اس مضمون میں ہم جوانوں کے لئے امام علی کی وصیتوں میں موجود عمومی رہنمائی (General Guidance)اور بنیادی نکات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
اس تحریر کا بنیادی ماخذ نہج البلاغہ میں موجود امام علی کا اکیتسواں خط ہے 'جو ایک مثالی باپ کی طرف سے شعور کی منزلیں طے کرنے والے اپنے مثالی جواں فرزند کے لئے ہدایات پر مشتمل ہے۔
یہ خط امیر المومنین کی مشہور ترین وصیتوں میں سے ہے۔ سید رضی کے بقول اسے آپ نے ''صفین ''سے واپسی پر ''حاضرین'' کے مقام پر اپنے بیٹے حسن ابن علی کے نام تحریر فرمایا۔ شیعہ اور سنی علمانے اپنی کتب میںاس کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ معروف اہل سنت عالم ابواحمد حسن بن عبداﷲ بن سعید عسکری نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ : اگر حکمت عملی میں سے کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہے جسے سنہری حروف سے لکھا جانا چاہئے تو وہ یہی رسالہ ہے جس میں امام علی نے علم کے تمام ابواب 'سیر وسلوک کی راہوں ' نجات اور ہلاکت کی تمام باتوں ' ہدایت کے راستوں' مکارم اخلاق' سعادت کے اسباب ' مہلکات سے نجات کے طریقوں اور اعلیٰ ترین درجے کے انسانی کمال تک پہنچنے کی راہوںکو بہترین الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اس مختصر تحریر میں امام علی کے مخاطب صرف آپ کے فرزند امام حسن نہیں۔ بلکہ آپ نے اپنی حکیمانہ گفتگو میں حقیقت کے متلاشی تمام جوانوں کو مخاطب کیا ہے۔ ہم اپنے محدودصفحات کے پیش نظر ' اس وصیت کے چند اہم ترین تربیتی اصولوں کے بیان پر اکتفاکریں گے ۔
١ـتقویٰ اور پاکدامنی
اپنے پیارے فرزند کو امام کی اہم ترین نصیحت تقویٰ ٔالٰہی تھی۔ آپ نے فرمایا:واَعَلَمْ یابُنَیَّ اِنَّ اَحَبَّ ما انتَ آخِذ بِہِ اِلَّی مِن وَصیَّتی تَقوَی اﷲ (بیٹا ! میری وہ بہترین وصیت جسے تمہیں تھام کر رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ تقویٰ ٔ الٰہی اختیار کرو۔نہج البلاغہ ـ مکتوب ٣١)
تقویٰ ایک مضبوط حصار
جوانوں کے لئے تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے 'جب ہم دورِ جوانی کے احساسات 'رجحانات اور تمایلات کو اپنے سامنے رکھیں۔
ایک ایسا جوان جو سرکش غرائز'تند و تیز احساسات کی زد پر ہو اورایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہو جس میں اسکے اندر نفسانی خواہشات ' جنسی غریزے اور موہوم خیالات سر اٹھاتے ہیں' تو ایسے جوان کے لئے تقویٰ ایک ایسے مضبوط اور مستحکم قلعے اور حصار کی مانند ہے جواسے دشمن کے حملوں اور اسکی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ایک ایسی ڈھال کی مثل ہے جو اسے شیاطین کے زہریلے تیروں سے بچاتی ہے ۔امام علی فرماتے ہیں : اعلَمُو اعبِاد اﷲِ اَنَّ التَّقوی دارُ حِصن عَزیزٍ (اے بندگان خدا !یاد رکھو کہ تقویٰ ایک مضبوط اور مستحکم قلعہ ہے۔ نہج البلاغہ ـ مکتوب ١٥٠)
استاد شہید مرتضیٰ مطہری فرماتے ہیں کہ : یہ تصور کرنا غلط ہوگا کہ تقویٰ بھی نماز ' روزے کی مانند دینداری کے لوازم میں سے ہے ۔ تقویٰ تو(دراصل)انسانیت کا لازمہ ہے۔آدمی اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ حیوانوںکی سی جنگلی زندگی گزارنے کی بجائے ایک انسانی زندگی بسر کرے تو لامحالہ اسے چاہئے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کرے۔ (سخن ـ ص٢٦)
ایامِ جوانی میں انسان' ہر لمحے خود کوایک دوسرے سے یکسر مخالف سمتوں میں جانے والے راستوں کے رو برو پاتا ہے' ان میں سے ہر راستہ اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے ۔ ایک طرف اسکا ضمیر اور خدائی الٰہام اسے خوبیوں اور اچھائیوں کی طرف دعوت دیتے ہیں'تو دوسری طرف نفسانی خواہشات ' نفس امارہ اور شیطانی وسوسے اسے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ عقل اور خواہشات' خیراور شر' پاکیزگی اور غلا ظت کے درمیان جاری اس محاذآرائی اور کھینچ تان کا شکار وہی جوان سرخرو ہو سکتا ہے جس کے پاس ایمان اور تقویٰ کے ہتھیارہوں اور جس نے ابتدائے شباب ہی سے خود سازی اور جہاد بالنفس کا اہتمام کیا ہو۔
حضرت یوسف اسی تقویٰ اور مضبوط قوت ارادی کے بل بوتے پر خدا کے سخت امتحان سے کامیاب و کامران گزرے اور عزت و سرفرازی کی بلندیوں پر فائز ہوئے ۔ قرآن مجید نفس کے خلاف حضرت یوسف کی کامیابی کا سبب دو اہم اور بنیادی اصولوں یعنی ''تقوی'' اور ''صبرو تحمل'' کو قرار دیتا ہے' اور فرماتا ہے : ِنَّہُ مَن یَتَّق وَیَصبِرْ فَنَّ اﷲ َ لاْ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحسِنِینَ (جو کوئی بھی تقویٰ اور صبراختیار کرتا ہے (تو)خداوندِ عالم نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔سورئہ یوسف ١٢ ـ آیت ٩٠)
بہت سے جوان' جو اپنے عزم و ارادے کی کمزوری اور اپنے اندر قوتِ فیصلہ کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں اور ان کے علاج کی فکر میں ہوتے ہیں' وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے مذموم اور ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارے کے لئے بارہا عزم کیا ہے' لیکن بہت کم کامیابی حاصل کر پائے ہیں۔
امام علی ''تقویٰ'' کو قوت ارادی کی تقویت اور اپنے نفس پر غلبے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں ' تقویٰ ہی گناہ اور ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارے کے سلسلے میں نمایاں اور موثر کردار رکھتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ گناہ اور لغزشیں ان سر کش اور بے لگام گھوڑوں کی مانند ہیں' جن پر گناہگاروں کو سوارکر دیا گیا ہو اور ان کی لگام کو ڈھیلا چھوڑ دیا گیا ہو اور وہ اپنے سوار کو لے کر جہنم میں کود پڑیں ۔جبکہ ''تقویٰ''ان رام کی ہوئی سواریوں کی مانند ہے جن پر ان کے مالکوں کو سوار کیا گیا ہو اور ان کی لگام ان کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہو 'اور وہ اپنے سواروں کو اطمینان اور سکون کے ساتھ جنت میں پہنچا دیں ۔ (نہج البلاغہ ـ خطبہ ١٦)
یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ یہ کام ناممکن نہیں ہے۔ اس وادی میں قدم رکھنے والے افراد کو خداوند عالم کی الطاف ِخفیہ حاصل ہوتی ہیں' جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے : وَالَّذِینَ جَا ھدُو اْ فِینَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا ( جو لو گ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے۔سورئہ عنکبوت ٢٩ ـ آیت ٦٩)
٢ ـ جوانی میں حاصل مواقع
بے شک کامیابی و کامرانی کے متعدد اسباب ووجوہات میں سے ہے ایک سبب اور وجہ سازگار اور موافق حالات اور مواقع سے ٹھیک ٹھیک فائدہ اٹھانا ہے۔جوانی کا شمار ایسے ہی مناسب موقعوں میں ہوتا ہے۔
روحانی صلاحیت اور جسمانی قوت' وہ قیمتی سرمایہ ہے جسے خداوند عالم جوان کے اختیار میں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیشوایانِ دین نے ہمیشہ جوانی کے موقع سے استفادے کی تاکید کی ہے۔ اس بارے میں امام علی نے فرمایا ہے : بادِ رِالفُرصَةَ قَبلَ اَن تکُونَ غُصَّةَ
( فرصت سے فائدہ اٹھائو قبل اسکے کہ اس کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔نہج البلاغہ ـ مکتوب ٣١)
آپ ہی نے آیۂ شریفہ :لاَتَنَسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (دنیا میں اپنے حصے کو فراموش نہ کرو۔سورۂ قصص٢٨۔آیت٧٧)کی تفسیر میں فرمایا : لاَ تَنسَ صِحتَّکَ وَ قُوَّتک وَفَراغکَ و شَبابَک وَ نَشاطَکَ اَن تَطلُبَ بِھا الاخرَةَ (اپنی صحت' طاقت' فراغت ' جوانی اور نشاط و بشاشت کے دنوں میں غفلت نہ برتو(بلکہ)ان ایام سے آخرت کیلئے فائدہ اٹھائو۔ بحار الانوار۔ج٦٨۔ص١٧٧)
وہ لوگ جو جوانی کی نعمت سے صحیح اورکافی استفادہ نہیں کرتے' ان کے بارے میں امام فرماتے ہیں : ان لوگوں نے جسمانی سلامتی کے دنوں میں کوئی سرمایہ فراہم نہیں کیا اور زندگی کے ابتدائی زمانے میں کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔کیا جوانی کی تروتازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمر جھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں؟۔(نہج البلاغہ ـخطبہ ٨١)
جوانی کے بارے میں سوال ہو گا
جوانی وہ عظیم نعمت ہے جس کے بارے میں روزِ قیامت سوال کیا جائے گا۔ ایک روایت میں رسول گرامی ۖ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن بندگانِ خدا میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایک بھی قدم آگے نہ بڑھا سکے گا جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میںباز پرس نہ کر لی جائے (١)عمر کے بارے میں' کہ اسے کس راہ میں بسر کیا '(٢)جوانی کے بارے میں' کہ اسے کیسے گزارا' (٣)مال کے بارے میں' کہ اسے کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا 'اور (٤)میرے اہل بیت سے محبت اور دوستی کے بارے میں۔ (بحارالانوار ـ ج٧٤ ـ ص ١٦٠)
اس روایت میں رسول کریم ۖ نے زندگی کے ادوار میں سے ''دورِجوانی'' کا تذکرہ علیحدہ اور جداگانہ طور پر کیا ہے' جس سے اس دور کی خصوصی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ۔
افسوس کہ جوانی کے غیر معمولی حالات اور استثنائی مواقع مختصر اور قلیل مدتی ہوتے ہیں' یہ دور جلد گزر جاتا ہے ۔ لہٰذا جب تک یہ ہے اسکی قدر کریں' اور اسے ایک سرمایا سمجھیں۔امام علی فرماتے ہیں : شَیْئان لا یُعرَفُ فَضلُھُما اِلاّ مَن فَقَدَ ھُما : الشبابَ والعافیةَ(دو چیزیںایسی ہیں جن کی قدر صرف اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں' ایک جوانی اور دوسرے تندرستی ۔غرر الحکم و درر الکلم ـ ج ٤ـ ص ١٨٣)
٣ ـ خود سازی
دورِ جوانی اپنی تربیت اور تعمیر ذات کا بہترین زمانہ ہے' کیونکہ جوان کا صفحۂ دل سادہ ہوتا ہے 'اس پرابھی برائیوں او ر ناپسندیدہ خصلتوں نے اپنا رنگ نہیں جمایا ہوتا'جو ان میں خرابیاں اور بری عادتیں ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتیں' اور اس کے دل میں جلتی ہوئی فطرت کی شمع ابھی گل نہیں ہوئی ہوتی۔ امام علی اپنے فرزند حسن مجتبیٰ سے یوں فرماتے ہیں : اِنَّما قَلبُ الحَدَث کالأ رض الخالیة ما اُلقیَ فیھا مِن شَی ئٍ قَبِلَتُہ فَبا دَرتُکَ بِالأدب قَبلَ اَنْ یَقسُوا قَلبک و یَشَتَغِلَ لُبُّکَ ( بے شک نوجوان کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے۔ جو چیز اس میں ڈالی جائے اسے قبول کر لیتا ہے۔ لہٰذااس سے قبل کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں مشغول ہوجائے 'میں نے تمہاری تعلیم و تربیت کیلئے قدم اٹھایا ہے۔نہج البلاغہ۔مکتوب ٣١)
