تمام دانشمندوں كا اس بات پر اتفاق ہے كه قرآن مجید كے بعد نهج البلاغه فصاحت و بلاغت اور دیگر معارف كو اپنے دامن میں سمونے كے لحاظ سے اسكا اپنا خاص مقام ہے ـ نهج البلاغه" اخت القرآن "سے مشهور ہے ـ
رهبر معظم انقلاب حضرت آيت الله خامنهاي فرماتے ہیں: کافی عرصه سے همارا رابطه نهج البلاغه سے قطع تها آج جو فرصت همیں ملی ہے اس سے ان نقائص كو جبران كرنے كی كوشش كرنا چاهیے. [i]
نهج البلاغه میں بهت سے حقایق كو امیر كلام علیه السلام نے روشن كیا ہے اور اسے تشگان معرفت كے لیے پیش كیا ہے خلاصه یه كه نهج البلاغه كتاب حقیقت ہے انسان كو زندگی اور بندگی كرنے كا سلیقه سكھاتی ہے ـ
عظمت نهج البلاغه كے لیے اتنا كافی ہے كه كها جاتا ہے: «دون كلام خالق و فوق كلام مخلوق» لهذا یه كتاب اسی راه كی راهنمائی كرتی ہے جس كی خاطر قرآن نازل هوا تھا ـ
نهج البلاغه جس كی زبان مبارك سے صادر هوا ہے ان كے بارے میں اس نبی كا ارشاد ہے جن كی لب وحی كے بغیرجنبش نہیں كرتا ہے:«علي مع القرآن و القرآن مع علي لن يفترقا حتي يردا عليّ الحوض»[ii] ؛ علی علیه السلام حق كے ساتھ اور حق، علی علیه السلام كے ساتھ ہے اور یه دونوں قیامت تك ایك دوسرے سے جدا نہیں هوں گے یهاں تك كه میرے پاس حوض كوثر تك پهنج جائیں.
نهج البلاغه كی عظمت یه ہے جسے امام خمینی نے اپنی الٰهی وصیت نامه میں افتخار سے فرمایاہے:هم مفتخر ہیں كه نهج البلاغه جو قرآن كے بعد زندگی مادی اور معنوی كا دستور ہیں اور بشر كو آزادی دینے والی اوراس كےمعنوی اور حكومتی دستورات بالاترین راه نجات ہے وه همارے معصوم امام كی ہے ـ.[iii]
رهبر معظم انقلاب حضرت آيت الله خامنهاي فرماتے ہیں:آج كی شرائط امیر المؤمنین علیه السلام كی حكومت كی شرائط جیسی ہیں پس همارا زمانه نهج البلاغه كا زمانه ہے آج ممكن ہے امیرالمؤمنین علیه السلام كی دقیق اور عمیق فكر سے دنیا كی واقعیت اور معاشرے پر نظر كرےاوربهت سے حقائق كو دیكھے اور پهچانے اور ان كی علاج كرے لهذا آج هر زمانے كی نسبت هم نهج البلاغه كا محتاج ہیں ـ [iv]
شهيد مرتضي مطهري فرماتے ہیں كه: علی علیه السلام كے لیے ان كے فرامین هدف نہیں تھا بلكه وسیله تھا آپ یه نہیں چاهتے تھے كه كوئی ادبی شاهكار یا هنر كا مظاهره كرے ـ اس كے علاوه آپ كے خطبات كلی ہیں كسی زمان و مكان اور افراد كے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ان كا مخاطب انسان ہے یهی وجه آپ كے كلام محدودنہیں ہے ـ نهج البلاغه تمام جهات سے قرآن سے متأثر ہے بلكه حقیقت میں یه فرزند قرآن ہے .[v]
اس مختصر مقاله میں گنجائش نہیں ہے كه نهج البلاغه كی روشنی میں حضرت علی علیه السلام كی زبانی ان كی تمام اوصاف اور خصوصیات كو بیان كیا جائے اس كے لیے ایك بڑی كتاب كی ضرورت ہے لهذا هم یهاں یه كوشش كریں گے كه امیرالمؤمنین علیه السلام كی علمی مقام كو اختصارا ًنهج البلاغه كی روشنی میں زیر قلم لائے اور اس موضوع كی تیاری میں نهج البلاغه كے علاوه نهج البلاغه كےشروح اور اس سے مربوط دوسری كتابوں سے بھی استفاده كیا گیا ہے البته محور اصلی نهج البلاغه هی كو قرار دیا گیا ہے ـ
علي علیه السلام ، علي علیه السلام كي نظر میں
يهاں هم یه دیكھنا چاهتے ہیں كه حضرت علی علیه السلام نے اپنے بارے میں كیا فرمایا ہے تو يه سوال ذهن میں پیدا هوتا ہے كیاحضرت علی علیه السلام كوانهي كي زبانی معرفی كرنا معقول ہے؟كیونكه اس قسم كی تعریف همارے عرف میں قابل اعتبار نہیں ہے كیونكه هر انسان اپنے آپ كو ضرور دوست ركھتا ہے اپنی تعریف كرنا پسند كرتا ہے ـ
جواب ساده اور واضح ہے كیونكه اس قسم كے اشكالات عام لوگوں پر تو كیا جاسكتالیكن كسی معصوم كےبارےمیں یه اشكال قابل قبول نہیں ہے مگر خداوند عالم نے متعدد جگهوں پر اپنی تعریف نہیں كی ہے چوں خداوند صادق مطلق ہے وكمال مطلق ہے لهذا كوئي اشكال نہیں ہے كه وه اپنی تعریف كرےاور حضرت علی علیه السلام پیغمبر اسلام 1 كے بعد اس كائنات میں سب سے كامل اور عظیم كمالات كے مالك ہیں جس كے پیش نظر جو كلام آپ كی زبان مبارك سے صادر هوتا ہے وه صداقت پر مبنی هوتا ہے جیسا كه آپ نے فرمایا:«و الذي بعثه بالحق و اصطفاه علي الحق ما أنطق إلا صادقاً»[vi]؛اس خدا كی قسم جس نے پیغمبر اسلام1 كو مبعوث فرمایا ہے اور انہیں حق كے ساتھ چنا ہے میں سچ كے علاوه كچھ بولتا هی نہیں هوں.
اور آپ نے فرمایا: «فوالله الذي لا إله الا هو إني لعلي جادة الحق»[vii]؛قسم ہے اس خدا كی که اس كے علاوه كوئی اور خدا نهيں میں صرف راه حق پرهوں. بنابر این، حضرت كے علمی مقام كو بیان كرنے سے پهلے آپ كی كچھ خصوصیات كو نهج البلاغه كی روشنی میں بیان كرنا مناسب ہے:
عبادت میں اخلاص
حضرت علی علیه السلام نے عبادت الٰهی میں اخلاص كو یوں بیان فرمایا:«إلهي ما عبدتك خوفاً من عقابك و لا رغبة في ثوابك و لكن وجدتك اهلاً للعبادة فعبدتك»[viii]؛ خداوند ا!میں تیرے عذاب كے ڈر سے اور ثواب كے لالچ میں تیری عبادت نہیں كی ہے بلكه اگرتیری عبادت كي ہے تو تجھے لائق عبادت سمجھ كرـ
بصیرت علی علیه السلام
«و إنّ معي لبصيرتي ما لبست و علي نفسي و ما لُبس عليّ»[ix]؛میں ایسی بصیرت كا مالك هوں كه نه كسی حقیقت كو مشبته پایا ہے اور نه كوئی چیز مجھ پرمشتبه هوئی ـ
عدالت علی علیه السلام
«والله لو اعطيت الاقاليم السبعة بما تحت افلاكها علي ان اعصي الله في غلة اسلبها جلبَ ما فَعَلْتُ»[x]؛ خدا كی قسم!اگر مجھے هفت اقلیم كی حكومت تمام زیر آسمان دولتوں كے ساتھ دے دی جائے مجھ سے يه مطالبه كیا جائے میں كسی چیونٹی پر اس قدر ظلم كرؤں اس كے منه سےاس چھلكے كو چھین لوں جو وه چبا رهی ہے تو هرگز ایسا نہیں كرسكتا هوں ـ
علي علیه السلام خدا كي پناه میں
«و أنّ عليّ من الله جنّة حصينة فإذا جاء يومي انفرجت عنّي و اسلمتني فحينئذ لايطيش السهم و لايبرء الكلم»[xi]؛ یاد ركھو میرے لیے خدا كیطرف سے ایك مظبوط ومستحكم سپر ہے اس كے جب میرا دن آجائے گا تو یه سپر مجھ سے الگ هو جائے گی اور مجھے موت كے حوالے كردے گی اس وقت نه تیر خطا كرے گا اور نه زخم مندمل هوسكےگا ـ
دنیا شناسی علی
«أنا كابُّ الدنيا لوجهها و قادرها بقَدِرها و ناظرها بعينها»[xii]؛ميں نے اس فریبكار دنیا كو اسی پر چھوڑ دیا ہے اور اسی كے حساب سے محاسبه كیا ہے اور اسے اسی نگاه سے دیكھتا هوں جسكا وه شایسته ہے ـ
حضرت علی علیه السلام نے كسی شخص كو دنیا كی مذمت كرتے هوا سنا تو اس كو سمجھاتے هوا فرمایا:
