ معترضہ ھے اور پھلے اور بعد کی آیة میں زلیخا سے خطاب ھے:[18]
آیة تطھیر او رمولا ئے کا ئنا ت اور انکے گیارہ فرزندوں کی عصمت وامامت
مولائے کائنات نے ارشاد فرمایا ھم ام سلمہ کے گھر میں رسول خدا کے پاس بیٹھے تھے کی آیة تطھیر < اِنَّمَایُرِیدُ اللَّہُ لِیُذھِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اٴَھَلَ البَیتِ وَیُطھرِّ کُم تَطھِیرا> نازل ھو ئی۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :یہ آیت آپ اور آپ کے فرزند حسن وحسین علیھما السلام اور ان اماموں کی شان میں نازل ھو ئی ھے جو آپ کی نسل سے آئندہ آئیںگے میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کے بعد کتنے امام ھو نگے ۔؟
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے بعد آپ امام ھو ں گے اورآپ کے بعد حسن(علیہ السلام) اور حسن(علیہ السلام) کے بعد حسین (علیہ السلام) اور ان کے بعد ان کے فرزند علی(علیہ السلام) پھر علی (علیہ السلام) کے فرزند محمد(علیہ السلام) اور پھر محمد(علیہ السلام) کے فرزندعلی اور علی (علیہ السلام) کے فرزندجعفر اورجعفر کے فرزندموسیٰ ،موسیٰ کے فرزند علی (علیہ السلام) ،علی(علیہ السلام) کے فرزند محمد، (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرزند علی (علیہ السلام) ،علی (علیہ السلام) کے فرزند حسن (علیہ السلام) ،حسن (علیہ السلام) کے فرزند حجت (علیہ السلام) امام ھو ں گے ان تمام کے اسماء گرامی اسی ترتیب سے عرش پر لکھے ھیں میںنے خدا سے پوچھا یہ کون ھیں ؟جواب یہ تمھارے بعد کے امام ھیں جو پاک اور معصوم اور ان کے دشمن ملعون ھوںگے۔ [19]
لہٰذا یہ آیة تطھیر چودہ معصوم کی شان میں نازل ھوئی ھے اور رسول خدانے اپنی بے شمار احادیث کے ذریعہ ( انشاء اللہ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے ) لوگوں کویہ بتایا کہ یہ عھدہ امامت قیامت تک انھیں مخصوص حضرات سے مربوط ھے کیو نکہ یہ صاحب عصمت ھیں اور اس عھدے کے تمام شرائط ان کے اندر پائے جاتے ھیں ۔
عن ابن عبّاس قال سمعت رسول اللّہ صلیٰ اللّہ وآلہ وسلم یقول : اٴناوعلیِ (علیہ السلام) والحسن (علیہ السلام) والحسین (علیہ السلام) وتسعة من ولد الحسین (علیہ السلام) مطھّرون معصومون[20]ابن عباس بیان کرتے ھیں کہ میںنے رسول خدا کو فرماتے ھوئے سنا کہ میں اور علی (علیہ السلام) ،حسن (علیہ السلام) و حسین (علیہ السلام) اور حسین (علیہ السلام) کی نسل سے ان کے گیارہ فرزندپاک اور معصوم ھیں ۔
قال امیر المومنین :اِنّ اللّہ تبارک وتعالیٰ طھّرنا وعصمنا وجعلنا شھداء علیٰ خلقہ وحجّتہ فی اٴرضہ وجعلنا مع القرآن وجعل القرآن معنا لانفارقہ ولا یفارقنا[21]
مولائے کائنا ت نے فرمایا : بیشک خدا نے ھمیں پاک ومعصوم بنایا ھے اور اپنی مخلوق کا گواہ اور زمین پر حجت قرار دیا اور ھمیں قرآن کے ساتھ اورقرآن کو ھمارے ساتھ رکھا ھے نہ ھم قرآن سے الگ ھو سکتے ھیں نہ قرآن ھم سے الگ ھوسکتا ھے۔
<اِنَّمَا وَلیکُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمُنوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وُیُوٴتُونَ الزَّکٰوةَ وَھُم رَاکِعُونَ > ایمان والو تمھارا ولی بس اللہ ھے او ر اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جونماز قائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میں زکاةدیتے ھیں۔ [22]
خدا وند عالم نے اس آیت میں لفظ ،،انما،، کے ذریعہ جو انحصار پر دلا لت کرتاھے۔ مسلمانوں کا ولی و سرپرست صرف تین شخصیتوں کوقرار دیاھے خود خدا، پیغمبر اور جو لوگ صاحبان ایمان ھیںکہ جونماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ھیں۔
آیت سے خدا اورسول کی ولا یت میں کسی کو شک نھیں لیکن تیسری ولایت”والذین آمنوا“کے بار ے میں شیعہ اور سنی دونو ں کے یھا ں بے شمار حدیثیں پائی جاتی ھیں کہ یہ آیة مولا ئے کا ئنات ںکی شان میں نازل ھوئی ھے اس وقت کہ جب انھو ںنے حالت رکوع میں اپنی انگو ٹھی سائل کو دے دی شیعوں میں اس سلسلہ میںکوئی اختلاف نھیںاوراھل سنت کے علماء میں سے فخر رازی نے تفسیرکبیر میں،زمخشری نے کشاف میں ،ثعلبی نے الکشف والبیان میں، نیشاپوری بیضاوی ،بھیقی ،نظیری اورکلبی نے اپنی اپنی تفسیر وں میں ،طبری نے خصائص میں ، خورازمی نے مناقب ،احمد بن حنبل نے مسند میں ،یھاں تک کہ تفتازانی اورقوشجی نے اتفاق مفسرین کا دعوی کیا ھے غایة المرام میں ۲۴ حدیثیں اس سلسلے میں اھل سنت سے نقل کی گئی ھیں ،مزید معلو ما ت کے لئے الغدیر کی دوسری جلد اور کتاب المراجعات ،کی طرف رجوع کریں ۔
یہ مسئلہ اس حد تک مشھور ومعروف تھا اور ھے کہ (پیغمبر کے زمانے کے مشھورشاعر)حسان بن ثابت نے اسے اپنے شعر کے ذریعہ بیان کیااور مولا سے مخاطب ھو کرکھتے ھیں:
