قارئین کرام! اب ھم یھاں پر آیہٴ بلغ کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں فریقین کے طریقوں سے بیان ھونے والی روایات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
ابو نعیم نے ابوبکر خلاد سے، انھوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ سے، انھوں نے ابراھیم بن محمد بن میمون سے، انھوں نے علی بن عابس سے ، انھوں نے ابو حجّاف و اعمش سے، انھوں نے عطیہ سے، انھوں نے ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ> حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے[1]
سند کی چھان بین
ز ابوبکر بن خلاد: یہ وھی احمد بن یوسف بغدادی ھیںکہ خطیب بغدادی نے ان سے ”سننے“ کو صحیح مانا ھے، اور ابونعیم ابن ابی فراس نے ان کا تعارف ثقہ کے نام سے کرایا ھے[2] اور ذھبی نے ان کو ”شیخ صدوق“ (یعنی بہت زیادہ سچ بولنے والے استاد) کا نام دیا ھے[3]
ز محمد بن عثمان بن ابی شیبہ: ان کو ذھبی نے علم کا ظرف قرار دیا ھے اور صالح جزرہ نے ان کو ثقہ شمار کیا ھے، نیز ابن عدی کہتے ھیں: میں نے ان سے حدیث منکر نھیں سنی جس کو ذکر کروں[4]
ز ابراھیم بن محمد بن میمون: ابن حیان نے ان کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ھے[5]، اور کسی نے ان کو کتب ضعفاء میں ذکر نھیں کیا ھے، اگر ان کے لئے کوئی عیب شمار کیا جاتا ھے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے اھل بیت علیھم السلام مخصوصاً حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کیا ھے۔
ز علی بن عابس: یہ صحیح ترمذی کے صحیح رجال میں سے ھیں[6] اگر ان کے متعلق کوئی عیب تراشا جاتا ھے تو ان کے شاگردوں کی طرح اھل بیت علیھم السلام کے فضائل نقل کرنے کی وجہ سے؛ لیکن ابن عدی کے قول کے مطابق ان کی احادیث کو لکھنا صحیح ھے[7]
ز ابو الحجّاف: ان کا نام داؤد بن ابی عوف ھے، موصوف ابی داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کے رجال میں شمار ھوتے ھیں، کہ احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے ان کو ثقہ مانا ھے، اور ابو حاتم نے بھی ان کو صالح الحدیث قرار دیا ھے[8] اگرچہ ابن عدی نے ان کو اھل بیت علیھم السلام کے فضائل و مناقب میں احادیث بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف شمار کیا ھے[9]
ز اعمش: موصوف کا شمار صحاح ستہ کے رجال میں ھوتا ھے[10]
نتیجہ یہ ھوا کہ اس حدیث کے سارے راوی خود اھل سنت کے مطابق معتبر ھیں۔
ابن عساکر نے ابو بکر وجیہ بن طاھر سے، انھوں نے ابو حامد ازھری سے، انھوں نے ابو محمد مخلّدی حلوانی سے، انھوں نے حسن بن حمّاد سجّادہ سے، انھوں نے علی بن عابس سے، انھوں نے اعمش اور ابی الجحاف سے، انھوں نے عطیہ سے انھوں نے سعید خدری سے نقل کیا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ>، روز غدیر خم میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے[11]
سند کی چھان بین
ز وجیہ بن طاھر: ابن جوزی نے ان کو شیخ صالح و صدوق[12] اور ذھبی نے شیخ عالم و عادل کے نام سے سراھا ھے[13]
ز ابو حامد ازھری: موصوف وھی احمد بن حسن نیشاپوری ھیں جن کو ذھبی نے عادل اور صدوق کے نام سے یاد کیا ھے[14]
ز ابو محمد مخلّدی: حاکم نے ان سے حدیث کا سننا صحیح قرار دیا ھے، اور روایت میں مستحکم شمار کیا ھے[15] اور ذھبی نے بھی ان کو شیخ صدوق اور عادل قرار دیا ھے[16]
ز ابوبکر محمد بن ابراھیم حلوانی: خطیب بغدادی نے ان کو ثقہ شمار کیا ھے[17] حاکم نیشاپوری نے ان کو ثقہ راویوں میں مانا ھے[18]اور ذھبی نے ان کو حافظ ثبت کے عنوان سے یاد کیا ھے[19] نیز ابن جوزی نے ان کو ثقہ قرار دیا ھے[20]
ز حسن بن حماد سجادہ:موصوف ابی داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کے رجال میں سے ھیں جن کے بارے میں احمد بن حنبل نے کھا: ”ان سے مجھ تک خیر کے علاوہ کچھ نھیں پھنچا“[21] ذھبی نے ان کو جید علما اور اپنے زمانہ کے ثقہ راویوں میں سے مانا ھے[22]، نیز ابن حجر نے ان کو صدوق کے نام سے یاد کیا ھے[23]اور باقی سند کے رجال کی چھان بین گزشتہ حدیث میں ھوچکی ھے۔
واحدی ابو سعید محمد بن علی صفّار نے حسن بن احمد مخلدی سے، انھوں نے محمد بن حمدون سے، انھوں محمد ابراھیم خلوتی (حلوانی) سے، انھوں نے حسن بن حماد سجادہ سے، انھوں نے علی بن عابس سے، انھوں نے اعمش اور ابی جحّاف سے، انھوں نے عطیہ سے اور انھوں ابی سعید خدری سے نقل کیا ھے کہ یہ آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ> روز غدیر خم میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی۔
سند کی چھان بین
محمود زعبی نے اپنی کتاب ”البیّنات فی الردّ علی المراجعات“ میں اس حدیث کی سند پر صرف یہ اعتراض کیا ھے کہ اس کی سند میں عطیہ شامل ھے۔
چنانچہ ان کا کھنا ھے:
”عطیہ کو امام احمد (بن حنبل) نے ”ضعیف الحدیث“ مانا ھے، اور ابو حاتم نے بھی اس کی تضعیف کی ھے، اور ابن عدی نے اس کو شیعیان کوفہ میں شمار کیا ھے۔“
لیکن یہ تضعیف یقینی طور پر صحیح نھیں ھیں، کیونکہ:
اول: عطیہ عوفی تابعین میں سے ھیں جن کے بارے میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مدح کی ھے۔
دوسرے: ”الاٴدب المفرد“ میں بخاری، اور صحیح ابی داؤد، صحیح ترمذی، صحیح ابن ماجہ اور مسند احمد کے رجال میں ان کا شمار ھوتا ھے، اور علمائے اھل سنت نے بہت زیادہ مدح کی ھے۔
لیکن جوزجانی جیسے لوگوں نے ان کو ضعیف مانا ھے جو خود ناصبی ھونے اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے منحرف ھونے میں مشھور ھے، اور اس کی تضعیف کرنا بھی اسی وجہ سے کہ موصوف حضرت علی علیہ السلام کو سبھی (صحابہ) ترجیح دیتے تھے، اور جب حجاج کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام پر لعن و طعن کرنے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے قبول نھیں کیا، جس کے نتیجہ میں ان کو ۴۰۰ کوڑے لگائے گئے اور ان کی داڑھی کو بھی مونڈ دیا گیا ۔
حبری نے حسن بن حسین سے، انھوں نے حبان سے، انھوں نے کلبی سے، انھوں ابی صالح سے اور انھوں نے ابن عباس سے آیہ شریفہ: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ۔۔۔> کی تفسیر میں نقل کیا ھے کہ یہ آیہ شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے۔چنانچہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حکم ھوا کہ جو کچھ (حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں) نازل ھوچکا ھے اس کو پھنچادو۔ اس موقع پر آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ بلند کرکے فرمایا:
”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ، اللّٰھم وال من والاہ، وعاد من عاداہ“
”جس کا میں مولا ھوں پس اس کے یہ علی مولا ھیں، پالنے والے! جس نے ان کی ولایت کو قبول کیا اور ان کو دوست رکھا تو بھی اس کو اپنی ولایت کے زیر سایہ قرار دے، اور جو شخص ان سے دشمنی رکھے اور ان کی ولایت کا انکار کرے تو بھی اس کو دشمن رکھ“[24]
اھل سنت کے نزدیک اس روایت کی سند معتبر ھے۔
شیخ کلینی علیہ الرحمہ نے صحیح سند کے ساتھ زرارہ سے، انھوں نے فضل بن یسار سے، انھوں نے بکیر بن اعین سے انھوں نے محمد بن مسلم سے، انھوں نے برید بن معاویہ اور ابی الجارو سے اور انھوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ھے: ”خداوندعالم نے اپنے رسول کو حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا حکم دیا، اور یہ آیہ شریفہ نازل فرمائی:
<إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ>[25]
”ایمان والو! بس تمھار ولی اللہ ھے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ھیں۔“
خداوندعالم نے اولی الامر کی ولایت کو واجب قرار دیا ھے، وہ نھیں جانتے تھے کہ یہ ولایت کیا ھے؟ پس خداوندعالم نے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حکم دیا کہ ان کے لئے ولایت کی تفسیر فرمادیں، جیسا کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کی تفسیر کی ھے، جب یہ حکم نازل ھوا تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پریشان ھوئے کہ کھیں لوگ اپنے دین سے نہ پھر جائیں اور مجھے جھٹلانے لگیں، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کیا اس موقع پر خداوندعالم نے یہ آیت نازل فرمائی:
<یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ>
”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔“
پس آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خدا کے حکم سے ولایت کو واضح کردیا اور روز غدیر خم حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا۔۔۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ حاضرین ، غائبین کو اس واقعہ کی اطلاع دیں۔۔۔۔[26]
علمائے اھل سنت نے صحابہ سے متعدد روایت نقل کی ھیں کہ یہ آیہ شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ھے، جیسے:
۱۔ زید بن ارقم[27]
۲۔ ابو سعید خدری[28]
۳۔ عبد اللہ بن عساکر[29]
۴۔ عبد اللہ بن مسعود[30]
۵۔ جابر بن عبد اللہ انصاری[31]
۶۔ ابو ھریرہ[32]
۷۔ عبد اللہ بن ابی اوفی اسلمی[33]
۸۔ براء بن عازب انصاری[34]
تابعین نے بھی اس آیت کا شان نزول روز غدیر میں حضرت علی علیہ السلام کو قرار دیا ھے، جیسے:
۱۔ امام باقر علیہ السلام[35]
۲۔ امام جعفر صادق علیہ السلام[36]
۳۔ عطیہ بن سعد عوفی[37]
۴۔ زید بن علی[38]
۵۔ ابو حمزہٴ ثمالی[39]
بہت سے علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا جیسے:
۱۔ابو جعفر طبری[40]
۲۔ ابی حاتم رازی[41]
۳۔ حافظ ابو عبد اللہ محاملی[42]
۴۔ حافظ ابن مردویہ۔[43]
۵۔ ابو سحاق ثعلبی[44]
۶۔ ابو نعیم اصفھانی[45]
۷۔ واحدی نیشاپوری[46]
۸۔ حاکم حسکانی[47]
۹۔ ابو سعید سجستانی[48]
۱۰۔ ابو القاسم ابن عساکر شافعی[49]
۱۱۔ فخر رازی[50]
۱۲۔ ابو سالم نصیبی شافعی[51]
۱۳۔شیخ الاسلام حموئی[52]
۱۴۔ سید علی ھمدانی[53]
۱۵۔ ابن صباغ مالکی[54]
۱۶۔قاضی عینی[55]
۱۷۔نظام الدین نیشاپوری[56]
۱۸۔ کمال الدین مبیدی[57]
۱۹۔ جلال الدین سیوطی[58]
۲۰۔ میرزا محمد بدخشانی[59]
۲۱۔شھاب الدین آلوسی[60]
۲۲۔قاضی شوکانی[61]
۲۳۔ قندوزی حنفی[62]
۲۴۔ شیخ محمد عبدہ[63]
شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ آیہ بلّغ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے متعلق ھے اور <مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ> کا مصداق حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت ھے، کیونکہ:
اول: خداوندعالم نے اس سلسلہ میں اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ اگر اس حکم کو نہ پھنچایا تو گویا پیغمبر نے اپنی رسالت ھی نھیں پھنچائی، اور یہ امر حضرت علی علیہ السلام کی زعامت، امامت اور جانشینی کے علاوہ کچھ نھیں تھا اور یہ عہدہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وحی کے علاوہ تمام ذمہ داریوں کا حامل ھے۔
دوسرے: مذکورہ آیت سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے اس امر کا پھنچانا دشوار تھا کیونکہ اس چیز کا خوف پایا جاتا تھا کہ بعض لوگ اس حکم کی مخالفت کریں گے، اور اختلاف و تفرقہ بازی کے نتیجہ میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ۲۳ سالہ زحمتوں پر پانی پھر جائے گا، اور یہ مطلب (تاریخ کی ورق گردانی کے بعدمعلوم ھوجاتا ھے کہ) حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے علاوہ اور کچھ نھیں تھا۔
قرآنی آیات کی مختصر تحقیق کے بعد معلوم ھوجاتا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نبوت پر عہد و پیمان رکھتے تھے[64] اور خداوندعالم کی طرف سے صبر و استقامت پر مامور تھے۔[65]اسی وجہ سے آنحضرت نے دین خدا کی تبلیغ اور پیغام الٰھی کو پھنچانے میں ذرا بھی کوتاھی نھیں کی ھے، اور نا معقول درخواستوں اور مختلف بھانہ بازیوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔[66] پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے پیغامات الٰھی کو پھنچانے میں ذرا بھی کوتاھی نھیں کی یھاں تک کہ جن موارد میں آنحضرت کے لئے سختی اور دشواریاں تھیں جیسے زوجہ زید، زینب کا واقعہ [67]اور مومنین سے حیا کا مسئلہ[68] یا مذکورہ آیت کو پھنچانے کا مسئلہ، ان تمام مسائل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو اپنے لئے کوئی خوف نھیں تھا۔
لہٰذا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی پریشانی کو دوسری جگہ تلاش کرنا چاہئے، (نہ قتل کے خوف میں) اور وہ اس پیغام کے مقابل منافقین کے جھٹلانے کے خطرناک نتائج اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعض اصحاب کے عکس العمل کے منفی اثراث تھے جس کی وجہ سے ان کے اعمال ضبط ھوگئے اور منافقین کے نفاق و کفر میں اضافہ ھوا اور دوسری طرف ان کی تکذیب اور کفر کی وجہ سے رسالت کا آگے بڑھنا یھاں تک اصلِ رسالت ناکام رہ جاتی اور دین ختم ھوجاتا۔
تیسرے: آیہ ”اکمال“ کی شان نزول کے بارے میں شیعہ اور سنی طریقوں سے صحیح السند روایات بیان ھوئی ھیں کہ یہ آیت حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھیں۔
نتیجہ یہ ھوا کہ <مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ> سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت مراد ھے جس کو پھنچانے کا حکم آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو دیا گیا تھا۔
بعض علمائے اھل سنت نے دوسری تاویلات کرنے کی کوشش کی ھے جس سے مسئلہ غدیر سے آیت کا کوئی تعلق نہ ھو، اور یہ آیت حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل میں سے شمار نہ ھو، اب ھم یھاں پر ان تاویلات کی چھان بین کرتے ھیں:
اھل سنت بعض روایات کی بناپر کہتے ھیں: اس آیت کے نازل ھونے سے پھلے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کی جاتی تھی، لیکن اس آیت کے نازل ھونے کے بعد خداوندعالم نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی اور محافظوں کے لئے(جنگ میں نہ جانے کے لئے) کوئی بھانہ نہ چھوڑا، چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:
”تم لوگ چلے جاؤ خداوندعالم میری حفاظت خود فرمائے گا۔“
جواب:
اول: اگر فرض کریں کہ یہ روایات صحیح بھی ھیں مذکورہ آیت کے نزول کو بیان نھیں کرتیں، اور ولایت علی علیہ السلام کے مخالف نھیں ھیں، بلکہ ان میں صرف پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نسبت اس آیت کے شان نزول کے ایک حصہ کو بیان کیا گیا ھے اور چونکہ بعض روایات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ھے کہ یہ رخصت مدینہ میں رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے دی گئی ھے، اور اس چیز کا احتمال ھے کہ غدیر خم سے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات تک کا فاصلہ مراد ھو۔
دوسرے: بنیادی طور پر اھل سنت مفسرین نے اس طرح کی روایات کو عجیب و غریب قرار دیا ھے، اور اس بات پر متفق ھیں کہ چونکہ مذکورہ آیت مدنی ھے اور بعثت کے آخری دنوں میں نازل ھوئی ھے، لہٰذا مکہ میں جناب ابو طالب (علیہ السلام) کی حفاظت کرنے سے کوئی تعلق نھیں رکھتی۔
تیسرے: یہ کھنا کہ مذکورہ آیت دو بار نازل ھوئی ھے ایک مرتبہ بعثت کے شروع میں اور دوسری بار بعثت کے آخر میں مدینہ میں نازل ھوئی[69] اس سے بھی مشکل حل نھیں ھوتی؛ کیونکہ فرض کریں کہ آیت بعثت کے شروع میں نازل ھوئی ھو جس میں خداوندعالم نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کی ذمہ داری لی ھو، لیکن پھر مدینہ میں اصحاب کے ذریعہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔
علامہ سیوطی ، ابن عباس سے نقل کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کیا گیا: آپ پر کونسی آیت سخت نازل ھوئی ھے؟
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”میں موسم حج کے دوران منیٰ میں تھا اور مشرکین عرب اور دوسرے لوگ وھاں موجود تھے۔ اس وقت جناب جبرئیل یہ آیت لے کر مجھ پر نازل ھوئے: <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ۔۔۔> ، میں کھڑا ھوا اور یہ اعلان کیا: اے لوگو! تم میں کون ھے جو پروردگار کے پیغام پھنچانے میں میری مدد کرے تاکہ اس کو جنت کی ضمانت دیدوں، اے لوگو! خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواھی دو تاکہ کامیاب ھوجاؤ اور نجات پاکر جنت میں داخل ھوجاؤ، اس موقع پر عورت مرد چھوٹے بڑے سبھی لوگوں نے مجھ پر ڈھیلے اور پتھروں کی بارش کردی اور میرے منھ پر لعاب دھن پھینکنے لگے، اور کھنے لگے: ”یہ جھوٹا ھے۔۔۔“، اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے چچا عباس آئے اور ان کو لوگوں سے نجات دی اور ان کو پیچھے ہٹا دیا۔“[70]
جواب: یہ روایت بنی عباس کی طرف سے جعلی اور من گھڑت ھے تاکہ علویوں کے مقابلہ میں فضیلت پیش کرسکیں۔ کیونکہ:
اول: مذکورہ آیت شیعہ اور سنی اتفاق کی بنا پر مکہ میں نازل نھیں ھوئی ھے اور آیت کا دو بار نازل ھونے کی بھی کوئی دلیل نھیں ھے۔
دوسرے: یہ روایت خبر واحد ھے، اور تمام احادیث کے مخالف ھے، لہٰذا اس کو معتبر نھیں مانا جاسکتا۔
ابن ابی حاتم ، جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کرتے ھوئے کہتے ھیں:
”بنی انمار سے جنگ کے دوران آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ایک کنویں پر بیٹھے ھوئے تھے۔ اس موقع پر بنی نجار قبیلہ سے”وارث“ یا ”غورث بن حارث“ نامی شخص نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔۔۔ چنانچہ وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک آکر کہتا ھے: آپ مجھے اپنی تلوار دیدیں تاکہ میں اس کو سونگھوں۔ آپ نے اس کو تلوار دیدی۔ اس موقع پر اس کا ھاتھ لڑکھڑایا اور تلوار گرگئی، اس موقع پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس سے فرمایا: خداوندعالم تیرے اور تیرے ارادے میں مانع ھوگیا ۔ چنانچہ اسی موقع پر یہ آیت نازل ھوئی:
<یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ۔۔۔>
”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے۔“[71]
جواب:اول: ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں:
”جابر سے اس صورت میں حدیث نقل ھونا (واقعاً عجیب و) غریب ھے۔“[72]
دوسرے: اس واقعہ کے نقل میں اختلاف ھے ، کیونکہ ابوھریرہ نے اس کو دوسرے طریقہ سے نقل کیا ھے[73] اور نقل میں اگر اختلاف ھو تو روایت ضعیف شمار کی جاتی ھے۔
تیسرے: یہ واقعہ آیت کے الفاظ کے مخالف ھے؛ کیونکہ (آیت میں) پیغام پھنچانے پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی ھے۔
چوتھے: رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے قتل کی سازش کوئی نیا مسئلہ نھیں تھا جس کی وجہ سے خداوندعالم بعثت کے آخری زمانہ میں مذکورہ آیت کے مطابق آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جان کی ضمانت لیتا۔
پانچوے: یہ واقعہ، فریقین کے نزدیک بیان ھونے والی تمام روایات کے مخالف ھے، کیونکہ ان روایات میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی پریشانی اس حکم کے پھنچانے میں تھی جو آپ پر نازل ھوا تھا۔
بعض اھل سنت مذکورہ آیت کے شان نزول میں کہتے ھیں:
”خداوندعالم نے اپنے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حکم دیا کہ رجم و قصاص کے بارے میں جو حکم آپ پر نازل ھوا ھے اس کو پھنچادیں۔ درحقیقت یہ اعلان یھودیوں کے نظریہ کے مقابلہ میں تھا جو توریت میں بیان ھونے والے حکم یعنی شوھر دار عورت سے زنا کی سزا رجم اور قصاص کے حکم سے بچنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے کچھ لوگوں کو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے پاس بھیجا تاکہ ان سے اس حکم کے بارے میں سوال کریں، جبرئیل امین نازل ھوئے اور رجم و قصاص کا حکم لائے“[74]
اھل سنت کہتے ھیں کہ سورہ مائدہ آیات نمبر ۴۱ تا ۴۳ جو مذکورہ آیت سے پھلے ھیں، اسی سلسلہ میں نازل ھوئی ھیں۔
جواب:اول: یہ مدعا بلا دلیل ھے اور تمام صحابہ کے قول کے مخالف ھے۔
دوسرے: آیات کے الفاظ اس قول کو ردّ کرنے کے لئے کافی ھیں، کیونکہ بعثت کے آخر میں اس سورہ کے نازل ھونے کے وقت یھودی متفرق اور مغلوب ھوگئے تھے، اور وہ اس حالت میں نھیں تھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو کوئی نقصان پھنچاسکیں تاکہ خداوندعالم آپ کو محفوظ رکھنے کا وعدہ دیتا۔
آیہ ”بلّغ“ کی یھود یوں کی مکاری کے بارے میں تفسیر کرنے والے سب سے پھلے شخص مقاتل بن سلیمان ھیں[75]، جس کے بعد طبری، بغوی، محمد بن ابی بکر رازی نے اس قول اور اس تفسیر کو اختیار کیا ھے[76] فخر رازی مذکورہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں بہت سے احتمالات بیان کرنے کے بعد اسی قول کو اختیار کرتے ھیں، اور اس قول کی تنھا دلیل مذکورہ آیت سے پھلے اور بعد والی آیات کو قرار دیتے ھیں جو سب کی سب یھودیوں کے باے میں نازل ھوئی ھیں[77]
جواب:
اول: سورہ مائدہ وہ آخری سورہ ھے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر حجة الوداع میں نازل ھوا ھے، اس موقع پر یھودیوں کی کوئی حیثیت نھیں تھی جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)خوف زدہ ھوتے، اور ان کی وجہ سے محافظت اور نگھبانی کی ضرورت پڑتی۔
دوسرے: قرآن کریم، نزول کی ترتیب سے نھیں ھے جس کی وجہ سے پھلی آیات کو کسی معنی کے لئے قرینہ قرار دیا جاسکے۔
تیسرے: پھلی آیات کے پیش نظر اگر فرض بھی کرلیں کہ اس معنی میں ظھور رکھتا ھے تو بھی یہ قرینہ مقامی ھوگا اور دوسری روایات کے صاف صاف الفاظ اور دوسرے قرائن کی وجہ سے اس کا کوئی ظھور باقی نھیں بچے گا۔
چوتھے: فخر رازی کے کھنے کے مطابق : یھویوں کے بارے میں جو حکم خداوندعالم نے نازل کیا ان لوگوں پر اتنا مھنگا پڑا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے پھنچانے میں تاخیر ھوئی، اور وہ حکم یہ تھا:
<قُلْ یَااٴَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَی شَیْءٍ حَتَّی۔۔۔>[78]
”کہہ دیجئے کہ اے اھل کتاب تمھارا کوئی مذھب نھیں ھے۔“
حالانکہ قرآن کریم نے اس آیت سے پھلے اسی سورہ کی آیت نمبر ۶۴ میں یھودیوں سے بہت سخت خطاب کیا:
<وَقَالَتْ الْیَہُودُ یَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ اٴَیْدِیہِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۔۔۔>[79]
”اور یھودی کہتے ھیں کہ خدا کے ھاتھ بندھے ھوئے ھیں جب کہ اصل میں انھیں کے ھاتھ بندھے ھوئے ھیں اور یہ اپنے قول کی بنا پر ملعون ھیں“
پانچوے: ممکن ھے کہ ان آیات کے درمیان اس آیت کا وجود اس نکتہ کی طرف اشارہ ھو کہ جن منافقین سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو خوف تھا وہ یھودیوں کی طرح یا کفر و ضلالت میں انھیں کی قسم ھیں۔
[1]الخصائص، ابن بطریق، بہ نقل از کتاب” ما نزل من القرآن فی علیّ“ ابی نعیم اصفھانی۔
[2] تاریخ بغداد، ج۵، ص۲۲۰ تا۲۲۱۔
[3] سیر اعلام النبلاء، ج۱۶، ص۶۹۔
[4] تاریخ بغداد، ج۳، ص۴۳۔
[5]الثقات، ج۸، ص۷۴۔
[6] تقریب التہذیب، ج۲، ص۳۹۔
[7]الکامل فی الضعفاء، ج۵، ص۱۹۰، رقم ۱۳۴۷۔
[8] میزان الاعتدال، ج۲، ص۱۸۔
[9]الکامل فی الضعفاء، ج۳، ص۸۲ تا ۸۳، رقم ۶۲۵۔
[10] تقریب التہذیب، ج۱، ص۳۳۱۔
[11]ترجمہٴ امام علی بن ابی طالب علیہ السلام از تاریخ دمشق، ج۲، ص۸۶۔
[12]المنتظم، ج۱۸، ص۵۴۔
[13] سیر اعلام النبلاء، ج۲۰، ص۱۰۹۔
[14] سیر اعلام النبلاء، ج۱۸، ص۲۵۴۔
[15] سیر اعلام النبلاء، ج۱۶، ص۵۴۰۔
[16] سیر اعلام النبلاء، ج۱۶، ص۵۳۹۔
[17] تاریخ بغداد، ج۱، ص۳۹۸۔
[18] سیر اعلام النبلاء، ج۱۵، ص۶۱۔
[19] سیر اعلام النبلاء، ج۱۵، ص۶۰۔
[20]المنتظم، ج۱۲، ص۲۷۹۔
[21] سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۳۹۳۔
[22] سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۳۹۳۔
[23] تقریب التہذیب، ج۱، ص۱۶۵۔
[24] تفسیر حبری، ص۲۶۲۔
[25]سورہ مائدہ، آیت ۵۵۔
[26] کافی، ج۱، ص۲۹۰، ح۵۔
[27]الغدیر، ج۱، ص۴۲۴۔
[28] تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۷۳، ح۶۶۹؛ در المنثور، ج۳، ص۱۱۷؛ ترجمہٴ الامام علی علیہ السلام از تاریخ دمشق، ج۲، ص۸۵، ح۵۸۸۔
[29]الامالی، ص۱۶۲، ح۱۳۳؛ مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۴۰، ح۳۴۹؛ الکشف و البیان، ج۴، ص۹۲؛ شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۳۹، ح۲۴۰۔
[30]مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۳۹، ح۳۴۶؛ در المنثور، ج۳، ص۱۱۷؛ فتح القدیر، ج۲، ص۶۰؛ روح المعانی، ج۴، ص۲۸۲۔
[31]شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۵۵، ح۲۴۹۔
[32]شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۴۹، ح۲۴۴؛ فرائد السمطین، ج۱، ص۱۵۸، ح۱۲۰۔
[33]شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۵۲، ح۲۴۷۔
[34]مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۵۰؛ الکشف و البیان، ج۴، ص۹۲۔
[35]الکشف و البیان، ج۴، ص۹۲؛ ینابیع المودة، ج۱، ص۱۱۹، باب ۳۹؛ شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۵۴، ح۲۴۸؛ مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۵۰؛ عمدة القاری، ج۱۸، ص۲۰۶۔
[36] تفسیر الحبری، ص۲۸۵، ح۴۱۔
[37]النور المشتعل من کتاب ما نزل من القرآن فی علی(ع)، ص۸۶، ح۱۶۔
[38]مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۴۰، ح۳۴۸۔
[39]مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۴۰، ح۳۴۷۔
[40]الولایة فی طریق حدیث الغدیر۔
[41]الدر المنثور، ج۲، ص۲۹۸؛ فتح القدیر، ج۲، ص۵۷۔
[42] کنز العمال، ج۱۱، ص۶۰۳، ح۳۲۹۱۔
[43] درّ المنثور، ج۲، ص۲۹۸۔
[44] ا لکشف و البیان، ج۴، ص۹۲۔
[45] ما نزل من القرآن فی علی علیہ السلام، ص۸۶۔
[46]اسباب النزول، ص۱۳۵۔
[47]شواہد التنزیل، ج۱، ص۲۵۵، ح۲۴۹۔
[48]کتاب الولایہ، بہ نقل از الطرائف، ج۱، ص۱۲۱۔
[49] تاریخ مدینة دمشق، ج۱۲، ص۲۳۷۔
[50]التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۴۹۔
[51]مطالب السوٴول، ص۱۶۔
[52]فرائد السمطین، ج۱، ص۱۵۸، ح۱۲۰۔
[53]مودة القربیٰ، مودت پنجم۔
[54]الفصول المھمہ، ص۴۲۔
[55]عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری، ج۱۸، ص۲۰۶۔
[56]غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ج۶، ص۱۹۴۔
[57] شرح دیوان امیر المومنین علیہ السلام، ص۴۰۶۔
[58]الدرر المنثور، ج۳، ص۱۱۶۔
[59]مفتاح النجا، ص۳۴تا ۳۶، باب۳، فصل۱۱۔
[60] روح المعانی، ج۶، ص۱۹۲۔
[61] فتح القدیر، ج۲، ص۶۰۔
[62] ینابع المودة، ج۱، ص۱۱۹، باب۳۹۔
[63]المنار، ج۶، ص۴۶۳۔
[64]سورہٴ احزاب، آیت ۷۔
[65]سورہٴ ھود، آیت ۱۲۔
[66]سورہٴ یونس، آیت ۱۵۔
[67]سورہٴ احزاب، آیت ۳۷۔
[68]سورہٴ احزاب، آیت ۵۳۔
[69] تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۷۹۔
[70]درالمنثور، ج۳، ص۱۷؛ روح المعانی، ج۴، ص۲۹۰؛ فتح القدیر، ج۲، ص۶۱۔
[71] تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۱۷۳، ح۶۶۱۴۔
[72] تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۷۹۔
[73]اسباب النزول، سیوطی، ص۱۵۲؛ درالمنثور، ج۳، ص۱۱۹؛ تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۷۹۔
[74]عمدة القاری، ۸ج۱، ص۲۰۶؛ تفسیر المعالم التنزیل، بغوی، ج۲، ص۵۱؛ مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۴۸۔
[75] تفسیر مقاتل بن سلیمان، ج۱، ص۴۹۱تا ۴۹۲۔
[76]جامع البیان، طبری، ج۴، ص۳۰۷؛ معالم التنزیل، بغوی، ج۲، ص۵۱؛ تفسیر اسالٴة القرآن المجید و اجوبتھا، رازی، ص۷۴۔
[77]مفاتیح الغیب، ج۱۲، ص۵۰۔
[78]سورہ مائدہ، آیت ۶۸۔
[79]سورہ مائدہ، آیت ۶۴۔