خالق نهج البلاغه کی زندگی هجرت کے بعد

اسلام کی شرک پر کامیابی

عرب کے بت پرستوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوںنے چھ دن میں کھودی تھی۔ ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رھے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پھونچ گئے۔ مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کر وہ لوگ حیران و پریشان ھوگئے ،دشمن کی فوج کے سپاھیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔[1]

تقریباً ایک مھینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رھے اور قریش کے سپاھی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پار کر جائیں۔ دشمن کے سپاھی خندق کے سپاھیوں سے مقابلے کے لئے جنھوںنے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے مورچہ بنایاتھا روبرو ھوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روز جاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔

    دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشوار اور مشکل تھا، چونکہ ٹھنڈی ھوا اور غذا کی کمی انھیں موت کی دعوت دے رھی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے دماغوں سے نکل جائے اور سستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے۔ اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرو دلیر سپاھی خندق کو پار کر جائیں۔ فوج قریش کے چھ پھلوان و بہادر اپنے گھوڑے کودوڑاتے ھوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوابول دیا اور بہت ھی احتیاط سے خندق پار کرکے میدان میں داخل ھوگئے ،ان چھ پھلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پھلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشھور تھا،لوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے اور وہ اندر سے لوھے کی زرہ پہنے ھوئے تھا اور مسلمانوں کی صفوں کے سامنے شیر کی طرح غرایااور تیز تیز چلا کر کہا کہ بہشت کا دعوی کرنے والے کہاںھیں؟کیاتمہارے درمیان کوئی ایسا نھیں ھے جومجھے جہنم واصل کردے یامیں اس کو جنت میں بھیج دوں؟

اس کے کلمات موت کی آواز تھے اور اس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح ڈر بیٹھ گیا تھاایسا معلوم ھوتا تھا کہ سب کے کان بند ھوگئے ھوں اور زبانیں گنگ ھو گئی ھوں۔[2]

ایک مرتبہ پھر عرب کے بوڑھے پھلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پھونچ گیا اور ٹھلنے لگااور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔

جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پھلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ھوتی تھی فقط ایک ھی جوان اٹھتاتھا اور پیغمبر سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت مانگتا،۔ مگر ہر بار پیغمبر اسے منع کردیتے تھے اوروہ جوان حضرت علی تھے۔ پیغمبر ان کی درخواست پر فرماتے تم بیٹھ جاوٴ یہ عمرو ھے۔

    عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آواز دی اور کہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نھیں ھے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی نے پیغمبر سے بہت اصرار کیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں۔ پیغمبر نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ھے ، حضرت علی خاموش ھوگئے بالآخر پیغمبر نے حضرت علی کی درخواست کو قبول کرلیا۔ پھر اپنی تلوار انھیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھااور ان کے حق میں دعا کی[3] اور کہا: خداوندا! علی علیه السلام کودشمن کے شر سے محفوظ رکھ۔ پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تو نے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی  -کو مشکلات سے دور رکھ۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: <رب لاتذرنی فرداً و انتَ خیرُ الوارثین>[4] پھر اس تاریخی جملے کو بیان فرمایا: ”برزَ الایمانُ کلّہُ الی الشرک کلِّہ“ یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ھوئے ھیں۔[5]

حضرت علی مکمل ایمان کے مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کا مل مظہر تھا۔ شاید پیغمبر کے اس جملے سے مقصد یہ ھو کہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ھوگیاھے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میںاجاگر کردے گی۔

امام  علیه السلام تاخیرکے جبران کے لئے بہت تیزی سے میدان کی طرف روانہ ھوئے اور عمرو کے پڑھے ھوئے رجز کے وزن اور قافیہ پر رجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفھوم یہ تھا: جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ھوں۔

حضرت علی(ع) لوھے کی زرہ پہنے ھوئے تھے اور ان کی آنکھیں مغفر (لوھے کی ٹوپی) کے درمیان  چمک رھی تھیں، عمرو حضرت علی کو پہچاننے کے بعد ان سے مقابلہ کرنے سے کترانے لگا اور کہا تمہارے باپ ھمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نھیں چاہتا کہ ان کے بیٹے کے خون کو بہاوٴ ں۔

ابن ابی الحدید کہتے ھیں :

 جب میرے استاد ابو الخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا : عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ھی قریب سے حضرت علی کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ  اس نے بہانہ بنایا او ربہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کرے۔

 حضرت علی نے اس سے کہا: تومیری فکر نہ کر۔ میں چاھے قتل ھو جاوٴں چاھے فتح حاصل کرلوں، خوش نصیب رھوں گا اور میری جگہ جنت میں ھے لیکن ہر حالت میں جہنم تیرا انتظار کر رہا ھے اس وقت عمرونے ہنس کر کہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نھیںھے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ھے۔[6]

اس وقت حضرت علی نے اسے وہ نذر یاد دلائی جس کو جو اس نے خدا سے کیا تھا کہ اگر قریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے تو وہ ایک چیز کو قبول کرلے گا۔ عمرو نے کہا:بالکل ایسا ھی ھے حضرت علی نے کہا:میری پھلی درخواست یہ ھے کہ اسلام قبول کرلے ۔ عرب کے نامی پھلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو مجھے تمہارے دین کی ضرورت نھیں ھے ،۔ پھر علی  -نے کہا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلاجا۔ اور پیغمبر کے قتل کودوسروں کے حوالہ کردے کیونکہ اگروہ کامیاب ھوگیا تو قریش کے لئے باعث افتخار ھو گا اور اگر قتل ھوگیا تو تیری آرزو  بغیر جنگ کے پوری ھوجائے گی ۔

عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نھیں کرتیں، کس طرح واپس جاوٴں، جب کہ محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) میرے قبضے میں ھیں اور اب وہ وقت پھونچ چکا ھے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پر عمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نھیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کاانتقام نہ لے لوں گا۔

 حضرت علی (ع)نے اس سے کہا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ھوجا! تاکہ پڑی ھوئی گتھی کو شمشیر کے ذریعے سلجھائیں۔ اس وقت بوڑھا پھلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ھوئے لوھے کی طرح سرخ ھوگیا اور جب حضرت علی کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا گھوڑے کو ایک ھی وار میں قتل کر دیااور ان کی طرف بڑھا اور اپنی تلوار سے حضرت علی پر حملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پر مارا، حضرت علی نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے روکا لیکن سپر دو ٹکڑے ھوگئی اورخود بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ھوگیا اسی لمحے امام نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک کاری ضرب لگائی  اور اسے زمین پر گرادیا ۔ تلوار کے چلنے کی آواز اور میدان میں گردو غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاھی اس منظر کونزدیک سے نھیں دیکھ پا رھے تھے، لیکن اچانک جب حضرت علی کی تکبیر کی آواز بلند ھوئی تومسلمان خوش ھوکر چیخنے لگے اور ان کو یقین ھوگیا کہ حضرت علی نے عرب کے پھلوان پر غلبہ پالیا ھے ۔ اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیاھے۔

اس نامی و مشھور پھلوان کے قتل ھونے کی وجہ سے، پانچ اور نامی پھلوان، عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرد اس، جنھوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا اور حضرت علی اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے ، وہاں سے بھاگ گئے ۔ان میں سے چار پھلوان خندق سے پار ھوگئے تاکہ قریش کو عمروکے مرنے کی خبر سنائیں ،مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی جوان سب کا پیچھا کر رھے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ھی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔[7]

    اس نامی پھلوان کی موت کی وجہ سے شعلہٴ جنگ ھوگیااور عرب کے ہر قبیلے والے اپنے ا پنے قبیلے کی طرف واپس جانے لگے ۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزار کا لشکر ٹھنڈک اور بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اور ا سلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ھوگئی۔

اس جانثاری کی اھمیت

جو لوگ اس جنگ کے جزئیات اور مسلمانوں کی ابتر حالت اور قریش کے نامی پھلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نھیں ھیں وہ اس جانثاری اور قربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نھیں سکتے ۔ لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ھے اور بہترین روش اور طریقے سے اس کا تجزیہ و تحلیل کیا ھے پر اس واقعے کی اھمیت پوشیدہ نھیںھے۔

اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ھے کہ اگر حضرت علی میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جراٴت نہ تھی کہ وہ عمروکے مقابلے میں جاتا، اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ھے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اور کوئی نہ جائے اور سپاھیوں پر خوف چھا جائے۔ حتی اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجاتا اور محاصرہ کوختم کر کے اپنے گھر واپس چلا جاتا۔ تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ھمیشہ ھمیشہ کے لئے باقی رہتا۔

اگر حضرت علی اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شھید ھو جاتے تو قریب تھا کہ کوہ ”سلع“ میں پیغمبر کے پاس رہنے والے سپاھی جو عمرو کی للکار سے بید کے درختوں کی طرح لرز رھے تھے، میدان چھوڑ کر چلے جاتے اور کوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے، جیسا کہ جنگ احد اور حنین میں ھوااور تاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ھے کہ سب کے سب فرار ھوگئے علاوہ چند افراد کے، جنھوں نے پیغمبر کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبر کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔

اگر امام علیہ السلام اس مقابلے میں(معاذ اللہ) ہارجا تے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاھی کوہ ”سلع“ کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبر کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاھی جو پوری خندق کے کنارے حفاظت اور مورچہ سنبھالنے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر بھاگ جاتے۔

اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پھلوانوں کا مقابلہ کر کے ان کو بڑھنے سے روکا نہ ھوتا یااس راہ میں قتل ھو جاتے تودشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کر جاتا اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ھوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ھوجاتااور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، ان تمام چیزوں کودیکھنے کے بعد پیغمبر اسلام نے، الہام اور وحی الھی سے حضرت علی کی جانثاری کو اس طرح سراہتے ھیں:

”ضَرْبَةُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الثَّقَلَیْنِ“[8]

اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی  -نے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوںجہان کی عبادتوں سے بہتر ھے۔

اس بیان کا فلسفہ یہ ھے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ھوتی توقانون شرک پوری دنیا پر چھا جاتااور پھر کوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے اردگرد ثقلین طواف کرتا۔ اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔

    ھم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ھیں کہ امام نے اپنی بے نظیر اور عظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیاکے مسلمانوں اور توحید کے متوالوںکورھین منت قرار دیاھے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اسلام و ایمان، امام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ھے۔

جی ہاں، حضرت علی کی فداکاری وجانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی  کایہ عالم تھا کہ عمروبن عبدود کوقتل کرنے کے بعداس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے، جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی، لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی۔ اور جب اس کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پھونچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروںگی کیونکہ تو کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ھوا ھے[9]) جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کوہاتھ نھیں لگایاھے۔

ساتویں فصل

جنگ خیبر اوراس کے تین اھم امتیازات

کس طرح سے دشمن کی زبان حضرت علی کی عظمت وافتخار کوبیان کرنے لگی اور وہ نشست جو آپ کو برا وناسزا کہنے کے لئے تیار کی گئی تھی مدح و ستائش میں تبدیل ھوگئی؟