فاٴنتَ الَّذیِ اٴَعطیت اِذ کنت راکعاً زکاةً فَد تک النفس یا خیرراکع فانزل فیک اللّہ خیر ولا یة وبیّنھا فی محکمات الشرائع
”اے علی (علیہ السلام) آپ نے حالت رکوع میں زکوة دی ۔میری جان آپ پر قربان اے بھترین رکوع کرنے والے “۔
خدانے بھترین ولایت آپ کے لئے نازل کی اور قرآن میں اسے بیان فرمایا ،لہٰذا مولائے کائنات تمام مومنین کے ولی مطلق ھیں اور عقل کی رو سے ایسا شخص ابوبکر وعمر وعثمان کا تابع نھیں ھوسکتا ،ھاں اگر یہ افراد مومن تھے تو ا ن کو مولائے کائنات کی اتباع وپیروی کرنی چاہئے ۔
دواعتراض اور انکا جواب
بعض اھل سنت کا کھناھے کہ ولی کے معنی دوست اورساتھی کے ھیںنہ کہ رھبر وولی مطلق کے ۔
الف )پھلی بات تویہ کھنا ھی نص آیة اورظاھر کے خلاف ھے اس سے ھٹ کر ولی کے معنی عرف عام میں ولی مطلق ،اور اولی بہ تصرف کے ھیں اور دوسرے معنی میں استعمال کے لئے قرینہ کی ضرورت ھے چونکہ اولی کا لفظ آیت میں< النَّبيُّ اٴَولیٰ بِالمُوٴمنِینَ مِن اٴنفُسھِم>[23]کا لفظ حدیث غدیر میں ”من کنت مولاہ“ ولایت مطلق پرواضح طور پر دلا لت کرتا ھے ۔
ب) آیة ولایت میں لفظ ”انما--“ کے ذریعہ انحصار ھے اور دوستی صرف خدا ورسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور علی(علیہ السلام) ھی پر منحصر نھیں ھے ۔بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے دوست ھیں جیسے کہ خدا وند عالم نے فرمایا< المُوٴمنُون والموٴمنات بعضھم اٴولیاءُ بَعضٍ>اب چونکہ دوستی کا انحصار فقط خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعلی (علیہ السلام) سے مختص نھیں ھے۔ [24]
بلکہ اس کاتمام مومنین سے ھے آیہ اِنَّما وَلیُّکُم اللّہ (میں انحصار کاحکم ھے لہٰذا ولا یت کے معنی رھبر وولی مطلق کے ھیں۔
بعض متعصب اھل سنت نے اعتراض کیاکہ مولائے کائنات جب نماز میں اتنا محو رھتے تھے کہ حالت نماز میں تیر نکلنے کابھی انھیںپتہ نھیں چلتا تھا تو کس طرح ممکن ھے کہ سائل کے سوال کو سن کر اس کی طرف متوجہ ھوئے ھوں۔
یقینا مولا ئے کائنات حالت نماز میں مکمل طور سے خدا کی طرف دھیان رکھتے تھے، اپنے آپ اور ھر مادی شی ٴ سے جو روح عبادت کے منافی ھوتی تھی بیگانہ رھتے تھے ۔لیکن فقیر کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ھونا نھیں ھے بلکہ عبادت میں غرق ھو نے کی دلیل ھے دوسرے لفظوں میںیوں کھا جائے کہ آپ کا یہ فعل عبادت میں عبادت ھے اس کے علاوہ عبادت میں غرق ھونے کامطلب یہ بھی نھیں ھے کہ اپنے اختیارات کھو بیٹھیں یا بے حس ھو جا ئیں بلکہ اپنے اختیار کے ذریعہ اپنی توجہ اور وہ چیز جوراہ خدا میں سد راہ ھے اس سے اپنے آپ کو الگ کرلیں ۔
یھا ں نمازبھی ایک عبادت ھے اور زکوة بھی ،اور دونوںخداکی خوشنودی کے راستے ھیں ،لہٰذا مولائے کائنات کومتوجہ ھونا صرف خداکے لئے تھا اس کی دلیل خود آیت کانازل ھو نا ھے ،جو تواتر سے ثابت ھے ۔
آیت اطاعت اولی الامر:
<یَااٴیُّھا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللَّہَ وَاٴطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوليِ الاٴمرِ مِنکُم> ”ایمان والواللہ کی اطاعت کرو اوراس کے رسول اورصاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میںسے ھیں“۔[25]
اس آیت میں صاحبان امرکی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے خد ااوررسول کے اطاعت کے ساتھ واجب قرار دیاھے شیعوں کانظریہ ھے کہ اولی الامر سے مراد بارہ امام معصوم ھیں اوراھل سنت سے بھی روایت پائی جاتی ھے کہ اس سے مراد امام معصوم ھیں۔
مشھور مفسر ،ابوحیان اندلسی مغربی نے اپنی تفسیر بحارالمحیط ،اور ابوبکر مومن شیرازی نے اپنے رسالہ اعتقادی میں ،سلیمان قندوزی نے ینابیع المو دة میں ان روایتوں کو بطور نمونہ ذکر کیا ھے ،شیعوں کی تفسیر وں میں بھی اس آیت کے ذیل میںرجوع کریں منجملہ تفسیر برھان ،نورالثقلین ،تفسیر عیاشی ،اور کتاب غایة المرام اوردوسری بھت ساری کتابوں میں آپ رجوع کریں۔یھاں پر بعض احادیث کونقل کررھے ھیں جابر بن عبداللہ انصاری نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیاکہ اولی الامرجن کی اطاعت کا ھمیںحکم دیاگیا ھے اس سے مراد کون ھیں۔ ؟
آنحضرت نے جواب میں فرمایا : میرے بعد کے خلیفہ وجانشین جو میری ذمہ داریوں کو سر انجام دینے والے ان میں سب سے پھلے میرے بھائی علی(علیہ السلام) ھیںان کے بعد حسن وحسین علیھماالسلام پھر علی بن الحسین (علیہ السلام) ان کے بعد محمد باقر (تم اسوقت تک رھوگے اور اے جابر! جب ان سے ملاقات ھو تو انھیں ھماراسلام کھنا)پھرجعفر صادق (علیہ السلام) ان کے بعد موسی کاظم (علیہ السلام) ا ن کے بعد علی الرضا(علیہ السلام) ا نکے بعد محمد جواد پھر علی ھادی(علیہ السلام) ان کے بعد حسن عسکری(علیہ السلام) او ران کے بعد قائم منتظر مھدی (علیہ السلام) میرے بعد امام او ر رھبر ھوںگے۔
