دنیا  کے سلسله میں نہج البلاغہ کا بیان

کوئی بھی شے بذاات خود نہ اچھی ہے نہ بری ۔ مگر عواقب و نتائج کے ساتھ ، نیک فرجام ہے تو محبوب ، بد انجام ہے تو مذموم ، نہج البلاغہ میں بھی دنیا کو اسی زاویہ ٔ نظر سے دیکھا گیا ہے اور اسی میزان پر تولا گیا ہے ۔ کہیں مذمت تو کہیں مدحت ، کہیں منقبت تو کہیں منقصت ، کہیں ضلالت کا مرکز بتایا گیا تو کہیں ہدایت کا محور ، کہیں شقاوت ابدی سے تفسیر کی گئی تو کہیں سعادت دائمی سے تعبیر کی گئی کہیں باد سموم کہا گیا تو کہیں باد صبا ۔ یہ ظاہری تضاد عواقب و نتائج کا ماحصل ہے ۔

ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ یہ صحیح ہے کہ نہج لابلاغہ میں دنیا کی تعریف بھی ہے تذلیل بھی ہے توصیف بھی ہے تحقیر بھی ہے ، مگر مذمت با کثرت ہے اور مدحت بقلت بلکہ بندرت ، تو اس کا جواب یہی ہے کہ دنیا کی رعنائیوں ، نعمتوں اور لذتوں کے طوفان میں پھنس کر ہلاک ہو جانے والے بہت ہیں مگر دنیا کی مادّیات تک محدود نہ رہ کر دنیا کی عبرتوں کو صاف و شفاف آئینۂ تمام نما بنا کر اپنے کردار کی صحیح تصویر دیکھنے والے اور تصویر دیکھ کے اس میں موجود نقائص و معائب کو بر طرف کر کے یعنی انسان کامل بنکے باکمال اشتیاق ، لقاء رب کا انتظار کرنے والے بہت کم ہیں ، بالفاظ دیگر دنیا کی وسعتوں میں گم ہو جانے والے بہت ہیں مگر دنیا کو اس کی تمام تر پہنائیوں کے ساتھ اپنے وجود میں ضم کر لینے والے بہت کم ہیں ۔

( قلیل من عبادی الشکور)  (سورہ ٔ سبا  ١٣ )۔ ہمارے شکر گذار بندے بہت کم ہیں ۔

سوال :  آخر کیا سبب ہے کہ پیغمبر ۖ اسلام اور دوسرے ائمہ   کی بنسبت حضرت علی   کے کلام میں دنیا کی مذمت زیادہ بیان کی گئی ہے ؟ ۔

جواب :   حضرت علی   کے زمانے میں یعنیخلفاء کے ادوار میں بالخصوص خلیفہ ٔ سوم کے دور میں فتوحات اور ان میں ملنے والے غنائم کی بناء پر دنیا پرستی کے حوالے سے امت مسلمہ کو بڑا  عظیم خطرہ لاحق تھا ، غرباء و فقراء پر ہونے والے مظالم ، تقسیم غنائم اور حقوق کی ادائیگی میں عدم مساوات کے سبب اسلامی معاشرہ سخت حیران و پریشان تھا ، گریاں و نالاں تھا ، انگشت بدنداں تھا ، چنانچہ آپ  اس وحشت ناک ماحول کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تم ایسے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہو جس میں نیکی مسلسل منہ پھیرکر جا رہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے ،شیطان کی سازشیں عام ہو چکی ہیں اور اسکا شکار اسکے قابو میں ہے ،تم جدھر چاہو نظر اٹھاکے دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی ناشکری کی اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہرے ہو گئے ہیں اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔(نہج بلاغة خطبہ ١٢٩ )