امام حسن مجتبیٰ  علیه السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کو فرصت ملی کہ خود اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کے لئے زمین ھموار کرے اور بزرگ صحابیوں اور رسول کے دوستوں سے جو مکہ اور مدینہ میں زندگی بسر کر رھے تھے ، یزید کی بیعت لے، تاکہ اس کا بیٹا خلیفة المسلمین اور پیغمبر کا جانشین معین ھوجائے۔

اسی مقصد کے لئے معاویہ سرزمین شام سے خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ھوا اور اپنے قیام کے دوران حجاز کے دینی مراکز اور رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم)کے دوستوں سے ملاقاتیں کیں اورجب کعبہ کے طواف سے فارغ ھوا تو ”دار الندوہ“ جس میں جاھلیت کے زمانے میں قریش کے بزرگ افراد جمع ھوتے تھے، میں تھوڑی دیر آرام کیا اور سعد وقاص اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے ملاقات کی جن کی مرضی کے بغیر اس زمانے میں یزید کی خلافت وجانشینی ممکن نہ تھی۔

وہ اس تخت پر بیٹھا جو دار الندوہ میں اسی کے لئے رکھا گیا تھا اور سعد وقاص کو بھی اپنے ساتھ بیٹھایا ۔ اس نے جلسہ کے ماحول کو دیکھا اور امیر المومنین کو برااورناسزا کہنے لگا یہ برا کام، اور وہ بھی خدا کے گھر کے پاس، اوروہ بھی اس صحابی پیغمبر کے سامنے جس نے حضرت امیر کی جانثاریوںاور قربانیوں کوبہت نزدیک سے دیکھا تھا اور جس کے فضائل و کمالات سے مکمل آگاہ تھا ایسی حرکت کرنا آسان کام نہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھاکہ کچھ ھی دنوں پھلے کعبہ کے سامنے کعبے کے اندر اور باہر بہت سے باطل خدا پناہ لئے ھوئے تھے اور حضرت علی کے ہاتھوں ھی وہ ھمیشہ کے لئے سرنگوں ھوئے تھے اور اس نے پیغمبر کے حکم سے پیغمبر کے کاندھوں پر قدم رکھا تھااوران بتوںکوجس کی خود معاویہ اور اس کے باپ دادا بہت زمانے تک عبادت کیا کرتے تھے اسے عزت کے منارے سے ذلت کے گڑھے میںگرایا اور سب کو توڑ ڈالاتھا۔[10]

معاویہ چاہتا تھا کہ توحید اور وحدانیت کا مظاہرہ کرتے ھوئے راہ توحید کے بزرگ جانثار، کہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ھوگئے ،ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا او رناسزا کھے،۔

سعدوقاص باطنی طور پر امام کے دشمنوں میںسے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔ جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ھوئے سب لوگوںنے تہہ دل سے امیر المومنین کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا۔ سوائے چند افراد کے جنھوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھاکہ سعد وقاص بھی انھیں میں سے ایک تھا۔جب عمار نے اسے حضرت علی کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا۔عمار نے اس واقعے کو ا مام کی خدمت میں عرض کیا۔

 امام علیہ السلام نے فرمایا: حسد نے اس کو میری بیعت اور میرا ساتھ دینے سے روک دیا ھے۔

    سعد ،امام علیہ السلام کا اتنا سخت مخالف تھا کہ ایک دن خلیفہٴ دوم نے شورائے خلافت تشکیل دینے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص او ر            عبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اور عثمان کا بہنوئی، کو شوری کے عہدہ داروں میں قرار دیا۔ شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمر، شوری تشکیل دیکر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ھیں ، چاہتا ھے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یھی ھواکہ جس کی پیشنگوئی ھوئی تھی۔

سعد نے ،امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود جب دیکھا کہ معاویہ، علی علیه السلام کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کر رہا ھے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ھوئے کہا:

مجھے اپنے تخت پر بٹھاکر میرے سامنے علی کو برا کہتا ھے ؟ خدا کی قسم اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ھوتی تواس سے بہتر ھوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ھیں میری ملکیت میں ھوتیں ۔

۱۔ جس دن پیغمبر نے مدینے میں اسے اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک پرچلے گئے اور علی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ھی ھے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی  نبی نھیں ھوگا۔

۲۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباھلہ تھا تو پیغمبر نے علی ، فاطمہ، حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا: پروردگارا یھی میرے اھلبیت ھیں۔

۳۔ جس دن مسلمانوں نے یھودیوں کے اھم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ”قموص“ جو سب سے بڑا قلعہ اور یھودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی صلاحیت نہ تھی، اور رسول اسلام کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نھیں ھوسکتے تھے تاکہ فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ عَلَم کو لیتے  اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے ۔ایک دن عَلَم کو ابوبکر کے ہاتھ میںدیا پھر دوسرے دن عمر کو دیا لیکن دونوں کسی شجاعت کا مظاہرہ کئے بغیر رسول خدا کی خدمت میں واپس آگئے۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ،اس طرح کی ناکامی پیغمبر خدا کے لئے بہت سخت تھی، لہٰذا آپ نے فرمایا:

”کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نھیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ نھیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ھوںگے اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا“

جب پیغمبر کی بات کو حضرت علی سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا  ”اَلَلَّہُمَّ لٰامُعْطِیْ لِمٰا مَنَعْتَ وَ لٰامٰانِعَ لِمٰا اَعْطَیْتَ“ یعنی پروردگارا، جو کچھ عطاکرے گا اسے کوئی لینے والا نھیں ھے اور جو کچھ تو نھیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ھوگا۔

(سعد کا بیان ھے) جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم) آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ھوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ھوتا ھے جب پےغمبر خیمے سے باہر آئے سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے میں (سعد)پیغمبر کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید ا س افتخار کا مصداق میں بن جاوٴں، اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ھوجائے ۔اسی اثناء میںپیغمبر نے پوچھا علی کہاں ھیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کر رھے ھیں۔ پیغمبر کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبر کی خدمت میں لائے۔ پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ھوئی اس وقت پیغمبر نے اپنی زرہ حضرت علی کو پہنایا،ذو الفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوںمیں دیااور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پھلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا، اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاھیں تو اسلام کے پرچم تلے جز یہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں۔ اور اپنے مذہب پر باقی رھیں۔ اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ،اور جان لو کہ جب بھی خداوند عالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ھے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ھوں او رانھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔[11]

سعد بن وقاص نے ان واقعات کو جن کو میں نے تفصیل سے بیان کیا ھے مختصر طور پر بیان کیا اور احتجاج کے طور پر معاویہ کی مجلس ترک کری۔

خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی

اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے حضرت امیر المومنین کی جانثاریوں کے طفیل عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا۔ یھی وجہ ھے کہ امام کو ”فاتح خیبر“ کہتے ھیں۔ جب امام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا قلعہ کے پاس پھونچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا، اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاھی باہر چلے گئے۔ مرحب کا بھائی حارث نعرہ لگاتا ھوا حضرت علی کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاھی حضرت علی کے ھمراہ  تھے وہ پیچھے ہٹ گئے او رحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی پر حملہ کیا لیکن کچھ ھی دیر گزری ھو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔

    بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی کے سامنے میدان میں آیا، وہ اسلحوں سے لیس تھا۔ لوھے کی بہترین زرہ اور پتھر کاخود اپنے سر پر رکھے تھا اورایک اور خود اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا، دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ھوا۔ اسلام و یھودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ھوئی اور اس کو دو ٹکڑے کرتے ھوئے زمین پر گرادیا۔ یھودی بہادرکا جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھا وہ بھاگ گیا اور وہ گروہ جو حضرت علی سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوںنے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ھوگئے۔

اب وہ وقت آپھونچا کہ امام قلعہ میں داخل ھوں مگر بند در وازہ امام اور سپاھیوں کے لئے مانع ھوا ۔ غیبی طاقت سے آپ نے باب خیبر کو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاھیوں کے داخل ھونے کے لئے راستہ ھموار کردیااور اس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شر یر اور خطرناک عناصر جو ھمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں رکھتے یا رکھے ھیں آسودہ کردیا۔[12]

امیر المومنین  علیه السلام کی رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) سے نسبت

ابھی ھم نے حضرت علی کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی کا تفصیلی تذکرہ کیا ھے، اس لئے بہتر ھے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔

    تمام افتخارات میں سے ایک افتخار امام کے لئے یہ بھی ھے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبر کے ساتھ ساتھ اور ھمیشہ لشکر کے علمبردار رھے سوائے جنگ تبوک کے ، کیونکہ آپ پیغمبر کے حکم سے مدینہ میں موجودتھے اور پیغمبر اسلام منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے ۔اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی سے فرمایا: تم میرے اھلبیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ھو۔ او رمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نھیں رکھتا۔

حضرت علی کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا، لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ افواہ اڑا دی کہ پیغمبراور حضرت علی کے درمیان کشیدگی ھے اور حضرت علی نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ھے۔

ابھی پیغمبر مدینے سے زیادہ دور نھیں ھوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی علیه السلام ان کی تھمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں پھونچے اور حضرت سے پورا ماجرا بیا ن کیا۔ پیغمبر نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے حضرت کو تسلی دی اور فرمایا:

”اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی“

کیا تم راضی نھیں ھو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ھی ھے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیںھے۔[13]

اس  حدیث ، جسے دانشمندوں کی اصطلاح میں، حدیث ”منزلت“ کہتے ھیں،نے تمام وہ منصب جو ہارون کے پاس تھے حضرت علی کے لئے ثابت کردیا سوائے نبوت کے کیونکہ نبوت کا باب ھمیشہ کے لئے بند ھوگیا۔

یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ھے جسے محدثین اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ھے:۔

حضرت علی کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن وقاص نے بیان کیا ھے وہ پیغمبر کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباھلہ تھا، ان لوگوں نے پیغمبر سے مسیحیت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نھیں کیا لیکن مباھلہ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔

مباھلہ کا وقت آیا پیغمبر نے اپنے اعزاء میں سے صرف چار آدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی واقعے میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن (ع)و حسین (ع) کے کوئی اور نہ تھا۔ کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اورایمان میں محکم نھیںتھا۔

پیغمبر اسلام میدان مباھلہ میں عجب شان سے آئے اپنی آغوش میں امام حسین (ع) کو لئے ھوئے تھے، ایک ہاتھ سے امام حسن (ع) کی انگلیاں پکڑے تھے اور فاطمہ= اور حضرت علی آپ کے پیچھے پیچھے چل رھے تھے وہاںپھونچنے سے پھلے اپنے ھمراھیوں سے کہا میں جب بھی دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔

پیغمبر کا نوارانی چہرہ اور چار افراد کا چہرہ جن میںتین آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں، نے ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبھوت ھوگئے عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ھوں کہ اگریہ بددعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ھوئے جہنم میں تبدیل ھو جائے اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے لہٰذا  انھوں نے مباھلہ کرنے سے انکار کردیااور جزیہ دینے پر راضی ھوگئے۔

عائشہ کہتی ھیں:

مباھلہ کے دن پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم) اپنے چار ھمراھیوں کواپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

<اِنَّمٰا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً>

زمخشری کہتے ھیں:

مباھلہ کا واقعہ اور اس آیت کا مفھوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بڑے گواہ ھیں اور مذہب اسلام کی حقانیت پر ایک اھم سند اور زندہ مثال شمار ھوتے ھےں۔[14]

آٹھویں فصل

دشمنوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) فرماتے ھیں :” علی علیه السلام احکام خداوندی کے جاری کرنے میں بہت زیادہ غور و فکر اور سختی سے عمل کرتے تھے اور ہرگز ان کی زندگی میں چاپلوسی اور خوشامدی کا دخل نھیں تھا“

جو لوگ اپنی زندگی میں پاکیزہ مقصد کی تلاش میں رہتے ھیںوہ دن رات اس کی تلاش و جستجو کرتے رہتے ھیں، اور ان چیزوں کے مقابلے میں جو ان کے ہدف کی مخالف ھوں ان سے بے توجہ بھی نھیں رہتے ھیں۔ یہ لوگ ہدف تک پھونچنے میں جو راستہ طے کرتے ھیں اس میں بعض محبت و الفت کرنے والے ملتے ھیں تو بعض عداوت و دشمنی کرتے ھیں۔ پاک دل ا ور روشن ضمیر ان کی عدالت پختہ گیری پر فریفتہ ھوئے ھیں لیکن غافل اورغیر متدین افراد ان کی سختی اور عدالت سے ناراض ھوتے ھیں۔

وہ لوگ جو اچھے اور برے کام انجام دیتے ھیں اور مسلمان اور غیر مسلمان کوایک ھی صف میں رکھتے ھیں اور وہ نھیں چاہتے کہ کسی کی مخالفت مول لیں ایسے لوگ کبھی مذہبی اور بامقصد نھیں ھوسکتے ۔ کیونکہ تمام طبقوں کے ساتھ اتحاد و دوستی، منافقت اور دو رخی کے علاوہ کچھ نھیں ھے۔

امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے علاقہ کے حاکم کی تعریف کرتے ھوئے کہا کہ تمام طبقے کے لوگ اس سے راضی ھیں۔ امام نے فرمایا: لگتا ھے کہ وہ شخص عادل نھیں ھے کیونکہ تمام لوگوں کا راضی ھونا اس بات کی حکایت کرتا ھے کہ وہ منافق اور صحیح فیصلہ کرنے والا نھیں ھے ورنہ تمام لوگ اس سے راضی نہ ھوتے۔

امیر المومنین علیہ السلام ان لوگوں میں سے ان ھیں جو صلح و آشتی کرنے والوں سے مہر و محبت اور پاکیزہ و صاف دلوں کو بلندی عطا کرتے تھے اوراسی کے مقابلے میں غیظ و غضب کی آگ میں جلنے والوں اور قانون توڑنے والوںکو انھیں کے سینے میں ڈال دیاکرتے تھے۔

امام عدالت کی رعایت اور کا اصول و قوانین پر سختی سے عمل کرنا صرف آپ کی حکومت کے زمانے  سے مخصوص نھیں ھے اگرچہ بہت سے مؤرخین اور مقررین  جب امام کی پاکیزگی اور عدالت کے متعلق گفتگو کرتے ھیںتو اکثر آپ کی حکومت کے دوران رونماھونے والے واقعات پر بھروسہ کرتے ھیں ۔کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی، مگر امام کا  عدالت و انصاف اور قوانین پر سختی سے عمل پیرا ھونا رسول اسلام کے زمانے سے ھی ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، اس بنا پر وہ لوگ جو امام کی عدالت و انصاف کو برداشت کرنے کی طاقت نھیں رکھتے تھے ۔ گاھے بہ گاھے پیغمبر سے حضرت علی کی شکایت کرتے تھے اور ھمیشہ پیغمبر اس کے برعکس کہتے تھے اورکہتے تھے علی قانون الھی کے اجراء میں کسی کی رعایت نھیں کرتا۔

زمانہ پیغمبر میں آپ سے متعلق چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ھیں اور ھم یہاں بطور مثال دوواقعات کو نقل کر رھے ھیں:

۱۔  ۱۰ ھ  میں جب پیغمبر اسلام نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ ”یمن“ بھیج دیا ۔ پیغمبر نے حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباھلہ کے دن دینے کا دعدہ کیاتھااسے اپنے ھمراہ لائیں اور اسے آپ کے پاس پھونچا دیں، آپ کو ماموریت انجام دینے کے بعد معلوم ھوا کہ پیغمبر خانہٴ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ھوگئے ھیں اس لئے آپ نے راستے کو کو بدل دیا اور مکہ کی جانب روانہ ھوگئے۔ آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ،تاکہ جلدسے جلد پیغمبر کے پاس پھونچ جائیں ۔اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کواپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا اور اپنے سپاھیوں سے الگ ھوگئے اور مکہ سے نزدیک پیغمبر کے پاس پھونچ گئے۔ پیغمبر اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ھوئے اور جب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ  سے احرام کی نیت کے متعلق حضرت علی نے جواب دیا: میںنے احرام پہنتے وقت کہا تھا خدایا میں اسی نیت پر احرام باندھ رہا ھوں جس نیت پر پیغمبر (ص) نے احرام باندھا ھے۔

حضرت علی (ع)نے اپنے یمن اور نجران کے سفر اور وہ کپڑے جو لے کر آئے تھے ،سے پیغمبر کو مطلع کیا اور پھر پیغمبر کے حکم سے اپنے سپاھیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ واپس جائیں۔

جب امام اپنے سپاھیوں کے پاس پھونچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاھیوں کے درمیان تقسم کردیا ھے اور تمام سپاھیوں نے ان کپڑوں کو احرام بنا کر پہن لیا ھے ۔ حضرت علی اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ھوئے اور اس سے کہا: ان کپڑوں کو رسول خدا کے سپرد کرنے سے پھلے تم نے کیوں سپاھیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیاکہ آپ کے سپاھیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطور امانت تقسیم کردوں او رحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔

حضرت علی (ع)نے اس کی بات کو قبول نھیں کیااور کہا کہ تمھیں یہ اختیا رنھیں تھا۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ھوئے کپڑوں کو جمع کرو، تاکہ مکہ میں پیغمبر کے سپردکریں۔[15]

    وہ گروہ جنھیں عدالت و انصاف اورمنظم و مرتب رہنے سے تکلیف ھوتی ھے وہ ھمیشہ تمام امور کو اپنے اعتبار سے جاری کروانا چاہتے ھیں وہ لوگ پیغمبر کی خدمت میں آئے اور حضرت علی کے نظم و ضبط اور سخت گیری کی شکایت کی، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جاخلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ھوتی ھے۔

حضرت علی کی نظر میں ایک گناہگار شخص (خصوصاً وہ گناہگار جو اپنی لغزشوں کو بہت چھوٹاتصور کرے) اس سوار کی طرح ھے جو ایک سرکش او ربے لگام گھوڑے پر سوار ھو۔ تو یقینا وہ گھوڑا اپنے سوار کو گڑھوں اور پتھروں پر گرا دے گا۔[16]

امام علیہ السلام کا مقصد اس تشبیہ سے یہ ھے کہ کوئی بھی گناہ چاھے جتنا ھی چھوٹا کیوںنہ ھواگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو دوسرے گناھوں کواپنے ساتھ لاتا ھے اور جب تک انسان کو گناہ کا مرتکب نھیں کردیتا اور آگ میں نھیں ڈال دیتا اس سے دوری اختیار نھیں کرپاتا۔ اسی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ھے کہ شروع سے ھی اپنے کو گناھوں سے محفوظ رکھے۔ اور اسلامی اصول و قوانین کی معمولی مخالفت سے پرھیز کرے۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) نے جو حضرت علی کے تمام کام اور ان کی عدالت سے مکمل طور پر باخبرتھے، اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اور اس سے کہا کہ شکایت کرنے والوں کے پاس جاوٴ اور میرے اس پیغام کو ان تک پھونچادو۔

” علی کی برائی کرنے سے باز آجاوٴ کیونکہ وہ خدا کے احکام کو جاری کرنے میں بہت سخت ھے اور اس کی زندگی میں ہرگز چاپلوسی اور خوشامد نھیں پائی جاتی۔

    ۲۔ خالدبن ولید قریش کا ایک بہادر سردار تھا۔ اس نے  ۷ھ  میں مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا ۔مگر اس کے پھلے کہ وہ قوانین الھی پر عمل پیرا ھوتا، اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیںھوئیں اس میں شریک رہا۔ یہ وھی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پر رات میں چھپ کر حملہ کیا اور ان کی فوج کی پشت سے میدان جنگ میں وارد ھوا۔ او راسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا ۔اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی سے عداوت و دشمنی کو فراموش نھیں کیا او رامام کی قدرت و طاقت و بہادری سے ھمیشہ حسد کرتا رہا ۔ پیغمبر اسلام کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کسی علت کی بنا پر کا میاب نہ ھوسکا۔[17]

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ھیں:

پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسی گروہ کے ساتھ کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا،  اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلہٴ بنی زید سے جنگ ھوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا۔ امام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ھوئے مال غنیمت تقسیم کردیا اور یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی۔ اس نے پیغمبر اسلام او رحضرت علی کے درمیان سوء تفاھم پیدا کرنے کے لئے خط لکھا اور اسے بریدہ کے حوالے کیاتاکہ جتنی جلدی ممکن ھو پیغمبر تک پھونچا دے۔

بریدہ کہتا ھے:

    میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پھونچا اور اس نامہ کو پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم)کے حوالے کیا، حضرت نے اس نامہ کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تاکہ وہ پڑھے اور جب وہ نامہ پڑھ چکا تو میںنے اچانک پیغمبر کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثاردیکھا۔

بریدہ کہتا ھے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ھوا او رعذر خواھی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم سے میں نے یہ کام کیا ھے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کہتا ھے کہ جب میں خاموش ھوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا۔ اچانک پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم)نے اس خاموشی کو توڑا اور فرمایا:

علی علیه السلام کے بارے میں بری باتیں نہ کھو” فَاِنَّہ٘ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ وَ ہُوَ وَلِیَّکُمْ بَعْدِیْ“  (وہ مجھ سے ھے اور میں اس سے ھوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ھیں)

بریدہ کہتا ھے کہ میں اپنے کئے پر بہت نادم تھا چنانچہ رسول خدا سے استغفار کی درخواست کی۔ ،پیغمبر نے کہا جب تک علی نہ آئیںاور اس کے لئے رضایت نہ دیں  میں تیرے لئے استغفار نھیں کروں گا۔ اچانک حضرت علی پھونچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبر سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔[18]

اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی سے محبت کرنے لگا اور پیغمبر کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اور ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ابوبکر کے اس عمل پر اعتراض کیااورانھیں خلیفہ تسلیم نھیں کیا۔[19]

نویں فصل

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کا مخصوص نمائندہ و سفیر

”حضرت علی نے خدا کے حکم سے سورہٴ برائت اور وہ مخصوص حکم جو بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے تھا حج کے موقع پر تمام عرب قبیلے کے سامنے پڑھا ،اور اس کا م کے لئے پیغمبر کی جگہ اور جانشینی کا منصب حاصل کیا“۔تاریخ اسلام اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ جس دن پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم)نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اسی دن اپنی رسالت کے اعلان کے بعد فوراً علی کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیا۔

پیغمبر اسلام نے اپنی رسالت کے تیس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طور پر توکبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح طور پر امت کی رہبری اور حکومت کے لئے حضرت علی کی لیاقت و شائستگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبر کے بعد حضرت علی کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے رھے اور انھیں عذاب الھی سے ڈراتے رھے۔

تعجب کی بات تو یہ ھے کہ جب قبیلہٴ بنی عامر کے رئیس نے پیغمبر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا  بشرطیکہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: ”الامر الی اللہ یضعہ حیث شاء“[20]

یعنی یہ خدا کے اختیار میں ھے وہ جس شخص کو بھی اس کا م کے لئے منتخب کرے وھی میرا جانشین ھوگا۔ جس وقت حاکم یمامہ نے بھی قبیلہٴ بنی عامر کے رئیس کی طرح سے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی، اس وقت بھی پیغمبر کو بہت برالگااور آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ سے مارا۔[21]

    اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام نے متعدد مقامات پر مختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی  -کو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا ھے اور اس طرح امت کو متنبہ و متوجہ کیا ھے کہ خدا نے حضرت علی  -کو ھمارا وصی اور خلیفہ منتخب کیا ھے اور اس کام میں پیغمبر کو کوئی اختیار نھیں ھے۔ نمونہ کے طور پر چند موارد یہاں پر ذکر کر  رھے ھیں:

۱۔ آغاز بعثت میں ، جب خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے اعزا و احباب اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔

۲۔ جب پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ھوئے تو اپنے سے حضرت علی کی نسبت کو بیان کیا یعنی وہ نسبت جو ہارون کو موسی سے تھی وھی نسبت میرے اور علی  -کے درمیان ھے اور جتنے منصب ہارون کے پاس تھے سوائے نبوت کے ، وہ سب منصب علی علیه السلام کے پاس بھی ھیں۔

۳۔ بریدہ اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے کہا کہ علی  -میرے بعد سب سے بہترین حاکم ھے۔

۴۔ غدیر خم کے میدان میں اور ۸۰ ہزار ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کر کے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبر نے سیاسی کاموں کو حضرت علی کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرہ کے ذہنوں کو حضرت علی کی حکومت کی طرف مائل  کیا۔ مثال کے طور پر درج ذیل واقعہ کا تجزیہ کرتے ھیں۔

۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر ا ھوگا کہ شرک اور دوگانہ پرستی کے بارے میں اسلام کا نظریہ حجاز کی سرزمین اور عرب کے مشرک قبیلوں تک پھونچ گیا تھا او ر بتوں اور بت پرستوں کے بارے میں ان میں سے اکثر اسلامی نظریئے سے واقف ھو گئے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کے علاوہ کچھ نھیںھے ،اور ان کے باطل خدا اتنے ذلیل و خوار ھیں کہ صرف دوسروں کے امور انجام دینے کی صلاحیت نھیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نھیں کرسکتے اور نہ خود کو ھی نفع پھونچا سکتے ھیں ،اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نھیں ھیں۔

دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبر کے کلام کو سنا تھا انھوںنے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں، اور بت پرستی چھوڑ کر خدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا او رتوحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پر گونج اٹھی۔

لیکن متعصب اور بیوقوف لوگ جنھیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اور اپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رھے۔

اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام ہر طرح کی بت پرستی اور غیر انسانی کاموںکو اپنے سپاھیوں کے ذریعے ختم کردیں۔ اور طاقت کے ذریعے بت پرستی کو جو معاشرے کو برباد اور اجتماعی و اخلاقی اعتبار سے فاسد کر رھے ھیں اور حریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ھیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خدا اور اس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میںعید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ھوتے ھیں اعلان کریں۔ اور خود پیغمبر یا کوئی اور سورہٴ برائت کے پھلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبر کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ھے ۔ اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مھینے کے اندر اپنی وضعیت کو معین کریں کہ اگر مذہب توحیدکو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ھوجائیں گے اور دوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اور معنوی چیزوں سے بہرہ مند ھو ئیں گے ۔ لیکن اگر اپنی دشمنی او رہٹ دھرمی پر باقی رھے تو چار مھینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رھیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ھوئے قتل کردیئے جائیں گے۔

سورہٴ برائت اس وقت نازل ھوا جب پیغمبر نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیوں کہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا او رارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ”حجة الوداع“ کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں۔ اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پھونچانے کے لئے منتخب کریں ۔سب سے پھلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اور سورہٴ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی ا ور انھیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تاکہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔

ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ھی میں تھے کہ اچانک وحی الھی کا نازل ھوئی اور پیغمبر کو حکم ھوا کہ اس پیغام کو خود یا جو آپ سے ھو وہ لوگوں تک پھونچائے ، کیونکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور اس پیغام کے پھونچانے کی صلاحیت نھیں رکھتا۔[22]

اب دیکھنا یہ ھے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر کے اھلبیت میں سے ھے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ھے وہ کون ھے؟

    تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) نے حضرت علی علیه السلام کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ھو جاؤ اور ابوبکر سے راستے میں ملاقات کرو اوران سے آیات برائت کو لے لو اور ان سے کہہ دو کہ اس کام کی انجام دھی کے لئے وحی الھی نے پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ ان آیتوں کو یا خود یا ان کے اھلبیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کر سنائے، اس وجہ سے یہ ذمہ دار یمجھے سونپی گئی ھے ۔

حضرت علی، پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم)کے اونٹ پر سوار ھوکر جابر اور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ھمراہ مکہ کے لئے روانہ ھوگئے اور حضرت کے پیغام کوابوبکر تک پھونچایا ،انھوں نے بھی (سورہٴ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی کے سپرد کردیا۔

امیر المومنین علیہ السلام مکہ میں داخل ھوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرہٴ عقبہ کے اوپر کھڑے ھوکر بلند آواز سے سورہٴ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی، اور چار مھینے کی مھلت جو پیغمبر نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزار کیا۔ تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چار مھینے کی مھلت ھے جس میں ھمیں اسلامی حکومت کے ساتھ اپنے رابطے کو واضح کرناھے ۔قرآن کی آیتیں اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اورابھی چار مھینہ بھی مکمل نہ ھوا تھا کہ مشرکین نے جوق در جوق مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ھوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ھوگیا۔

بے جا تعصب

جب ابوبکر اپنی معزولی سے باخبر ھوئے تو ناراضگی کے عالم میں مدینہ واپس آگئے اور گلہ و شکوہ کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے مخاطب ھوکر کہا: مجھے آپ نے اس کام (آیات الھی کے پھونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے) کے لئے لائق و شائستہ جانا، مگر زیادہ دیرنہ گزری کہ آپ نے مجھے اس مقام و منزلت سے دور کردیا، کیا اس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ھے؟

پیغمبر نے شفقت بھرے انداز سے فرمایا کہ وحی الھی کا نمائندہ آیا اور اس نے کہا : میرے یا وہ شخص جو مجھ سے ھے کے علاوہ کوئی اوراس کام کی صلاحیت نھیں رکھتا۔[23]

بعض متعصب مؤرخین جو حضرت علی کے فضائل کے تجزیہ و تحلیل میں بہت زیادہ منحرف ھوئے ھیں ، ابوبکر کے اس مقام سے معزول ھونے اور اسی مقام پر حضرت علی کے منصوب ھونے کی اس طرح سے توجیہ کی ھے کہ ابوبکر شفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی بہادری و شجاعت کے مظہر تھے اورالھی پیغام کے پھونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اور یہ صفات حضرت علی کے اندر بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔

یہ توجیہ: ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نھیں ھے، کیونکہ اس کے پھلے بیان ھوچکا ھے کہ پیغمبر نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر کی ھے اور فرمایا ھے کہ اس کام کے لئے میرے اور وہ شخص جو مجھ سے ھے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نھیں رکھتا۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میںاس واقعہ کا دوسرے طریقے سے تجزیہ کیاھے ،وہ کہتا ھے کہ عرب کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی چاہتا تھا کہ کسی عہد و پیمان کو توڑ دے تو اس نقض (عہد و پیمان کے توڑنے) کو خود وہ شخص یا اسی کے رشتہ داروں میں سے کوئی ایک شخص انجام دیتا ھے ورنہ عہد و پیمان خود اپنی جگہ پر باقی رہتا ھے اسی وجہ سے حضرت علی اس کام کے لئے منتخب ھوئے۔

    اس توجیہ کا باطل ھونا واضح ھے کیونکہ پیغمبر اسلام کا حضرت علی کے بھیجنے کا اصلی مقصد آیتوں کی تلاوت اور قطعنامہ کا پھونچانا اور عہد و پیمان کا توڑنا نھیں تھا بلکہ سورہٴ توبہ کی چوتھی آیت میں صراحت کے ساتھ موجود ھے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنے عہد و پیمان پر مکمل عمل کیا ھے ان کا احترام کرو اور عہد و پیمان کی مدت تک اس کو پورا کرو۔[24]

اس بنا پر اگر عہد کا توڑنا بھی عہد توڑنے والوں کے بہ نسبت اس کام میں شامل تھا تو مکمل طور پر جزئی حیثیت رکھتاھے جب کہ اصلی ہدف یہ تھا کہ بت پرستی ایک غیر قانونی امر اور ایک ایسا گناہ جو قابل معاف نھیں ھے، اعلان ھو۔

   اگر ھم چاھیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ھے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کا حکم الھی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ھی حضرت علی کو سیاسی مسائل اور حکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں۔ تاکہ تمام مسلمان آگاہ ھو جائیں اور خورشید رسالت کے غروب ھونے کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور جان جائیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی سے زیادہ شائستہ کوئی نھیں ھے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کی طرف سے تنہاوہ شخص جومشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے منصوب ھوا وہ حضرت علی تھے ،کیونکہ یہ چیز حکومتی امور سے متعلق ھے۔

مگر (ہاں) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے بھی کچھ تم سے (وفائے عہد میں) کمی نھیں کی۔ اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ھو تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدت کے واسطے مقرر کیا ھے پورا کردو خدا پرھیزگاروں کو یقینا دوست رکھتا ھے۔