اسی حدیث کو امام زمانہ (علیہ السلام) کے سلسلے میں تفسیر نورالثقلین کی پھلی جلد میں صفحہ ۴۹۹ میں واضح طور سے بیان کیاھے ، عن اٴبی جعفر علیھم السلام: اٴوصیٰ رسول اللّہ اِلیٰ علی (علیہ السلام) والحسن(علیہ السلام) والحسین علیھم السلام ،ثم قال فی قول اللَّہ عزَّوجلَّ :<یَا اٴیُّھا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللَّہَ وَاٴطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوليِ الاٴمرِ مِنکُم > قالَ: الاٴَئِمة مِن وُلِد علیِ (علیہ السلام) وفاطمہ (علیہ السلام) اٴِلی اٴن تقوم الساعة[26]
امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت ھے کہ رسول اللہ نے مولائے کا ئنات اورحسن وحسین علیھم السلام کی امامت کے لئے وصیت کی ،پھرخد اکے اس قول کی طرف اشارہ کیا”اٴطِیعُوااللَّہَ“ اورفرمایا:بقیہ امام ،علی و فاطمہ کی اولا د سے ھوںگے یھاںتک کہ قیامت آجائے گی لہٰذا اولی الامر کی اطاعت کاتذکرہ جس آ یت میں ھے وہ چند طریقوں سے مولائے کائنات امیرالمومنین ںاورانکے گیارہ فرزندوں کی امامت پر دلالت کرتی ھے اولی الامر کی اطاعت خدا ور رسول کی اطاعت کے ساتھ ھے چونکہ اطاعت مطلق طور پرواجب ھے لہٰذا انھیں پھچانناضروری ھے ۔
جس طرح خد انے رسول خدا کی اطاعت کو واجب کرکے خود رسول کو معین
کردیا اسی طرح جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رھا ھے تو ضروری ھے کہ انھیں بھی معین کرے ورنہ تکلیف مالایطاق ھوجا ئے گی(یعنی جسے ھم نھیں جانتے اس کی اطاعت ھمارے امکان سے با ھر ھے) بے شمار روایتوں نے آیت کے شان نزول کو مولائے کا ئنات اور ان کے گیا رہ فرزندو ں سے مختص کیاھے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعثت کے تیسرے سال میں حکم ھوا کہ دعوت اسلا م کو علی الاعلان پیش کریں :وَاٴنذِر عَشِیرَتَکَ الاٴَقرَبِین:َ [27](اپنے قریبی رشتے داروں کوانذار کرو ،ڈراؤ ) اس حکم کے ساتھ پیغمبر اسلام نے اپنے رشتے داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں اکٹھا کیا اورکھانے کے بعد فرمایا :اے عبد المطلب کے فرزندو! خد اکی قسم میں عرب میں کسی کو نھیں جانتاکہ اپنی قوم وقبیلہ کے لئے اس سے بھترچیز جو میں پیش کر رھا ھو ں اس نے پیش کی ھو ، میں دنیااور آخرت کی فلاح وبھبودی تمھارے لئے لایاھوں اورخدا نے حکم دیا ھے کہ میںتمھیں اس کی توحید اور اس کی وحدانیت اوراپنی رسالت کی طرف دعوت دوں،تم میں سے کون ھے؟ جو اس سلسلے میں میری مددکرے گاتاکہ وہ میرا بھائی میراولی وجانشین بن سکے ۔
کسی نے اس جانب کو ئی توجہ نھیںدی ۔پھر مولائے کائنات کھڑے ھوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں حاضر ھو ں ،اس سلسلہ میںآپ کا ناصر ومددگار ھوں یھاں تک تین مرتبہ پیغمبر نے اس جملہ کی تکرار کی،اور علی (علیہ السلام) کے علاوہ کسی نے کوئی جواب نھیں دیا ، اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کے گلے میں باھیں ڈال کے فرمایا : اِنَّ ھذا اٴخیِ وَوصییِّ وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ واٴطیعوہ بیشک یہ میرابھائی ھے تم لوگوںمیں میراوصی وجانشین ھے اس کی باتو ں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
اس حدیث کو اھل سنت کے علماء کرام جیسے ابن ابی جریر ، ابو نعیم ،بھیقی ،ثعلبی ابن اثیر ،طبری اور دوسرے بھت سے علماء نے نقل کیا ھے ،مزید معلومات کے لئے کتاب المراجعات کے صفحہ ۱۳۰ کے بعد اور احقاق الحق ج۴ کے ص ۶۲نیزاس کے بعد ملاحظہ فرمائیں ،یہ حدیث واضح طورپر علی (علیہ السلام) کی ولا یت وامامت کو ثابت کرتی ھے ۔
<یَااٴَیُّھا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَااٴُنِزلَ اِلیکَ مِنْ رَبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتہُ وَاللَّہُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللَّہ لَا یَھدِی القَومَ الکَافِرِین>اے پیغمبر!ٍ آپ اس حکم کوپھنچادیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ۔[28]