لھٰذا وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوے حضرت علی نے نسباًدنیاکی زیاد ہ مذمت فرمائی تاکہ دنیا کی لذتوں کے جان لیوا سمندر میں ڈوبنے والوں کو بچاسکیں اور ساحل نجات تک پہونچاسکیں ،اور محرومیت کی بناء پر یاس ونا امیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مضطرب انسانوں کو نور امید میں لاسکیں ۔مذکورہ تمھید کے پیش نظر اس مقالے میں اپنی جہالت ونادانی کی تاریکی میں نہج البلاغة کی روشنی کو سہارا بنا کر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔

١)دنیائے مذموم   ٢) دنیائے ممدوح

دنیائے مذموم :  اس دنیا میں اگر انسان کا ھدف مکولات ومشروبات تک محدودرہ جائے تو لاریب یہ انسان جانوروں کے مانند ہے بلکہ (بل ھم  اضل) کی پھٹکار اسکے گلے کا طوق گرانبار ہے چوںکہ ایسا انسان در حقیقت اپنی فطرت وجبلت کے بر خلاف بر سر پیکار ہے ۔حضرت علی فرماتے ہیں (میں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں کہ مجھے لذیذ غذائیں اپنی طرف مائل کر لیں اور میں جانوروںکے مانند ہو جاوں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو انکا کل مقصد چارہ ہوتا ہے اور آزاد ہوتے ہیں تو کل مشغلہ ا دھر ادھر چرنا ہوتا ہے )نہج البلاغة مکتوب ٤٥

یقینا اگر انسان اس عالم رنگ و بو کے کیف و نشاط میں اپنا مقصد حیات بھول جائے تو یہ اس کی کرامت کے خلاف ہے اسی لئے ہمیںحکم دیا گیا ہے(اکرم نفسک عن کل دنیٔة)اپنی نفس کو ہر طرح کی پستی سے محفوظ رکھو( مکتوب٣١  )ہر وہ شے جو انسان کو گم کر دے اس میں جمود پیدا کردے راہ صعود میں حائل ہو جائے  وہ مذموم ہے ۔

مذمت دنیا کے اسباب :

١ ) فناء اور عدم بقاء نہج البلاغہ میں بلیغ تشبیہات ، لطیف کنایات ، ظریف اشارات ، بے نظیر استعارات اور مؤثر امثال و حکایات کے قالب میں بار بار دنیا کی بے ثباتی اور نا پائیداری کو بیان کیاگیا ہے اور اس سے دل بستگی سے روکا گیا ہے یہ دل بستگی دنیا میں موجب ِ خستگی ہے اور آخرت میں باعث ندامت و شر مندگی ۔

یہ دنیا حائلة زائلة بدل جانے والی ہے ، فنا ہوجانے والی ہے ، (نافدة بائدة) زوال پذیر ہے اور ہلاکت سے قریب ہے ،( لا تدوم جرتھا) اس کی خوشی دائمی نہیں کو ئی بھی شخص اس کی خوشی کو نہیں دیکھتا مگر یہ کہ مصیبت میں ڈال کررو گرداں ہو جاتی ہے ۔ (خطبہ ١١١)    یہاں کی زندگی میں ایک دن کا اضافہ بھی نہیں ہوتا جب تک ایک دن کم نہ ہوجائے ، غذا میں زیادتی پہلے رزق کے خاتمہ کے بعد ہوتی ہے ۔ ( خطبہ ١٤٥)   ہم بقاء کی امید بھلا کیسے کر سکتے ہیں جبکہ روز  وشب کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ اسے منہدم کر دیتے ہیں اور جیسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے منتشر کر دیتے ہیں ۔ (حکمت ١٩١)

لھٰذا حضرت علی  فرماتے ہیں : (ما ِلعلّیٍ و لنعیمٍ یفنی ٰ و لذّةٍ لا تبقی ٰ) علی   کو ان نعمتوں سے کیا سرو کار جو فانی ہیں ، ان لذتوں سے کیا واسطہ جو غیر باقی ہیں ۔ (خطبہ ٢٢٤)   بلا شبہ ایسی دنیا سے وابستگی حماقت و سفاہت ہے ، ایسی دنیا سے فلاح و نجات کی امید کرنا احمقوں کی جنت بسانے کے مترادف ہے ۔