دسویں فصل

مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل

دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ھوئی ۔وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رھے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ھی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں۔ اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پھلے زندگی بسر کر رھے تھے ان کو بھی ھمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔[25]

قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاھے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ھے ارشاد قدرت ھے:

<ام تاٴمُرُہُمْ اَٴْحلَامُہِمْ بِہٰذَا اَٴمْ ہُمْ قوْمُ طٰاغُونَ> [26]

کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ھیں کہ (یہ) شاعر ھیں (اور) ھم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رھے ھیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ھوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ھیں یا یہ لوگ سرکش ھی ھیں؟

    اس وقت ھمیں اس سے بحث نھیں ھے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ھوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رھی کہ پھیلتے ھوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ھمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ھے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ھو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ھو جائے۔ یہاں پر دو صورتیںھیںاور ھم  دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:

۱۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پھونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ھے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم       (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔

پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس  اکثر افراداس کی صلاحیت نھیں رکھتے تھے۔ اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نھیں کرنا ھے لیکن اتنی بات ضرور کہناھے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نھیںھے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ھوتی ھے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نھیں دے سکتا۔

انقلاب کا ھمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رھے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اھم افراد یا شخص کی ضرورت ھے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورھمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔

تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ھے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اھم افراد کی ضرورت تھی۔ کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔

جناب موسی و عیسی  + کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نھیں رکھتے تھے، جب کہ جاھلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔

ممکن ھے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ھے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔

جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ھلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ھیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔

جی ہاں۔ اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نھیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ھم اشارہ کر رھے ھیں۔

۲۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ھو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ھوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ھو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ھمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔

یہ وھی بات ھے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ھے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ھیں کہ پیغمبر اسلام نے ”حجة الوداع“ کی واپسی پر ۱۸/ ذی الحجہ  ۱۰ ھ کو اس اھم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے

شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الھی منصب ھے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ھے ۔امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ھے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ھے اس پر وحی نازل ھوتی ھے اور وہ صاحب کتاب ھوتا ھے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نھیں ھے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ھوتاھے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ھونے کی بنا پر اسے بیان نھیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاھے ۔اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ھی نھیں ھوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبھم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ھوتا ھے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ھوتا ھے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نھیں کرپاتا ھے۔

لیکن خلافت، اھلسنت کے دانشمندوں کی نظر میں ایک عام اور مشھور منصب ھے اور اس مقام کا مقصد صرف ظاہری چیزوں اور مسلمانوں کی مادیات کی حفاظت کے علاوہ کچھ نھیں ھے۔ خلیفہٴ وقت عمومی رائے مشوروں سے سیاسی اقتصادی اور قضائی امور کو چلانے کے لئے منتخب ھوتا ھے اور وہ شئون و احکامات جو پیغمبر کے زمانے میں بطور اجمال تشریع ھوئے ھیں اور پیغمبر کسی علت کی بنا پر اسے بیان نہ کرسکے ھوں، اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری علماء اور اسلامی دانشمندوں پر ھے کہ اس طرح کی مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کریں۔

حقیقت خلافت کے بارے میں اس مختلف نظریہ کی وجہ سے دو مختلف گروہ مسلمانوں کے درمیان وجود میں آگئے او روہ بھی دو حصوں میں بٹ گئے اور آج تک یہ اختلاف باقی ھے۔

پھلے نظریہ کے مطابق امام، پیغمبر کے بعض امور میں شریک اور اس کے برابر ھے اور جو شرائط پیغمبر کے لئے لازم ھیں وھی شرائط امام کے لئے بھی ضروری ھیں۔ ان شرائط کو ھم یہاں بیان کر رھے ھیں:

۱۔ پیغمبر کے لئے ضروری ھے کہ وہ معصوم ھو یعنی اپنی پوری عمر میں گناہ کے قریب نہ جائے اوردین کے حقائق واحکام بیان کرنے، لوگوں کے اسلامی و مذہبی سوالوں کے جوابات دینے میں خطا کا مرتکب نہ ھو۔ امام کو بھی ایساھی ھونا چاہئے اوردونوں کے لئے ایک ھی دلیل ھے۔

۲۔ پیغمبر، شریعت کو سب سے زیادہ اور بہتر طور پر جانتا ھو ۔ اور مذہب کی کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہ ھو۔ اور امام بھی جو کہ شریعت کی ان چیزوں کو مکمل کرنے اور بیان کرنے والا ھے جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نھیں ھوئی ھیں، ضروری ھے کہ دین کے احکام و مسائل کوسب سے زیادہ جانتاھو۔

۳۔ نبوت ایک انتصابی مقام ھے نہ انتخابی، اور پیغمبر کے لئے ضروری ھے کہ خدا اس کی معرفی کرے اور اسی کی طرف سے مقام نبوت پر منصوب ھو کیونکہ تنہا اسی کی ذات ھے جو معصوم کو غیر معصوم سے جدا کرتا ھے اور صرف خدا ان لوگوں کو پہچانتا ھے جو غیبی عنایتوں کی وجہ سے اس مقام پر پھونچے ھیں او ردین کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ ھیں۔

یہ تینوں شرطیں جس طرح سے پیغمبر کے لئے معتبر ھیں اسی طرح امام اور اس کے جانشین کے لئے معتبر ھیں۔ لیکن دوسرے نظریہ کے مطابق، نبوت کی کوئی بھی شرط امامت کے لئے ضروری نھیںھیں نہ معصوم ھونا ضروری ھے نہ عادل ھونا اورنہ ھی عالم ھونا ضروری ھے نہ شریعت پر مکمل دسترسی ضروری ھے نہ انتصاب ھونا، اورنہ عالم غیب سے رابطہ ھونا ضروری ھے بلکہ بس اتنا کافی ھے کہ اپنے ھوش و حواس اور تمام مسلمانوں کے مشورے سے اسلام کی شان و شوکت کی حفاظت کرے اور قانون کے نفاذ کے لئے امنیت کو جزا قرار دے، او رجہاد کے ذریعے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرے۔

ابھی ھم اس مسئلہ کو (کہ کیا مقام امامت ایک انتصابی مقام ھے یا ایک انتخابی مقام اور کیا پیغمبر کے لئے ضروری تھا کہ وہ خود کسی کو اپنا جانشین معین کریں یاامت کے حوالے کردیں) ایک اجتماعی طریقے سے حل کرتے ھیں۔ اور قارئین محترم کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ھو جائے گا کہ اجتماعی اور فرہنگی حالات خصوصاً پیغمبر کے زمانے کے سیاسی حالات سبب بنے کہ خود پیغمبر اپنی زندگی میں جانشینی کی مشکلات کو حل کریں اور اس کے انتخاب کو امت کے حوالے نہ کریں۔

اس بات میں کوئی شک نھیںھے کہ مذہب اسلام، جہانی مذہب اور آخری دین ھے اور جب تک رسول خدا زندہ رھے امت کی رہبری کو اپنے ذمے لئے رھے اور آپ کی وفات( شہادت) کے بعد ضروری ھے کہ امت کی رہبری امت کے بہترین فرد کے ذمے ھو، ایسی صورت میں پیغمبر کے بعد رہبری ،کیا ایک مقام تنصیصی (نص یا قرآنی دلیل )ھے یا مقام انتخابی؟

یہاں پر دو نظریے ھیں:

 شیعوں کا نظریہ ھے کہ مقام رہبری ، مقام تنصیصی(نص) ھے اور ضروری ھے کہ پیغمبر کا جانشین خدا کی طرف سے معین ھو۔ جب کہ اھلسنت کا نظریہ ھے کہ یہ مقام انتخابی ھے اورامت کے لئے ضروری ھے کہ پیغمبر کے بعد ملک و امت کے نظام کو چلانے کے لئے کسی شخص کو منتخب کریں، اور ہر گروہ نے اپنے نظریوں پر دلیلیں پیش کی ھیں جو عقاید کی کتابوں میں ھیں یہاں پر جو چیز بیان کرنے کی ضرورت ھے وہ پیغمبر کے زمانے میں حاکم کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرناھے تاکہ دونوں نظریوں میں سے ایک نظریہ کو ثابت کرسکیں۔

    پیغمبر اسلام کے زمانے میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر کا جانشین خدا کے ذریعے خود پیغمبر کے ہاتھوں معین ھو۔ کیونکہ اسلامی معاشرہ کو ھمیشہ ایک خطرناک مثلث یعنی روم، ایران، اورمنافقین کی طرف سے جنگ،فساداوراختلاف کا خطرہ لاحق تھا،اسی طرح امت کے لئے مصلحت اسی میں تھی کہ پیغمبر سیاسی رہبر معین کر کے تمام امتیوں کو خارجی دشمن کے مقابلے میںایک ھی صف میں لاکر کھڑا کردیں۔ اور دشمن کے نفوذ اور اس کے تسلط کو ( جس کی اختلاف باطنی بھی مدد کرتا) ختم کردےں اب ھم اس مطلب کی وضاحت کر رھے ھیں۔

 اس خطرناک مثلث کا ایک حصہ بادشاہِ روم تھا۔ یہ ایک عظیم طاقت شبہ جزیرہ کے شمال میں واقع تھی جس کی طرف سے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) ھمیشہ اور زندگی کے آخری لمحے تک فکر مند ھے۔۔ سب سے پھلی لڑائی مسلمانوں کی روم کے عیسائی فوج کے ساتھ  ۸ ھ میں فلسطین میں ھوئی۔ اس جنگ میں اسلام کے تین عظیم سپہ سالار یعنی جعفر طیار، زید بن حارثہ اورعبد اللہ بن رواحہ شھید ھوگئے اور اسلامی فوج کی بہت بڑی شکست ھوئی۔

کافروںکی فوج کے مقابلے سے اسلام کی فوج کے پیچھے ہٹنے سے قیصر کی فوج کے حوصلے بلند ھو گئے اور ہر لمحہ یہ خطرہ بنا رہاکہ کھیں نئی اسلامی حکومت کے مرکزپر حملہ نہ ھوجائے۔

اسی وجہ سے پیغمبر   ۹ ھ میں بہت زیادہ فوج کے ساتھ شام کے اطراف کی طرف روانہ ھوئے تاکہ ہر طرح کی فوجی لڑائی میں خود رہبری کریں۔ اس سفر میں اسلامی فوج نے زحمت و رنج برداشت کر کے اپنی دیرینہ حیثیت کو پالےا اور اپنی سیاسی زندگی کو دوبارہ زندہ کےا۔ لیکن اس کھوئی ھوئی کامیابی پر پیغمبر مطمئن نھیں ھوئے اور اپنی بیماری سے چند دن پھلے فوج اسلام کو اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں دے کر حکم دیا کہ شام کے اطراف میں جائیں اور جنگ میں شرکت کریں۔

اس مثلث کادوسرا خطرناک حصہ ایران کا بادشاہ تھا۔یہ سبھی جانتے ھیں کہ ایران کے خسرو نے شدید غصہ کے عالم میں پیغمبر کے خط کو پھاڑا تھا۔ اور پیغمبر کے سفیر کو ذلیل و خوار کر کے اپنے محل اور ملک سے نکالاتھا، صرف یھی نھیں بلکہ یمن کے گورنر کو نامہ لکھا تھا کہ پیغمبر کو گرفتار کرلے۔ اور اگر وہ گرفتاری نہ دیں توانھیں قتل کردے۔

خسرو پرویز، اگر چہ پیغمبر کے زمانے میں ھی مرگیا تھا لیکن یمن کو آزاد کرنے کا مسئلہ (جو مدتوں تک ایران کے زیر نظر تھا) خسرو ایران کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا۔ اورغرور و تکبر نے ایران کے سیاست دانوں کواس بات کی اجازت نہ دی کہ اس طرح کی قدرت (پیغمبر اسلام )کو برداشت کرسکیں۔

اور اس مثلث کا تیسرا خطرہ گروہ منافقین کی طرف سے تھا جو ھمیشہ ستون پنجم (مدد و طاقت) کی طرح مسلمانوں کے خلاف سازش میں لگے تھے، یہاں تک کہ ان لوگوںنے کہ جنگ تبوک میں جاتے وقت راستے میں پیغمبر اسلام کو قتل کرنا چاہا ۔ منافقین کے بعض گروہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ رسول خدا کی موت کے بعداسلامی تحریک ختم ھو جائے گی اور سب کے سب آسودہ ھو جائیں گے۔[27]

پیغمبر کے انتقال کے بعد ابوسفیان نے بے ھودہ قسم کے مکر و حیلے اپنائے اورچاہا کہ حضرت علی کے ساتھ بیعت کر کے مسلمانوں کو دو حصوںمیں تقسم کر کے ایک دوسرے کو روبرو کردے اوراچھے لوگوں کو برائیوں کی طرف راغب کرے۔ لیکن حضرت علی اس کی سازش سے باخبر تھے ،چنانچہ اس کو ھوشیار کرتے ھوئے کہا: خدا کی قسم! فتنہ و فساد برپا کرنے کے علاوہ تیرا کوئی اور مقصد نھیںھے اور صرف آج ھی تونھیں چاہتا کہ فتنہ و فساد برپا کرے بلکہ تو چاہتا ھے کہ ھمیشہ فتنہ و فساد ھوتا رھے ،جا مجھے تیری ضرورت نھیںھے۔[28]

منافقوں کی تخریب کاری (فتنہ و فساد) اس حد تک پھونچ گئی تھی کہ قرآن مجید نے سورہٴ آل عمران، نساء ، مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح، مجادلہ، حدید، منافقون او رحشر میں اس کا تذکرہ کیا ھے۔

کیاایسے سخت دشمنوں کے بعد جو اسلام کے کمین میں بیٹھے تھے صحیح تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے بعد نو بنیاد اسلامی معاشرے کے لئے دینی و سیاسی رہبر وغیرہ کو معین نہ کرتے؟ اجتماعی محاسبہ کی رو سے معلوم ھوتا ھے کہ پیغمبر پر ضروری تھا کہ رہبر کا تعیین کرےںاور تاکہ اپنے بعد ھونے والے تمام اختلاف کو روک دیںاور ایک محکم دفاعی طاقت کو وجود میں لا کر وحدت اسلامی کی بنیاد کو محفوظ کریں، اور ہر ناگوار حادثہ رونما ھونے سے پھلے اور یہ کہ رسول اسلام کے انتقال کے بعد ہر گروہ یہ کھے کہ رہبر ھم میں سے ھو یہ سوائے رہبر معین کئے ممکن نہ تھا۔

مذکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ نظریہ باکل صحیح ثابت ھوتا ھے کہ پیغمبر اپنے بعد ھونے والے رہبر کو خود معین کریں شایدیھی وجھیں تھیںکہ پیغمبر بعثت کی ابتداء سے آخر عمر تک مسئلہ جانشینی کو ھمیشہ بیان کرتے رھے اور اپنے جانشین کوآغاز رسالت میں بھی اور آخر زمانہ رسالت میںبھی معین کیا ،ان دونوںکی توضیح ملاحظہ کیجئے۔

 دلیل عقلی، فلسفی اوراجتماعی حالات سے قطع نظر کہ یہ سب کی سب میرے نظریئے کی تائید کرتی ھیں ، وہ حدیثیںاو رورایتیں جو پیغمبر اسلام سے وارد ھوئی ھیں علمائے شیعہ کے نظریہ کی تصدیق کرتی ھیں۔پیغمبر اکرم نے اپنی رسالت کے زمانے میں کئی دفعہ اپنے جانشین اوروصی کومعین کیا ھے اور امامت کے موضوع کو عمومی رائے اور انتخاب کے ذریعے ھونے والی بحث کو ختم کردیا ھے۔

پیغمبر نے نہ صرف اپنی آخری عمر میںاپنا جانشین معین کیا تھا، بلکہ آغاز رسالت میں کہ ابھی سو آدمیوں کے علاوہ کوئی ان پر ایمان نہ لایا تھا اپنے وصی و جانشین کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔

جس دن خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیں اورعمومی دعوت سے پھلے انھیں مذہب توحیدقبول کرنے کے لئے بلائیں،تو اس مجمع میں جس میں بنی ہاشم کے ۴۵ سردار موجود تھے، آپ نے فرمایا:”تم میں سے سب سے پھلے جو میری مدد کرے گا وھی میرا بھائی ، وصی اور میرا جانشین ھوگا“

جس وقت حضرت علی ان کے درمیان سے اٹھے اور ان کی رسالت کی تصدیق کی۔ اسی وقت پیغمبر نے مجمع کی طرف رخ کر کے کہا: ”یہ جوان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھے“

 مفسرین و محدثین کے درمیان یہ حدیث ”یوم الدار“ اور حدیث ”بدء الدعوة“ کے نام سے مشھور ھے۔

پیغمبر نے نہ صرف آغاز رسالت میں بلکہ مختلف مناسبتوں اور سفرو حضر میں حضرت علی کی ولایت و جانشینی کو صراحت سے بیان کیا تھا ۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک عظمت و صراحت کے اعتبار سے ”حدیث غدیر“ کے برابر نھیں ھے

اب ھم واقعہ غدیر کو تفصیل سے بیان کرتے ھیں:

واقعہٴ ِ غدیر خم

پیغمبر اسلام  ۱۰  ھ میں وظیفہٴ حج اور مناسک حج کی تعلیم کے لئے مکہ معظمہ روانہ ھوئے اور اس مرتبہ یہ حج پیغمبر اسلام کا آخری حج تھااسی وجہ سے اسے ”حجة الوداع“ کہتے ھیں۔ و ہ افراد جو پیغمبر کے ھمراہ حج کرنا چاہتے تھے یا حج کی تعلیمات سے روشناس ھونا چاہتے تھے پیغمبر کے ھمراہ روانہ ھوئے جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔

 حج کے مراسم تمام ھوئے ،پیغمبر اسلام مدینے کے لئے روانہ ھوئے جب کہ بہت زیادہ لوگ آپ کی خدا حافظی کے لئے آئے سوائے ان لوگوں کے جو مکہ میں آپ کے ھمراہ ھوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ھمراہ تھے وہ پھلے ھی روانہ ھوگئے۔ جب یہ قافلہ بے آب و گیاہ جنگل بنام ”غدیر خم“ پھونچا جو جحفہ[29] سے تین میل کی دوری پر واقع ھے ،وحی کا فرشتہ نازل ھوا اور پیغمبر کو ٹھہر نے کا حکم دیا پیغمبر نے بھی سب کو ٹھہر نے کا حکم دیدیا تاکہ جو پیچھے رہ گئے ھیں وہ بھی پھونچ جائیں۔

قافلے والے اس بے آب و گیاہ اور بے موقع ، دوپہر کے وقت ، تپتے ھوئے صحرا میں اور گرم و تپتی ھوئی زمین پر پیغمبر کے اچانک رک جانے سے متعجب تھے، لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رھے تھے:  لگتاھے خدا کی طرف سے کوئی اھم حکم آگیاھے اور حکم کی اتنی ھی اھمیت ھے کہ پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ اس سخت حالت میں آگے بڑھنے سے سب کو روک دیں اور خدا کے پیغام کو لوگوں تک پھونچائیں۔

رسول اسلام پر خد اکا یہ فرمان نازل ھوا:

<یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس>[30]

اے پیغمبر، جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پھونچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو کہ) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پھونچایااور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اگر آیت کے مفھوم پر غور کیا جائے تو چند نکات سامنے میں آتے ھیں:

۱۔ وہ حکم جسے پھونچانے کے لئے پیغمبر کو حکم دیا گیا وہ اتنا عظیم اوراھم تھا کہ (بر فرض محال) اگر پیغمبر اس کے پھونچانے میں خوف کھاتے اور اسے نھیں پھونچاتے تو گویا آپ نے رسالت الھی کو انجام نھیں دیا بلکہ اس پیغام کے پھونچانے کی وجہ سے آپ کی رسالت مکمل ھوئی۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ”ما انزل الیک“ سے مراد ہرگز قرآن مجید کی تمام آیتیں اور اسلامی احکامات نھیں ھیں کیونکہ اگر پےغمبر ،خداوند عالم کے تمام احکامات کو نہ پھونچائیں تو اپنی رسالت کو انجام نھیںدیا ھے تو یہ ایک ایساواضح اور روشن امر آیت کے نزول کا محتاج نھیںھے، بلکہ اس حکم سے مراد ایک خاص امر کا پھونچانا ھے تاکہ اس کے پھونچانے سے رسالت مکمل ھو جائے اوراگر یہ حکم نہ پھونچایا جائے تو رسالت عظیم اپنے کمال تک نھیںپھو نچ سکتی، اس بنا پر ضروری ھے کہ یہ حکم اسلامی اصول کا ایک اھم پیغام ھو تاکہ دوسرے اصول و فروع سے ارتباط رکھے ھواور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر کی رسالت کے بعد اھم ترین مسئلہ شمار ھو۔

۲۔معاشرے کو دیکھتے ھوئے پیغمبر اسلام کو یہ احتمال تھا کہ ممکن ھے اس پیغام کو پھونچاتے وقت لوگوں کی طرف سے انھیں ضرر پھونچے لیکن خداوند عالم ان کے ارادے کوقوت و طاقت دینے کے لئے ارشاد فرماتا ھے: <وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس>

 اب ھم ان احتمالات کا تجزیہ کریں گے جو ماموریت کے سلسلے میں مفسرین اسلامی نے بیان کئے ھیں کہ کون سا احتمال آیت کے مفھوم سے نزدیک ھے۔

شیعہ محدثین اور اسی طرح اھلسنت کے ۳۰ بزرگ محدثین[31] نے بیان کیا ھے کہ یہ آیت غدیر خم میں نازل ھوئی ھے جس میںخدا نے پیغمبر کو حکم دیا ھے کہ حضرت علی کو ”مومنوں کا مولی“ بنائیں۔

