سید توقیر عباس کاظمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ:
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على نبيه وآله الأئمة وأولياء الامة
دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کے درمیان نہایت خوبصورت رابطہ پایا جاتا ہے جسے مختلف جہتوں سے پرکھا جا سکتا ہے، کیونکہ:
دعوت ذوالعشیرہ سے دین کی ابتدا ہوئی اور غدیر پر دین کا اختتام ہوا، گویا دعوت ذوالعشیرہ اسلام کا سرچشمہ ہے اور غدیر اس سرچشمے کی انتہا ہے، دعوت ذوالعشیرہ تبلیغ رسالت کی بنیاد ہے اور غدیر اُس کا ماحصل ہے،
دعوت ذوالعشیرہ کیلئے وانذر عشیرتک الاقربین کاحکم ملا اور اعلان غدیر کیلئے یا ایها الرسول بلغ کا،
دعوت ذوالعشیرہ سے اسلام کے منصوبے کا آغاز ہوا اور غدیر پر یہ منصوبہ مکمل ہو گیا، گویا دعوت ذوالعشیرہ زنجیر اسلام کی پہلی کڑی ہے اور غدیر اس زنجیر کی آخری کڑی کا نام ہے،
دعوت ذوالعشیرہ اسلام کے آغاز کا نہایت حساس مرحلہ تھا اور غدیر، اسلام کی تکیل کا نہایت حساس مرحلہ قرار پایا،
دعوت ذوالعشیرہ مسلمانوں کی سرنوشت ساز داستان کی ابتداء ہے اور غدیر اس داستان کا آخری مرحلہ ہے،
مذکورہ تمام جملات دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کے باہمی ارتباط کے مختلف عناوین ہیں جنہیں مختلف جہتوں سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے، لیکن ہم مقالہ حاضر میں دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کو صرف اس جہت سے دیکھیں گے کہ:
“دعوت ذوالعشیرہ بعثت کے بعدپیغمبر اکرم (ص) کے پہلے وعدہ کا نام ہے اور غدیر اُس وعدہ کی وفا کا نام ہے”
چونکہ دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کے باہمی ارتباط کی اس جہت سے مکمل واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں تاریخی واقعات کا مختصر ذکر کیا جائے تا کہ ان کے درمیان موجود یہ خوبصورت رابطہ زیادہ نکھر کر سامنے آئے، لہذا ہم ابتداء میں ان دونوں واقعات کا مختصر ذکر کرتے ہوئے انکے درمیان موجود اس خوبصورت ارتباط کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
اس امید کے ساتھ کہ ہماری یہ تحریر غدیر کی بہتر وبیشتر معرفت اور صاحبِ غدیر امام زمانہ (ع) کی رضایت وخوشنودی کا سبب قرار پائے۔
دعوت ذوالعشیرہ کا مختصر تعارف:
پیغمبر اکرم کی بعثت کے اوائل میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: “)اے رسول( آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے (دعوت اسلام دیجئے ) ” ( )۔
اس آیت کے نزول کے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو بلایا اور فرمایا: [يا علي إن الله أمرني أن أنذر عشيرتي الاقربين فضقت بذلك ذرعا وعرفت أني متى أباديهم بهذا الامر أرى منهم ما أكره فصمت عليه حتى جاءني جبريل فقال يا محمد إنك إلا تفعل ما تؤمر به يعذبك ربكٓ] ( )
“اے علی ! اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے اقرباء کو ڈراؤں (اسلام کی دعوت دوں)۔۔۔۔”؛ پھر فرمایا : کچھ کھانے کا انتظام کرو تا کہ میں اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اُن سے کلام کروں اور اُن کو اللہ تعالی کا پیغام پہنچاؤں۔
حضرت علی(ع) نے رسول خدا (ص) کے حکم کے مطابق انتظام کیا اور بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے سب لوگوں کو دعوت دی ۔
امیرالمومنین (ع) نے بیان کیا: یہ لوگ تقریباً چالیس افراد تھے ( )، اور جب سب جمع ہو گئے تو رسول خدا (ص) نے مجھے دسترخوان بچھانے کو کہا، کھانا چنا گیا تو رسول خدا (ص) نے سب کو کھانے کی دعوت دی،کھانا کھلانے کے بعد جیسے ہی رسول اسلام ۖ پیغام سنانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے فوراََ لب کشائی شروع کی اور رسول خدا (ص) کو ساحر وجادوگر کہنے لگا، جس کے نتیجہ میں تمام لوگ اٹھ کر چلے گئے اور آپ ۖ لوگوںتک پیغام نہیں پہنچا سکے، دوسرے دن پھر دعوت دی لیکن پھر وہی نتیجہ ملا، تیسرے دن دعوت کی اور جب کھانے کے بعد ابو لہب نے کچھ کہنے کا ارادہ کیا تو فوراحضرت ابو طالب کھڑے ہوگئے اور ابو لہب کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ''اسکت یا اعور'' “اے کانے، خاموش ہو جا....”۔