فکری انحراف اور اس کا ازالہ :

حب دنیا زود گذر ہے اس کے روز و شب کا کوئی بھروسہ نہیں ،آتی ہے تو باکمال  ِ نازبرداری ،جاتی ہے تو با کمال غمگساری لھٰذا راحت و عیش و عشرت کے سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے بلکہ بھر پور اور حتی المقدور ہوس انسانی کی تشنگی بجھاتی جائے ۔

واضح ہے کہ یہ خیال خام ، یہ وہم و گماں انہیں افراد سے مخصوص ہے جو آخرت سے یکسرے غافل ہیں اور اس ہوس رانی کے انجام سے جاہل ہیں ۔ ورنہ اس نکتے کی طرف متوجہ ہو جاتے تو مارگذیدہ کی طرح تڑپنے کو حریر و دیباح کے نرم و نازک بستروں پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس ترین     زندگی گذارنے کو مرفّہ حالی اور مال و دولت کی فراوانی پر ترجیح دیتے ، یہ تھی دنیا کی ناپائیداری سے متعلق نہج البلاغہ میں بیان شدہ تعبیرات کی ایک ہلکی سی جھلک ۔

مذمت دنیا کا دوسرا سبب :

٢) دنیا کی محبت آخرت سے غفلت کا باعث ہے  (حب الشئی یعمی  و یصّم) محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے جب انسان دنیا کا فریفتہ ہو جاتا ہے تو دنیا کے سارے عیوب و نقائص اس کی نگاہوں میں محاسن و محامد دکھائی دینے لگتے ہیں اور یہ وسیع النظر اور افضل مخلوق انسان دنیا کی چند روزہ لذتوں اور نعمتوں کا ایسا گرویدہ ہوجاتا ہے کہ آخرت اس کی نظر میں نسیاّ ً منسیاً  بلکہ (کان لم یکن شیئاً مذکورا) ہوجاتی ہے یعنی آخرت سے بالکل غفلت زدہ ہوجاتا ہے اور یہ غفلت اس حد تک پہونچ جاتی ہے کہ اسیر دنیا ، آخرت کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنالینا بھی معیوب نہیں سمجھتا ( عامل فی الدنیا للدّنیا قد شغلتہ دنیاہ عن آخرتہ) کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو دنیا میں خود دنیا کے لئے کام کرتے ہیں  جس کے نتیجہ میں دنیا نے انہیں آخرت سے غافل  بنا دیا ہے۔  ( حکمت ٢٦٩ نہج البلاغہ )( و لبئس المتجران تری الدنیا لنفسک ثمناً و مما لک عند اللہ عوضاً ) وہ تجارت کتنی زیان بار ہے جس کے نتیجہ میں انسان جسے اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے دنیا کا غلام بن جائے اور حطام دنیا ( سڑے ہوئے بھوسہ ) کے عوض آخرت کا سودہ کر بیٹھے (نہج البلاغہ خطبہ ٣٢)  ۔

خطبہ ٔ شقشقیہ کے آخر میں خلافت کے سلسلے میں آپ پر ظلم کرنے والے ظالموں کے ظلم کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ( بعد رسول وہ ایسے ہو گئے جیسے انہوں نے خدا کا یہ ارشاد سنا ہی نہیں ( یہ دار آخرت تنہا ان لوگوں سے مخصوص ہے جو روئے زمین پر فساد اور بلندی کے خواہاں نہیں ہیں ) ہاں ہاں ! خدا کی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی ، اس کی چمک دمک نے انہیں لبھا  لیا اور نتیجہ میں یہ آخرت سے غافل ہو گئے ) ۔( خطبہ ٣ )

انبیا ء الھٰی اور دنیائے فانی :

نہج البلاغہ میں مختلف مقامات پر دنیا سے متعلق انبیاء و مرسلین   کی سیرت کا تذکرہ موجود ہے ۔

سیرت جناب داؤدعلیہ السلام :

حکومت و سلطنت کے باوجود زہد کا عالم یہ تھا کہ اپنے دست مبارک سے کھجور کے پتے توڑتے اور انہیں سے ٹوکریاں بنایا کرتے تھے اور پھر انہیں فروخت کر کے جو کی روٹیاں کھا لیا کرتے تھے ۔ ( خطبہ ١٦٠)

سیرت جناب موسیٰ علیہ السلام:

(کان یاکل بقلة الارض) دنیا کی ساری مرغوب غذاؤں کو چھوڑ کر زمین سے اگنیوالی سبزیاں نوش فرماتے تھے اور چونکہ انتہائی لاغر ہو گئے تھے لھٰذا ان کے شکم مبارک کی نازک کھال سے سبزی کا رنگ صاف نظر آیا کرتا تھا  ۔

سیرت جناب عیسیٰ علیہ السلام:

(لقد کان یتوسّد الحجر) پتھر ان کا تکیہ تھا کھردر ا ان کا کر تہ تھا ، ان کی غذا میں سالن کی جگہ گرسنگی تھی ، رات میں چراغ کے عوض چاند کی روشنی تھی ، ان کے قدم ان کے راہوار تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خدمت گذار تھے ۔(خطبہ ١٦٠)

سیرت حبیب خدا حضرت محمد مصطفی  ۖ:

وہ رسول جو دونوں جہاں کے سید و  سردار تھے ، لو لاک لما خلقت الافلاک کے مصداق تھے ۔ ان کے ترک دنیا کا عالم یہ تھا کہ ( یکل علی الارض )کھانا زمین  پر بیٹھ کے کھاتے تھے، نشست و برخاست کا انداز غلامانہ تھا اپنے ہاتھوں سے جوتیوں کاٹاکنا اور کپڑوں پر پیوند لگانا آپ کا شیوہ تھا ، دنیا کی زیب و زینت سے اس درجہ متنفر تھے کہ در خانہ پر ایسا پردہ دیکھ کر جس پر تصویر بنی ہوئی تھی بر افروختہ ہوگئے اور ایک زوجہ سے فرمایا : خبر دار ! اسے ہٹاؤ میں اس کو دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئیگی۔

( خطبہ ١٦٠)

دنیائے دنیٰ اور حضر ت علی:

آپ کے فرمودات : (مثل الدنیا کمثل الحیّة ) دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نازک ہوتا ہے مگر اس کے منھ میں زہر  ِ ہلا ہل ہوتا ہے ۔     (حکمت ١١٩)

واللہ تمہاری دنیا میری نظر میں سوّر کی اس اوجھڑی سے بھی زیادہ پست ہے جو کسی مجذوم (کوڑھی )کے ہاتھوں میں ہو ۔

(حکمت ٢٣٦)

قسم بخدا تمہاری یہ دنیا میری نظر میں بکری کی اس ناک سے نکلنے والی رطوبت سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔  ( خطبہ ٣  ٔ شقشقیہ )

آپ کا کردار  :   آگاہ ہو جاؤ تمہارا امام وہ ہے جو اس دنیا میں صرف اور صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور روٹیوں پر گذارا کر تا ہے ۔

( مکتوب ٤٥)  (یا دنیا یا دنیا الیَک ِ عنّی ): محراب عبادت  میں شب کی تاریکی میں ، ریش مبارک ہاتھ میں پکڑ کے ، مار گذیدہ کی طرحتڑپتے ہوئے زاروقطار گر یہ و زاری کے عالم میں فرمایا : اے دنیا ! اے دنیا جا مجھ سے بہت دور ہو جا ، تو میرے سامنے بن سنور کے آتی ہے یا واقعاً مشتاق بن کے آتی ہے ؟ جا  میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے ، ارے میں تو تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں اب یہاں کیا کررہی ہے ۔

( حکمت ٧٧)

ہم بھی زاہد بنیں :

یہ ہے انبیاء و مرسلین  اور امیر المومنین علیہ السلام کا زہد ، ہمیں بھی بار بار نہج البلاغہ میں زہد اور دنیا سے دوری کا حکم دیا گیا ہے ( اپنے قلب کو حیات عطا کرو موعظہ کے ذریعہ اور نفس امّارہ کو مات دے دو  زہد  و ریاضت کے ذریعہ ) ( مکتوب  ٣١)

اے لوگو ! دنیا میں زاہد انہ روش اختیار کرو ۔( خطبہ  ١٠٣ )  کہ زاہدانہ اصول زندگی اسی میں ہے روح کی تازگی ، فکر کی بالیدگی ، قلب کی آسودگی اور یہی ہے کمال بندگی ۔

حقیقت زہد  :

 زہادت کی وادی میں قدم رکھنے سے پہلے زہد سے آشنائی بہت ضروری ہے ورنہ خطر ہ ٔ ضلالت و گمراہی ہے ۔ نہج البلاغہ میں دو مقامات پر زہد کی تعریف بیان کی گئی ہے۔( ایھا الناس الزّھادة قصر الا مل ) اے لوگو ! زہد لمبی لمبی آرزوؤںکے کم  کرنے ، نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے اور  محرمات سے پر ہیز کرنیکانام ہے ۔( خطبہ ٨١ )

تمام زہد  قرآن حکیم کے  دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے ( جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو چیز مل جائے اس پرمغرور نہ ہو جاؤ  لھٰذا جو شخص ہاتھ سے نکل جانے والی نعمتوں پر افسوس نہ کرے اور مل جانے والی نعمتوں پر فخر و مباہات نہ کرے وہ با معنی حقیقی زاہد ہے  )  (حکمت ٤٣٩)

مقصد یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں کے ملنے پر نہ اتنا مسرور ہو جائے کہ پھولے نہ سمائے جس کا لازمہ ہے غرور و تکبر ، اور نہ ہی دنیا کی نعمتوں کے زائل ہو جانے پر اتنا محزون ہو جائے کہ پورے بدن میں حیات بن کے دوڑنے والا خون منجمد ہو جائے کہ یہ یاس ونا امیدی ہے یعنی دنیا کی نعمتوں کا وجود ہو یا عدم ، نہ باعث فرحت و سرور ہو نہ موجب ھمّ  و غم ، یہی ہے تقوی ٔ الھٰی کا شباب ، یہی ہے  زہد کا لبّ لباب ۔

زہد اور رہبانیت کا فرق  :

یہیں سے زہد اور رہبانیت کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ رہبانیت دنیا کی لذتوں اور نعمتوں کا نہ ہونا ۔ زہد یعنی : جائز اور پاکیزہ لذتوں اور نعمتوں کا ہو نا مگر رہنے یا چلی جانے پر نہ ہنسنا، نہ رونا ۔ زاہد اور راہب دونوں دنیا پرستی سے پر ہیز کرتے ہیں مگر فرق ہے ، زاہد یہ عظیم الشان معرکہ سماج میں رہ کے سر کر تا ہے اور راہب معاشرے سے گریزاں ہو کے پہاڑوں اور بیابانوں کے دامن میں پناہ لے کے اس میدان میں قدم رکھتا ہے ۔

زاہد صحت و سلامتی ۔ نظافت و پاکیز گی اور ایک عیال کے ساتھ زندگی گذارنے کو اپنے فرائض کا جزء لا ینفک سمجھتا ہے جبکہ راہب ان انسانی اقدار کو خیر باد کہہ دینا اپنی زندگی کا جز ء اعظم تصور کر تا ہے ، دونوں طالب آخرت ہیں مگر زاہد کے دل میں شوق ِ آخرت کے ساتھ سماج کی محبت ہوتی ہے جبکہ راہب معاشرے سے متنفر نظر آتا ہے ۔

دنیائے ممدوح  :

کیا دنیا اور آخرت میں تضاد ہے ؟

زاہد اور راہب کے درمیان اختلاف کا بنیادی سبب دونوں کا طرز تفکر ہے ، راہب کی نظر میں دنیا و آخرت دو متضاد عوالم ہیں لھٰذا اجتماع نا ممکن ہے لیکن زاہد کی نظر میں صرف یہی نہیں کہ دنیا اور آخرت کے درمیان تضاد نہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان بہت گہرا ارتباط ہے جو ناقابل انفکاک ہے ، دنیا آخرت تک پہونچنے کا وسیلہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ نہج البلاغہ حکمت ١٠٣ میں امام علی   نے فرمایا : (دنیا و آخرت مشرق ومغرب کے مانند ہیں کہ ایک سے نزدیکی دوسرے سے دوری کا سبب ہے ) یہ صحیح اور بالکل صحیح ہے مگر جناب امیر المومنین    اس میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اگر دنیا اور آخرت دونوں مقصد قرار پا جائیں تو مشرق و مغرب کے مانند ہیں ، اک دوسرے کی موت اور دشمن ہیں ورنہ دنیا سے بہرہ مندی آخرت سے محرومی کا سبب نہیں ۔( قل من حرّم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ ) اے رسول کہہ دیجیئے آخر وہ کون ہے جس نے دنیا کی پاکیزہ اور طیب و طاہر لذتوں کو مومنین پر حرام  قرار دیا  ۔ (سورہ ٔ اعراف  ٣٢)      ممکن ہے ایک شخص  کے پاس دنیا کی ساری نعمتیں موجود ہوں مگر وہ زاہد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اک شخص کے پاس کچھ بھی نہ ہو مگر وہ فاسق و فاجر ہو، دنیا  برائے دنیا  مذموم ہے مگر دنیا برائے آخرت ممدوح ہے و (عامل فی الدنیا  لما بعدھا )   کچھ ایسے بھی صاحبان عقل و خرد ہیں جو عمل دنیا میں کرتے ہیں مگر نتیجہ کی امید آخرت میں رکھتے ہیں ۔

(  نہج البلاغہ حکمت ٢٦٩)

ایسے افراد کے لئے دنیا باعث شقاوت نہیں بلکہ عین سعادت ہے ۔اس دنیا میں زندگی گذارنے کا مقصد اگر بلند ہو تو اسی دنیا میں رہ کے یہ ذرّہ ناچیزکمال خورشید ازلی سے متصل ہو سکتا ہے یہ قطرہ ٔ حقیر بحر بیکران رحمت الٰہی سے منسلک ہو سکتا ہے۔

کمتر از ذرہ ای پست مشو مھر  بورز

تا بخلوت گہ خوشید رسی چرخ  زنان

مولانا روم

بلندی کی جو خواہش  کی قرین عرش جا پہونچا

ہوا  جب  مائل پستی تہہ تحت  الثری ٰ  آیا

ناطق اعظمی

انسان میں برائی ہے یا دنیا میں :

حضرت علی   نے ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : ( اے دنیا کی مذمت کرنے والے سچ بتا تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یااسے تجھ پہ الزام لگانے کا حق ہے ، آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھینا تھا اور تجھے دھوکہ دیا تھا کیا کہنگی کی بنا پر تیرے آبا ء اجداد کی ہلاکت سے دھوکہ دیا ، یا تیری ماؤں کے زیر خاک سو جانے سے دھوکہ دیا ، یا د رکھ دنیا صادق کی  سچائی کا گھر ہے اور صاحب فہم کے لئے امن وامان رہ گذر ہے ، نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے واعظ ہے ، اولیاء خدا کی قیام گاہ ہے ، فرشتوں کی سجدہ گاہ ہے خدا کے دوستوں کی جائے تجارت ہے اور وحی الھٰی کی محبط ہے  ( حکمت ١٣١)

خطبہ نمبر ٢٢٣ میں فرماتے ہیں : اگر تو نے اسے زمیں بوس مکانوں اور غیر آباد منزلوں میں پہچان لیا ہوتا تو دیکھتا کہ یہ اپنی بلیغ ترین نصیحت اور یاد دہانی میں تجھ پر کس قدر مہر بان ہے ۔ ( و لنعم دار من لم یرض بھا داراً )جو اسے آباد کرنے پر راضی نہ ہو اس کے واسطے بہترین گھر ہے جو ہر طرح کے فساد وں سے بے خوف و خطر۔ ( خطبہ ٢٢٣)

مذکورہ ارشادات وفرمودات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا بری نہیںہے جو ہم اسے چھوڑدیں زھدکا مفہوم یہ نہیںہے کہ اس کی پاکیزہ لذتوں سے استفادہ نہ کیا جائے البتہ پاک وپا کیزہ لذتوں اور نعمتوں سے استفادہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کو پاک وپاکیزہ بنا لیاجائے۔ قرآن مجید ، نہج ا لبلاغہ اور دیگر آیات و احا دیث کے منابع میں اجتماعی ، اقتصادی و سیاسی مسائل کا کثرت سے بیان ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام انسان کو دنیاوی زندگی سے بیزار نہیں کرنا چاہتا بلکہ حقیقی معنوں میں لذت زندگی سے آشنا کر انا چاہتا ہے لیکن اس مقا م پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زہد کا حقیقی مفہوم یہی ہے جو ابھی تک بیان کیا گیا ہے تو اولیاء خدا ور ائمہ طاہرین   جن کے ذریعہ یہ مفاہیم ہم تک پہونچے خود انہوں نے  ہی زہد  کے اس مفہوم کو چھوڑ کر حتی الامکان دنیا کی جائز لذتوں اور نعمتوں سے کیوں پرہیز کیا ؟

انبیا ء و مرسلین و ائمہ طاہرین   اوربہت سے علماء عاملین کے ترک لذات کا فلسفہ : عوام الناس کی حیثیت الگ ہے اور ان کے امراء کی حیثیت الگ ہے ان کے زہد اور ہمارے زہد کی نوعیت مختلف ہے ہمیں بہت سختی سے ان کے جیسے زہد اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حضرت علی   نے عاصم ابن زیاد جو آپ کی پیروی کرنے کی غرض سے تارک دنیا ہو گئے تھے ان کی تو بیخ کرتے ہوئے فرمایا :(یا عدوّ نفسہ) اے دشمن جان ! تو اپنے اہل و عیال پر کیوں نہیں رحم کرتا ؟ کیا تیرا خیال یہ ہے کہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کر دیا مگر ان کے استعمال کو ناپسند کرتا ہے عاصم نے عرض کی : یا امیر المومنین  آپ بھی تو کھر درے لباس اور معمولی غذا پر گذارا کرتے ہیں ؟فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میرا قیاس اپنے اوپر کر لیا جبکہ حکم الھٰی ہے کہ ائمہ حق اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین افراد کو قرار دیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا ء پر کسی پیچ و تاب کا شکار نہ ہو ۔ (خطبہ ٢٠٩ )

مکتوبہ نمبر ٤٥ میں اپنے زہد کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : ممکن ہے حجاز یا یمامہ میں کچھ ایسے نادار افراد بھی ہوں جن پاس ایک روٹی کا بندو بست بھی نہ ہو کیا میں اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہوں کہ مجھے امیرالمومنین کہا جائے اور زمانے کے ناخوش گوار حالات میں مومنین کا شریک حال نہ رہوں ۔

یہ ہے ہمارے ائمہ   کی انتہائی سادہ زیستی اور ترک لذت کا فلسفہ جسمیں مومنین کی اقتصادی حالت کے بدلنے سے تبدیلی کا امکان موجود ہے ۔

اس کردار سے ملنے والا درس :

اسلام میں حکومت و ریاست کا مقصد سیر و سیاحت اور عیش و عشرت نہیں ہے جیسا کہ آج ہو رہا ہے ہر گز نہیں ۔ اسلام میں عہدہ و منصب کا ہدف اپنی اور دنیاوی امور میں عوام الناس کی خدمت و نصرت ہے ۔ اسلام میں اقتدار کا مطلب نام نہیں کام ہے ۔

خلاصہ  :

واضح رہے کہ حضرت علی   نے جہاں کہیں بھی دنیا کی مذمت کی ہے  تو ا س مذمت کے ذریعہ دنیا کی منزلت گھٹائی نہیں ہے بلکہ انسانیت کی عظمت بڑھائی ہے  دینا اچھی سے اچھی شے اگر دنیا برائے آخرت ہو اور یہی دنیا بری سے بری شے اگر دنیا برائے دنیا ہو ۔ ہمارے ائمہ   نے عوام کے منافع اور  مصالح کی خاطر ہمیشہ زاہدانہ زندگی گذاری مگر عین اپنے جیسا زہد اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم اس پر قادر نہیں ہیں ( الا وانکم لا تقدروں علی ذالک ولکن اعینونی  بورع و اجتہاد و عفة و سداد )  ( مکتوب ٤٥) کے ذریعہ ہمیں بھی جہاں تک ہو سکے ورع و زہد ، اور سعی و کو شش کا حکم ضرور دیا ہے اسلامی زہد کا مفہوم بس یہ ہے کہ انسان آزاد رہے دنیا اور ان کی لذتوں کا اسیرنہ ہو جائے کہ اسارت حقارت ہے ،اور حریت کمال انسانیت ہے ۔

عقیدت کا نذرانہ اور خاتمہ :

اے امیر المومنین  ! ، اے میدان حریت کے شہسوار ، اے  جلال و جمال ِ الھٰی کے بے مثال شاہکار ، اے عابد شب زندہ دار ، اے زاہدوں کے سید و سردار تم پر ہمارا لاکھوں درود و سلام ، ہم کیا ؟ ہماری کیا حیثیت جو آپ کی خدمت میں کچھ پیش کر سکیں ۔ بس شکستہ الفاظ و کلمات و جملات کے قلب میں  آپ ہی کے درس سے ملی ہوئی خیرات ہے جسے نذرانہ ٔ عقیدت بنا کے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ۔ اے عزیز عصر ِوجود!ہمارا یہ حقیر تحفہ قبول ہو ۔ اور ہمیں بھی آپ کے سر چشمہ ٔ حکمت سے آپ کے بحرِمعرفت سے ایک جزا عطا ہو جس میں ہمارے بیمار دلوں کی شفا ہو ، اور ایسی شفا جس کے بعد امراض و اسقام لا پتہ ہوں ۔ وسوسہ ٔ شیطانی ہم سے جدا ہو خاکی ہوتے ہوئے نوری افراد سے ہمارا واسطہ ہو ۔ مادّی ہوتے ہوئے مجردات سے ہمارا رابطہ ہو عالم طبیعت میں رہتے ہوئے ہمارے افکار طبیعت سے ماوراء ہوں ۔ عالم ہستی میں بستے ہوئے ہم دنیا و ما فیھا سے علاحدہ ہوں ۔

المختصر تمام امور میں ہمارا مطمح نظر صرف اور صرف خدا ہو۔ ( الھٰی ھب لی کمال الانقطاع الیک و انر قلوبنا بضیاء نظرھا الیک )