پیغمبر کے بعد ولایت و جانشینی عظیم اوراھم موضوعات میں سے ھے اور اس کے پھونچانے سے رسالت کی تکمیل ھوئی ھے نہ یہ کہ امر رسالت میں نقص شمار کیا جائے۔

 اسی طرح یہ بھی صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام اپنے اجتماعی اور سیاسی حالات کی رو سے اپنے اندر رعب و ڈر محسوس کرتے کیونکہ حضرت علی جیسے شخص کی وصایت اور جانشینی جن کی عمر ۳۳ سے زیادہ نہ تھی، کا اعلان ایسے گروہ کے سامنے جو عمر کے لحاظ سے ان سے بہت بڑے تھے ،بہت زیادہ دشوار تھا۔[32]

اس کے علاوہ اس مجمع میں پیغمبر کے اردگرد بیٹھے لوگوں کے بہت سے رشتہ داروں کاخونمختلف جنگوں میں حضرت علی کے ہاتھوں بہا تھا اورایسے کینہ توز افراد پر ایسے شخص کی حکومت بہت دشوار مرحلہ تھا، اس کے علاوہ حضرت علی پیغمبر کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اورایسے شخص کو خلافت کے لئے معین کرنا کم ظرفوں کی نگاہ میں،رشتہ دار کو بڑھاواد ینا تھا۔

 لیکن ان تمام سخت حالات کے باوجود خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ تھا کہ اس تحریک کو دوام بخشنے کے لئے حضرت علی کو خلافت و جانشینی کے لئے منتخب کیا جائے اوراپنے پیغمبر کی رسالت کو رہبر و رہنما کا تعیین کر کے پایہ تکمیل تک پھونچاےاجائے۔

واقعہ غدیر کی تشریح :

۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کی سرزمین پر دو پہر کا تپتا ھوا سورج چمک رہا تھا اور اکثر مؤرخین نے مجمع جن کی تعداد ۷۰ ہزار سے ۱۲۰ ہزار تک بیان کی ھے اس جگہ پر پیغمبر کے حکم سے ٹہرے ھوئے تھے او راس روز رونما ھونے والے تاریخی واقعہ کا انتظار کر رھے تھے اور شدید گرمی کی وجہ سے اپنی رداوٴں کو دو حصوں میں تہہ کر کے ایک حصے کو سر پر اوردوسرے حصے کو پیر کے نیچے رکھے ھوئے تھے۔

ایسے حساس موقع پر ظہر کی اذان پورے بیابان میں گونج اٹھی اور موٴذن کی تکبیر کی آواز بلند ھوئی ،لوگ نماز ظہر ادا کرنے کے لئے آمادہ ھوگئے اور پیغمبر نے اس عظیم الشان مجمع میں جس کی سرزمین غدیر پر مثال نھیں ملتی نماز ظہرباجماعت ادا کی،  پھر لوگوں کے درمیان اس منبر پر جو اونٹ کے کجاووں سے بنایا گیا تھا تشریف لائے اور بلند آواز سے یہ خطبہ پڑھا۔

تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ھیں ھم اسی سے مدد چاہتے ھیں اور اسی پر ھمارا ایمان ھے اور اسی پر بھروسہ ھے اور برے نفس اور خراب کردار سے خدا کی پناہ مانگتے ھیں کہ اس کے علاوہ گمراھوں کا کوئی ہادی و رہنما نھیںھے وہ خدا جس نے ہر شخص کی ہدایت کی اس کو گمراہ کرنے والا کوئی نھیں ھے۔ میں گواھی دیتا ھوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نھیںاور محمد خدا کا بندہ اور اسی کی طرف سے بھیجا ھوا ھے۔

اے لوگو، عنقریب میں تمہارے درمیان سے خدا کی بارگاہ میں واپس چلا جاوٴ ں گا اور میں مسئول ھوں اور تم بھی مسئول ھو میرے بارے میں کیا فکر کرتے ھو؟

پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے خدا کے مذہب کی تبلیغ کی اور ھم لوگوں کے ساتھ نیکی کی اور ھمیشہ نصیحت کی اوراس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں خدا آپ کو جزائے خیر دے۔

پیغمبر نے پھر مجمع سے مخاطب ھو کر فرمایا:

کیا تم گواھی نھیں دو گے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبر ھے؟ جنت و جہنم اور موت حق ھےں اور قیامت بغیر کسی شک وتردید کے ضرور آئے گی اور خداوند عالم ان لوگوں کو جو قبروں میں دفن ھیں دوبارہ زندہ کرے گا؟

پیغمبر کے صحابیوں نے کہا: ہاں ہاں ھم گواھی دیتے ھیں۔

پھر پیغمبر نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑ کر جارہا ھوں کس طرح ان کے ساتھ برتاوٴ کرو گے ؟ کسی نے پوچھا: ان دوگرانقدر چیز سے کیا مراد ھے؟

پیغمبر اسلام نے فرمایا: ثقل اکبر جو خدا کی کتاب ھے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ھے اس کو مضبوطی سے پکڑلو تاکہ گمراہ نہ ھوجاوٴ ۔ اور ثقل اصغر میری عترت اور میرے اھلبیت ھیں میرے خدا نے مجھے خبر دی ھے کہ میری یہ دونوں یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گی۔

اے لوگو، کتاب خدا او رمیری عترت پر سبقت نہ لے جانا بلکہ ھمیشہ اس کےنقش قدم پر چلناتاکہ تم محفوظ رہ سکو، اس موقع پر پیغمبر نے حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کیا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دیکھائی دینے لگی اور سب نے حضرت علی کو پیغمبر کے ہاتھوں پر دیکھا اورانھیں اچھی طرح سے پہچانا اور جان لیا کہ اس اجتماع او رٹھہرنے کا مسئلہ حضرت علی سے مربوط ھے اور سب کے سب پوری توجہ اور دلچسپی کے ساتھ آمادہ ھوئے کے پیغمبر کی باتوں کو غور سے سنیں۔

پیغمبر نے فرمایا: اے لوگو، تمام مومنین میں سب سے بہتر شخص کون ھے؟

پیغمبر کے صحابیوں نے جواب دیا خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتا ھے۔

پیغمبر نے پھر فرمایا: خداوند عالم میرا مولااور میں تم لوگوں کا مولا ھوں اور ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر حق تصرف رکھتا ھوں۔ اے لوگو! جس جس کا میں مولا اور رہبر ھوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ھیں۔

رسول اسلام نے اس آخری جملے کی تین مرتبہ تکرار کی[33] اور پھر فرمایا:

پروردگارا ،تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ھو او رتواسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتا ھو۔

خدایا علی کے چاہنے والوں کی مدد کر اوران کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر، خدایا علی کو حق کا محور قرار دے۔

پھر فرمایا: دیکھو جو بھی اس بزم میں شریک نھیں ھے ان تک یہ پیغام الھی پھونچا دینا اور دوسروں کو اس واقعہ کی خبردے دینا۔

ابھی یہ عظیم الشان مجمع اپنی جگہ پر بیٹھا ھی تھا کہ وحی کا فرشتہ نازل ھوا اور پیغمبر اسلام کو خوشخبری دی کہ خدا نے آج تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت کو مومنین پر تمام کردیا۔[34]

اس وقت پیغمبر کی تکبیر بلند ھوئی اور فرمایا:

 خداکا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل کردیا اور نعمتوں کو تمام کردیا اور میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت سے خوشنود ھوا۔

پیغمبر اسلام منبر سے اترے اور آپ کے صحابی گروہ در گروہ حضرت علی کو مبارکباد دیتے رھے اور انھیں اپنا مولی اور تمام مومنین زن و مرد کا مولا مانا اس موقع پر رسول خدا کا شاعر حسان بن ثابت اپنی جگہ سے اٹھا او رغدیر کے اس عظیم و تاریخی واقعہ کو اشعار کی شکل میں سجا کر ھمیشہ کے لئے جاویدان بنا دیا یہاں اس مشھور قصیدے کے دو شعر کا ترجمہ پیش کرتے ھیں:

پیغمبر نے حضرت علی سے فرمایا: اٹھو میں نے تمھیں لوگوں کی راہنمائی اور پیشوائی کے لئے منتخب کیا جس شخص کا میں مولا ھوں علی بھی اس کا مولا ھے۔ اے لوگو! تم پر لازم ھے کہ علی کے سچے پیرو اور ان کے حقیقی چاہنے والے بنو۔[35]

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا وہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا خلاصہ تھا جواھلسنت کے دانشمندوں نے بیان کیا ھے شیعہ کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ھے۔ مرحوم طبرسی نے اپنی کتاب احتجاج[36] میں پیغمبر کا ایک تفصیلی خطبہ نقل کیاھے تفصیل کے خواہشمند قارئین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔

 غدیر کا واقعہ کبھی بھی بھلایا نھیں جاسکتا

    خداوند عالم کا حکیمانہ ارادہ یہ ھے کہ عظیم تاریخی واقعہ غدیر ہر زمانے اور ہر صدی میں لوگوں کے دلوں میں زندہ اور کتابوں میں بطور سند لکھا رھے ،ہر زمانے میں اسلام کے محققین ،تفسیر ، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میںاس کے متعلق گفتگو کریں اور مقررین و خطباء اپنی تقریروں، وعظ و نصیحت اور خطابتوں میںاس واقعہ کا تذکرہ کریں اور اسے حضرت علی کا ایسا فضائل شمار کریں جو غیر قابل انکار ھو نہ، صرف مقررین اور خطیب بلکہ بہت سارے شعراء اور دیگر افراد نے بھی اس واقعے سے ستفادہ کیا ھے اور اپنے ادبی ذوق کو اس واقعہ میں غور و فکر کرکے او رصاحب ولایت کے ساتھ حسن خلوص سے پیش آکر اپنی فکروں کو جلا بخشی ھے اور عمدہ و عالی ترین قصائد مختلف انداز اور مختلف زبانوں میں کہہ کر اپنی یادگار یںچھوڑی ھےں۔

اسی وجہ سے بہت کم ایسا تاریخی واقعہ ھے جو غدیر کے مثل تمام دانشمندوں کی توجہ کا مرکز بنا ھو بلکہ تمام افراد خصوصاً محدثین ، متکلمین، فلسفی ، خطیب و شاعر، مؤرخ اور تاریخ لکھنے والے سب ھی اس کی طرف متوجہ ھوئے ھیں اور سب نے کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں لکھا ھے۔

اس حدیث کے ھمیشہ باقی رہنے کی ایک علت، اس واقعہ کے بارے قرآن مجید کی دو آیتوں کا نازل ھونا ھے[37] اور جب تک قرآن باقی ھے یہ تاریخی واقعہ بھی باقی رھے گا اور کبھی بھی ذہنوں سے بھلایا نھیں جاسکتا ، اسلامی معاشرہ نے شروع سے ھی اسے ایک مذہبی عید شمار کیاھے اور تمام شیعہ آج بھی اس دن عید مناتے ھیں اور وہ تمام رسومات اور خوشیاں جو دوسری عیدوں میں انجام دیتے ھیں اس عید میں بھی انجام دیتے ھیں۔

تاریخ کی کتابیں دیکھنے سے بخوبی معلوم ھوتا ھے کہ ۱۸/ ذی الحجہ کا دن مسلمانوں کے درمیان     ” عید غدیر“ کے نام سے مشھور ھے۔ یہاں تک کہ ابن خلکان، مستعلی بن المستنصر کے بارے میں کہتا ھے:

۴۸۷ ھ میں ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر کے دن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کیا۔[38]

 العبیدی المستنصر باللہ کے بارے میں لکھتا ھے کہ اس کا انتقال ۴۸۷ھ میں اس وقت ھوا جب ذی الحجہ مھینے کی بارہ راتیں باقی تھیں اور یہ رات ۱۸/ ذی الحجہ یعنی شب غدیر تھی۔[39]

تنہا ابن خلکان نے ھی اس رات کو غدیر کی رات نھیں کہا ھے بلکہ مسعودی[40] اور ثعلبی[41] نے بھی اس رات کو امت اسلامی کی معروف و مشھور رات کہا ھے۔

اس اسلامی عید کی بازگشت خود عید غدیر کے دن ھوتی ھے کیونکہ پیغمبر نے اس دن مہاجرین و انصار، بلکہ اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ علی کے پاس جائیں اور ان کی اس عظیم فضیلت پر انھیں مبارکباد دیں۔

زید بن ارقم کہتے ھیں: مہاجرین میں سب سے پھلے جس نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی وہ ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر تھے اور بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔

اس تاریخی واقعہ کی اھمیت کے لئے بس اتنا ھی کافی ھے کہ ۱۱۰/ صحابیوں نے حدیث غدیر کو نقل کیا ھے ۔ البتہ اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ اتنے زیادہ گروھوں میں سے صرف اتنی تعداد میں لوگوں نے واقعہ غدیر کو نقل کیا ھے بلکہ صرف اھلسنت کے ۱۱۰ دانشمندوںنے واضح طور پر نقل کیا ھے ۔یہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر نے اپنے خطبے کو ایک لاکھ کے مجمع میں بیان کیا لیکن ان میں سے بہت زیادہ لوگ حجاز کے نھیں تھے اور ان سے حدیث نقل نھیں ھوئی ھے اور ان میں سے جن گروھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ھے تاریخ نے اسے اپنے دامن میں جگہ تک نھیں دیا ھے ، اور اگر لکھا بھی ھے تو ھم تک نھیں پھونچا ھے۔

دوسری صدی ہجری جو کہ ”تابعین“ کا زمانہ ھے ۸۹/ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ھے اور اس صدی کے بعد جتنے بھی حدیث کے راوی ھیں سب کے سب اھل سنت کے دانشمند اورعلماء ھیں اور اس میں ۳۶۰/ افراد نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے اور بہت زیادہ لوگوں نے اس کی حقانیت اور صحیح ھونے کا اعتراف کیا ھے۔

تیسری صدی میں ۹۲/ دانشمندوں نے، چوتھی صدی میں ۴۳/ دانشمندوں نے ، پانچویں صدی میں ۲۴/ دانشمندوں نے، چھٹی صدی میں بیس دانشمندوں نے، ساتویں صدی میں ۲۱/ دانشمندوں نے، آٹھویں صدی میں ۱۸/ دانشمندوں نے ،نویں صدی میں ۱۶/ دانشمندوں نے، دسویں صدی میں ۱۴/ دانشمندوں نے، گیارھویں صدی میں ۱۲/ دانشمندوں نے، بارھویں صدی میں ۱۳/ دانشمندوں نے، تیرھویں صدی میں ۱۲/ دانشمندوں نے اور چودھویں صدی میں ۲۰/ دانشمندوں نے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔

کچھ محدثین و مؤرخین نے صرف اس حدیث کے نقل کرنے پر ھی اکتفا نھیں کیا ھے بلکہ اس کی سند اور اس کے مفاد و مفھوم کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں بھی لکھی ھیں۔

اسلام کے بزرگ مؤرخ طبری نے ایک کتاب بنام ”الولایة فی طریق حدیث الغدیر“ لکھا ھے اور اس حدیث کو ۷۰/ سے زیادہ طریقوں سے پیغمبر سے نقل کیا ھے۔

ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ”ولایت“ میں اس حدیث کو ۱۰۵ / افراد سے نقل کیا ھے۔

ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو جعانی کے نام سے مشھور ھے اس حدیث کو ۲۵ / طریقوں سے نقل کیا ھے ، جن لوگوں نے اس تاریخی واقعہ کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ھیں ان کی تعداد ۲۶ ھے۔

شیعہ دانشمندوں نے اس اھم اور تاریخی واقعے کے متعلق بہت قیمتی کتابیں لکھی ھیں اور تمام کتابوں میں سب سے جامع اور عمدہ کتاب ”الغدیر“ ھے جو عالم تشیع کے مشھور و معروف دانشمند علامہء مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی ۺ کی تحریر کردہ ھے، امام علی علیه السلام کی حالات زندگی لکھنے والوں نے اس کتاب سے ھمیشہ بہت زیادہ استفادہ کیا ھے۔



[1] امتاع الاسماع، مقریزی،منقول از سیرہٴ ہشام ج۲ ص ۲۳۸

[2] واقدی نے اپنی کتاب مغازی میںاس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ھے وہ کہتا ھے کہ ”کان علی روٴوسھم الطیر“ گویاان کے سروں پر پرندے بیٹھے تھے۔ مغازی ج۲ ص ۴۸

[3] تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۶

[4] سورہٴ انبیاء آیت ۸۹

[5] کنز الفوائد ص ۱۳۷

[6] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۱۴۸

[7] تاریخ الخمیس ج۱ ص ۴۸۷

[8] مستدرک حاکم ج۳ ص ۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۱۶

[9] مستدرک حاکم ج۳ ص۳۲، بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۳

[10] مستدرک حاکم ج۲ ص ۳۶۷، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵

[11] صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۔ ۲۲، صحیح مسلم ج۷ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵، قاموس الرجال ج۴ ص ۳۱۴منقول از مروج الذہب ۔

[12] محدثین اور سیرت لکھنے والوں نے فتح خیبر کی خصوصیات اور امام کے قلعہ میں داخل ھونے اور اس واقعہ کے دوسرے حادثات کو بہت تفصیل سے لکھا ھے دلچسپی اور تفصیلات کے خواہشمند افرادان کتابوں کی طرح مراجعہ کریں جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ھیں۔

[13] سیرہٴ ابن ہشام ج۲ ص ۵۲۰، بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۰۷، مرحوم شرف الدین نے اپنی کتاب ”المراجعات“ میں اس حدیث کے تمام ماخذ کو ذکر کیا ھے۔

[14] کشاف ج۱ ص ۲۸۲۔ ۲۸۳، تفسیر امام رازی ج۲ ص ۴۷۱۔ ۴۷۲

[15] بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۸۵

[16] اَٴلَا وَ اِنَّ الْخَطٰایَا خَیْل شَمْس حَمَل عَلَیْہَا اَہْلُہَا وَخَلَعَتْ لِجَمْہٰا فَتَقَحَّمَتْ بِہِمْ فِیْ النّٰار نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۔

[17] اس واقعہ کی تشریح زندگانی امیر ا لمومنین کے چوتھے حصے میں آئی ھے جو حصہ مخصوص ھے امام کی زندگی کے حالات پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے۔

[18] اسد الغابہ ج۱ ص ۱۷۶، والدرجات الرفیعہ ص ۴۰۱

[19] رجال مامقانی ج۱ ص ۱۹۹منقول از احتجاج ۔

[20] تاریخ طبری ج۸ ص ۸۴، تاریخ ابن اثیر ج۲ ص ۶۵

[21] طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۲

[22] ”لٰایُوَدَّیْہٰا عَنْکَ اِلّٰا اَنْتَ اَوْ رَجُلٌ مِنْکِ“اور بعض روایتوں میںاس طرح ھے ”او رجل من اھل بیتک“ سیرہٴ ابن ہشام ج۴ ص ۵۴۵ وغیرہ

[23] روح المعانی ج۱۰ تفسیر سورہٴ توبہ ص ۴۵

[24] ”الا الذین عاہدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم شیئاً و لم یظاہروا علیکم احداً فاٴتمُّوا الیھم عہدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین“

[25] ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔

[26] سورہٴ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

[27] سورہٴ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

[28] کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۲۰، العقد الفرید ج۲ ص ۲۴۹

[29] جحفہ: رابغ سے چند میل دور مدینے کے راستے میں واقع ھے اور حاجیوں کی ایک میقات میں سے ھے۔

[30] سورہٴ مائدہ آیت ۶۷

[31] مرحوم علامہ امینی ۺ نے اپنی کتاب الغدیر، ج۱ ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ تک ان تیس افراد کے نام و خصوصیات مکمل طریقے سے بیان کئے ھیں ۔ جن کے درمیان بہت سے نام مثلاً طبری ، ابونعیم اصفہانی، ابن عساکر، ابو اسحاق حموینی، جلال الدین سیوطی وغیرہ شامل ھیں اور پیغمبر کے صحابی میں ابن عباس ، ابو سعید خدری و براء ابن عازب وغیرہ کے نام پائے جاتے ھیں۔

[32] خصوصاً ان عربوں پر جو اھم منصبوں کو قبیلے کے بزرگوں کے شایان شان سمجھتے تھے اورنوجوانوں کو اس بہانے سے کہ وہ تجربہ نھیں رکھتے ان کو اس کا اھل نھیں سمجھتے تھے اسی لئے جب پےغمبر نے عتاب بن اسید کو مکہ کا حاکم اوراسامہ بن زید کو فوج کا سپہ سالار بنا کر تبوک بھیجا تو بہت سے اصحاب پیغمبر اور دوستوں نے اعتراض کیا۔

[33] احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ”مسند“ میں نقل کیا ھے کہ پیغمبر نے اس جملے کی چار مرتبہ تکرا رکی۔

[34] الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا ً ۔ سورہٴ مائدہ، آیت۳

[35] فقالَ لہ قم یاعلی فاننی               رضیتک من بعدی اماماً و ہادیاً

فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ                  فکونوا لہ اتباع صدق موالیاً

[36] احتجاج طبرسی ج۱ ص ۸۴ ۔ ۷۱ ، طبع نجف

[37] سورہٴ مائدہ آیت ۳ / اور ۶۷

[38] وفیات الاعیان ج۱ ص ۶۰ و ج۲ ص ۲۲۳

[39] وفیات الاعیان ج۱ ص ۶۰ و ج۲ ص ۲۲۳

[40] التنبیہ و الاشراف ص ۸۲۲

[41] ثمار القلوب ۵۱۱