میدان غدیر میں حجاج کرام کی تعداد اور علمائے  فریقین کے اقوال

 محسن علی

الٰہی خلافت کے بارے میں قرآنی فیصلہ:

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاق عالم نے انتخاب خلافت کو اپنے لیے مخصوص رکھا ہے اور اس میں  لوگوں کی دسترس نہیں ہے: وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ[1]۔

تمہارا رب ہی پید اکرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نبوت و خلافت  کے لیے  منتخب کرتا ہے  یاد ر ہے کہ انسانوں کو نہ انتخاب کاکوئی  حق اور  نہ  ہی وہ اس میں خدا کے شریک ہو سکتے ہیں اور اس نے  اپنے تمام خلفاء آدم سے خاتم تک خود مقرر کیے ہیں اور ان کا اعلان نبیوں کے ذریعے کرایا ہے۔[2]

واقعہ غدیر  علم تاریخ میں:

واقعہ غدیر علم تاریخ کا ایسا واقعہ ہے کہ جس پر تمام خاصہ اور عامہ متفق ہیں مگر وہ  جس کے دل  میں مرض ِنفاق ہو ۔ یہ واقعہ 18 ذی الحجہ بروز جمعرات 10 ہجری  قمری  کوواقع   ہوا   اس تاریخ پر فریقین متفق ہیں اور کم از کم 23 تاریخی کتابوں  میں یہ واقعہ درج ہے اور اکثر نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے آخری حج میں رونما ہوا ۔ لہذا حج کا نام حجۃ الوداع اور حجۃ الاسلام اور حجۃ البلاغ اور حجۃ الاکمال اور حجۃالاتمام رکھا گیا ہے  یہ سفر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے 24 یا 25 شوال ،10 ہجری  ہفتہ کے دن مدینہ منورہ سے  آغاز فرمایا اس وقت  حضرت کے ساتھ اپنے گھر کے مرد  و خواتین  اور انصارو مھاجرین  شامل تھے۔

 اور عرب  کے تمام قبیلوں میں  سے لوگ شریک تھے [3]۔ مدینہ منورہ   کے بعد حضرت کے ساتھ مکہ پہنچنے  تک کثیر تعداد میں لوگ اس قافلہ میں شامل ہوتے رہے ۔

حاجیوں کی تعداد اور فریقین کے اقوال:

فریقین کے اقوال:

 مدینہ  سے نکلتے وقت  جتنے لوگ تھے تاریخ میں پانچ قول نقل ہوئے ہیں۔

1۔ 90 ہزار

2۔ ایک لاکھ چودہ ہزار

3۔  ایک لاکھ  بیس ہزار

4۔  ایک لاکھ چوبیس  ہزار

5۔اور اس سے بھی زیادہ جس کا  عدد معین نہیں کیا گیا ۔

 اور مکہ  پہنچنے تک اس نوری قافلہ میں کیثر تعداد میں لوگ شامل ہوتے رہے ۔ خود مکہ میں رہنے والے  مسلمان بھی اس حج میں شامل ہوئے ۔یمن سے حضرت امیر المومنین علی  علیہ السلام  کے ساتھ آنے والے لوگوں کی کثیر تعداد  اس میں شریک ہوئی، تو مکہ میں حاجیوں کی تعداد یقیناً  ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ تھی۔[4]

حضرت جب مناسک حج انجام دے رہے تھے تو اسلام کا تاریخ میں سب سے بڑا اجتماع جمع تھا جو یقیناً  لاکھوں کی تعداد  میں تھا ۔  اور کم از کم  ایک لاکھ چوبیس ہزار  تھے اس پر دلیل یہ ہے کہ جب مدینہ سے  نکلتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار تک نقل ہوئے ہیں  اور پھر راستے میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے  ہیں  تو یقیناً دو لاکھ تک  تعدادپہنچ سکتی ہے ۔

غدیر خم:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مناسک حج انجام دینے  کے بعد  جب واپس مدینہ تشریف لارہے تھے تو جب  مقام  جُفہ پر پہنچے تو وہاں پر غدیر  خم میں وارد ہوئے  جہاں  سے مختلف راستے نکلتے  تھے  ایک راستہ  مصر کو جاتا تھا ایک عراق  کو جاتا تھا  اور ایک مدینہ کی طرف  نکلتا تھا تو حضرت نے وہاں پر قیام کا حکم دیا  سب کو جمع فرمایا اور درختوں  کے نیچے بیٹھنے سے منع فرمایا ؛لہذاجب نماز ظہر کا وقت ہوا تو اذان دی گئی اور اس تپتی گرم ریت  پر پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے نماز باجماعت ادا  فرمائی۔

 تو نماز کے بعد پالانوں  کا منبر بنایا گیا اور اس بڑے اجلاس میں ،  اُس دور کی کانفرنس میں، آنحضرت نے یہ منبر اُن حاجیوں کے درمیان لگوایا  اور حضرت  نےاس منبر پر جلوہ فگن ہو کر  خطبہ ارشاد فرمایا تو جس میں حمد و ثناء پروردگار کے بعد حضرت نے دنیا  سے اپنے جانے  کے بارے میں ذکر  فرمایا  کہ بالآخر   میں آپ کے درمیان سے  چلا جاؤں  گا اور میرا  اللہ کی دعوت کو لبیک  کہنا نزدیک ہے ۔

پھر فرمایا : کہ آیا  میں نے آپ  تک  اللہ کے دین کی  تبلیغ  کی ہے؟ سب نے کہا  کہ ہم گواہی دیتے ہے کہ  آپ نے اس رسالت کو احسن انداز میں انجام دیا ہے پھر آنحضرت نے اللہ کی توحید اپنی رسالت ، موت ، جنت   و جہنم  کے حق ہونے کا اقرار لیا۔ اور پھر فرمایا :میں دو گرانقدر  چیزیں چھوڑےجا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری  میرے اہل بیت علیہم السلام  ، میں قیامت والے دن تم سے پوچھوں گا کہ تم نے ان دو کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے ۔ اور اس کے بعد پھر اس عظیم الشان اجتماع سے یوں مخاطب ہوئے۔

اَیَّہَا النّاسُ مَن اَولیٰ النَّاس بِالمُومِنین مِن اَنفُسِہِم

 اس کے بعد اپنے مولا ہونے کا اقرار لیا اور اولیٰ بالتصرف  ہونے کا سب سے اعتراف کروایا ،حضرت علی  علیہ السلام کو  اپنے نزدیک بلا یا  اور مولا علی  امیرالمومنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑکر  بلند کیا اور یہ اعلان فرمایا:

من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ

  جس جس کا میں مولا ہو ں (  اس کی ذات  سے زیادہ اس پر  تصرف  رکھتا ہوں)   اُس اُس کا  یہ علی  مولا ہے اور وہ اسکی ذات و جان سے زیادہ تصرف رکھتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے بارگاہ حق میں عرض کیا!

اَللَّہم وَالِ مَن وَالاہُ وَ عَادِ مَن عَادَاہُ وَ انصُر مَن نَصَرہ ُوَاَخذُل مَن خَذَلَہُ وَ اَدرِ الحقَّّ مَعہُ حیثُ دَار َاَلاَ فَلیُبغُ الشاہِدُ الغائبَ۔

پروردگار! جو  علی علیہ السلام سے محبت کرے اسے تو دوست رکھ اور جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے اس سے تو بھی دشمنی کر!  علی  علیہ السلام کی نصرت کرنیوالوں کی  مدد کر اور جو لوگ علی علیہ السلام سے روگرادنی کریں اس سے تو بھی  منہ موڑ لے  اور پالنے والے! علی علیہ السلام  جدھر  کا رخ کریں تو حق کو بھی اسی طرف   پھیر دے ۔ پھر ارشاد فرمایا دیکھو! جو لوگ اس وقت حاضر ہیں وہ اس بات کو ان افراد تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔

تاریخ نگار  لکھتے ہیں  کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا۔

نبی اکرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو:

جبرائیل علیہ السلام جب خداوند کی طرف سے    آیت   تکمیل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں لیکر آئے  توآنحضرت آنکھوں سے آنسو جاری ہوپڑے۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسْلامَ دِينًا[5]

آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا نیز تم  پر اپنی نعمت بھی پوری کردی اور اسلام کے آئین کو تمہارے لیے پسند کیا۔

 زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری جملے کے ساتھ ہی لوگ جوق در جوق منبر کی طرف بڑھے سارے مجمع نے یک آواز ہو کر عرض کی ! "بسر وچشم" ہم دل و جان  سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بجا لائیں گے،ابوبکر ، عمر ، عثمان اور طلحہ و زبیر نے ہاتھ  میں ہاتھ دے کر زبان دی اسکے بعد  تمام موجود مہاجر و انصار  آگے آئے اور پھر باری باری ہر شخص نے علی علیہ السلام کی بیعت  کرتے ہوئے تبریک پیش کی ۔

غدیر خم میں تین دن تک جشن غدیر:

 یہ جشن پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ تین دن تک منعقد رہا  ، تین دن تک لوگوں کا وہاں رہنا ، اس میں بھی مصلحت تھی اس لیے کہ جب گھر جائیں تو گھر والے پوچھیں گے کہ دیر کیوں  کردی ، تو آتے ہی  ان کو بتانا پڑے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولایت اور خلافت کا اعلان کر دیا ہے  اور علی علیہ السلام کو اپنا جانشین بنا دیا ہے اور کہا ہے  کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی  علیہ السلام مولا ہے تو جب گھر والوں نے سنا تو اقرار کیا ہم نے بھی علی علیہ السلام  کی ولایت اور خلافت پر یقین  کر لیا ہے۔ٍ

شواہد التنزیل:

شواہد التنزیل میں علامہ حسکانی نے رقم کیا : کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتما م النمعۃ و رضا الرب برسالتی والولایۃ لعلی من بعدی و قال من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عادہ وانصر من نصرہ  واخذل من خذلہ۔[6]

اللہ اکبر،  دین کے کامل ہونے ، نعمتیں تمام ہونے ، میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر راضی ہونے پر" اور کہا  کہ جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السلام اس کے موالا ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا: تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے اور  اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے  اور اس کو ذلیل کر جو علی کو ذلیل کرنا چاہے۔

غدیر فریقین کی نظر میں   :

غدیر کے واقعہ  اور  حاجیوں کی تعدا د کے لحا ظ سے  منابع اہل سنت  میں راوی بہت زیادہ  ہیں اور مختلف  طریقوں سے  اس  واقعہ  کو بیان کرتے ہیں جن میں سے بعض  نے صادقانہ  طورپر تعدا د  کے بارے میں بحث کی ہے اور بعض محقق اہل سنت  نےواقعہ غدیر اور تعد اد کے لحاظ سے  جو ان کے عقیدے کے ساتھ سازگار نہیں تھا اس کو حذف کر دیا ہےاور بعض نے  تما م کوشش اور سعی کی ہے کہ   جنہوں نے حقیقت کو آشکار  اور اثبات  کیا ہے  اسے کتمان کریں اور چھپا دیں  لیکن اس  تمام  سعی و کوشش کے  باوجود اس واقعہ کو نقل  ہونا تھا کیونکہ یہی خدا کا فیصلہ تھا  اسی وجہ سے  اہل سنت میں سے اکثر نے  وظیفہ شرعی  سمجھتے ہوئے  منابع مختلف اسناد  حدیث غدیر اور تعداد کے متعلق بحث کی ہے۔ من جملہ یہ ہیں:

مورّخین:

اہل سنت کے مورّخین میں سے 25 مورخ  نے واقعہ غدیر اور حاجیوں کی تعداد کو  نقل کیا ہے( یہ تتبع ناقص ہے اگر ہم چاہیں   بقول فارسی!اگر کسی آستین را بالا بزند " اپنی کمر کو تھام لیں اور دقیق بررسی کریں تو بہت سارے منابع ہمیں فقط اہل سنت سے ہی مل جائیں گے) ان میں من  جملہ ، شہرستانی     ملل و نحل میں "مرات الجنان" میں یافع اور "انساب الاشراف میں بلازری۔

محّدثین:

27  معروف محدّثین اہل سنت  نے واقعہ غدیر اور حاجیوں  کی تعداد کو نقل کیا ہیں( یہ کہ جو ہم کہہ رہے  ہیں 27 محدثین، اس کا معنی یہ  ہے  کہ  27 راویوں نےبلکہ ان میں سے ہر ایک  نے مختلف راستوں  اور مختلف طریقوں اور مختلف طُرق  سے بر رسی کی ہے)ان میں سےمن جملہ: حاکم مستدرک   میں، جلد ،3 ، ص 109  خوازمی مناقب میں ، ھیمتی مجع الزواید میں ، احمد حنبل   مسند میں ، جلد 2 ،ص 259۔

متکلمین و علماء علم عقاید:

ان میں سے حدوداً 10 کلامیوں نےوہ بھی  جو بہت متعصب اور نفاق کی مرض میں مبتلا ہیں   کہ اپنے مذہب کی ہی حقانیت  کو ثابت اور غدیر سے چشم پوشی کرتے ہیں  لیکن حدیث غدیر خم  نے اور واقع غدیر خم نے اور حاجیوں کی تعداد نے ان کی کمر کو چکنہ چور کردیا ہے اور ماننا پڑ گیا کہ   اس سے نہیں بچ سکتے   من جملہ : قاضی ابوبکر باقلانی( التمھید فی اصول دین) میں اور جرجانی شرح مواقف میں۔

علماء لغت:

تقریباً اکثر لغویون نے قریب اتفاق  نقل کیا ہے ، ایک دلیل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ  یہ سب مباحث کلامی اور  مباحث عقیدتی میں زیادہ وارد اور صاحب نظر بھی نہیں تھے ۔ اور مقام قضاوت میں بھی نفاق کی بیماری میں پُر تھے اسی وجہ سے غدیر کے واقعہ اور وہ کلمے جو غدیر خم میں استعمال ہوئے مانند: مولی ، ولّی ، سے دوست اور دوسرے معانی سے بحث کی ہے لیکن پھر  بھی اس واقعہ غدیر کو لے کر آئے ہیں ،  ان میں سے  ابن اثیر (النھایہ) اور زبیدی حنفی ( تاج العروس) میں۔

اُمید:

امید وارہوں کہ  تمام امت اسلام تعصب و عناد  کی عینک  اُ تار کر آیات قرآن  و سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملاحظہ کرتے ہوئے  اللہ کے حقیقی اور اصلی اسلام سے تمسک کریں گے  اور اصیل اسلام سے منحرف نہیں ہوں گے  اور خدا کا اصلی ا سلام وہ ہے جس میں حضرت علی  علیہ اسلام سے لیکر حضرت مہدی علیہ السلام تک سب کو امام اور ولی مانا جائے تو  پھر پوری امت اسلام ،دنیا وآخرت  میں سعادت مند ہو گی اور اسلام سربلند ہو گا ۔

لہذا ہم خدا کی حمد  اسطرح کرتے ہیں۔

الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایۃ امیر المومنین و الائمۃ معصومین علیہم السلام۔

تمام حمد و ثنا بس اس اللہ کی ہے  جس نے ہمیں امیرالمومنین اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کے  دامن کو پکڑنے والا قرار دیا۔


[1]۔سورۃ القصص،68

[2]۔ روضۃ الصفا،تاریخ کامل ، تاریخ بعض اموروی م عراش ثعلبی

[3] ۔طبقات ابن سعد ، ج3 ، ص 225

[4]۔سیرت حلبیہ ، ج3 ، ص 283 ۔ سیرت احمد ذیبی دھلان ، ج3 ص 3 ، تاریخ خلفاء ابن جوزی ، ج4 ، ص 18 ، تذکرۃ خواص ،ص 30

[5]۔سورۃ مائدہ ، 3

[6]۔شواہد التنزیل ، علامہ حسکانی ، ص 156 ،حدیث،458