«انّ الدنيا دار صدق لمن صدقها و دار عافية لمن عرِفها و دار غني لمن تزوّد عنها و دار موعظة لمن اتّعظ بها مسجد احباء الله و مصلي ملائكة الله و مهبط الوحي الله و متجر اولياء الله»[xiii]؛ یاد ركھودنیا باور كرنے والے كےلئے سچائے كا كھر ہے اور سمجھ دار كے لئے امن وعافیت كی منزل ہے اور نصیحت حاصل كرنے والے لئے نصیحت كا مقام ہے یه دوستان خدا كے سجود كی منزل اور ملائكه آسمان كا مصلیٰ ہے یہیں پر وحی الٰهی كا نزول هوتا ہےاور یہیں اولیا خدا آخرت كے لیے سودا كرتے ہیں ـ
قول وعمل میں یكسانی
«ايها الناس إنّي وا لله ما احثّكم علي طاعة إلا اسبقكم اليها و لا انهاكم عن معصية إلا أتناهي قبلكم عنها»[xiv]؛لوگو! خدا گواه ہے تمہیں كسی اطاعت پرآماده نہیں كرتا هوں مگر پهلے خود سبقت كرتاهوں اور كسی معصیت سے نہیں روكتا هوں مگر یه پهلے خود اس سے باز رهتا هوں.ـ
لوگوں كےغم میں شريك
«أأقنع من نفسي أن يقال لي امير المؤمنين و لا اشاركهم في مكاره الدهر أو أكون أسوة لهم في جشوبة العيش فما خلقت ليشغلني أكل الطيبات كالبهيمة المربوطة همها علفها ، أو المرسلة شغلهاتقممها… ».[xv]؛ كیا میرا نفس میرا نفس اس بات سے مطمئن هوسكتا ہے مجھے امیر المؤمنین كها جائے اور میں زمانے كے ناخوشگوارحالات میں مؤمنین كا شریك حال نه بنوں اور معمولی غذا كے استعمال میں ان كے واسطه نمونه پیش نه كرسكوں میں اس لیے نو نہیں پیدا كیا گیا هوں مجھے بهترین كھانے میں مشغول كرلے اور میں جانورںوں كے مانند هوجاؤں كه وه بندھے هوتے ہیں تو كل مقصد چاره هوتا ہے اور … انہیں اس كی فكر نہیں هوتی ہے ان كا مقصد كیا ہے ـ
شجاعت علی علیه السلام
والله لو تظاهرت العرب علی قتالي لما وليت عنها ، ولو أمكنت الفرص من رقابها لسارعت إليها ، وسأجهد في أن أطهر الارض من هذا الشخص المعكوس والجسم المركوس حتی تخرج المدرة من بين حب الحصيد؛ خداكی قسم تمام عرب مجھ سے جنگ كرنے پراتفاق كرلیں تو بھی میں میدان سےمنه نہیں پھیر سكتا اور اگر مجھے ذره بھر موقع مل جائے تو میں ان كی گردنیں اڑادوں گا اور اس بات كی كوشش كروں گا كه زمین كو اس الٹی كھوپڑی اور بے هنگم ڈیل ڈول والے سے پاك كردوں تاكه كھلیاں كے دانوں میں سے كنكر پتھر نكل جائیں ـ [xvi]
امام مأمون میں وظیفه كی تعیین
«ايها الناس إنّي لي عليكم حقّاً و لكم عليّ حقٌ فأمّا حقكم عليّ فالنصيحة لكم و توفير فيئكم عليكم و تعليمكم كيلا تجهلوا و تأديبكم كيما تعلموا و أمّا حقي عليكم فالوفاء بالبيعة و النصيحة في المشهد و المغيب و الاجابة حين ادعوكم و الطاعة حين امركم»[xvii]؛ اے لوگو!یقینا ایك حق میرا تمهارے ذمه ہے اور ایك حق تمهارا حق میرے ذمه ہے ـ تمهارا حق میرے ذمه یه ہے كه تمہیں نصیحت كروں اور بیت المال كا مال تمهارے حواله كردوں اور تمہیں تعلیم دوں تاكه تم جاهل نه ره جاؤ اور ادب سكھاؤں تاكه با عمل هوجاؤـ اور میرا حق تمهارے اوپر یه ہے كه بیعت كا حق ادا كرو اور حاضر و غائب هر حال میں خیر خواه هوـ جب پكاروں تو لبیك كهو اور جب حكم دوں تو اطاعت كروـ
حكومت خدا كے لئے
«و لم تكن بيعتكم إيّاي فلتة و ليس امركم واحداً إنّي اريد بكم الله و أنتم تريدوني لانفسكم»[xviii]؛میرے هاتھوں پر تمهاری بیعت كوئی ناگهانی حادثه نہیں ہے اور میر اور تمهارا معامله ایك بھی نہیں ہے میں تمہیں الله كے لیے چاهتا هوں اور اور تم مجھے اپنے فایده كے لیے چاهتے..
زکاوت علی علیه السلام
والله ما معاوية بأدهي منّي و لكنّه يغدر و يفجر و لولا كراهية الغدر لكنت من ادهي الناس و لكن كل غدرة فجره و لكل فجرة كفره و لكل غادر لواء يعرف به يوم القيامه».[xix]؛خدا كی قسم !معاویه مجھ سے زیاده هوشیار نہیں ہے لیكن وه مكر وفریب اور فسق وفجوركا مرتكب هوتا ہے اور اگر یه چیز مجھے ناپسند نه هوتي تو مجھ سے زیاده هوشیار كوئی اور نه هوتا لیكن مكر وفریب گناه ہے اور گناه پروردگار كی نا فرمانی ہے اورهر غدار كے هاتھ میں قیامت كے دن ایك جنڈا دیا جائے گا جس سے محشر میں اسے پهچانا جائےگا ـ
نهج البلاغه ميں حضرت علی علیه السلام كا علمی مقام
شخصیت انسان كی پهچان اور بالاترین كمال علم ہےلهذا علم كی اهمیت كے پیش نظر وحی الٰهی كے آغاز "علم الانسان مالايعلم "نازل كركے خدوند متعال انسانوں كو علم كی عظیم نعمت سے آگاه كیا ـ هم اس مختصر مقاله میں حضرت علی كے علمی مقام كو انهی كی زبانی بیان كرنے كی كوشش كریں گے ـ علم كے میدان میں علی وه تنها شهسوار ہے كه جس كی زبان سے تاریخ انسانیت میں وه كلمات جاری هوئے جسے سنكر دنیا كے دانشمندان اور ماهرین علم انگشت به دندان هوكر ره جاتے ہیں اس كائنات میں صرف علی كی شخصیت ہے جس نے `وری تاریخ بشریت میں یه دعوی كیا هو كه جو كچھ پوچھنا هو مجھ سے پوچھو!
دانشِ علي
«ينحدر عنّي السيل و لايرقي اليّ الطير»[xx] ؛"علم كا سیلاب میری ذات سے گذر كرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تك كسی كا طائر فكربھی پرواز نہیں كرسكتا ہے"
یه دو وصف ، جسےامیركلام نے بیان فرمایا ہے دو قسم كے استعارے هيں كه سیل كا جریان بلندی اور پهاڑكي چونٹی سے هوتا ہے اور امام نے اپنے علمی مقام اور اس كی بلندی كو اس سیلاب سے تشبيه دیاہے كه جب وه بلندی سے جاری هوتا ہے تو هر چیز پر غالب آجاتا ہے اور اس كا مقابله كرنےسے هركوئی بے بس هوجاتا ہے شایدآپ كا یه فرمانا چاهتےہیں كه علم كي ابتدا اور اس كي انتها علی سے هی هوتي ہے ـ
اور حضرت علی علیه السلام كي علمی بلندی تك كوئی بلند سے بالا اڑوھنے والا پرنده اپنا پر اس تك چھو نہیں سكتا یه جمله، پهلے جمله سے دقیق تر ہے كیونكه ممكن ہے سیلاب آنے كا مقام كتنا بلند هی كیوں نه هو پرنده وهاں جاسكتا ہے لیكن یه هر كسی كی بس كی بات نہیں ہے كه جس بلندی تك پرنده پرواز كرسكتا ہے وهاں تك كسی انسان كی پهنچ ممكن هو.[xxi]
بينش علي علیه السلام
«و إن معي لبصيرتي ما لبست علي نفس و لا لُبّس علَيَّ»[xxii]؛ میں ایسی بصیرت كا مالك هوں كه نه كسی حقیقت كو مشبته پایا ہے اور نه كوئی چیز مجھ پرمشتبه هوئی ـ
يعني كسی وقت بھی نفس آماره مجھ پر غالب نہیں آیا ہے یا شیطان اور اس كے كسی لشكر مجھ پر مسلط هونے كی جرأت نه كر سكا ہے
یهاں پر مولا نے اهم صفت كو بیان كیا ہے:
1ـ كمال عقل؛علی كی عقل اپنے كمال پهنچی هوئی تھی جسكی روشنی میں كبھی بھی علی پر كوئی چیز مشتبه نہیں هوتی تھیـ
2- اور شیطان خبیث كے مكر وحیلوں كے سامنے تسليم نه هونا كیونكه علی علیه السلام خود مجسمه حق ہے پھر حق كا باطل كے ساتھ ملتبس هونے كا كوئی معنی نہیں ہے :«الحق مع علي و علي مع الحق».
علي علیه السلام اور اسلام شناسي
«لانسبَنّ الاسلام نسبتةً لم ينسبها احد قبلي: الاسلام هو التسليم و التسليم هو اليقين و اليقين هو التصديق والتصديق هو الاقرار و الاقرار هو الاداء و الاداء هو العمل»[xxiii] ؛ ميں اسلام كي وه تعريف كررها هوں كه مجھ سے پهلے كسی نے ایسی تعریف نہیں كی ہے ـ اسلام سپردگی ہے اور سپردگی یقین، یقین تصدیق ہے اور تصدیق اقرار اوراقرار ادائے فرض عملـ
يه قياس،قياس مفصول سے بنا ہے یعنی چند قیاس سے مركب هوا ہے اور ان كے نتیجے ایك دوسرے كے ساتھ ضمیمه هوئے ہیں اور اس كا نتیجه وهی قیاس اول ہے كه اسلام اسی جاننے كا نام ہے دوسرا یه كه جاننا وهی قبول كرنا ہے قبول كرنا وهی اقرار كرنا ہے اسكا نتیجه یه ہے اقرار عمل كو انجام دینا ہے اور پانچویں نمبر پر لازم ملزوم ایك واضح امر ہے ان تمام قیاسوں سے یه نتیجه اخذ كیا جاسكتا ہے كه فرمان الهٰی كے مطابق عمل كرنے كا نام اسلام ہے ۔[xxiv]
علي علیه السلام كے لا متناهی علم
«فأسلوني قبل أن تفقدوني فوالذي نفسي بيده لاتسألوني عن شئ فيما بينكم و بين الساعة و لا عن فئة تهدي مئة و تضل مئة الا أنبأتكم و بناعتها و قائدها و سألقها و مناخ ركابها و محط رحالها و من يقتل من اهلها قتلاً و من يموت و منهم موتاً و لو فقدتموني و نزلَتْ بكم كرائه الامور و حوازب الخطوب لا طرق كثير من السائلين و فشل كثير من المسؤولين و...».[xxv]؛ اب تم مجھ سے جو كچھ پوچھنا چاهو پوچھ لو اس سے قبل كه میں تمهارے درمیان نه ره جاؤں ۔ اس پروردگار كی قسم جس كے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم اب سے قیامت تك كے درمیان جس چیز كے بارے میں سوال كرو گے اور جس گروه كے بارے میں دریافت كروگے اور جو سو افراد كو هدایت دے اور سو كو گمراه كردے گاتو میں اس كے للكارنے والے ـ كھینچنے والے ـ هنكانے والے ـ سواریوں كے قیام كی منزلـ سامانان اتارنے كی جگه ـ كون ان میں قتل كیا جائے گا ـ كون اپنی موت سے مرے گا ـ سب بتادوں گا حالانكه اگر یه بدترین حالات اور سخت ترین مشكلات میرے بعد پیش آئے تو دریافت كرنے والا بھی پریشانی سے سر جھكا لے گا اور جس سے دریافت كیا جائے گا وه بھی بتانے سے عاجز رہے گا ـ
تمام مؤرخین اور صاحب نظروں نے اعتراف كیا ہیں اسلام كی طول تاریخ میں علی علیه السلام كے علاوه هر سوال كا جواب دینے والا نہیں ملا ہے۔ [xxvi]
ابن ابی الحدید كا كهنا ہے كه وه خبریں جس كے بارے میں حضرت علی علیه السلام نےخبر دی ہے هم نے اسے حقیقت كے عین مطابق پایا ہے اسی لیے هم استدلال كرسكتے ہیں كه علی علیه السلام نے جو كچھ كها ہے وه سچ اور حقیقت پر مبنی ہے اس كے علاوه اور كچھ نہیں ہے[xxvii]
ابن ابی الحدید نے علی علیه السلام كے علم غیب كی خبروں سے آگاه كرنے كے سلسلے میں دسیوں مثالیں نقل كیا ہے كه اگر كوئی تفصیل كے متمنی ہے تو ان كی شرح نهج البلاغه خطبه نمبر92 اور 93 كے ذیل میں ملاحظه كرسكتے ہیں ـ
اسی طرح امیرالمؤمنین(علیه السلام)خطبه نمبر 189 میں فرماتے ہیں:
«ايها الناس سلوني قبل ان تفقدوني فلاَنا بطرق السماء اعلم منّي بطرق الارض قبل أن تشغر برجلها فتنة تطأُ في خطامها و تذهبُ باحلام قومها».[xxviii] ؛ اے لوگو !جو چاهو مجھ سے دریافت كرلو قبل اس كے كه مجھے نه پاؤـ میں آسمان كے راستوں كو زمین كی راهوں سے بهتر جانتا هوں ـ مجھ سے دریافت كرلو قبل اس كے كه وه فتنه اپنے پیر اٹھالے جو اپنی مهار كو بھی پیروں تلے روندنے والا ہے اور جس سے قوم كی عقلوں كے زوال كا اندیشه ہے ـ
علي علیه السلام بيپايان علوم كے مالك
«و الله لو شئت أن أخبر كل رجل منكم لمخرجه و مولجه و جميع شأنه لفعلتُ و لكن اخافُ أن تكفروا فِيَّ برسول الله عص) إلا و أنّي مفضيه الي الخاصة ممّن يؤمنُ ذلك منه و الذي بعثه بالحق و اصطفاه علي الخلق ما انطق إلا صادقاً و قد عهد إليّ بذلك كله و بمهلك من يهلك و منجي من ينجو و مآل هذا الامر و ما بقي شيئاً يمرّ علي رأسي إلا افرغه في اُذني و افضي به اِلَيَّ»[xxix] ؛ خدا كی قسم! اگر میں چاهوں تو تم میں سے هر ایك كی زندگی كےتمام مراحل كے آغاز اور انجام بتاسكتا هوں لیكن مجھے ڈر ہے كه اس قسم كی خبروں سے تم لوگ رسول خدا1 كی نسبت كفر كی منزل تك نه پهنچ جائے آگاه رهو میں اس قسم كے اسرار كو اس كے اهل اور میرے مورد اعتماد افراد كے سپرد كرتا هوں ۔ اس خدا كی قسم جس نے محمد1 كو مبعوث اور اسے چنا ہے سچ كے علاوه كچھ نهيں كهوں گا پیغمر اسلام نے تمام علوم كو میرے سپرد كیا ہے جن افراد نے هلاك هونا ہیں اور كن لوگوں نے نجات پانا ہیں اور اس حكومت كا پایان كب ہے سب كو مجھے خبر دی ہے كوئی بھی حادثه واقع هونا ہے سبھی كو مجھے آگاه كیا ہیں ـ
علي علیه السلام علوم قرآن كے استاد
«أين الذين زعموا أنهم الرّاسخون في العلم دوننا كذباً و بغياً علينا ان رفضنا الله و وضعهم و اعطانا و حرمهم و ادخلنا و اخرجهم بنا يستعطي الهدي و يُستجلّي العمي...»[xxx]؛ كهاں ہیں وه لوگ جن كا خیال یه ہے همارے بجائے راسخون فی العلم وه لوگ ہیں یه خیال صرف جھوٹ اور همارے خلاف بغاوت سے پیدا هوا ہے كه خدا نے همیں بلند كياہے اور انہیں پست ركھا ہے ۔ همیں كمالات عنایت سے نوازا ہے اور انہیں محروم ركھا ہے همیں اپنی رحمت میں داخل اور انہیں باهر ركھا ہے همارے هی ذریعه سے هدایت طلب كیجاتی ہے اور اندھیروں میں روشنی حاصل كی جاتی ہے ـ
افسوس اور تعجب كی بات یه ہے كه علم وبصيرت كے عظیم اور بالاترین مرتبه پر علی علیه السلام فائز هو لوگوں كے در ميان زندگی كرے لیكن علی (علیه السلام) كو كوئی نه پهچان سكااگر علی علیه السلام ساتھ رهنے والے علمی معرفت ركھتے تو علی علیه السلام سے وه سوالات كرتے جسكا ثمر رهتی دنیا تك بشر كو ملتا رہےجیسا كه ایك مسیحی دانشمند نے كها تھا اگر میں اس زمانے میں هوتا علی علیه السلام سے اس قدر سوال كرتا كه آج دنیا اس سے استفاده كرلیتی !
لیكن اس زمانے كے لوگوں نے علی (علیه السلام)كو اس قدر ستایاكه آپ نے ان سے تنگ آكرموت كی تمنا كی اور ان لوگوں پر حجّاج، معاويه، عمرو عاصو ابن زياد جیسے لوگ مسلط هوگئے جیساكه امير المؤمنين(علیه السلام) فرماتے ہیں:
«أما والله لَيُسلّطَنّ عليكم غلام ثقيف الذَّيال الصيّال، يأكل خضرتكم و يذيب شحمتكم»[xxxi]؛ آگاه رهو خدا كی قسم ثقیف كا ایك شخص عحجاج بن يوسف) تم لوكوں پر مسلط هو گا جو هواپرست، متكبر اور ظالم ہے كه اس قدر تم لوگوں پر ظلم كرے گا تمهارے سب چیزوں كو لوٹ لے گا اور تم لوگوں كو كمزور بنادےگا ۔
اسی طرح علی (علیه السلام) نے نهج البلاغه كے مختلف موارد پر لوگوں كے آينده كی خبر دی ہے یه سارے كے سارے تحقق پائی ہیں ـ یهاں بعض پیشنگوئیوں كی طرف اشاره كرنا مناسب ہے:
حضرت علي علیه السلام كے آینده كے بارے میں پیشنگوئیاں
بصره كے بارے میں آپ كی پیشنگوئی
«كأني بمسجدكم كجؤجؤ سفينة قد بعث الله عليها العذاب من فوقها و من تحتها و غرق من في ضمنها؛ میں تمهاری اس مسجد كو اس طرح سے دیكھ رها هوں جیسے كشتی كا سینه ـ جب خدا تمهاری زمین پر اوپر اور نیچے هر طرف سے عذاب بھیجےگا اور سارے اهل شهر غرق هوجائیں گے۔
كسی اور روایت میں نقل هواہے:و ايم الله لتغرقنّ بلدتكم حتي كأني انظر إلي مسجدها كجؤجؤ سيفينة او نعامة جاثمة...»[xxxii] ؛
خدا كی قسم تمهارا شهر غرق هونے والا ہے یهاں تك كه گویا میں اس كی مسجد كو ایك كشتی كے سینه كی طرح یا بیٹھے هوئے شتر مرغ كی شكل میں دیكھ رها هوں
امیر المؤمنین علیه السلام نے اس خبر كو بصره والوں كو دیا ہے نقل هوا ہے بصره دوبار غرق هوا ہے ایك دفعه القادر بالله كے زمانے میں اور ایك دفعه قائم بالله كے زمانے میں جو كچھ اس شهر میں تھا غرق هوا جیساكه مولا نے خبر دی تھی صرف شهر كی جاع مسجد كے بالائی حصه مرغ كے سینه كی طرح مشاهده هورها تھا .[xxxiii]
كسی اور جگه پر آپ نے فرمایا:
«يا احنف، كأنّي به و قد سار بالجيش الذي لا يكون له غبار و لا لجب و لا قعقة لُجُم و لا صمحة خيل، يثيرون الارض بأقدامهم كأنها اقدام النعام»؛ اے احنف![xxxiv] گويا میں اسے دیكھ رها هوں ایك لشكر كے ساتھ بغیر كسی گرد وغبار اور كسی شور وشرابه كے بغیر چلے ہیں اور زمین كو اپنے پاؤں تلے اس طرح روند رہے ہیں جس طرح گھوڑے شترمرغ كو كچلتے ہیں ـ
سيد رضي كا فرمانا ہیں:یه اشاره صاحب زنج كی طرف ہے جسے ابن ابي الحديد نے اسی خطبه كے ذیل میں اس كی حالت زندگی كو تفصیل كے ساتھ بیان كیا ہیں.[xxxv]
اس کے بعد حضرت علي علیه السلام اهل بصره كے حالات كی طرف اشاره كركےفرمايا:
«ويل لسكككم العامرة والدُّور المزخرفة لها اجنحة كأجنحة النُسوروخراطيم كخراطيم الفيلة من اولئك الذين لايندب قتيلُهم ولا يفقد عائبهم أنا كابُّ الدنيا لوجهها و قادرها بقدرها و ناظرها بعينها».[xxxvi]؛ افسوس هو تمهاری آباد گلیوں اوران سجے سجائے كے حال پر جن كے چھجے گدٍوں كے اور هاتھیوں كے سونڈ كے مانند ہیں ان لوگوں كی طرف سے جن كے مقتول پر گریه نہیں كیا جاتا ہے اور ان كے غائب كو تلاش نہیں كیا جاتا ہے میں دنیا كو منھ كے بل اوندھا كردینے والا اور ان كے صحیح اوقات كا جاننے والا اور اس كی حالت كو اس كے شایان شان نگاه سے دیكھنے والا هوں.
كوفه كے آینده حالات كےبارے میں تجزیه
امير المؤمنين علیه السلام نےنهج البلاغه كے مختلف مقامات پركوفيوں كی شكست كےعلل، كوفه والوں كی مذمت اور دوسرے موضوعات پر خطبے دئیے ہے هم یهاں پر ایك موردكونمونه كے طور پر بیان كریں گے:
«كأنّي يا كوفة تمدّين مدّ الاديم العكاظي تعركين بالنوازل و تركبين بالزلازل و إنّي لا علم أنه ما راد بك حبّار سوءاً الا ابتلاه بشاغلٍ و رماه بقاتل»[xxxvii] ؛اے كوفه!جیسے كه میں دیكھ رها هوں تجھے بازار عكاظ كے چمڑے كی طرح كھینچا جارها ہے ـ تجھ پر حوادث كے حملے هورہے ہیں اور تجھے زلزلوں كا مركب بنادیا گیا ہے اور مجھے یه معلوم ہے كه جو ظالم وجابر بھی تیرے ساتھ كوئی برائی كرنا چاہے گا پروردگار اسے كسی نه كسی مصیبت میں مبتلا كردے گا اور اسے كسی قاتل كی زد پر لے آئے گا۔
حضرت امير المؤمنین علیه السلام نے ان جملات میں آینده واقع هونے والے دو حوادث كے بارے میں خبر دیا ہے:
ان میں سےايك كوفه والوں پر كیا مصیبت آئے گی دوسرے يه ہے جو افراد كوفه والوں پر ستم كرے گا ان كی عاقبت كیا هوگی .
كوفه والے جن مصیبتوں میں گرفتار هوئے وه بهت زیاده ہیں كه اس كی تفصیل تاریخی كتابوں میں آئی ہے اما وه ستمگر جس نے كوفه والوں كو ظلم وستم سے دچار كردیا اس كے نتیجے میں خداوند عالم كا عذاب ان ككا دامن گیر هوا وه بھی تاریخ میں روشن ہے ان میں سے بعض افراد جو عذاب الٰهی سے دچار هوئے وه یه ہیں:
1- زياد بن ابيه: نقل هوا ہے زیاد بن ابیه نے لوگوں كو مسجد كوفه میں جمع كركے حكم دیا كه علی علیه السلام كو نا سزا دے دیں اور ان سے بیزاری كا اظهار كریں وه چاهتا تھا جو بھی اس كے حكم سے سر پیچی كرے اسے قتل كرڈالے جب لوگ مسجد میں جمع هوئے زیاد كا دربان لوگوں كے درمیان آیا اور سب سے كها مسجد سے نكل جاؤ كیونكه اسی وقت زیاد فلج سے دچار هوا ہے ـ
2- عبدالله بن زياد: جذام كي بيماري ميں مبتلا هوا.
3- حجاج بن يوسف ثقفي: اس كا پیٹ كیڑوں سے بھر گیا اور كیڑوں كی اذیت سے افاقه كی خاطر اس كے مقعد كو گرم كیا جاتا تھا اوروه اسی حالت میں مرگیا ـ
4- عمر بن هبير اور اس كا بیٹا: يه دونوں پيسي كی بیماری میں گرفتار هوئے ـ
5- خالد:یه شخص بیحد مار كھانے كے بعد زندانی هوا اور زندان میں بھوكھا مرگیا۔[xxxviii]
خوارج کی عاقبت كےبارے میں خبر
خوارج وه گروه ہے:
الف:امير المؤمنين علیه السلام كے خلاف خروج كیا اور حكمیت كے مسئله میں اختلاف كیا ـ
ب:صفین میں جیتی جنگ ان كی وجه سے شكست میں بدل گئیـ
ج: ابو موسیٰ كو حكم بنانے میں ان كا بڑا كردار تھا ـ
د: حكمیت كے بعد توبه نه كرنے پر حضرت علی علیه السلام پر كفر كا فتویٰ لگادیا ـ
ھ: آپ كے خلاف جنگ نهروان برپا كردیا ـ
و: اور آخر كار انهی كے هاتھوں آپ شهید هوئے ـ
اب اس گروه كے بارے میں آپ كے پیشنگوئی كے چند جملات ملاحظه فرمائے:
«اصابكم حاصبٌ و لا بقي منكم آثر عآبرٌ) ابعد ايماني بالله و جهادي مع رسول الله اشهد علي نفسي بالكفر «لقد ضللت إذاً و ما أنا من المهتدين!» فَأُوبوا شرّ مآب و ارجعوا علي أثر إلا عقاب أما انّكم ستلقون بعدي ذُلّاً شاملاً و سيفاً قاطعاً و اثرة يتخذها الظالمون فيكم سنّة»[xxxix]؛ خدا كرے تم پر سخت آندھیاں آئیں اور كوئی تمهارے كام كی اصلاح كرنے والا نه ره جائے ـ كیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اكرم 1كے ساتھ جهاد كرنے كے بعد اپنے بارے میں كفركا اعلان كردوں ؟ ایسا كروں گا تو میں گمراه هوجاؤں گا اور هدایت یافته لوگوں میں نہیں هوں گا۔ اپنی بدترین منزل كی طرف جاؤ پلٹ جاؤ اور اپنے نشانات قدم پرواپس چلے جاؤ ۔ مگر آگاه رهوكه میرے بعد تمہیں همه گیر ذلت اور كاٹنے والی تلوار كا سامنا كرنا هوگا اور اس طریقه كار كا مقابله كرنا هوگا جسے ظالام تمهارے بارے میں اپنی سنت پالیں گے یعنی هر چیز كو اپنے لیے كرلینا ـ
«آبر» كے بارے میں سيد رضي عره) تین احتمال دیا ہے:
الف: «آبر» وه شخص جو درخت خرمه كو كانٹ چھانٹ كر اس كی اصلاح كرے ـ
ب: «آثِرٌ» یعنی روایت كرنے والا ـ یعنی تمهاری خبر دینے والا بھی كوئے ره نه جائے گا ـ ع یهی زیاده مناسب ہے)
ج: «آبزٌ» كودنے والا یا هلاك هونے والا كه مزید هلاكت كے لیے بھی كوئی ره نه جائے ـ
حضرت اس نوراني كلام ميں خوارج پر آنے والی ذلت و خواری كی خبر دی ہے كه ان پر كیا كیا مصائب اور مشكلات آنے والے ہیں اور یه كنایه تھا ان مشكلات اور ذلت و خواری كی طرف جو مهلّب بن ابي صُفره كے هاتھوں ان پر پڑی یه خبر آپ نے اس لئے ان كوقبل از وقت دی تھی كه وه لوگ حق كی طرف پلٹ آئے اور دوسروں كی فریب كاریوں میں گرفتار نه هوجائے ـ
حضرت علي علیه السلام كا نفرين تحقق پایا كه حضرت كی شهادت كے بعد وه لوگ بے رحمانه طریقے سے مارے گئے اور ان میں سے كوئی باقی نه رها خدوند عالم نے سب كو نیست ونابود كردیا ـ .[xl]
خوارج كی قتلگاه كي خبر
«مصارعهم دون النطفة[xli] و الله لايفلتُ منهم عشرةُ و لايهلك منكم عشرة»[xlii]؛ ان كي قتلگاه دريا كی اس طرف ہے خدا كی قسم! نه ان میں سے دس باقی بچیں گے اور نه تمهارے دس هلاك هوں گے!.
ابن ابي الحديد كا كهنا ہے: يه خبر ان خبروں میں سے ہے جو بهت مشهور عام لوگوں تك نے اسے نقل كیاہیں اور تواتر كے حد تك پهنچی ہے اور یه حضرت علی علیه السلام كے معجزات اور آپ كی غیبی خبروں میں سےہے ـ اور يه ان اخباروں میں سے ہے جسے علی علیه السلام نے رسول خدا 1 سے سیكھا ہے اور پیغمبر 1 نے خداوند عالم سے حاصل كیا ہے اور بشر كی معمولی قدرت اس قسم كے علم سے عاجز ہے اور یه علم علی كے ساتھ مخصوص ہے دوسرے افراد ان موارد سے محروم ہیں ـ اس قسم كے معجزات جو عام لوگوں كی قدرت كے ساتھ منافات ہیں جب لوگوں نے علی علیه السلام كے اندر یه قدرت دیكھی تو بعض لوگوں نے آپ كے بارے میں اس قدر مبالغه كردیا اور كهنے لگے: خدا وند كی ذات آپ كے وجود میں حلول كیا ہے اور یه وهی باتیں ہیں جسے مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیه السلام كے بارے میں فكر كیا! جيساكه اس موضوع كوپیغمبر اسلام 1 نے حضرت علي علیه السلام كو خبر دی ہے اور فرمایا ہیں:
آپ كے بارے میں دو گروه هلاك هوں گے؛ایك گروه وه ہے جو آپ كی دوستی میں غلو كرے گا اور دوسرا وه گروه جو آ پ سے دشمنی كرے گا. ايك دفعه آپ سے فرمایا: « اس خدا كی قسم! جس كے قبضه قدرت میں میری جان ہے! اگر میں نہیں ڈرتا كه میری امت میں سے ایك گروه تمهارے بارے میں وهی بات كہیں گے جو بات مسیحیوں نے عیسی ٰ كے بارے میں كها ہے تیرے بارے میں آج وه بات كهه دیتا كه اس كے بعدجس سے بھی آپ كا گذر هوتا مگر یه كه آپ كے خاك پا اٹھا كر لوگ تبرك كردیتے ».[xliii]
جب حضرت علی علیه السلام خوارج كی تعقیب كے قصد سےآئے تو آپ كو خبر دی گئی كه آپ كو بشارت هو آپ كی آنے كی خبر سنتے هی وه لوگ فرار كرگئے ہیں اور نهر كی اس طرف بھاگ گئے ہیں آپ نے فرمایا:خدا كی قسم! وه لوگ نهر سے نہیں گزرے ہیں اور گزر بھی نه سكیں گے ان كی قتل گاه نهر كے كنارے ہے اس خدا كی قسم جس نے دانه كو چیرا ہے اور ذی روح كو زندگی بخشی ہے ان میں سے صرف تین افراد نهر تك پهنچیں گے جب وه لوگ نهر كے كنارے پهنچنے سے پهلے خدا انہیں قتل كردے گا! افترا باندھنے والے خسارے میں هوں گے ـ روایت میں آیا ہےجب آپ نے خوارج كی قتلگاه كے بارے میں خبر دی تو آپ كے انصار میں سے ایك جوان نے اپنے آپ سے كها:خدا كی قسم! اگر وه لوگ نهر سے گذر چكے هوں تو علی كے پاس جاكر نیزه كو ان كی آنكھوں میں مچبو دوں گا اور كهوں گا كیا تم علم غیب كا ادعا كرتے هو؟!
لیكن میرے وسوسے كے برعكس دیكھا وه لوگ نهر سے عبور نہیں كئے ہیں اس وقت میں اپنے گھوڑے سے اتر كرامام كی خدمت میں گیا اور جو كچھ گمان كیا تھا آپ كے سامنے بیان كیا اور ان سے عذر خواهی كی حضرت نے فرمایا:خدا ہے جو تمام گناهوں كو بخشنے والا ہے لهذا خدا سے طلب بخشش كرو ـ اس جنگ میں خوارج كے صرف نو افراد نے فرار كیا اور لشكر امام كے آٹھ لوگ شهیدهوئے..[xliv]
خوارج كے انحراف برقرار رهنے كی خبر
خوارج كے قتل كے بعد جب لوگوں نے كها: اب تو اس قوم كا خاتمه هو چكا ہیں. اس وقت آپ نے فرمايا:
«كلا و الله انّهم نطف في اصلاب الرجال و قرارات النساء كلمّا نجم منهم قرن قطع حتي يكون آخرهم لصوصاً سلّابين»[xlv] ؛هرگز نہیں خدا گواه ہے كه یه ابھی مردوں كے صلب اور عورتوں كے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں كوئی سر نكالے گا اسے كاٹ دیا جائے گایهاں تك آخر میں صرف لٹیڑے اور چور هوكر ره جائیں گے ـ
امير كلام كا يه بيان اس حقیقت كی طرف اشاره ہے ممكن ہے ایك گروه هر زمانے میں آئے گاجو خوارج كےطرز تفكر كے مالك هوں گے كسی بھی زمانے میں وه سر اٹھا سكتے ہیں اور حق كے خلاف نبرد كرنے كے لئے آماده هوگا گرچه ظاهرا آپ كے زمانے میں وه نابود هوچكے تھے ـ امام كی یه پیشنگوئی كه جب بھی وه سر اٹھائے گا قطع هوگا یه حجاج بن يوسف كے زمانے میں تحقق پائی خوارج مهلّب كی سركردگی میں جب نابود هوئے اور جو افراد باقی رہے تھے اصفهان، اهواز، و قراء عراق كے اطراف میں اپنی زندگي كو لوگوں كے اموال اور بيت المال كے غارت كےذریعےتأمين كرتے تھے[xlvi]
معاويه كي سلطنت اور ظلم كی پیشنگوئی
«أما انّه سيظهرُ عليكم بعدي رجلٌ رحبُ البلعوم مند حق البطن يأكل ما يجد و يطلب ما لايجد فاقتلوه و لن تقتلوه! إلا و إنّه سيأمركم بسبّي و البرائة منّي فأمّا السبُّ فسبّوني فانّه لي زكاة و لكم نجاة و اما البرائة فلا تتبرأ و منّي فانّي ولدت علي الفطرة و سبقت الايمان و الهجرة»[xlvii]؛ آگاه هوجاؤ كه عنقریب تم پر ایك شخص مسلط هوگا جس كا حلق كشاده اور پیٹ بڑا هوگا ـ جو پائے گا وه كھایا جائے گااور جو نه پائے گا اس كی جستجو میں رہے گا ـ تمهاری ذمه داری هوگی كه اسے قتل كردو مگر هرگز قتل نه كرو گے ـ خیرمگر یه كه وه عنقریب تمہیں، مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری كرنے كا حكم دے گا- تو اگرگالیوں كي بات هو تومجھے برا بھلا كهه لینا كه میرے لئے پاكیزگی كا سامان ہے اور تمهارے لئے دشمن سے نجات كا راسته۔ لیكن خبردار مجھ سے برائت نه كرنا كه میں فطرت اسلام پر پیدا هوا هوں اور میں نے ایمان اور هجرت دونوں میں سبقت كی ہےـ
اس كلام ميں امام علیه السلام اپنے ماننے والوں پرآینده وارد هونے والے ناگوارحوادث كے بارے میں خبر دے رہے ہیں ـ
جو شخص جس كا حلق كشاده اور پیٹ بڑا هوگا یه كون ہے؟
ابن ابي الحديد كے مطابق حضرت كی مراد معاويه ابن ابي سفيان ہےكیونكه اسكا پیٹ بڑا اور وه پر خور تھا روايت میں ہے كه معاويه اس قدر كھاتا تھا كه وه تھك جاتا تھا اور كها كرتا تھا كه دسترخوان كو جمع كرو خدا كی قسم ! تھك گیاهوں لیكن بھوك ختم نہیں هوئی ہے! وه رسول خدا1 كے نفرين سے اس بیماری میں مبتلا هواتھا.[xlviii]
امير المؤمنين علیه السلام اپنے كلام میں معاویه كے ذلت آميز اوصاف كی طرف اشاره كیاہے:
الف: معاويه بهت زیاده كھانے والا آدمی ہے:يأكل ما يجد و يطلب ما لايجد..
ب:بد ترين كام جو اس نے شام پر حكومت كرنے كے دوران انجام دیا وه امیرالمؤمنین پرسبّ كر نے كا حكم دینا تھا۔
ابن ابي الحديد کا کهنا ہے: معاويه نے شام و عراق ا ور دوسرےمقامات پر لوگوں كو حكم دیا كه حضرت علي علیه السلام كو برا بھلا كہیں اور ان سے بیزاری كا اعلان كریں اورممبروں سے اس بارے میں خطبه دیا گیا اور یه كام بني اميه و بني مروان كی حكومتوں كے دوران معمول كی سنت اور رواج كی شكل اختیار كر چكی تھی عمر بن العزيز كے دور میں یه غلط سنت ختم هوئی ـ
جاحظ اس طرح نقل كرتے ہیں: بني اميه كے ایك گروه نے معاويه سے كها:اے امير المؤمنين! تم اپنے مقصد میں كامیاب هواہے اب مناسب ہے كه اس شخص پر لعنت كرنے سے اجتناب كرو ـ كها : نہیں!خدا كی قسم ! اس كام سے هاتھ نہیں اٹھاوں گا یهاں تك كه بچے اس پر لعن كرتے هوئے بڑے هوجائے اور جوان بوڑھے اور كوئی بھی اس كی فضیلت كو بیان نه كرے ـ [xlix]
حضرت امير علیه السلام نے فرمایا:اگر كسی ظالم نے مجبور كردیا كه مجھ پرسبّ كرے تو كرو لیكن مجھ سے بیزاری كا اعلان نه كروـ
ناسزا و بيزاري ميں فرق
سب اور برائت میں كیا فرق ہےكه حضرت نے سب كو مصلحت كے موقع پر جائز اور برائت سے مطلقانهي فرمایاہے؟
شارح نهج البلاغه ابن ميثم كا كهنا ہے: ان دو نوں كے درمیان ایك ظریف اور خاص فرق ہےكه اسے مد نظر ركھنا چاهئے مثلا ناسزا كلام كی صفت ہے ممكن ہے بغیر اعتقاد كے اظهار كیا جائے اور ایك احتمال یه ہے كه كبھی ناسزا كنایه سے بولا جاتا ہے حقیقت میں قصد نه كیا هو اور اسكا فائده يه ہے كه خون بهانے سے روكا جائے اور ظالم كے شر سے رهائی مل جائے ـ ليكن بيزاري كا اظهار كرنا صرف كلام كي صفت نهيں ہے بلكه كبھی قلبی عقیده اور دشمنی كی حد تك چلی جاتی ہے اور خاندان عصمت سے دشمنی كرنے سے منع هواہے كسی سے نفرت اور بیزاری مخفی امر ہے انسان اس سے خوداری كرسكتا ہے اور اس كے ترك كرنے سے كسی كو كوئے خطره نہیں هوتا ہے ـ
ناسزا كےلیے زكات ،سبب بلندي اورناسزا كهنے والے كے لیے نجات كا باعث ہے ممكن ہے كه حضرت كے لیے دو لحاظ سے ناسزا باعث زكات هو:
الف: شاید اس نظر سے فرمایا هو كه روایت میں ہے كه مؤمن كو بدی سے یاد كرنا اس كے لیے زكات محسوب هوتا ہے اور مؤمن كی ایسی صفت سے بد گوئی كرنا كه وه صفت اس میں نہیں ہے اس كی بزرگی اور شرافت كی علامت ہے ـ
ب:اس قاعده كے مطابق كه لوگوں كو جس چیز سے زیاده منع كیا جائے اس كی طرف زیاده میل پیدا هوتا ہے. اس عمومي خصلت كے مطابق دشمن لوگوں كو حضرت علی علیه السلام سے محبت كرنے اور اظهار مودت كرنے سے منع كرتا تھا اور آپ سے بیزاری كرنے پر مجبور كرتا تھا ان كی محبت لوگوں كے دلوں میں اور زیاده هوتی تھی اور آپ كی شرافت اور بزرگی لوگوں كے دلوں میں اضافه هوتی تھیں ـ یهی وجه ہے بنی امیه نے هزارمهینے منبروں پر حضرت علی علیه السلام كو دشنام دیا اما ان كے هدف كے برخلاف امام كی محبت لوگوں كے دلوں میں نه صرف كم هوئی بلكه اضافه هوتی گئی ـ [l]
علامه تقي جعفري كا كهنا ہے:اس جمله كے معنا میں غور كرنا چاهئے كه فرمایا:ناسزا گوئی مجھے پاك كرتا ہے اس كا مقصد كیا ہے؟
احتمال یه ہے كه حضرت علی علیه السلام كا مقصود یه هو كه:چونكه جسے ناحق ناسزا اور دشنام دیا جائے یه اس كے لیے باعث اذیت و آزار ہے اور اس كا تحمل كرنا روح كی پاكیزگی كا سبب ہے .
ایك اور احتمال یه ہے كسی كو بغیر كسی دلیل كے ناسزا اور دشنام دینا سبب بنتا ہے كه لوگ اس كے بارے میں تحقیق كرے اور یه بیداری كا سبب بنتا ہے كه لوگ چاهتے ہیں كه ناسزا گوئی كی علت كیا ہے جب لوگ سمجھیں گے كه حضرت علی علیه السلام نه صرف ان نا شایسته الفاظ كے مستحق نہیں ہے بلكه عظیم اوصاف كے مالك ہے اور یه ایك اعلیٰ انسان هی كےلئے لائق ہے پھر تحقیق كرنے والے اس نتیجه پر پهنچے گا كه حضرت علی علیه السلام كی بے پناه عظمت اور آپ كے دشمنوں كی انتهائی پستی حقیقت میں آپ كو ناسزا گوئی كو رواج دینے كا سبب هواہے ـ
اما امير المؤمنين علیه السلام سےتبري و بيزاري كا مسأله یه ایسی چیز ہے كه كسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے چونكه آپ نے فرمایا ہےكه میں پاك فطرت كے ساتھ متولد هوئے ہیں اس بناپر امير المؤمنين سے بیزاری در حقيقت اسلام اور قرآن سے بيزاری ہے اور اسلام و قرآن سے بیزاری پیغمبر اسلام1 كی تكذيب ہےكه آپ نے اپنی پوری زندگی امير المؤمنين علیه السلام كو حق كا مركز اور محور قرار دیا ہے ـ [li]
بني اميه كے بارے ميں غیبی خبریں
«حتي يظن الظّان أنّ الدنيا معقولة علي بني اميّة تمنحُهم درّها و توردهم صفوها و لايرفع عن هذه الماسة سوطها و لاسيفها و كذب الظّان لذلك بل هي حجة من لذيذ العيش يتطعمونها بُرهة ثم يلفظونها جملة»[lii]
عبني اميه كے مظالم نے اس قدر دهشت زده بنادیا ہے كه) بعض لوگ خیال كررہے ہیں كه دنیا بنی امیه كے دامن سے باندھ دی گئی ہے ـ انهی كو اپنے فوائد سے فیضیاب كرتی رہے گی اور وهی اس كے چشمه پر وارد هوتے رہیں گے اور اب اس امت كے سر سے ان كے تازیانه اور تلواریں اٹھ نہیں سكتی ہیں ـ حالانكه یه خیال بالكل غلط ہے ـ یه حكومت فقط ایك لذیذ قسم كا آب دهن ہے جسے تھوڑی دیر چوسیں گے اور پھر خود هی تھوك دیں گے ـ
امام،اپنے اس كلام كے ذریعه بنی امیه كی حكومت همیشه كے هونے كے حوالےسےان لوگوں كے خیال كوباطل قرار دیا :یه خام خیالی كے علاوه كچھ نہیں ہے بنی امیه كا یه زرق وبرق چند دنوں كے ہیں اور اس كے بعد دنیا ان كے هاتھوں سے لیا جائےگا.
بني اميه كی فتنه گری كی خبر
«الا و إنّ اخوف الفتن عندي فتنة بني اميّة فإنّها فتنة عمياء مظلمة عمَّت خُطَّتُها و خصَّت بليَّتُها و أصاب البلاء من ابصر فيها و أخطاء البلاء من عمي عنها»[liii] ؛ياد ركھو ! میری نظر میں سب سے خوف ناك فتنه بنی امیه كا ہے جو خود بھی اندھا هوگا اور دوسروں كو بھی اندھیرے میں ركھے گااس كے خطوط عام هوں گے لیكن اس كي بلا خاص لوگوں كے لئے هوگی جو اس فتنه میں آنكھ كھولے هوں گے ورنه آندھوں كے پاس سے بآسانی گذر جائے گا ـ
امير المؤمنين علیه السلام نے بنی امیه كے فتنه كی خصوصیات كو بیان فرمایاہیں:
الف: يه فتنه تاريك اور اندھا كرنے والا ہےكیونكه بنی امیه كےكردار كسی قانون اور اصل كے مطابق نہیں تھا جو ان كے مدنظر تھا وه شهوت،اقتدار اور ظلم تھا اور ان كے لیے كوئی مبنا نہیں هوتا ہے اور یه روشن ہے جس كام كے لئے كوئی مبنا نه هو اس كا نتیجه تاریك اور اندھا پنی كے علاوه اور كیا هوسكتا ہے ـ
ب: يه فتنه سارے لوگوںكو اپنے لپیٹ میں لے گاكیونكه: اولاً:قدرت ان كےهاتھ میں ہے ـ
ثانياً: ظاهر میں حق كے طور پر معاشرے میں پهچانا جاتا تھا ـ
ثالثاً:عوام پسند نعرے بلند كرتے تھے جیساكه صفین میں قرآن كو نیزوں پر بلند كركے لوگوں اس كی طرف بلایا گیا ـ
یه فتنه اهل بصیرت کِے لئےمشکل ہے نه ان كے لیے جو اندھا هو جو كچھ هوجائے انہیں خبر نه هوـ [liv]
آپ فرماتے ہیں:
«و ايم الله لتجدنّ بني اميّة لكم ارباب سوءٍ بعدي كالنّاب الضّروس تعذم بفيها و تخبط بسيدها و تزين برجلها و تمنع درّها لا يزالون بكم حتي لايتركوا منكم إلا لهم او غير ضائر بهم و لا يزال بلاؤهم عنكم حتي لايكون انتصار احدكم منهم كانتصار العبد من ربّه و الصاحب من مستصحبه ترد عليكم فتنتهم شوهاء فحشية و قطعاً جاهلية ليس فيها منا زُهدي و لا علم يري».[lv] ؛ خدا كی قسم! تم بنی امیه كو میرے بعد بدترین صاحب اقتدار پاؤگے جن كی مثال اس كاٹنے والی اونٹنی كی هوگی جو منھ سے كاٹےگی اور هاتھ سے مارے گی یا پاؤں چلائے گی اور دوھ نه دوھنے دے گی اور یه سلسله یوں هی برقرار رہے گا جس سے وه افراد بچیں گے جو ان كے حق میں مفید هوں یا كم سے كم نقصان ده نه هوں یه مصیبت تمہیں اسی طرح گھیرے رہے گی یهاں تك كه تمهاری داد خواهی ایسے هی هوگی جیسے غلام اپنے آقا سے یا مرید اپنے پیر سے انصاف كا تقاضا كرے ـ تم پر ان كا فتنه ايسي بھیانگ شكل میں وارد هوگا جس سے ڈر لگے گا اور اس میں جاهلیت كے اجزا بھی هوں گے نه كوئی مناره هدایت هوگا اور نه كوئی راسته دكھانے والا پرچم ـ
«ثم يفرّجها عنكم كتفريج الاديم عن سيومهم خسفاً و لسيوقهم عُنُفاً و يسقيهم بكأس مصبّرة لا يعطيهم إلا السيف و لا يحلسُهُم إلا الخوف فعند ذلك تودّ قريش بالدنيا و ما فيها لو يرونني مقاماً و احداً و لو مدر جزر جزور لا قبل فهم ما اطلب اليوم بعضه فلا يعطه فيه».[lvi] ؛اس كے الله تم سے اس فتنه كو اس طرح الگ كردے گا جس طرح جانور كی كھال اتار دی جاتی ہے ـ اس شخص كے ذریعے جو انہیں ذلیل كرے گا اور سختی سے هنكائے گا اور موت كے تلخ گھونٹ پلائے گا اور تلوار كے علاوه كچھ نه دے گا اور خوف كے علاوه كوئی لباس نه پهنائے گا ـ یه وه وقت هوگا كه قریش كو یه آرزو هوگی كه كاش دنیا اور اس كی تمام دولت دے كر ایك منزل پر مجھے دیكھ لیتے چاہے صرف اتنی دیر كےلئے جتنی دیر میں اونٹ نحر كیا جاتا ہے تاكه میں ان سے اس چیز كو قبول كرلوں جس كا ایك حصه آج میں مانگتا هوں تو وه دینے كے لئے تیار نہیں ہیں ـ
معاويه و عمرو عاص جو اسلام كے مقابله میں قوم پرستی كا علم بلند كركے چند دنوں كی حكومت كو بچانے اور اسے دوام دینے كےلئے كتنے مقدس خونوں كوانهوں نے بهایا اس بات كو بھلا دیا تھا كه قوم عاد و ثموداور دوسرے سینكڑوں ظالم اقوام وملل اسی تلوار سے نابود هوئے جس سے هزاروں بے گناهوں كا خون بهایا تھا آیا انسان اس قدر پست ہے مال و منال ،مقام وجاه دنیا اسے اس قدر اپنے آپ میں گم كردے كه دنیا كے تمام قوانین حتیٰ قانون علیت اور رد عمل اور مكافات عمل سے اپنے آپ كو مستثنیٰ جان لے ـ
جرد جرداق مسيحي اپنی كتاب صوت العدالة الانسانية .كے مقدمه میں لكھتے ہیں:
«و ماذا عليك يا دنيا لو حشدتِ قواكِ و اتيتِ في كل زمن بعليّ بلسانه و عقله و قلب و ذي فقاره؟»؛ اےدنیا! تمہیں كيا هوتا كه تمهاری پوری قورت كو جمع كرلیتی اور هر زمانے میں ایك علی علیه السلام كواس كی زبان،عقل اور ذوالفقار كے ساتھ پیدا كرلیتی؟
لیكن كاش!بشر كوایك ایسا حاكم نصیب هو جو اپنی جوتی كو پیوند لگادے تاكه اس كے رعایا كے پابرهنوں كو جوتے نصیب هو جائے اور اپنی پیراهن كو اس قدر وصله لگادے كه دوباره وصله كےلئے دینے سے شرمائے!
کاش!وه دن آئے یه كره خاكی ایك ایسےمرد كو دیكھےجو جھوٹ میں مرتكب هونے سے بچنے كے لئے وسیع وعریض حكومت اسلامی كو ٹھكرائے اور اپنی حاكمیت میں ایك یهودی عورت كے پاؤں سے خلخال چھنے كی خبر سن كرمضطرب هوجائے اور كہے: ایك با ایمان انسان! اس قسم كی خبر سن كر اگر مرجائے میرے نزدیك وه قابل مذمت نہیں ہے
تاريخ ان صفحات كو مشاهده كرے تاكه یه ثابت هوجائے كه اس قسم كے الٰهی انسان كی تربیت كرنا اس كی بس كی بات نہیں ہے تا ایك بار پھر حجة ابن الحسن علیه السلام جيسےملكوتی انسان اپنے جدبزرگوار مير المؤمنين علي بن ابيطالب Hكي صورت وسيرت كے ساتھ آئے اور جوامع بشری كو عدالت علی كانسخه دیكر تاریخ كی تمام تلخیوں كا ازاله كردے ـ
اي منتظريم تا كه فصل دي بر آيد باغ شود سبز و باغبان بدر آيد
بلبل عاشق به پاي گلبن توحيد اشك فشان باش تا دم سحر آيد
بگذرد اين روزگار تلختر از زهر بار ديگر روزگار چون شكر آيد[lvii]
هم منتظر ہیں كه فصل بهار آجائے اور باغ دوباره سرسبز هوجائے اور اس كاباغ بان آجائے
عاشق بلبل توحید كےزیر سایه اشك با رآنكھوں كے ساتھ منتظر رہے تا كه سحر طلوع هوجائے
یه تلخی كے ایام دوسرے ایام كی طرح گذر جائے تاكه شیرین ایام آجائے۔
فرزندان اميّه كے لئےآنے والی تلخيوں كی خبر
«فاقسم بالله يا بني اميه عمّا قليل لتصرفنّها في ايدي غيركم و في دار عدوّكم! ألا أنّ ابصر الابصار ما نفذ في الخير طرفه! ألا انّ اسمع السماع ماوعي التذكير و قبله».[lviii]
میں خدا كی قسم كھا كر كهتا هوں اے بنی امیه كه عنقریب تم اس دنیا كو اغیار كے هاتھوں اور دشمنوں كے دیار میں دیكھوگے ـ آگاه هوجاؤ! بهترین نظر وه ہے جو خیر میں ڈوب جائے اور بهترین كان وه ہے جو نصیحت كو سن اسے قبول كرلیں ـ
بني اميه نےع132ھـ )تك حكومت كی ہیں ان كا آخری حكمران مروان حمار تھا جسے ابو مسلم خراساني و احمد سفاح نےنابودكردیا پھر بني عباس نے قدرت پرقبضه كرلیا اور صرف سفاح نےا يك مرحله میں بنی امیه كےستر هزا ر بزرگان كو قتل عام كردیا ـ
فرزندان مروان كي حكمراني كي خبر
كها جاتا ہےع36 ھـ)میں عثمان كا داماد مروان بن حكم جنگ جمل میں اسيرهوا امام حسن و امام حسين H نے حضرت علی علیه السلام سے اس كی سفارش كی اور اسے رها كروائے اور حضرت علی علیه السلام سے فرمایا:بابا! مروان آپ كی بیعت كرنا چاهتا ہے تو آپ نے فرمایا:
«او لم يبايعني بعد قتل عثمان؟ لا حاجة لي في بيعته! انها كفّ يهودية لو بايعني بكفّه لغدر بسبّتهِ اما انّ له امرة كلعقةِ الكلب انفسه و هو ابو الاكبش الاربعة و ستلقي الامة ضد و من ولده يوماً احمر!».[lix]؛ كیا اس نے قتل عثمان كے بعد میری بیعت نہیں كی تھی؟ مجھے اس كی بیعت كی كوئی ضرورت نہیں ہےیه ایك یهودی قسم كا هاتھ ہے اگر هاتھ سے بیعت كربھی لے گا تو ركیك طریقه سے اسے توڑ ڈالے گا یاد ركھو! اسے بھی حكومت ملے گی مگر صرف اتنی دیر جتنی دیر میں كتا اپنی ناك چاٹتا ہے اس كےعلاوه یه چار بیٹوں كا باپ بھی ہے اور امت اسلامیه اس سے اور اس كی اولاد سے بدترین دن دیكھنے والی ہے ـ
حواله جات :
[i] - محمد مهدي عليقلي، سيماي نهج البلاغه، قم: نشر مطهر، 1374، ص 15.
[ii] - حاكم نيشابوري، المستدرك، ج3، ص 124، بيروت: دار المعرفة، 1406؛ متقي هندي، كنز العمال، ج11، ص 603.
[iii] - امام خميني ، وصيتنامه سياسي الهي، تهران: وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامي،چاپ سوم، ص 3.
[iv] - محمد مهدي عليقلي، سيماي نهج البلاغه، ص 89.
[v] - سيري در نهج البلاغه، قم: دار التبليغ اسلامي، 1345، ص 30.
[vi] - شيخ محمد باقر محمودي، نهج السعادة في مستدرك نهج البلاغه، ناشر: نعمان نجف اشرف، 1385 Ú ق.، ج7، ص 146 و ج8، ص 309.
[vii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، بيروت:دار المعرفة، ج2، ص 172؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، دار الاحياء مكتبةالعربيه، ج10، ص 179؛ شيخ سليمان بن ابراهيم قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 90 و 266.
[viii] - ابن ميثم، شرح بحراني نهج البلاغه، (ابن ميثم)، ج1، ص80؛ ابن جمهور احسائي، عوالي اللئالي، قم: سيد الشهدا، 1403 ھـ ق. ج1، ص 20 و ج2، ص 11.
[ix] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 43 خطبه 10.
[x] - همان، ج2، ص 218،خطبه 224.
[xi] - نهج البلاغه ،خطبه 62.
[xii] - همان، ج2، ص 10، خطبه 228.
[xiii] - همان، ج4، ص 32، كلمات حكمت، ش 131؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج18، ص 325.
[xiv] - خطبه، 175؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج2، ص 90؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 10.
[xv] - نهج البلاغه نامه ،45؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج3، ص 72؛ سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 440.
[xvi] ـ نهج البلاغه، نامه؛ 45ـ
[xvii] - نهج البلاغه ،خطبه 34؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 84؛ ابن قتيبه دينوري، الامامة و السياسة، قم: انتشارات شريف، 1413 Ú ق. ج1، ص 171.
[xviii] - شيخ محمد عبده، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 19، خطبه 136.
[xix] - همان، ج2، ص 180، خطبه 200؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 211.
[xx] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 31، خطبه 3؛ ابن ابي الحديد شرح نهج البلاغه، ج1، ص 151؛ ابن جبر، نهج الايمان، مشهد: مجتمع امام هادي، 1418 Ú ق. ص 518.
[xxi] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج1، ص 506.
[xxii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 43، دار المعرفة، بيروت: و ج2، ص 20؛ ليثي واسطي، علي بن محمد، عيون الحكم والمواعظ، دارالحديث، 1276؛ مجلسي بحار الانوار، ج32، ص 52؛ علامه عبد الحسين اميني، الغدير، ج9، ص 103.
[xxiii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج4، ص 29؛ شيخ صدوق، الامالي، ص 432؛ شيخ صدوق، معاني الاخبار، ص 186- 185؛ شريف رضي، خصائص الائمه، آستان مقدس رضوي، 1406Ú ق؛ فتال نيشابوري، روضة الواعظين، ص 43؛ وسائل الشيعه،ج15، ص 183 و ج11، ص 141؛ كراجكي ابو الفتح، معدن الجواهر، ص 54؛ احسائي، ابن ابي جمهور، عوالي اللئالي، ج4، ص 126؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج18، ص 313.
[xxiv] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج5، ص 521.
[xxv] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 182، خطبه 93؛ محمد بن حسن صفار، بصائر الدرجات، تهران، موسسه اعلمي، 1404 Ú ق، ص 316.
[xxvi] - محمد دشتي، ترجمه نهج البلاغه، ص 173.
[xxvii] - ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج3، ص 360.
[xxviii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج2، ص 130،خ89ـ
[xxix] - شيخ محمدعبده، نهج البلاغه، ج2، ص 89؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 10؛ سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 27.
[xxx] - ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، خطبه 144، ج9، ص 84: ابراهيم بن سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 207 و ج3، ص 293 و 450.
[xxxi] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 230، خطبه، 115؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج7، ص 277.
[xxxii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 45، خطبه 13؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه. ج1، ص 251؛ موفق خوارزمي، المناقب، قم: مؤسسه نشر اسلامي، 1411 Ú .ق، ص 189.
[xxxiii] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج1، ص 584؛ ابن ابي الحديد، ، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج1، ص 121.
[xxxiv] - احنف بن قيس، پیغمبر اسلام 1كے صحابی ہے رسول خدا1 نے ان كے میں دعا كی ہے ـ وه با هوش اور عاقل تھا جنگ جمل كے موقع پر حضرت علی علیه السلام سے كها یا علی كیا آپ چاهتے ہیں كه میں دو سو سواریوں كے ساتھ آپ كے لشكر میں شامل هو جاؤں یا یا بنی سعید كے ساتھ جنگ سے كناره گیری كروں اور اس وقت چھ هزار تلواروں كو آپ كے خلاف روكا جاسكتا ہے ـ آپ نے فرمایا: جنگ سے كناره گیری كرو ـ وه فتح بصره كے بعد امام اور آپ كے ساتھیوں سے ملحق هوگیا ـ (محمد دشتي، ترجمه نهج البلاغه، ص 243).
[xxxv] - ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج4، ص 84 تا 128.
[xxxvi] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج2، ص 9؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج8، ص 125؛ علامه محمد باقر مجلسي، بحار الانوار، ج41، ص 334.
[xxxvii] - نهج البلاغه كلام ش،كلام 27؛ شيخ محمد عبده نهج البلاغه، ج1،ص 97؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج3، ص 197؛ علامه محمد باقر مجسلي، بحار الانوار، ج97، ص 385
[xxxviii] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 265.
[xxxix] - همان، خطبه 58، طبق شرح ابن ميثم و ابن ابي الحديد خطبه 57 ميباشد.
[xl] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 327؛ محمد محمدي ريشهري، ميزان الحكمة، قم: دار الحديث، بيتا، ج3، ص 2319.
[xli] ـ سید رضی: نطفه سے مراد نهر كا صاف وشفاف پانی ہے ـ
[xlii] ـ نهج البلاغه، خ59ـ
[xliii] - ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج3، ص 3-2.
[xliv] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه،ج2،
[xlv] - نهج البلاغه، خ 60؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 107؛ شيخ محمد باقر محمودي، نهج السعادة، ج2، ص 417.
[xlvi] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 331.
[xlvii] - نهج البلاغه، خ 57؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 106؛ حر عامل، وسائل الشيعه، قم: مؤسسه آل البيت، 1414Ú ق، ج16، ص 228؛ علامه عبد الحسين اميني، الغدير، بيروت: دار الكتب العربي، 1397Ú ق، ج2، ص102.
[xlviii] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 320؛ ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج2، ص 223.
[xlix] - ابن ابي الحديد، نهج البلاغه، ج2، ص 224 به بعد.
[l] - ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 220 به بعد.
[li] - علامه محمد تقي جعفري، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 223.
[lii] - نهج البلاغه خ، 87؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 155 خطبه، 87؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج6، ص 381.
[liii] -نهج البلاغه،خ 93؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 183؛ ابراهيم محمد ثقفي كوفي، الغارات،بيتا، نشر بهمن، ج1، ص 10.
[liv] - علامه محمد تقي جعفري، شرح نهج البلاغه، ج16، ص 308.
[lv] - ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج7، ص 44؛ ابن ابي شبيه كوفي، المصنف، بيروت: دار الفكر، 1409Ú .ق، ج8، ص 699؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 183.
[lvi] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 184؛ ابراهيم محمد ثقفي كوفي، الغارات، ج2، ص 677؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج7، ص 45.
[lvii] - علامه محمد تقي جعفري، شرح نهج البلاغه، ج16، ص 313 به بعد. علاوه بر اين در باره سرنوشت بني اميه در خطبه 105 هم آمده است ملاحظه فرمائيد.
[lviii] - شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 201؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج7، ص 117.
[lix] - همان، ج6، ص 146. نهج البلاغه،خ73ـ