خطاب کا انداز بتا رھا ھے کہ کو ئی اھم ذمہ داری ھے کہ جس کے چھو ڑنے سے رسالت ناقص ھو جائیگی اور یہ آیت یقینا توحید یا جنگ یادوسری چیزوں کے واسطے نھیں تھی چونکہ اس آیت کے نازل ھو نے سے پھلے یہ تمام مسائل حل ھو چکے تھے کیونکہ یہ آیت پیغمبر کی زندگی کے آخری وقت میں نازل ھو ئی ھے بغیر کسی شک کے یہ آیت مسئلہ امامت اور جانشین پیغمبر سے متعلق ھے۔ یھا ںتک کہ اھل سنت کے بے شمار علماء ،مفسرین اور مورخین نے اس بات کا اعتراف کیا ھے کہ مذکو رہ آیت واقعہ غدیر اور مولا ئے کا ئنا ت کے لئے نازل ھوئی ھے مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب مقدس الغدیر میں حدیث غدیرکو ۱۱۰ صحابہ سے اور ۳۶۰ بزرگ علماء اور مشھو ر اسلا می کتابو ں سے نقل کیاھے اورکسی نے اس حدیث کے صدور پر شک نھیں کیا ھے اگر آیة تبلیغ اور حدیث غدیر کے علا وہ کوئی دوسری آیت یا حدیث نہ بھی پا ئی جاتی تب بھی مولائے کا ئنات کی خلا فت بلا فصل کو ثابت کرنے کے لئے یھی دوآیتیں کا فی تھیں اس کے باوجود بے شمار آیتیں مولا ئے کا ئنا ت اور ان کے فرزندوں کی امامت کے سلسلہ میں نازل ھو ئی ھیں اورھمارا اعتقاد ھے کہ پوراقرآن مفسر اھل بیت ھے اور اھل بیت مفسر قرآن ھیں اور حدیث ثقلین کی نظر سے یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نھیں ھو سکتے ،اس سلسلہ میں روائی تفسیروں میںمن جملہ نورالثقلین ،تفسیر برھان ،تفسیر عیاشی اور کتاب غایة المرام او ر دوسری بھت سی کتابو ں میں دیکھ سکتے ھیں ھم یھیں پر اس بحث پر اکتفا کرتے ھو ئے بحث کو مکمل کرنے کے لئے مشھور حدیث غدیر کو نقل کرتے ھیں ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۱۰ھمیں مکہ کی طرف حج کے قصد سے گئے یہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری حج تھا لہٰذا تاریخ میں اسے حجة الوداع بھی کھتے ھیں اس سفر میں پیغمبر کے ساتھ ایک لا کھ بیس ہزار صحابی تھے مدینہ کی طرف واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ھے ) میں جبرئیل نازل ھو ئے او راس آیت کو پیش کیا <یَااٴَیُّھاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَااٴُنِزلَ اِلیک مِنْ رَبِّک وَاِنْ لَمْ تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتہُ وَاللَّہُ یَعصِمُک مِنَ النَّاس اِنَّ اللَّہ لَا یَھدِی القَومَ الکَافِرِین>
قبل اس کے کہ مسلمان یھا ں سے جداھو ں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو رکنے کاحکم دیا جوآگے بڑھ گئے تھے انھیں پیچھے بلا یا اورجو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظارکیا بھت گرم اور جھلسا دینے والی ھوا چل رھی تھی مسلمانوں نے نماز ظھر پیغمبر اسلام کی امامت میں ادا کی، نماز کے بعد آنحضرت نے طویل خطبہ پڑھااور اس کے ضمن میں فرمایا :میں جلد ھی خدا کی دعوت پر لبیک کھنے والا ھوں اور تمھارے درمیان سے چلاجاؤ ں گا پھر فرمایا :اے لوگوں! میری آواز سن رھے ھو سب نے کھا ،ھاں ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :یَا اٴَیُّھاالنَّاس مَن اٴولَیٰ النّاس بالمُوٴمنین من اٴ نفسھم اے لوگو! مومنین کے نفوس پر کون زیادہ حقدار ھے ، سب نے ایک آواز ھوکر کھا خدا اوراس کا رسول بھتر جانتا ھے حضرت نے فرمایا خدا میرا رھبر ومولاھے اور میں مومنین کارھبر ومولاھوں او رمومنین پر ان سے زیادہ میراحق ھے پھر مولا ئے کا ئنا ت کو ھاتھو ں پہ بلند کیا اور فرمایا: ”مَنْ کنت مولاہ فعليِّمولاہ“جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی مولا ھیں اس جملہ کو تین بار دھرایا پھر آسمان کی طرف سر کو بلند کیا اور فرمایا:”اللَّھمَّ والِ مَن وَالاہ وعاد مَنْ عاداہ وانصر من نصرہ واخذل مَن خذلہُ“خدا یا! تو اس کو دوست رکھ جو اس (علی )کو دوست رکھے تو اس کی مدد کر جو اس کی مددکرے تواس کو رسواوذلیل کر جوان کی عزت نہ کرے پھر فرمایا : تمام حاضرین غائبین تک یہ خبر پھونچا دیں ابھی مجمع چھٹا نھیں تھا کہ جبرئیل نازل ھو ئے اور اس آیت کی پیغمبر پر تلا وت کی :<الیَومَ اٴکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاٴَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتيِ وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دیناً>”آج میں نے تمھارے لئے دین کوکامل کر دیا ھے اور اپنی نعمتوں کوتم پر تمام کر دیاھے او رتمھارے دین اسلام سے راضی ھوگیا“۔ [29]
اسی وقت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :اللَّہُ اٴَکبرُ اللّّہ اٴکبرُ علیٰ ٰاِکمال الدِّین واِتمام النّعمة ورِضیٰ الرّب برسالتيِوالولایة لعلیّ مِن بعدیِ اللہ بھت بڑا ھے اللہ بھت بڑا ھے دین کو کامل کرنے ،اور اپنی نعمتوں کے تمام کرنے اورمیری رسالت پر راضی ھونے ،اور میرے بعد علی(علیہ السلام) کی ولایت پر راضی ھو نے پر ، اسی وقت لوگو ں کے بیچ ایک خبر گشت کرنے لگی او ر تمام لوگ مولائے کائنا ت کو اس مقام و منزلت پر مبا رک باد پیش کرنے لگے یھاں تک عمر نے لوگو ں کے درمیان مولا ئے کا ئنا ت سے کھا: ”بخِِ بخِِ لَک یابنَ اٴَبیِ طالب اٴَصبحتَ واٴَمسیتَ مولایِ ومولیٰ کُلّ مُوٴمن وموٴمنة“مبارک ھو مبارک اے ابو طالب کے بیٹے آپ کی صبح وشام اس حالت میں ھے کہ میرے اور ھر مومن اور مومنہ کے مولا ھیں اس حدیث کو مختلف الفاظ میں کبھی تفصیل کے ساتھ کبھی اختصار سے بے شمار علماء اسلام نے نقل کیا ھے اس حد تک کہ کسی کو بھی اس کے صادر ھونے پر شک نھیں ھے مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب غایة المرام میں اس حدیث کو ۸۹ سند کے ساتھ اھل سنت سے اور۴۳ سند کے ساتھ شیعہ سے نقل کیاھے اوراس سلسلہ میں بھترین کتاب جولکھی گئی ھے وہ ”الغدیر “ھے جسے علامہ امینی نے بے انتھا زحمتوں کے بعد لبا س وجود عطا کیا ھے ۔
جب بعض نے یہ دیکھا کہ حدیث کی سند انکا ر کے قابل نھیں تو لفظ مولا کے معنی میں شک ایجاد کیا اور کھنے لگے کہ یہ دوست کے معنی میں ھے ۔
جو اب :
دس دلیلوں کی بنا پر لفظ مولی صرف ولا یت ورھبری کے معنی میں ھے اور دوست کے معنی ھر گز نھیںھو سکتے ۔
۱۔ خو د پیغمبر اسلام نے علی (علیہ السلام) کے تعارف سے قبل فرمایا :”مَنْ اٴَولیٰ النّاس بالموٴمنین مِن اٴنفسھم“ اور پھر یہ جملہ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ ‘ فرمایا توپھر جس طرح پھلا جملہ ولا یت کے لئے ھے ، دوسرے کو بھی اسی طرح ھو نا ضروری ھے تاکہ دونو ں جملہ میں ربط باقی رھے ۔
۲۔ آیة تبلیغ جو مولا ئے کا ئنا ت کو پھنچنوانے سے قبل نازل ھو ئی پیغمبر سے خطاب کرکے فرمایا : اگر آپ نے یہ نہ کیاتوگویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا،کیا اگر پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی (علیہ السلام) سے دوستی کا اعلان نھیں کرتے تو رسالت ناقص رھتی ؟ جبکہ متعدد بار رسول اسلا م حضرت علی (علیہ السلام) سے بے انتھا محبت اور دوستی کا اظھار کر چکے تھے یہ کو ئی نئی بات نھیں تھی ۔
۳۔ کیا یہ بات معقول ھے کہ وہ پیغمبر جسے” مَایَنطِقُ عن الھَویٰ“کا خطاب ملا ھو ا س سخت گرمی میں ہزاروں لوگو ں کوروک کر کھے :اے لوگو ں جس کا میں دوست ھو ں علی بھی اس کے دوست ھیں۔ ؟
۴۔ جو آیتیں علی (علیہ السلام) کے تعارف کے بعد نازل ھوئیں ھیں جیسے الیوم ۔۔۔ آج دین کامل ھوگیا نعمتیں تم پر تمام کردیں او رتمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا۔[30] دوسری آیت الیَومَ یَئِس الّذین کَفَرُوا۔۔۔۔۔اور کفار تمھارے دین سے مایوس ھوگئے [31] یہ تمام چیزیں کیا اس بناپر تھیں کہ پیغمبر نے علی کو دوست بنایا تھا۔ ؟
۵۔ وہ تمام خو شیاں اور حتی عمر کی مبارکبادی صرف پیغمبر اور علی (علیہ السلام) کی دوستی کی وجہ سے تھی کیا یہ کوئی نئی بات تھی۔ ؟
۶۔پیغمبر اسلام اورائمہ معصومین (علیہ السلام) نے یوم غدیر کومسلمانوں کے لئے سب سے بڑی عید قرار دیا ھے تاکہ ھر سال یہ واقعہ زندہ رھے کیا صرف دوستی کااعلان کرنا ان تمام چیزوں کا باعث بنا کہ اسے سب سے بڑی عید قرار دے دیا جائے ۔؟
۷ ۔تعارف کرانے سے پھلے آیت آئی ”واللّہ یَعصِمُک مِنْ النَّاسِ“کیا پیغمبر اسلام علی (علیہ السلام) سے دوستی کا اعلا ن کرنے سے ڈر رھے تھے کہ خدا کو کھنا پڑا کہ خدا آپ کو دشمنو ں کے شر سے محفوظ رکھے گا یاامامت اورجانشینی کااھم مسئلہ تھا۔ ؟
۸۔ شعراء اور ادیبوں نے اس وقت سے لے کر آج تک جو اشعار غدیر کے سلسلہ میں کھے ھیں ان سب نے خطبہ غدیر کو ولا یت اور امامت مولائے کا ئنات سے مرتبط ماناھے اور مولائے کائنات کی جانشینی کو بیان کیاھے ان اشعار کا تذکرہ علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر کی پھلی جلد میں کیا ھے۔ ؟
۹۔ مولائے کائنات اور دوسرے ائمہ معصومین نے بھت سی جگھوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت ثابت کی ھے اور سب نے ان کے کلام سے ولایت ورھبری کو جانا،قائل ھوئے اور قبول کیا ۔
۱۰۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی پھلی جلد کے ص ۲۱۴ پر اھل سنت کے مشھو ر مفسر ومورخ محمد جریر طبری سے نقل کیاھے کہ پیغمبر اسلام نے آیت تبلیغ کے نازل ھونے کے بعد فرمایا : کہ جبرئیل خداکی طرف سے حکم لائے ھیں کہ اس جگہ رک کرسبھی اورسب کالے اور گورے کو بتادیں کہ: علی ابن ابی طالب میرے بعد میرے بھائی میرے وصی و جانشین اورامام ھیں۔
امامت کی بحث کے بعد ،امام زمانہ (علیہ السلام) کے سلسلہ میں اب مختصر سی بحث ضروری ھے کچھ روایتیں جواھل سنت کے یھاں پائی جاتی ھیں پھلے ان کاذکر کرتے ھیں تاکہ وہ رواتیںان کے لئے دلیل بن سکیں ۔
قال رسول اللّہ :یخرجُ فی آخرالزمان رجل من ولدیِ اسمہ کاسمیِ وکنیتہ ککنیتیِ یملاٴ الاٴرض عدلًا کما ملئت جوراً فذلکَ ھوالمھدی ِ :آخر زمانے میں ھماری نسل سے ایک ایساشخص قیام کرے گا جس کا نام میرے نام پر ھو گا اور جس کی کنیت میری کنیت ھوگی ، اوروہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ھوگی اوروھی مھدی علیہ السلام ھیں۔ [32]
قال النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ:”لولم یبق من الدھر اِلّا یوم لبعث اللّہ رجلاً مِن اھل بیتی یملاٴھا عدلاً کما مُلئت جَوراً“ اگر اس دنیاکے ختم ھونے میں ایک دن بھی باقی رھے گا تو اس دن بھی خدا وند عالم میرے اھل بیت سے ایک شخص کومبعوث کرے گا تاکہ دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے جس طرح ظلم وجور سے بھری ھوئی ھوگی ۔[33]
قال رسول اللّہ : ”لا تذھب الدّنیا حتی یقوم مِن اٴمتیِ رجل من ولد الحُسین یملاٴ الاٴَرض عدلاً کما مُلئت ظلماً “اس دنیا کا اختتام اس وقت تک نھیں ھوگا جب تک کہ ھماری امت سے ایک شخص قیام نہ کرے جو نسل امام حسین (علیہ السلام) سے ھو گا وہ زمین کوعدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وستم سے بھری ھو ئی ھوگی ۔[34]
شیعہ مصنفین نے بھت سی کتابیں لکھی ھیں جن میںبے شمارروایتیں حضرت مھدی(علیہ السلام) کے حوالے سے نقل کی ھیں ۔لیکن مطلب روشن ھونے کی خاطر انھیں نقل کرنے کی ضرورت نھیں ھے ۔
حضرت حجت بن الحسن المھدی(علیہ السلام) کی ولا دت پندرہ شعبان ۲۵۵ ھ کوھوئی ماں کا نام نرجس اورباپ کا نام امام حسن عسکری (علیہ السلام) ھے ۔مخفی ولا دت کاسبب یہ تھا کہ امام کی ولا دت ایسے زمانے میں ھوئی جب عباسی دور خلافت کے ظالم وجابر اسلامی حکمران ملکوں پر قابض تھے وہ بھت سی حدیثوں کے ذریعہ جانتے تھے کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے یھاں ایک بچہ پیدا ھوگا جو ظالم اور ستمگر حکومتوں کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے گا لہٰذا وہ اس تاک میں تھے کہ قائم آل محمد کی ھر نشانی کومٹادیں، اسی لئے متوکل عباسی نے ۲۳۵ ھ ق میں حکم دیا کہ حضرت ھادی (علیہ السلام) اور ان کے رشتہ داروں کو مدینہ سے سامرہ(حکومت کے پایہ تخت ) میں لایا جائے اور عسکر نامی محلے میں مستقر کر کے ان پر کڑی نظر رکھی جائے معتمد عباسی امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے اس نومولددفرزندکاشدت سے انتظار کررھا تھا اور اس نے اپنے جواسیس اور دائیوں کو اس امرکے لئے معین کرد یاتھا تاکہ علویوںکے گھروں خاص کر امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے گھرکا وقتا فوقتا معاینہ کریںاور اگر کوئی بچہ ملے جس پر منجی بشریت کاگمان ھوتو اسے فوراً قتل کردیا جائے اسی لئے احادیث معصومین میں امام زمانہ (علیہ السلام) کی مخفی ولا دت کو جناب موسی کی ولادت سے تشبیہ دی گئی ھے اور اسی خاطر ان کی ماں کاحمل ،موسی کی ماں کی طرح ظاھر نھیں ھوا او ر کسی کو علم نھیں تھا ،حتیٰ حکیمہ خاتون (امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی پھوپھی) کو بھی علم نھیں تھاجب نیمہ شعبان کی رات امام نے ان سے کھا ،آج رات یھیں ٹھھریں (چونکہ آج وہ بچہ آنے والا ھے جس کا وعدہ کیاگیا ھے ) تو انھوں نے تعجب کیا،کیونکہ نرجس خاتون میں حمل کے کوئی آثار نظر نھیں آرھے تھے جب امام زمانہ (علیہ السلام) کی ولا دت ھوئی تو ان کے والد انھیںلوگوںکی نظروں سے چھپا کے رکھتے تھے ،صرف اپنے مخصوص اصحاب کو انکی زیارت کرائی ۔
شیخ صدوق اپنی کتاب اکمال الدین میں احمد بن حسن قمی سے روایت نقل کرتے ھیں کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے یھاں سے ایک خط ھمارے دادا (احمد بن اسحق ) کے پاس آیا ،جس میں لکھا تھا :ھمارے یھاں بچہ پیداھواھے لیکن یہ خبر لوگوں سے چھپی رھے کیونکہ اس بات سے ھم صرف اپنے اصحاب اور قریبی رشتہ داروں کو ھی مطلع کررھے ھیں ۔
امام زمانہ (علیہ السلام) کی خصوصیت
۱۔امام زمانہ (علیہ السلام) کانورائمہ کے نور کے درمیان اس ستارہ کی مانند ھو گا جوکواکب کے درمیان درخشاں ھو تا ھے ۔
۲۔ شجرہ شرافت ،پدر کے ذریعہ ائمہ علیھم السلا م اور پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک او رماں کے ذریعہ قیصر روم اورشمعون الصفا حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کے وصی سے ملتا ھے ۔
۳۔ولا دت کے روز امام زمانہ (علیہ السلام) کو عرش لے جا یا گیا اور خدا کی جانب سے آواز آئی، مرحبا اے میرے خاص بندے ،میرے دین کی مدد کرنے والے ،میرے حکم کوجاری کرنے والے ،اور میرے بندوں کی ھدایت کرنے والے ۔
۴۔نام اورکنیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اورکنیت پر ھے ۔
۵۔ وصی کا سلسلہ امام زمانہ پر ختم ھے ،جس طرح پیغمبر اسلام خاتم الانبیاء ھیں اسی طرح امام زمانہ خاتم الا وصیاء ھیں ۔