پورے مجمع پر ایسی خاموشی چھاگئی کہ سوئی بھی گر جائے تو با قاعدہ آواز سنائی دے، تمام لوگ سروں کو جھکائے بیٹھ گئے اورسوچنے لگے کہ محمد بن عبداللہ(ص) کیا کہنے واے ہیں، وہ سب دریائے حیرت میں غرق، قلزم فکر میں غوطہ زن اور انگشت بدنداں تھے کہ حضرت ابو طالب(ع) نے رسول خدا (ص) سے فرمایا: ''قم یا سیدی ومولای'' “اے میرے سید وسردار آپ کھڑے ہوں اور جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں فرمائیں”، رسول خدا (ص)کھڑے ہوئے اور اسلام کی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: [يا بنى عبد المطلب إنى والله ما أعلم شابا في العرب جاء قومه بأفضل مما قد جئتكم به إنى قد جئتكم بخير الدنيا والآخرة وقد أمرنى الله تعالى أن أدعوكم إليه فأيكم يوازرني على هذا الامر على أن يكون أخى ووصيي وخليفتي فيكم] “اے بنی عبدالمطلب، خدا کی قسم میں پورے عرب میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اپنی قوم کیلئے مجھ سے بہتر پیغام لایا ہو، میں تمہارے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ہوں، اور اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خدا کی طرف بلاؤں، تم میں سے کون ہے جو اس سلسلہ میں میری نصرت کرے جبکہ وہی میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ وجانشین ہو گا” ( )۔
سب حاضرین خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا، لیکن حضرت علی (ع) ، جو اُسوقت سب سے چھوٹے تھے، اس سکوت کو توڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا: '' أنا يا نبى الله'' “یا رسول اللہ (ص) میں آپ کی نصرت کے لئے آمادہ ہوں”،
پھررسول خدا (ص) نے فرمایا:[إن هذا أخى ووصيي وخليفتي فيكم فاسمعوا له وأطيعوا] “جان لو کہ یہ علی میرا بھائی ، میرا وصی اور تمہارے درمیان میراخلیفہ وجانشین ہے، تم سب پر لازم ہے کہ اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو”( )۔
جب رسول خدا (ص) یہ اعلان کر چکے تو ابولہب اور دوسرے افراد حضرت ابوطالب (ع)سے مسخرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ گئے : [قد أمرك أن تسمع لابنك وتطيع]
“محمد ؐ نے تمہیں بھی حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اُس کی اطاعت کرو”۔
دعوت ذوالعشیرہ میں رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) کا ایکدوسرے سے وعدہ:
دعوت ذوالعشیرہ کے واقعہ میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دعوت حقیقت میں رسول خدا (ص) اور علی مرتضی (ع) کے دوطرفہ وعدہ کا نام ہے، اور یہی دوطرفہ وعدہ دعوت ذوالعشیرہ کا بنیادی نکتہ بھی ہے، یعنی حضرت علی (ع)نے دین کے سلسلہ میں رسول خدا (ص) کی نصرت کا وعدہ کیا اور رسول خدا (ص)نے حضرت علی(ع) کی خلافت وجانشینی کا وعدہ کیا۔
چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مومنین کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: “اپنے وعدوں کو پورا کرو کیونکہ وعدہ کے متعلق پوچھا جائے گا”( )؛ اس بنا پر یہ دیکھنا ہے کہ کیا دعوت ذوالعشیرہ میں کیے گئے وعدہ کو پورا کیا گیا یا نہیں؟، اور اگر یہ وعدہ پورا کیا گیا (اور یقینا پورا کیا گیا ہے) تو کس انداز سے؟ ۔
حضرت علی (ع) اور دعوت ذوالعشیرہ کے وعدہ کی وفا:
اگر فقہی اعتبار سے دیکھا جائے تو دعوت ذوالعشیرہ کے وقت حضرت علی (ع) کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں تھی، اور چونکہ فقہی لحاظ سے نابالغ بچے کیلئے وعدہ کی پاسداری کرنا ضروری نہیں ہے اس بنا پر اگر حضرت علی (ع) دعوت ذوالعشیرہ میں کیے ہوئے وعدہ کو پورا نہ کرتے جب بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دعوت ذوالعشیرہ کے دن حضرت علی (ع) نے رسول اکرم (ص)سے جو وعدہ کیا اسے پوری طرح نبھایا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کردینِ خدا کی مدد اور رسول اکرم(ص) کا مکمل دفاع کرنے کےساتھ ساتھ آپؐ کی بھر پور نصرت کی۔
چنانچہ وہ مکہ و طائف کی وادیوں میں سر پر پتھر کھانے کا موقع ہو یا شعب ابی طالب میں پیٹ پر پتھر باندھنے کا؛ شب ہجرت کا مرحلہ ہو یا جنگ بدر؛ احد کی جنگ ہو یا خندق و خیبر کا میدان؛ فتح مکہ کا واقعہ ہو یا غزوہ تبوک کا ؛
غرض یہ کہ جہاں بھی دین خدا اور رسول خدا(ص) کو حضرت علی (ع) کی مدد و نصرت کی ضرورت پیش آئی، امیرالمومنین ہر موقع پر نصرت کے لیے آگے بڑھےاور اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا و رسولؐ کی نصرت کیلئے وقف کر دیا۔