جوانی میں ناپسندیدہ عادات و اطوار کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہوتیں اس لئے آسانی سے ان سے چھٹکارا پایاجا سکتا ہے۔ جوانوں کو چاہئے کہ اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ امام خمینی نے بھی بارہا ایام جوانی میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیا ہے' اسی سلسلے میں آپ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا : جہاد اکبر 'وہ جہاد ہے جو انسان اپنے سرکش نفس کے خلاف انجام دیتا ہے۔ آپ جوانوں کو اسی دور سے اس جہاد کا آغاز کر دینا چاہئے' اسے اس وقت تک کے لئے موخر نہ کیجئے گا جب آپ جوانی کی قوتوں سے محروم ہو جائیں۔ انسان جوں جوںجوانی کی قوتوں سے محروم ہوتا ہے اسی قدراس میں اخلاقِ بد کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور ان کے خلاف جہاد مشکل سے مشکل ترہوتاچلا جاتا ہے۔ جوان اس جہاد میں جلد کامیابی حاصل کر سکتا ہے (جبکہ )بوڑھا اور عمر رسیدہ انسان اس جہاد میں جلد کامیابی نہیںپاسکتا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی اصلاح کا عمل جوانی کی بجائے بڑھاپے پر ٹال دیں۔
خاردار جھاڑی اور لکڑھارا
استاد شہید مرتضیٰ مطہری کہتے ہیں : مولانا روم نے ایک قصہ اس بارے میں بیان کیا ہے کہ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے اسکی عادات و اطوار پختہ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مولانہ روم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ' سر راہ ایک کانٹے دار درخت بو دیا۔گزرنے والوں کو یہ درخت تکلیف پہنچا تا تھا۔ وہاں سے آمدورفت رکھنے والے لوگوں نے اسے یہ درخت کاٹ ڈالنے کا مشورہ دیاتو اس شخص نے کہا کہ آئندہ برس اسے کاٹ دوں گا۔جب اگلابرس آیا تو اس نے درخت کی کٹائی کو مزید آئندہ برس کے لئے موخر کر دیا۔ یہ سلسلہ سالہا سال تک یوں ہی جاری رہا۔ نتیجے کے طور پر حال یہ ہو گیا کہ ایک طرف تووہ درخت ہر سال مزید بڑھ جاتا اور اسکی جڑیں اورگہری ہو جاتیں اوردوسری طرف اسے لگانے والا شخص ہر سال مزید ضعیف ہو جاتا۔ یعنی درخت کی بڑھوتری اور مضبوطی اور اس شخص کی قوت کے درمیان ایک معکوس اور ایک دوسرے سے برعکس نسبت برقرار ہو گئی۔
انسان کے حالات بھی اس خاردار درخت اور اسے بونے والے اس شخص کی مانند ہیں۔ انسان میں عادات و صفات روز بروزپختہ سے پختہ تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور اسکے ارادے اور حوصلے ضعف و زوال کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اصلاح نفس کے سلسلے میں جوان شخص بوڑھے سے زیادہ قوت وطاقت کا مالک ہوتا ہے۔
خار بن در قوت و برخاستن
خارکن درسستی و درکاستن
''خار دار درخت قوی اور بلند ہوتا رہتا ہے۔جبکہ کانٹے اکھاڑنے والا کمزور ی اور ضعف کی طرف مائل ہوتا ہے۔''(مثنوی مولانا روم ـ دفتر دوم ـ ص ١٢٧)
جوانوں کوامام علی کے اس انتباہ پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے' آپ فرماتے ہیں :
''غالِبِ الشَھوةَ قبلَ قُوةِّ ضَرا وَتِھا فَِ نَّھا اِن قَویَت مَلکَتکَ ولَم تَقدِر علی مُقاوَمَتَھا ''
'' نفسانی خواہشات کے خودسر اور شدیدہونے سے پہلے ان سے مقابلہ کرو' کیونکہ اگر نفسانی خواہشات خودسراورقوی ہو جائیں تو تم پر حکمراں بن جائیں گی اور جہاں چاہیں گی تمہیں دھکیل کر لے جائیں گی اور تم میںان سے مقابلے کی طاقت و قوت نہ رہے گی۔''( تعلیم و تربیت در اسلام ـ ص ٧٩)
بقول مولانا روم :
زانکہ خوئی بد بگشتت استوار
مورِ شہوت شدز عادت ہم چومار
''کیونکہ تیری عادت پختہ اور مضبوط ہو گئی ہے۔ لہٰذا عادی ہونے کی وجہ سے نفسانی خواہش کی چیونٹی سانپ بن چکی ہے۔''
مارِ شھوت رابکش در ابتدا
ورنہ اینک گشت مارت اژدھا
''نفسانی خواہش کے سانپ کو ابتدا ہی میں مار ڈال۔ ورنہ یہ سانپ اژدھا بن جائے گا۔''(مثنوی مولانا روم ۔دفتر دوم ـ ص ٣٢٥' ٣٢٦)
٤ ـ عزتِ نفس اور بزرگواری
جوانوں کو امام علی کی ایک اور وصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر عزتِ نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کریں ۔اس سلسلے میں آپ فرماتے ہیں : أکرِم نَفسک عَن کُلِّ دَنیَّةٍ وَاِن ساقَتکَ اِلی الرَّغائب فَاِنَّک لَن تَعتاضَ بِما تَبذُلُ مِن نَفِسک عِوضاً ولا تکُن عبدَ غَیرک و قد جعلکَ اﷲ حُراً (اپنے نفس کو ہر قسم کی بے مائیگی اور پستی سے بلند تر رکھو'خواہ یہ پست و حقیر ہوناتمہیںپسندیدہ اشیا تک پہنچا ہی کیوں نہ دے۔ کیونکہ تم جو عزتِ نفس گنوائو گے اسکا کوئی بدل نہیں مل سکتا۔اور خبردار! کسی کے غلام نہ بن جانا 'اللہ نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے ۔نہج البلاغہ۔مکتوب٣١)
عزت طلبی کا جذبہ' انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اور خوش قسمتی سے دستِ قدرت نے انسان کے اندر اسکے بیج کا شت کئے ہوئے ہیں۔البتہ یہ بات واضح کر نے کی ضرورت نہیں کہ یہ بیج اپنی نشو و نما کے لئے حفاظت اور نگہداشت چاہتے ہیں۔
فرعونی نظامہائے حکومت تاریخ کے ہر دور میں عوام کے استحصال اور ان کو اپنا تابع بنانے کی خاطر پہلا کام یہی کرتے ہیں کہ ان کی عزتِ نفس کو نشانا بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تحقیر کرتے ہیں۔ اس بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ : فَا سْتَخَفَّ قَوْمَہُ فَأَطَاعُوہُ ِنَّھُمْ کَانُواْ قَوْمَا فَاسِقِینَ ( پس فرعون نے اپنی قوم کوحقیربنا دیا اور ان لوگوں نے بھی اسکی اطاعت کر لی کیونکہ وہ فاسق قوم تھی۔سورۂ زخرف٤٣۔آیت٥٤)
عزتِ نفس درجِ ذیل امورسے وابستہ ہوا کرتی ہے :
الف : گناہ سے پرہیز : وہ چیزیں جو انسان کی عزت ِنفس کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں 'ان میں سے ایک چیز ارتکابِ گناہ ہے ۔ گناہ کی آلودگی سے بچ کر انسان عزت ِنفس حاصل کر سکتا ہے۔ امام علی فرماتے ہیں : مَن کَرُمَت علیہ نَفسُہُ لَم یُھِھا بِالْمعصِیَة (جوشخص اپنی عزتِ نفس کا قائل ہو' وہ ارتکابِ گناہ کے ذریعے اسے پست اور حقیر نہیں کرتا۔غرر الحکم۔ج٥۔ص٣٥)
بڑے گناہ جیسے زنا'جھوٹ' غیبت' فحش اور ناسزا گفتگو کرامتِ نفس اور بزرگواری سے واضح تضاد رکھتے ہیں۔
ب :جذبہ ٔ بے نیازی:دوسروں کے مال پر نظر رکھنا' اور انتہائی مجبوری کے سوا کسی سے مدد و اعانت کی درخواست کرنا عزت ِنفس کو مجروح کرتا ہے۔ امام علی فرماتے ہیں : المسئلةُ طَوقُ المَذَلَّةِ تَسلُُبُ العزیز عِزَّہُ والحسیب حَسَبَہ ( لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا ذلت کاایسا طوق ہے جو صاحبان عزت سے ان کی عزت اور صاحبان شرافت سے ان کی شرافت سلب کر لیتا ہے۔غرر الحکم۔ج٢۔ص١٤٥)
ج : درست طرزِ فکر:عزتِ نفس بڑی حد تک اس بات سے وابستہ ہوتی ہے کہ خود انسان اپنے آپ کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ایسا شخص جو اپنے آپ کو کمزور اور ناتواں ظاہر کرتا ہے' لوگ بھی اسے ذلیل اور حقیر سمجھتے ہیں ۔لہٰذا امیر المومنین کا ارشاد ہے : الرَّجلُ حیثُ اختارَ لنفسہ اِن صانَھا ارتفعَت وَانِ ابتَذَ لَھا اتَّضَعَت ( ہر انسان کی حیثیت اور وقعت اسکے اپنے اختیار کردہ طرزِ عمل سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے نفس کو پستی اور ذلت سے بچا کر رکھے تو ارفع اور بلند انسانی مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور اگراپنی معنوی اور روحانی عزت ترک کردے تو پستی اور ذلت کے گڑھے میںجا گرتا ہے۔غرر الحکم۔ج٢۔ص٧٧)
د : ذلت آمیز گفتار اور کردار سے پرہیز:ایسا شخص جوعزتِ نفس کا متمنی ہو' اسے چاہئے کہ ہر ایسے قول یا عمل سے اجتناب کرے جو اسکے ضعف اور ناتوانی کو ظاہر کرتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خوشامد اور چاپلوسی ' حالاتِ زمانے کی شکایت' لوگوں کے سامنے اپنی مشکلات کے اظہار ' بے جا خود ستائی' شیخی بگھارنے اور حتیٰ عاجزی و انکساری کے بے موقع اظہارسے بھی منع کیا ہے۔
کسی مسلمان کو اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی عزت و شرافت اور مردانگی کے منافی خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے خود اپنی تذلیل کرے۔ امام علی فرماتے ہیں : کَثَرةُ الثَّناء مَلَق یُحِدثُ الزَّھوَ وَ یُدِنی مِنَ العِزَّةِ (کسی کی حد سے زیادہ تعریف و تحسین' چاپلوسی اور خوشامد ہے 'جو ایک طرف تو مخاطب میں نخوت و تکبر پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف (خطاب کرنے والے میں)عزت ِنفس کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ غرر الحکم ـ ج ٤ ـ ص ٥٩٥)
اپنے حالات کا رونا رونا اور اپنی ذاتی مشکلات اور مسائل لوگوں کے سامنے بیان کرنا' عزت ِنفس پر کاری ضرب لگاتا ہے : امام علی فرماتے ہیں : رَضِیَ بِالذُّل مَن کَشَفَ ضُرَّہُ لِغَبِرِہ ( ایسا شخص جو دوسروں کے سامنے اپنی بد حالی اور مشکلات کا اظہار کرتا ہے' وہ درحقیقت اپنی ذلت اور حقارت کو پسند کرتا ہے۔غررالحکم۔ج٤۔ص٥٩٥)
٥ : ضمیر کی آواز
جوانوں کو امیر المومنین کی ایک وصیت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ تعلقات میں اپنے ضمیر کی صدا کو میزان و پیمانہ قرار دیں۔ آپ نے اپنے فرزند کو مخاطب کر کے فرمایا : یا بُنَیَّ اجعَلْ نَفسکَ میزاناً فیما بَینک و َ بَینَ غَیرِک ( بیٹا ! اپنے اور دوسروں کے درمیان اپنے نفس کو معیار و میزان قرار دو۔نہج البلاغہ۔ مکتوب٣١)
اس اہم اخلاقی اصول سے بے توجہی' دوستانہ تعلقات میں دراڑیں پڑ جانے اور ان کے خاتمے پر منتہی ہوتی ہے۔ جبکہ اس اصول کی پابندی'رشتۂ دوستی کی مضبوطی اور معاشرتی روابط کی صحت کی ضامن ہے۔
اگر معاشرے کے تمام افراد یک دوسرے سے میل جول کے دوران 'اپنے ضمیر کی صدا پر کان لگائے رکھیں اور ایک دوسرے کے حقوق' مفادات اور حیثیت و مقام کا احترام کریں تو سماجی روابط مستحکم تر ہو ں گے اور معاشرے میں امن وسکون کی فضاتقویت پائے گی۔ ضمیر کی صدا ایک طبیب کی مانندانسان کو اسکے درد اور اسکے علاج کی طرف متوجہ کرتی ہے 'نیز اس سے اسکی روح کی سلامتی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ : ایک شخص رسول کریم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں اپنے تمام فرائض و واجبات بخوبی انجام دیتا ہوں لیکن ایک گناہ ایسا ہے جو باوجود کوشش کے میں نہیں چھوڑ پاتا ' اور وہ ہے اجنبی خواتین سے ناجائز مراسم۔ اس شخص کی یہ بات سن کر اصحاب رسول ۖ سخت غضبناک ہوئے۔ یہ دیکھ کرآنحضرت ۖ نے ان سے فرمایا : تم لوگ ایک طرف رہو' میں جانتا ہوں کہ اس سے کیابات کرنی ہے۔ پھر آپ ۖ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں 'بہن ' وغیرہ ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں ۔رسول خدا ۖ نے فرمایا : کیا تم پسند کرو گے کہ دوسرے لوگ تمہارے گھر کی خواتین سے ایسے تعلقات رکھیں؟ اس نے عرض کیا : بالکل نہیں۔آنحضرت ۖنے فرمایا : پس 'پھر تم کیسے اس ناجائز عمل کے مرتکب ہوتے ہو؟۔ وہ شخص شرم سے پانی پانی ہو گیا اور سر جھکا کر بولا : اب میں عہد کرتا ہوں کہ اس عمل کا ارتکاب نہیں کروں گا۔
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ لوگوں سے تعلقات اور معاشرتی روابط کے دوران اپنی اس باطنی آواز کی پیروی کرے اور اپنے ضمیر کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے۔ امام سجاد نے فرمایا ہے : لوگوں کا حق تم پر یہ ہے کہ انہیں اذیت و آزار پہنچانے سے پرہیز کرو اور ان کے لئے وہی چیز پسند کرو جسے اپنے لئے پسند کرتے ہو' اور اس چیز کو ناپسند کرو جو تمہیں اپنے لئے ناپسند ہو ۔۔ ( بحار الانوار ـ ج ٧١ ـ ص ٩)
اسلام 'ضمیر کی صدا پر توجہ کی تاکید کر کے 'چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنے باطن پر ایک نگہبان متعین کرے جو اسے غصے اور دشمنی کے عالم میں بھی دوسروں پر زیادتی اور انہیں تکلیف پہنچانے سے روکے رکھے۔ اسی بنیاد پر قرآن مجید ' نفس لوامہ (یعنی اسی ضمیر)کی قسم کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ: لَآ أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ Oوَلَآ أَقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ( روزِ قیامت کی قسم اور اس نفس کی قسم جو ارتکابِ گناہ اور سرکشی کے موقع پر انسان کو ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔سورۂ قیامت٧٥۔آیت ١ '٢)
٦ ـ تجربہ اندوزی
امام علی نے اپنی وصیتوںمیں'دوسروں کے تجربات سے استفادے پر بھی تاکید کی ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے فرمایا ہے : اعرض علیہ اخبار الماضین َ وذَکِّرہُ اصابَ مَن کان قَبلَکَ منِ الاوّلین و سرِفی دیارھِم و آثارھم فاَنظر فیما فَعَلوا وعَمّا انَتقَلُو او اَینَ حَلُّو او نَزلَوا ( گزرے ہوئے لوگوں کے حالات (اپنے دل کے سامنے )پیش کرتے رہنا 'اپنے اور پہلے گزر جانے والوں پر پڑنے والے مصائب کو اپنی یاد میں لاتے رہنا 'ان لوگوں کے دیار و آثار کی سیر کرتے رہنا 'اور یہ دیکھتے رہنا کہ ان لوگوں نے کیا کچھ کیا اور وہ کہاں سے کہاں چلے گئے ہیں' کہاں وارد ہوئے ہیں اور کہاں ڈیرہ ڈالا ہے ۔نہج البلاغہ ۔مکتوب ٣١)
گو کہ افراد ِ معاشرہ میں سے ہر فرد 'آزمودہ کار لوگوں کی رہنمائی اور دوسروں کے تجربات سے استفادے کا محتاج ہے لیکن مختلف وجوہ کی بنا پرنسل جوان کو تاریخ سے شناسائی' اور گزشتہ لوگوں کی سرگزشت سے حاصل ہونے والے تجربات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ :
اولاً ـجوان اپنی کم عمری کی بنا پر کچے اور تجربات سے عاری ذہن کا مالک ہوتا ہے' وہ زمانے کے سرد و گرم کا چشیدہ نہیں ہوتا 'اپنی کم عمری اور والدین اور سرپرستوں کا سایہ سر پر سلامت ہونے کی بنا پر اسے مشکلات اور دشواریوں کا براہ راست بہت کم سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذااگر اس پر کوئی مشکل آپڑے تو یہ اسکا سکون و قرار درہم برہم کر دیتی ہے'اور اسے افسردہ اور بد مزاج بنا دیتی ہے۔
ثانیاً ـ موہوم تصورات ' جو دور ِجوانی کی خصوصیات میں سے ہیں 'بسا اوقات جوان کو حقیقت کی پہچان نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ تجربہ وہم و خیال کے پردوں کو چاک کر دیتا ہے اور حقیقت کی سمت انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ امام علی فرماتے ہیں : التجارب علم مستفاد (تجربات' سود مند علم ہیں۔غرر الحکم۔ج١۔ص٢٦٠)
ثالثاً ـ جوان علمی و فنی امور کے لئے ذہنی صلاحیتوں کا حامل ہونے اور مختلف قسم کی مہارتوں کے حصول کی قابلیت رکھنے کے باوجود زندگی گزارنے کا تجربہ نہ ہونے کی باعث معاشرتی شعور سے بے بہرہ ہو تاہے۔ لہٰذا اسکی طرف سے غیر سنجیدہ اور ضرر رساں فیصلوں اوراسکے دوسروں کے دامِ فریب میں گرفتار ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ امام علی فرماتے ہیں : من قلّت تجربتہ خدع (جس کا تجربہ کم ہو وہ دھوکا کھا جاتا ہے۔غرر الحکم ۔ج١۔ص١٨٥)
تجربہ کا ر انسان سے 'غلطیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے ۔ امام علی فرماتے ہیں : من کثرت تجربتہ قلّت غرتہ ( جس کا تجربہ زیادہ ہو' وہ کم فریب کھاتا ہے۔غرر الحکم۔ج٥۔ص٢١٤)
مشکل حالات اور زندگی کے دشوار گزار مراحل میںنو عمر اور جواںسال افراد کیلئے ایسے انسانوں کے تجربات سے استفادہ انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے جو زندگی کے کٹھن اور دشوار مراحل کو کامیابی کے ساتھ طے کر چکے ہوں۔ امام علی فرماتے ہیں : آزمودہ کا ر لوگوں کی صحبت اختیار کرو' کیونکہ ان لوگوں نے گراں ترین قیمت یعنی اپنی عمر قربان کر کے تجربات کا انمول سرمایہ جمع کیا ہوتاہے اور تم اس قیمتی سرمائے کو ارزاں ترین قیمت (یعنی صرف چند لمحات)میں حاصل کرلیتے ہو۔ (شرح نہج البلاغہ از ابن ابی الحدید ـ ج ٢٠ ـ ص ٣٣٥)
تاریخ سے عبرت لینا:دوسروں کے تجربات سے استفادے کا ایک بہترین ذریعہ اسلاف کے حالات اور گزشتہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ ہے۔
تاریخ ماضی سے مطلع کرتی ہے 'حال و ماضی کے درمیان رابطے کی کڑی ہے اور مستقبل کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ استاد شہید مرتضیٰ مطہری کے بقول : انسان جس طرح خود اپنے ہم عصر لوگوں سے ادب آداب اور زندگی گزارنے کے طور طریقے سیکھتا ہے' اور کبھی کبھی بے ادب لوگوں کو دیکھ کر ان میں شمار ہونے سے بچنے کیلئے 'لقمان کی مانند ایسے لوگوں سے بھی ادب کی تعلیم لیتا ہے ' اسی طرح اس قانون کی رو سے گزشتہ لوگوں کے احوال سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ تاریخ ایک ایسی متحرک فلم کی مانند ہے جو ماضی کو حال میں تبدیل کرتی ہے۔ (مجموعہ آثارـ ج ٢ ـ ص ٣٧٢)
اقوام و ملل کے حالات کے درمیان پائی جانے والی مشابہت' نسل جوان کو مطالعۂ تاریخ کی مسلسل دعوت دیتی ہے۔ امام علی فرماتے ہیں : تمہارے لئے گزشتہ قوموں (کی تاریخ )میں عبرت کے بکثرت ساماں رکھے گئے ہیں۔ کہاں ہیں(شام وحجاز کے)عمالقہ ؟ کہاں ہیں ان کی اولادیں؟ کہاں ہیں (مصرکے )فراعنہ اور ان کی اولادیں؟ (نہج البلاغہ ـ خطبہ١٨٠)
٧ ـ دوستی اور معاشرت کے آداب
یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دوستی کی بقا اور دوام ' اسکی حدود اور رفاقت کے آداب ملحوظ رکھنے سے وابستہ ہے۔ دوست بنانا آسان ہے لیکن دوستی کے بندھن کی حفاظت خاصا مشکل کام ہے۔ امام علی نے اپنے کلام میںدوستی کی پائیداری اور بقا کا موجب بننے والے چند ظریف نکات کی جانب اشارہ کیا ہے' فرماتے ہیں : ناتواں ترین شخص وہ ہے جو دوست نہ بنا سکے اور اس سے بھی زیادہ ناتواں وہ شخص ہے جو اپنا دوست کھو بیٹھے۔ (بحارالانوار ـ ج ٧٤ ـ ص ٢٧٨)
بعض جوانوں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کی دوستیاں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتیں۔اگر اسکی وجوہات کا جائرہ لیں تو ایک اہم وجہ دوستی کی حدود کا لحاظ نہ رکھنا اور رشتہ ٔرفاقت میں افراط و تفریط کا شکار ہو جانا ہے۔ اس سلسلے میں بھی امیر المومنین حضرت علی کے سود مند فرمودات و نصائح پر عمل' ان مشکلات کے حل میںیقینامددگار ثابت ہوگا۔
مضبوط دوستی کے بارے میںامام علی کے فرمودات میں شامل درجِ ذیل نکات' خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
الف : دوستی میں اعتدال : عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جوان دوستی میں افراط (حد سے بڑھ جانا)کا شکار ہو جاتے ہیں اور توازن کی حدود میں نہیں رہتے۔ اس عدم توازن کی اہم وجہ عمر کے اس حصے میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہے۔ ایسے جوان دوستی کے دنوں میں اپنے دوست سے حد سے زیادہ محبت اور لگائو ظاہر کرتے ہیں اور اگر دوستی کا یہ بندھن ٹوٹ جائے تو اسی سابقہ دوست کے خلاف انتہائی دشمنی اور عداوت کا اظہار کرتے ہیں' حتیٰ بسا اوقات کوئی خطرناک قدم بھی اٹھا بیٹتھے ہیں۔
امام علی کی نصیحت ہے کہ دوستی اور رفاقت کے رشتے میں میانہ روی سے کام لو۔ آپ فرماتے ہیں : اپنے پسندیدہ دوست سے دوستی کا اظہار کرتے وقت اعتدال کو ملحوظ رکھو' شاید ایک روز وہ تمہارا دشمن ہو جائے ۔ اسی طرح اگر کسی سے تمہاری ناراضگی یا عداوت ہوجائے تو اسکے اظہار میں بھی اعتدال سے کام لو کیونکہ ممکن ہے کسی روز وہ تمہارا دوست بن جائے۔
زیرِ گفتگومکتوب میں بھی امام علی فرماتے ہیں :اگر تم اپنے کسی بھائی سے قطع تعلق کرنا چاہتے ہو 'تو اپنے پاس اتنی گنجائش رکھو کہ اگر وہ کسی دن واپس آنا چاہے تو اسکے پاس پلٹنے کا راستہ کھلا ہوا ہو۔(نہج البلاغہ ۔مکتوب٣١)
ب : دوطرفہ محبت : دوستی اور رفاقت کی بنیاد دوطرفہ محبت ہے۔ اگر کوئی ایک دوست تو تعلقات و روابط کی برقراری چاہتا ہو اور دوسرا اس کی طرف کسی رغبت کا اظہار نہ کرے 'تو ایسی صورت میں دوستی کا مشتاق شخص ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔ اسی بنا پر امیر المومنین نے اپنے اس مکتوب میں فرمایا ہے : لا ترغَنَبنَّ فیمنَ زَھَدَ عَنکَ ( جو کوئی تمہاری طرف راغب نہ ہو تم بھی اس سے رغبت کا اظہار نہ کرو۔نہج البلاغہ۔مکتوب٣١)
ج : دوستی کے بندھن کی حفاظت:امام علی نے رشتۂ دوستی کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔لہٰذااس بندھن کی مضبوطی و استحکام کا باعث بننے والے عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر تمہارا دوست تم سے دوری اختیار کرے تو درگزر سے کام لو ۔ جب وہ تم سے دور ہو' تو تم اس سے قریب ہو جائو' اگر وہ سختی برتے' تو تم نرمی کا سلوک کرو اور اگر وہ کسی غلطی یا خطا کا شکار ہوجائے' تو اسکے عذر و معذرت کو قبول کر لو۔
البتہ جب کم ظرف لوگ 'تمہاری عالی نفسی اور حسنِ سلوک کو تمہاری کمزوری اور اپنی چالاکی سمجھنے لگیں 'تو ایسے موقع کیلئے امام کا فرمان ہے کہ : ان تمام مواقع پر موقع شناسی کا ثبوت دو اور ہوشیار رہو کہ جس طرز ِ عمل کیلئے کہا گیا ہے اسے اسکی موزوںجگہ ہی ملحوظ رکھو اور ایسے شخص کے بارے میں روانہ رکھو جو اس سلوک کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔
دوستی کے حوالے سے ایک اورقابل توجہ نکتہ اپنے دوست کو نصیحت کرنا' اور اس کا خیر خواہ ہونا ہے۔ امام فرماتے ہیں : اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرتے رہنا 'چاہے اسے اچھی لگیں چاہے بری محسوس ہوں۔(نہج البلاغہ۔ مکتوب٣١)
طولانی آرزوئیں
اسلام نے جن باتوں سے منع کیا ہے 'ان میں سے ایک بات طولِ امل ' یعنی لمبی اور دراز امیدیں رکھنا ہے۔
حضرت علی نے رسول کریم ۖ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا : مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہوا ہے۔ ایک خواہشاتِ نفسانی کی پیروی سے 'جو تمہاری نگاہوں میں حق کی اہمیت گرا دیتی ہے اور دوسرے طول طویل آرزوئیں جو تمہارے اندر دنیا اور اس میں ہمیشہ رہنے کا شوق پیدا کرتی ہیں۔ (المحجة البیضاء ـ ج ٨ ـ ص ٢٤٤' ٢٤٦)
آنحضرت ۖ سے نقل ہونے والی ایک اور حدیث میں آپ ۖنے فرمایاہے کہ :اگر اہل جنت میں اپنا شمار چاہتے ہو' تو طویل اور اونچی آرزوئیں نہ رکھو۔ (المحجة البیضاء ـ ج ٨ ـ ص ٢٤٤' ٢٤٦)
دراز امیدوں کے دو اسباب ہیں 'ایک جہالت اور دوسرے دنیاسے عشق و بے حساب رغبت۔
جہل کی باعث انسان اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور لوگوں کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتا ' نصیحت حاصل نہیں کرتا۔ جبکہ دنیا سے شدید لگائو' اس میں یہ خیالِ باطل پیدا کر دیتا ہے کہ اسکی عمر اس قدر طویل ہے کہ اس میں اسکی تمام دور دراز امیدیں بھی بر آئیں گی۔
اس مرض کے علاج کے لئے اسکی علت اور سبب کا خاتمہ کرنا چاہئے تاکہ اسکے پھلنے پھولنے کے اسباب (causes (باقی نہ رہیں۔
اگر اس دنیا کے فانی ہونے ' ناگہانی واقع ہونے والی اموات اور جواں مرگ افراد کے حالات و ظروف پر غور و فکر کیا جائے اور ان آیات و روایات میںسوچ بچار کیا جائے جو تمام موجودات ِ کائنات کی موت اور نابود ہو جانے کی جانب اشارہ کرتی ہیں' تو انسان خود کو ہمیشہ زندہ و جاوید رہنے والا نہیں سمجھے گا اور اگر وہ خلوص اور دلی لگائو کے ساتھ راہِ حق پر گامزن 'خیر خواہ اور رہنمائی کی تڑپ رکھنے والے افراد کی نصیحتوں پر کان دھرے' اور ان کے بتائے پر عمل کرے تو مطلوب نتائج حاصل کرے گا۔
دنیا سے لگائو' اگرچہ (کم ہو یا زیادہ)ایک مستقل بیماری ہے' اور اسکا علاج مشکل نظر آتا ہے' لیکن اسکا مداوا بھی محال نہیں۔
دل کو دنیا اورمادی نعمتوں کے بے حدو حساب عشق سے خالی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس بیماری میں مبتلا انسان دنیا کی پستی اور بے وقعتی اور آخرت کی عظمت اور اسکے قیمتی ہونے کی جانب زیادہ سے زیادہ توجہ مر کوز رکھے۔ دنیا کے فانی اور عارضی ہونے کا تصور اسکے ذہن میں محفوظ رہے' تاکہ اسکی بے انتہا محبت میں مبتلا نہ ہو سکے بلکہ اسے کمال کی بلند چوٹیوں تک رسائی کا ذریعہ اور دائمی اخروی حیات کی جانب جانے والی شاہراہ کے طور پر دیکھے ۔ موت کو یاد رکھ کے' قبرستان میں آمد ورفت کے ذریعے' قبر اور منکر نکیر کے سوال و جواب ' حشر و نشر' روزِ قیامت کی ہولناکیوں اور آتشِ جہنم کے بھڑکتے شعلوں پر توجہ کر کے دنیا سے بے حساب بڑھی ہوئی محبت کو دل سے نکال پھینکے۔ (المحجة البیضاء ـ ج ٨ ـ ص ٢٤٦)
اس طریقۂ کار سے ایک حد تک مذکورہ بالا دو عوامل کی خرابیوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور اسکے نتیجے میں دور دراز تمنائوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور دائمی عزت و سعادت حاصل کی جا سکتی ہے۔
امام خمینی کا انتباہ
''پس اے میرے عزیز! یہ بات دھیان میں رکھ کہ ایک پر خطر اور ایسا سفرتجھے در پیش ہے جس پر بہر صورت تجھے روانا ہونا ہے'اس سفرکا زادِ راہ علم اور عملِ نافع ہے' اسکے وقت کا بھی علم نہیں' ممکن ہے انتہائی کم وقت باقی ہو اور موقع ہاتھ سے جاتا رہے۔ انسان نہیں جانتا کہ کوچ کا نقارہ کب بجا دیا جائے گا 'جس کے بعد لامحالہ اسے رخت ِسفر باندھنا ہے۔میری اور تمہاری ان طول طویل آرزئووں نے جو حبِ نفس ' شیطان کی مکاریوں اور اس ملعون کے شاہکاروں میں سے ہیں' ہماری توجہات کو اس طرح عالم آخرت سے ہٹا کر رکھا ہے کہ ہم اسکے بارے میں بالکل نہیں سوچتے۔
اگر ہم سفر میں خطرات اور رکاوٹیں محسوس کریں اور ان کی اصلاح کی خاطر بارگاہ ِالٰہی میں توبہ' پشیمانی اور رجوع نہ کریں اور زادِ راہ جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہ کریں' تو مقررہ اجل ناگاہ حملہ آور ہو کے بغیر زادِ راہ کے ہمیں اچک لے گی۔ ایسی صورت میں نہ ہمارے دامن میں عملِ صالح ہوں گے' نہ علمِ نافع ' جبکہ عالمِ آخرت کا پَیّا انہی دو چیزوں کے محور پر گھومتا ہے اور ہم نے ان میں سے کسی ایک کا بھی بندوبست نہیں کیا ہے۔
اگر ہم نے کوئی عمل انجام دیا بھی ہے تو وہ خالص اور بے ریا نہ تھا بلکہ قبولیت میں ہزار ہا رکاوٹوں کے ساتھ انجام دیا گیاتھا۔ اور اگر ہم نے کوئی علم حاصل کیا بھی ہے تو وہ لاحاصل اور بے نتیجہ علم تھا' جو یا توخود لغو اور باطل ہے اور یا آخرت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر ہمارا یہ علم اور عمل نافع اور سود مند ہوتا تو ہم جو برسہا برس سے کوشاں ہیں' لازماً ہم پر اثر انداز ہوتا اور ہمارے اخلاق و اطوار میں کوئی فرق واقع ہوتا ۔کیا وجہ ہے کہ ہمارے چالیس پچاس برس کے علم اور عمل نے ہمارے دلوں پر الٹا اثر دکھایاہے اور ہمارے دلوں کوٹھوس پتھر سے بھی زیادہ سخت بنا دیا ہے۔
نماز ' جو مومنین کی معراج ہے' اس سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے؟ کہاں ہے وہ خوف و وخشیت جو علم کا لازمہ ہے؟ اگر خدانخواستہ ہمیں اسی حالت میں رخت ِسفر باندھنا پڑے' تو ہمیں ایسے عظیم نقصانات اور لا تعداد حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا ازالہ ممکن نہیں۔
پس' آخرت کو بھلا بیٹھنا ان امور میں سے ہے کہ اگر خدانخواستہ ہمیں اس حالت میں (یہاں سے)لے جائیں تو ہمیں ایسے عظیم خسارے اور لاتعداد حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو زائل ہونے والی نہیں۔ پس آخرت فراموشی ان امور میں سے ہے کہ اگر ولی اﷲ اعظم امیر المومنین سلام اﷲ علیہ اس سے اور اسکے سبب جو دور دراز امیدیں ہیںان سے ہمارے بارے میں خوف کھائیں تو حق بجانب ہوں گے' کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ کتنا پر خطر سفر ہے ۔
ایسا انسان جس کے پاس ایک لمحہ بھی باقی نہ ہو' اسے بھی چاہئے کہ ہر حال میں زادِ راہ جمع کرنے میں مشغول رہے اور ایک دقیقے کے لئے بھی فارغ نہ بیٹھے۔ اور اگر اس نے عالم آخرت کو فراموش کر دیا 'خوابِ غفلت میں پڑا رہا اور اس نے یہ بات نہ سمجھی کہ ایک ایسا عالم بھی ہے 'اور اسے ایک ایسا سفر بھی درپیش ہے تو اس پر کیا گزرے گی اوروہ کن کن بدبختیوں کا سامنا کرے گا۔
یہاں بہتر دکھائی دیتا ہے کہ امیر المومنین اور رسول کریم ۖ کے احوال پر تھوڑا سا غوروفکر کریںجو اشرف الخلائق اور خطا' نسیان ' لغزش اور عصیان سے محفوظ ہیں 'اور یہ بات جانیں کہ ہم کس حال میں ہیں اور وہ کس حال میں تھے؟
سفر کی عظمت اور اسکے خطرات کے بارے میں انہیں جو علم حاصل تھا اس نے ان کا سکون و قرار چھین لیا تھا ۔ جبکہ ہماری بے خبری اور جہالت نے ہم میں غفلت اور نسیان ایجاد کر دیا ہے۔ حضرت ختمی مرتبت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس قدر ریاضت کی اور بارگاہ ِالٰہی میں اتنا قیام کیا کہ آپۖ کے قدم مبارک پر ورم ہو گیا اور اﷲ جل جلالہ کی طرف سے آیت نازل ہوئی کہ : طہO مَآ أَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْأَنَ لِتَشْقَی (طہ ' ہم نے آپ پر قرآن ا س لئے نازل نہیں کیا کہ آپ اپنے آپ کو زحمت میں ڈال دیں۔ سورئہ طہ ٢٠ ـ آیت ١ ' ٢)
اسی طرح امیر المومنین کے حالات' آپ کی عبادات اور خدا سے آپ کا خوف وخشیت سب پر روشن و عیاں ہے۔
پس یہ بات ذہن نشین رکھو کہ سفر انتہائی پر خطر ہے' اور تمہارے اندر پایا جانے والا یہ نسیان اور فراموشی شیطان اور نفس کے مکارانہ ہتھکنڈوں میں سے ہے۔یہ طول طویل امیدیں اور آرزوئیں ابلیس کے بڑے جالوں اور نفس کے مکرو فریب میں سے ہیں۔
پس اس خوابِ غفلت سے بیدار ہو اور ہوشیار اور چوکس ہو جائو اور یہ بات سمجھ لو کہ تم ایک مسافر ہو اور تمہاری ایک منزل ہے۔ تمہاری منزل عالم آخرت ہے اور تم چاہو نہ چاہو تمہیں اس دنیا سے لے جایا جائے گا۔ اگر تم نے اس سفر اور اسکی زادِ راہ اور سواری کا بندو بست کیا ہو گا تو اس سفر میں عاجز و لاچار اور مشکلات و مصائب سے دوچار نہ ہو گے'بصورتِ دیگر غریب و لاچار اور بے نوا ہو کر ایسی بدبختی کا سامنا کرو گے جس میں کہیں سعادت اور نیک بختی کا گزر نہیں' ایسی ذلت جس میں کہیں عزت نہیں 'ایسا فقر جس کے بعد کو ئی غنا اور بے نیازی نہیں' ایسا عذاب جس میں رحمت نہیں' ایسی آگ جو ٹھنڈی نہ ہو گی 'ایساشکنجہ جس سے چھٹکارا نہیں'ایسا غم و اندوہ جس کے بعد کوئی خوشی اور خوشحالی نہیں' ایسی حسرت و ندامت جس کی انتہا نہیں۔
اے عزیز! دیکھ مولا (علی )دعائے کمیل میں خدا سے مناجات کرتے ہوئے کیا عرض کر رہے ہیں :وَاَنْتَ تَعْلَمُ ضَعِفیْ عَنْ قَلْیلٍ مِّنْ بَلآئِ الدُّنْیَا وَعُفُوْ باتِھَا (اور تو میری کمزوری سے واقف ہے 'مجھ میں اس دنیا کی معمولی آزمائشوں ' چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ان سختیوں کو برداشت کرنے کی تاب نہیں جو اہل دنیا پر گزرتی ہیں۔)یہاں تک کہ فرماتے ہیں : وَھَٰذَا مَالاَ تَقُوْمُ لَہُ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ۔(اور (تیرے غصے' انتقام اور غضب کو)نہ آسمان برداشت کر سکتا ہے اور نہ زمین۔)
ایک ایسا عذاب تیرے لئے تیار کیا گیا ہے' جسے برداشت کرنا زمین و آسمان کے بس میں نہیں۔ اسکے باوجود تو ہوش میں نہیں آتا اور روزبروز تیری غفلت ' فراموشی اور نیند میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اے دلِ غافل ! نیند سے بیدار ہو اور آخرت کے سفر کے لئے تیار ہو جا : فقد نودی فیکم بالرحیل (نہج البلاغہ ـ خطبہ ٢٠٢)کوچ کا نقارہ بج چکا ہے۔ حضرت عزرائیل کے کارندے مصروف ِعمل ہیں اور ہر آن تجھے عالمِ آخرت کی جانب دھکیل رہے ہیں' اسکے باوجود تو غافل وبے خبر ہے :''اللّھُمَ انّی أسألَکَ التَّجا فِی عَن دارِ الغُرُورِ وَالْاِ نَابَةَ اِلیَ دارِ السُّرُورِ وَالْأِ سْتِعْدادَ لِلْمَوتِ قَبْلَ حُلُولِ الفَوت'' (چہل حدیث ـ ص ١٥١)
مرحوم نراقی کا فرمان
کیونکہ طویل اور دراز امیدوں کا سرچشمہ جہل اور حب ِدنیا ہے۔ لہٰذا (اس کے علاج کے لئے)ان دو عوامل کی بیخ کنی کرنی ہو گی۔ لہٰذا جہل کا علاج یہ سوچنا ہے کہ موت اس سے نزدیک ہے' کوئی لمحہ گزر رہا ہے کہ اس کی میت کاندھوں پر رکھ کر قبرستان کی طرف لے جائی جا رہی ہو گی اور اسے سپرد ِقبر کر دیا جائے گا۔۔۔۔۔ اور حبِ دنیا کو 'دنیا کی پستی 'بے اہمیتی اور آخرت کی اہمیت اور قدر و قیمت کے بارے میں غور و فکر کے ذریعے اپنے دل سے باہر نکالے۔
وہ احادیث جو دنیا اور اسکی جانب رغبت کی مذمت میں آئی ہیں' اسی طرح وہ احادیث جو بڑی بڑی تمنائوں اور طولِ امل کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کا مطالعہ کرے اور ان کے دنیوی اور اخروی خطرات سے آگاہ ہو ۔ (جامع السعادات ـ ج ٣ـ ص ٣٤)