۶۔ ابتدائے ولا دت سے ھی روح القدس کے سپرد ھیں ، مقدس فضا اورعالم انوار میں تربیت ھوئی اٹھنا بیٹھنا مقدس ارواح اور بلند ترین لوگو ں کے ساتھ ھے ۔
۷۔ کسی ظالم وجابر کی بیعت نہ کی تھی، نہ کی ھے اور نہ کریں گے۔
۸۔امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظھور کی عجیب وغریب ،زمینی او رآسمانی نشانیاں ظاھر ھوں گی ،جوکسی حجت کے لئے نھیں تھیں ۔
۹۔ ظھور کے قریب آسمان سے ایک منادی آپ کے اسم گرامی کو پکا رے گا ۔
۱۰ ۔وہ قرآن جو امیرالمومنین نے پیغمبر کے انتقال کے بعد جمع کیا تھا اور محفوظ رکھا تھا وہ امام کے ظھو ر کے وقت ظاھر ھوگا ۔
۱۱۔ عمر کا طولا نی ھونا یاشب وروز کی گردش سے آنجنا ب کے مزاج یا اعضاء وجوارح پر کوئی اثر نھیں پڑے گا ۔اور جب سرکار کاظھور ھوگا توآپ ایک چالیس سالہ جوان کی مانند نظر آئیں گے ۔
۱۲۔ ظھور کے وقت زمین اپنے تمام خزانے اور ذخیرے کو اگل دے گی ۔
۱۳ ۔لوگو ں کی عقل سرکار کے وجود کی برکت سے کامل ھوجائے گی ،اور آپ لوگو ں کے سروں پر ھاتھ پھیریں گے جس سے لوگوںکے دل کا کینہ وحسد ختم ھوجائے گااورلوگوں کے دل علم سے لبریز ھوں گے ۔
۱۴۔ آپ کے اصحاب کی عمر کافی طولانی ھوگی ۔
۱۵۔مرض ،بلاء ،مصیبت، کمزوری، غصہ، یہ تمام چیزیں آپ کے اصحاب کے جسم سے ختم ھوجائے گی اور ان کے اصحاب میںھر ایک کی طاقت چالیس جوان کے برابر ھوگی ۔
۱۶۔آپ کی حکمرانی اور سلطنت مشرق سے مغرب تک پوری دنیا پر ھوگی ۔
۱۷۔ پوری دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی ۔
۱۸۔بعض مردے زندہ ھوکر آپ کے ساتھ ھوجا ئیں گے منجملہ ۲۷افراد اصحاب موسی سے اور ۷ آدمی اصحاب کھف سے ۔یوشع بن نون ،سلمان ،ابوذر،مقداد مالک اشتر یہ لوگ تمام شھروں میں حاکم ھوں گے ۔ اور جو بھی چالیس صبح دعائے عھد پڑھے گا اس کا شمار امام کے ساتھیوں میں ھوگا او راگر حضرت کے ظھور سے پھلے انتقال کر گیا تو خدا وند عالم اسے زندہ کرے گا تاکہ امام کی خدمت میںحاضری دی سکے۔
۱۹۔ وہ تمام الٰھی احکام جو ابھی تک نافذ نھیں ھو سکے نافذ ھوں گے ۔
۲۰۔علم کے تمام۲۷ حروف ظاھر ھوجا ئیںگے ۔اور امام کے ظھور تک صرف دو حرف ظاھر ھو ئے ھوںگے ۔
۲۱۔ کفا ر ومشرکین سے تقیہ کا حکم ،آپ کے زمانہ میں ھٹا لیا جائے گا۔
۲۲۔ کسی سے گواھی یا دلیل نھیں مانگی جائے گی،امام خود حضرت داود کی طرح اپنے علم امامت سے فیصلہ کریں گے ۔
۲۳۔ با رش، درخت ، ھریالی ،میوہ جات اور دوسری نعمتیں بے شمار ھوں گی۔
۲۴۔آپ کی مدد کے لئے جناب عیسی آسمان سے اتریں گے اور آپ کے پیچھے نما ز پڑھیں گے۔
۲۵۔ ظالموں کی حکومت اور جابروں کی سلطنت کا خاتمہ ھوجائے گا ۔
لِکلِّ اٴُناس دولة یرقبونھا ودولتنا فی آخر الدَّھر تظھر
روایت میں ھے کہ امام صادق(علیہ السلام) ھمیشہ اس شعر کو زمزمہ کیا کرتے تھے ۔
ترجمہ: (تمام لوگو ں کے لئے ھرزمانہ میںحکومت ھے جس پر وہ نظر جمائے ھیں اور ھماری حکومت آخری زمانہ میں ھوگی) امام زمانہ (علیہ السلام) کی حکومت آنے پر تمام ائمہ معصومین (علیہ السلام) رجعت فرمائیں گے۔ [35]
روایت میں ھے کہ امام زمانہ رسول اللہ سے بھت زیادہ مشابہ ھوں گے اور آپ کے شکل وشمائل کے حوالے سے جو کچھ تاریخ میں درج ھے وہ یہ ھیں۔
۱۔سفیدی وسرخی کا سنگم نورانی چھرہ۔
۲۔ رخسار مبارک گندمی لیکن شب زندہ داری کے باعث زردی مائل۔
۳۔ کشادہ اور تابناک پیشانی۔
۴۔ بھویں آپس میں متصل اور ناک ستواں۔
۵۔دلکش چھرہ ۔
۶۔ ریش مبارک اور سر کے بالوں کی سیاھی پر رخ زیبا کانور غالب ھوگا۔
۷۔ داھنے رخسار پر ایک تل ھوگا۔
۸۔سامنے کے دندان مبارک میں (رسول خدا کی مانند ) شگاف ھوگا (جو حسن کو دوبالاکردے گا ) ۔
۹ ۔ آنکھیں سیاہ وسرمئی اور سرپر ایک نشان ھوگا ۔
۱۰۔ بھرے اور کشادہ شانے ۔
۱۱۔ روایت میں ھے کہ ”المھديِّ طاووس اٴھلَ الجَنَّةِ وجھہ کالقمر الدری علیہ جلابیب النور“ امام زمانہ اھل بھشت کے لئے طاؤوس (مور ) کی طرح ھیں آپ کاچھرہ چاند کی طرح منور اور جسم پر نورانی لباس ھوگا ۔
۱۲۔ نہ دراز نہ پستہ بلکہ میا نہ قد ھوںگے ۔
۱۳۔ قدوقامت ایسا اعتدال وتناسب کے سانچہ میں ڈھلا ھوگا کہ چشم عالم نے اب تک نہ دیکھا ھوگا ۔”صلی اللّہ علیہ وعلی آبائہ الطاھرین “
امام زمانہ(علیہ السلام) کی غیبت صغریٰ
غیبت صغریٰ کا آغاز آپ کے پدر بزگوار کی شھا دت اور ان پر نماز پڑھنے کے بعد ھو ا ۔اس غیبت میں امام زمانہ (علیہ السلام) نے اپنے لئے خصوصی نائب چنے جن کے ذریعہ شیعوں کی ضروریات اور ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے کچھ دن تک چار نمایندے ایک کے بعد ایک آپ کاحکم اور جو اب لے کر شیعوں تک پھنچاتے تھے ۔
امام کے پھلے نائب خاص :ابو عمر عثمان بن سعید العمری الاسدی تھے جن کی نیابت ۲۶۰ھ سے شروع ھوکر ۲۸۰ھ پر ختم ھو گئی ۔
دوسرے نائب :ان کے بیٹے محمد بن عثمان العمری تھے جو باپ کے انتقال کے بعد ۲۸۰ ھ سے ۲۰۵ ھتک نائب تھے ۔
تیسرے نائب :ابوالقاسم الحسین بن روح نو بختی جن کی نیابت ۳۰۵ ھ سے لے کر ۳۲۶ھ تک تھی ۔
چوتھے نائب :ابو الحسن علی بن محمد سمری ۳۲۶ھ سے لے کر ۳۲۹ ھتک تھے او ر اسی سال ۱۵شعبان کو انتقال کر گئے ۔
ان حضرات کے نیابت کی جگہ بغداد تھی اور یہ سب بغداد میں ھی مدفون ھیں اس کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ھوجاتا ھے۔
امام زمانہ (علیہ السلام) کی غیبت کبریٰ
امام زمانہ کی غیبت کبری علی بن محمد سمری کے انتقال سے چھ دن قبل امام زمانہ کی جانب سے توقیع شریف جاری ھوئی ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا علیِّ بن محمّد ا لسّمری اٴعظم اللّہ اٴجر اخوانک فیک فاِنّک میت ما بینک وبین ستة اٴیام فاجمع اٴمرک ولا توصي اِلیٰ اٴحد فیقوم مقامک بعد وفاتک فقد وقعت الغیبة التامة فلا ظھور اِلاّ بعد اِذن اللّہ تعالیٰ ذکرہ و ذلک بعد طول الاٴمد وقسوة القلوب وامتلاء الاٴرض جوراً وسیاتی من شیعتیِ مَن یدعیِ المشاھدة الا فمن ادعیٰ المشاھدة قبل خروج السّفیانیِ والصیحة فھوکذّاب مفترّ ولا حول ولا قوة اِلّا باللّہ العَلِّی العظیم۔
اے علی بن محمد سمری! ”خدا تمھاری موت پر تمھارے بھائیوں کو صبر اور اجر عظیم عطا کرے اب سے چھ دن کے اندر تمھارا انتقال ھوجائے گا ،لہٰذا اب تم اپنے امور کو مرتب کرلو اور آئندہ کے لئے کسی کو اپنا وصی مقرر نہ کرنا،جو تمھارے انتقال کے بعدتمھارا جانشین قرار پائے کیونکہ اب غیبت تامہ (کبری ) کا سلسلہ شروع ھو رھا ھے اور اب اس وقت ظھور ھوگا جب خدا کا حکم ھو گا اوریہ ایک طویل مدت اوردلو ں کے سخت ھوجانے اور زمین کے ظلم سے بھر جانے کے بعد ھی ھو گا ۔آئندہ زمانے میں ھمارے شیعو ں میں سے بعض اس بات کا دعوی کریں گے کہ ھم نے امام زمانہ کو دیکھا ھے لیکن جو شخص سفیانی کے خروج اور آسمانی آواز سے پھلے مجھے دیکھنے کا دعوی کرے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ھے اور کوئی طاقت وقوت نھیں سوائے بلند وعظیم خد اکے“۔ [36]
لہٰذا اب لوگ غیبت کبری میں علماء مجتھدین کی طرف رجوع کریں جیسا کہ خود امام زمانہ نے اسحاق بن یعقوب کے مسئلہ کے جواب میں جومحمد بن عثمان بن سعید سمری کے ذریعہ امام تک پھنچاتھا ۔آپ نے فرمایا : ”واٴمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیھااِلیٰ رواة اٴحَادیثنا فاٴِنّھُم حُجَّتِی علیکم واٴنا حُجّة اللّہِ علیھم“ ا ب اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ھوجا ئے تو اس میں راویان حدیث کی جانب رجوع کرنا کیونکہ یہ ھماری طرف سے تم پر حجت ھیں اور ھم خدا کی طرف سے ان کے لئے حجت ھیں۔
”اللَّھمَّ عَجّل فَرجہ واجعلنا من اٴعوانہ واٴنصارہ“ (آمین ) [37]
[1] سورہ بقرہ آیة :۲۹
[2] سورہ نحل آیة :۱۲
[3] سورہ توبہ آیة ۱۲۸
[4] سورہ بقرہ آیة: ۱۲۴
[5] سو رہ لقمان آیة: ۱۳
[6] سورہ شوری آیة: ۴۲
[7] سورہ فاطر آیة: ۳۲
[8] سورہ طلا ق آیة: ۱
[9] سو رہ یونس آیة :۳۵
[10] بحارالانوار جلد،۲۳ ص ۷۴
[11] سورہ احزاب ۔آیة: ۳۳
[12] ینابیع المودة ص۱۲۶۔
[13] جامع الاصول ج/ص/۱۱۰۔
[14] الامام الصادق والمذاھب الاربعہ ج،۱ص۸۹۔
[15] غایةالمرام ص ۲۹۵
[16] غایةالمرام ص، ۲۹۳
[17] نو ر الثقلین ج ۴، ص ۲۷۱
[18] سورہ یوسف آیة:۲۸۔ ۲۹
[19] غایة المرام ص ، ۲۹۳
[20] ینابیع المودة ص ۵۳۴
[21] اصول کا فی کتاب الحجة
[22] سورہ مائدہ آیة: ۵۵
[23] الاحزاب آیة:۶
[24] سورہ توبہ آیة:۷۱
[25] سورہ نساء آیة:۵۹
[26] تفسیر نورا لثقلین ج ۱ ص۵۰۵، دلائل امامت ۲۳۱
[27] سورہ شعراء آیة:۲۱۴
[28] سورہ مائدہ آیة: ۶۷
[29] سورہ مائدہ آیة:۳
[30] سورہ مائدہ آیة۳
[31] سورہ مائدہ آیة ۳
[32] التذکرہ ص۲۰۴ ۔منھا ج السنہ ص ۲۱۱۔
[33] ینابیع المودة ،ج۳،ص۸۹ سنن سجستانی ،ج ۴ ص ۱۵۱ مسند ، ج ۱ ص ۹۹ نورالابصار ،ص۲۲۹
[34] مودة القربی ،ص ۹۶ ینابیع المودة ص ۴۵۵
[35] یہ ان خصوصیات کا خلا صہ ھے جنھیں محدث قمی نے منتھی الاما ل میں نقل کیا ھے ۔
[36] منتھی الامال نقل از شیخ طوسی وصدوق ۔
[37] بحث امامت کی تدوین و ترتیب میں حسب ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ھے ؛ بحارالانوار ، حق الیقین مرحوم مجلسی ؛ اثبات الھدی، شیخ الحر عاملی ؛ المراجعات شرف الدین ، بررسی مسائل کلی امامت ابراھیم امینی اصول اعتقادرا این گونہ تدریس کنیم ، امامی ، آشتیانی ، حسنی ) کتابھا ، عقائد آقایان مکارم شیرازی ، سبحانی استادی ری شھری، قراٴتی کلمة الطیب ، مرحوم طیب۔