چنانچہ اگر ضرورت پڑی کہ عمروبن عبدود کا منہ بند کر دیا جائے تو بلاخوف و خطر اس طرح بڑھے جیسے عقاب اپنے شکار پرجھپٹتا ہے؛ اور اگر حکم ملا کہ جاؤ مرحب کو پچھاڑ کر قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑ دو تو بے درنگ آگے بڑھے اور شیر کی طرح مرحب پر لپکے اور اسے دو نیم کرنے کے بعد قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑکر رکھ دیا؛ اور اگر حکم ملا کہ اے علی (ع) تمہیں عورتوں اور بچوں کے پاس مدینہ میں ہی رہنا ہے تو بلا چون و چرا قبول کرلیا، اور حاسدوں اور منافقوں کے طعنے بھی برداشت کرتے رہے کہ رسول اللہ (ص) علی (ع) کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جارہے ہیں۔
غرض یہ کہ حضرت علی (ع) نے دعوت ذوالعشیرہ میں رسول خدا (ص) کے ساتھ کیے ہوئے اپنے وعدہ کو پورا کر دکھایا۔
واقعہ غدیر کا خلاصہ:
واقعہ غدیر فریقین کی بہت سی معتبر کتب میں ذکر ہوا ہے چنانچہ محققین کے مطابق صرف اہل سنت کی کتب میں رسول خدا(ص) کے ایک سو دس اصحاب سے یہ واقعہ نقل ہوا ہے( )، البتہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، بعض میں واقعہ کے ایک پہلو اور بعض میں کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنا نچہ واقعہ غدیر کے بارے میں روایات کا خلاصہ یہ ہے:
پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کا آخری سال تھا؛ “حجة الوداع”کے مراسم پیغمبر اکرم (ص)کی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، تو آپؐ نے حجاج کے قافلہ کو مدینہ کی طرف کوچ کا حکم دیا، اُسوقت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھیوں کی تعداد مختلف اقوال کی بنا پر ۹۰ہزار یا ایک لاکھ بارہ ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی جن میں نہ صرف مدینہ کے لوگ موجود تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی اس عظیم تاریخی اجتماع میں رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے۔
جب یہ قافلہ جحفه سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہنچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول خدا (ص) کو یہ پیغام پہنچایا “اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے”( )۔
جونہی اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام ملا تو پیغمبر اکرم(ص)نے سب کو ٹھہر نے کا حکم دیا، لہٰذا قافلہ کو رک گیا، جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے، ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ پیغمبر اکرم کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، موسم بہت گرم تھا حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے،رسول خدا (ص) کے لیے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا ۔
ظہر کی نمازادا کرنے کے بعد رسول خدا (ص)کے حکم کے مطابق اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،آپؐ اس منبر پر تشریف لے گئے،اور پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالانے کے بعد ایک طویل خطبہ کے ضمن میں یوں فرمایا:
میں عنقریب اللہ تعالی کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ہوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟
سب لو گوں نے بلند آواز میں کہا: “نشهد أنّک قد بلغتَ و نَصَحْتَ وَ جَاهدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰه خيرا” “ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے”۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟
سب نے کہا: کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا: اے لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟
انہوں نے کہا: جی ہاں۔
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا:دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یا رسول اللہ(ص) وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں؟
تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ٪ ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔
اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) کی آوازپہلے سے زیادہ بلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا: أيها النَّاس مَن اٴولیٰ النَّاسِ بالمومنينَ مِن أنفسهم “اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہے ؟”
اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررہبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررہبر ہوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ہے)۔
پھر لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور بلند آواز سے فرمایا:
مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَهذَا عَلِيّ مَولاہ “ جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا اوررہبر ہیں”۔
پیغمبر اکرم(ص)نے اس جملے کو تین یا چار مرتبہ تکرار کیا، اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی:
أللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَأحب مَنْ اٴحبهُ وَ أبغِضْ مَنْ أبغَضهُ وَانْصُر مَنْ نَصَرُهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ، وَاٴدرالحَقّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ “بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے”۔
اس کے بعد فرمایا: ألا فَلْيبَلِّغ الشَّاهدُ الغائبَ “تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کواُن لوگوں تک بھی پہنچائیں جو اِسوقت یہاں پر موجود نہیں ہیں ”۔
پیغمبراکرم(ص) کا خطبہ ختم ہوگیا ،ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی:( )
” آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے، تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے”۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ”اللّٰهُ أکبرُ اللّٰهُ أکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّينِ وَإتمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِي وَالوِلاٰيَة لِعَليّ مِنْ بَعْدِي“
”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“
رسول خدا(ص) کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک يا بن أبِي طالب أصبحتَ مولاي و مولا کُلّ مومن و مومنةٍ“( )
”مبارک ہو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رہبر ہوگئے”۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا۔
رسول خدا (ص) اور دعوت ذوالعشیرہ کے وعدہ کی وفا:
دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی (ع) نے رسول خدا (ص) سے نصرت کا جووعدہ کیا تھا وہ نبھا دیا اور رسول خدا (ص) کی زندگی کے آخری وقت تک ہر لمحہ میں آپؐ کی نصرت کرتے رہے،اسی طرح دعوت ذوالعشیرہ ہی میں رسول خدا (ص) نےبھی حضرت علی (ع) سے خلافت وجانشینی کا وعدہ کیا تھا( ) جسے نبھانا ضروری تھا، کیونکہ اگر نبیؐ اپنا وعدہ پورا نہ کرتے تو نبوت ورسالت پر حرف آسکتا تھا، اور تاریخ کا مؤرخ کہہ سکتا تھا کہ رسول ؐؐ اپنے ذوالعشیرہ کے وعدہ کو نہ نبھا سکے، اور پھر اسلام دشمن افراد اسی بات کو بہانہ بنا کر ہر دور میں نبوت ورسالت پر انگشت نمائی کرتے اور مسلمانوں کو طعنے دیتے کہ تمہارا نبی ؐ (نعوذ باللہ ) ایک بچے سے کیا ہوا وعدہ نہ نبھا سکا تو جنت وجہنم کے وعدے کیسے نبھائے گا؟!!!
خلاصہ یہ کہ اگر نبی ؐ اپنے وعدہ کو پورا نہ کرتے تو نبوت ورسالت پر اعتماد نہ رہتا، لسانِ وحی بے اعتبار ہو جاتی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ذوالعشیرہ کا وعدہ نبھانے کا حکم دیتے ہوئے نہایت سخت انداز میں ارشاد فرمایا:
“اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا اللہ تعالی کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے” ( )۔
اگر ہم ذوالعشیرہ کے واقعہ کو مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں بیان ہونے والی احادیث اور واقعہ غدیر سے متعلق تمام روایات سے ملا کر دیکھیں تو دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کا گہرا ارتباط سامنے آئےگا۔
کیونکہ غدیر کے مقام پر نازل ہونے والی مذکورہ آیت مبارکہ کا انداز اور اس کے الفاظ دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کے باہمی ارتباط کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
البتہ مذکورہ آیت کے ظاہری الفاظ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس آیت کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) کو ملنے والے حکم کی تین اہم خصوصیت ہیں:
۱: اسلامی نقطہ نظر سے اس پیغام کی ایک خاص اہمیت ہے ، کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) کو حکم دیا گیا ہے کہ اس پیغام کو پہنچادو، اور اگر اس کام کو انجام نہ دیا تو گویا اپنے پروردگار کی رسالت کو نہیں پہنچایا! دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ مسئلہ نبوت کی طرح اہم تھا ، کہ اگر اس کو انجام نہ دیا تو پیغمبر اکرم کی رسالت ناتمام رہ جاتی ہے “اور اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا اللہ تعالی کی رسالت کو نہیں پہنچایا”۔
آیت مبارکہ کے ظاہری الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جو رسالت و نبوت سے خاص ربط رکھتا ہے بلکہ نبوت ورسالت کے ہم پلہ ہے اسی لیے فرمایا: اگر یہ کام انجام نہ دیا تو تم نے رسالت کو ادا نہیں کیا۔
۲۔ یہ مسئلہ اسلامی تعلیمات جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد اور زکوٰة وغیرہ سے متعلق نہیں تھا کیونکہ یہ آیت سورہ مائدہ کی ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم (ص) پر سب سے آخر میں نازل ہوا ہے، (یا آخری سوروں میں سے ہے) یعنی پیغمبر اکرم(ص) کی عمر بابرکت کے آخری دنوں میں یہ سورہ نازل ہوا ہے جس وقت اسلام کے تمام اہم ارکان بیان ہوچکے تھے۔
۳۔ آیت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایک ایسا عظیم تھاجس کے مقابلہ میں بعض لوگ سخت قدم اٹھانے والے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر اکرم(ص) کی جان کو بھی خطرہ تھا، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنی خاص حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ اور خداوندعالم تم کولوگوں کے (احتمالی) خطرے سے محفوظ رکھے گا“۔
آیت کا یہ حصہ خود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بعض مخالف آنحضرت (ص) کے خلاف کوئی منفی قدم اٹھانے والے تھے۔
خلاصہ یہ کہ کلی طور پر مذکورہ آیت مبارکہ سے تین اہم سوال ذہنوں میں ابھرتے ہیں:
۱: آخر وہ کونسا کام ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے، اور اس کام کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟
۲: آیت مبارکہ میں تھدید آمیز انداز کیوں اختیار کیا گیا؟
۳: آیت مبارکہ میں کن لوگوں کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا؟
دعوت ذوالعشیرہ کے واقعہ کو مدنظر رکھنے سے مذکورہ سوالوں کے جوابات اچھی طرح واضح ہوجاتے ہیں:
۱: چونکہ دعوت ذوالعشیرہ میں رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) سے خلافت وجانشینی کا وعدہ کیا تھا ، لہذا اگر آپؐ حضرت علی(ع) کی خلافت وجانشینی کا اعلان نہ کرتے تو گویا آپؐ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور یہی بات نبوت ورسالت کے داغدار، اور پیغمبر اسلام (ص) کی زحمتوں کے اکارت ہو جانے کا سبب بن سکتی تھی چنانچہ اللہ تعالی نے اعلانِ غدیر کی صورت میں دعوت ذوالعشیرہ کے وعدہ کی پاسداری کو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر قرار دیا اور فرمایا: “اور اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا اللہ تعالی کی رسالت کو نہیں پہنچایا”۔
۲: دعوت ذوالعشیرہ کی پاسداری کے ذریعہ قیامت تک کیلئے نبوت ورسالت کے دامن کو وعدہ خلافی کے داغ سے محفوظ رکھنا مقصود تھا چنانچہ اللہ تعالی نے اس آیت میں تھدید آمیز انداز اختیار کیا، اور اعلانِ غدیر کی صورت میں دعوت ذوالعشیرہ کے وعدہ کی وفا کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا “اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو گویا اللہ تعالی کے پیغام کو نہیں پہنچایا....”۔
۳: جس طرح دعوت ذوالعشیرہ میں رسول خدا (ص) کی مخالفت ہوئی تھی ویسے ہی اعلانِ غدیر پر بھی رسول خدا (ص) کو لوگوں کی مخالفت کا ڈر تھا، اور اس مخالفت میں آپؐ کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا تھا، لیکن ذوالعشیرہ کے وعدہ کی بنا پر اعلانِ غدیر کی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تعالی نے رسول خدا(ص) کو لوگوں کے احتمالی خطرہ سے حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے فرمایا: ”اور اللہ تعالی آپؐ کولوگوں سے محفوظ رکھے گا“۔
اس بیان سے دعوت ذوالعشیرہ اور غدیر کا باہمی ارتباط واضح ہوتا ہے ، وہی خوبصورت رابطہ جسے شاعر نے ان دو مصرعوں میں سمیٹتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ؎
دعوت میں ذوالعشیرہ کی وعدہ کیا تھا جو
کس شان سے نبی نے نبھایا غدیر میں
والحمد لله الذي جعلنا من المتمسكين بولاية أمير المومنين علي بن أبي طالب
حوالہ جات: