ابوسفیان کے بیٹے کی غلط سیاست اور اس کی دوسری عقل عمروعاص کی وجہ سے بہت زیادہ تلخ اور غم انگیز واقعات رونماھوئے، اس کی پلاننگ بنانے والا پھلے ھی دن سے اس کے برے آثار سے آگاہ تھااور اپنی کامیابی کے لئے حکمیت کے مسئلہ پر اسے مکمل اطمینان تھا اس سیاست کو سمجھنے کے لئے بس اتنا ھی کافی ھے کہ اس بدترین سیاست کی وجہ سے دشمن نے اپنی آرزو حاصل کی، جو نتیجہ اس سلسلہ میں نکلا ھے اس میں سے درج ذیل چیزوں کا نام لے سکتے ھیں:
۱۔ شام پر معاویہ کا قبضہ ھوگیا اور اس کے تمام سردار اور اس علاقہ میں اس کے نمائندے صدق دل سے اس کے مطیع وفرماں بردار ھوگئے اور اگر کسی وجہ یا غرض کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام سے دل لگائے ھوئے تھے تو ان کو چھوڑ کر معاویہ سے ملحق ھوگئے۔
۲۔ امام علیہ السلام جو کامیابی کی آخری منزل پر تھے اس سے بہت دور ھوگئے اور پھر کامیابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نھیں تھا، کیونکہ امام علیہ السلام کی فوج میں جہاد کرنے کا جذبہ ختم ھو گیا تھا اور اب لوگوں کے اندر شہادت کا جوش و جذبہ نھیںتھا۔
۳۔معاویہ کی برباد ھوتی ھوئی فوج دوبارہ زندہ ھوگئی،اور وہ پھر سے جوان ھوگئی اور عراق کے لوگوں کی روح کو کمزور کرنے کے لئے اس نے لوٹ مار اور غارت گری شروع کردی تاکہ اس علاقے کا امن وچین ختم ھوجائے اور مرکزی حکومت کو کمزور اعلان کردے،
۴۔ ان تمام چیزوں سے بدتریہ کہ عراق کے لوگ دو گروہ میں بٹ گئے ایک گروہ نے حکمیت کو قبول کیااور دوسرے نے اسے کفر اور گناہ سے تعبیر کیا اور امام علیہ السلام کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ اس کام سے توبہ کریں ورنہ اطاعت کی ریسمان گردن سے کھول دیں گے اور ان سے معاویہ کی طرح جنگ کے لئے آمادہ ھوجائیں گے۔
۵۔ایسی فکر رکھنے کے باوجود، حکمیت کے مخالفین جو ایک وقت امام کے طرفدار اورچاہنے والے تھے اور امام علیہ السلام نے اس گروہ کے دباوٴ کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنے نظریے کے برخلاف حکمیت کو قبول کیا تھا حضرت کے کوفہ میں آنے کے بعدھی ان لوگوں نے حکومت وقت کی مخالفت کرنے والوں کے عنوان سے شہر چھوڑدیا اور کوفہ سے دومیل کی دوری پر پڑاوٴ ڈالا، ابھی جنگ صفین کے برے اثرات ختم نہ ھوئے تھے کہ ایک بدترین جنگ بنام ” نہروان“ رونما ھوگئی اور یہ سرکش گروہ اگرچہ ظاہری طور پر نابود ھو گیا لیکن اس گروہ کے باقی لوگ اطراف وجوانب میں لوگوں کو آمادہ کرنے لگے جس کی وجہ سے ۱۹ رمضان ۴۰ ہجری کو علی علیہ السلام خوارج کی اسی سازش کی بنا پر اور محراب عبادت میں شھید ھوگئے۔
جی ہاں، امام علیہ السلام نے اپنی حکومت کے زمانے میں تین بہت سخت جنگوں کا سامنا کیا جو تاریخ اسلام میں بے مثال ھیں:
پھلی جنگ میں عہد وپیمان توڑنے والے طلحہ وزبیر نے ام المومنین کی شخصیت سے جو کہ رسول اسلام کی شخصیت کی طرح تھی اس سے فائدہ اٹھاتے ھوئے خونین جنگ کھڑی کی مگر شکست کھانی پڑی۔
دوسری جنگ میں مد مقابل ابوسفیان کا بیٹا معاویہ تھا جس نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا بہانہ بنایا اور سرکشی کے ذریعے مرکزی حکومت اور امام منصوص اور مہاجرین و انصار کے ذریعے چنے گئے خلیفہ کی مخالفت کی اور حق وعدالت کے راستے سے منحرف ھوگیا۔
تیسری جنگ میں جنگ کرنے والے امام علیہ السلام کے قدیمی ساتھی تھے جن کی پیشانیوں پر عبادتوں کی کثرت سے سجدوں کے نشان تھے اور ان کی تلاوتوں کی آواز ہر طرف گونج رھی تھی اس گروہ سے جنگ پھلی دوجنگوں سے زیادہ مشکل تھی،مگر امام علیہ السلام نے کئی مھینہ صبر تحمل، تقریروں اور بااثر شخصیتوں کے بھیجنے کے بعد بھی جب ان کی اصلاح سے مایوس ھوگئے اور جب وہ لوگ اسلحوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے تو ان کے ساتھ جنگ کی اور خود آپ کی تعبیر کے مطابق ” فتنہ کی آنکھ کو جڑ سے نکال دیا“ امام علیہ السلام کے علاوہ کسی کے اندر اتنی ھمت نہ تھی کہ ان مقدس نما افراد کے ساتھ جنگ کرتا لیکن حضرت علی علیہ السلام کا اسلام کے ساتھ سابقہ اور پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے میں جنگ کے میدان میں آپ کی ہجرت اور ایثار اور پوری زندگی میں زہد و تقویٰ اور مناظرہ کے میدان میں علم ودانش سے سرشار اور بہترین منطقی دلیل وغیرہ جیسی صلاحیتوں نے آپ کو وہ قدرت عطا کی تھی کہ جس کے ذریعے آپ نے فساد کو جڑ سے اکھاڑدیا۔
تاریخ اسلام میں یہ تینوں گروہ ناکثین(عہد وپیمان توڑنے والے) اور قاسطین(ظالم و ستمگر اور حق سے دور ھونے والے) اور مارقین(گمراہ اور دین سے خارج ھونے والے افراد) کے نام سے مشھور ھیں۔یہ تینوں نام پیغمبر کے زمانے میں رکھے گئے تھے خود رسول اسلام(ص) نے ان تینوں گروھوں کے اس طرح سے صفات بیان کئے تھے اور علی علیہ السلام اور دوسرے لوگوں سے کہا تھا کہ علی ان تینوں گروہ سے جنگ کریں گے، پیغمبر اسلام(ص) کا یہ کام خونی جنگ اور غیب کی خبر دیتاھے جسے اسلامی محدثین نے حدیث کی کتابوں میں مختلف مناسبتوں سے یاد کیا ھے نمونہ کے طورپر یہاں ان میں سے ایک کو ذکر کررھے ھیں علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
” اٴمرنی رسول اللّٰہ(ص) بقتال الناکثین والقاسطین و المارقین“ [1]
پیغمبر اسلام(ص) نے مجھے حکم دیا کہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کروں۔
ابن کثیر متوفی ۷۷۴ ہجری نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کے کچھ حصے کو نقل کیا ھے وہ لکھتاھے کہ پیغمبر اسلام(ص) ام سلمہ کے گھر میں داخل ھوئے اور کچھ دیر بعد علی علیه السلام بھی آگئے پیغمبر(ص)نے اپنی بیوی کی طرف رخ کرکے کہا:
” یا امَّة َ سلمة ھذا واللّٰہ قاتلُ النّاکثین والقاسطین والمارقین من بعدی “ [2]یعنی،اے ام سلمہ، یہ علی، ناکثین، قاسطین اور مارقین سے میرے بعد جنگ کرے گا۔
تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے رجوع کرنے پر یہ حدیث صحیح اور محکم ثابت ھوئی ھے اسی وجہ سے یہاں پر مختصر کررھے ھیں اور یاد دلاتے ھیں کہ محقق بزرگوار علامہ امینی نے اپنی کتاب ” الغدیر“ میں اس حدیث کے متعلق بیان کیا ھے اور اس کی سند اور حوالے وغیرہ کو جمع کیا ھے۔[3]
مارقین کی تاریخ شاہد ھے کہ یہ لوگ ھمیشہ اپنے زمانے کی حکومتوں سے لڑتے تھے اور کسی کی حکومت کو قبول نھیں کیانہ حاکم کو رسمی طور پر پہچانتے تھے اور نہ حکومت ھی سے کوئی واسطہ رکھتے تھے حاکم عادل اور حاکم منحرف، مثل علی علیہ السلام اور معاویہ ان کی نظروں میں برابر تھے اور ان لوگوں کا یزید ومروان کے ساتھ رویہ اور عمربن عبد العزیز کے ساتھ رویہ برابر تھا۔
خوارج کا وجود پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے سے مرتبط ھے یہ گروہ پیغمبر کے زمانے میں اپنی فکر اور نظریہ پیش کرتا تھا اور ایسی باتیں کرتا تھا کہ وجدان اسے تسلیم نھیں کرسکتا اور لڑائی جھگڑا ان سے ظاہر ھوتاتھا درج ذیل موارد اسی موضوع سے متعلق ھیں:
پیغمبر اسلام(ص) نے جنگ “ حنین “ سے حاصل ھوئے مال غنیمت کو مصلحت کی بنا پر تقسیم کردیا اور مشرکوں میں سے جو نئے مسلمان ھوئے تھے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف کرنے کے لئے جو بہت سالوں سے اسلام سے جنگ کررھے تھے زیادہ مال غنیمت دیا،اس وقت حرقوص بن زھیر نے اعتراض کیااور غیر مہذب طور سے پیغمبر سے کہا، عدالت سے کام لیجیئے۔
اس کی غیر مہذب گفتگو نے پیغمبر اسلام(ص) کو ناراض کردیا اور اس کا جواب دیا، لعنت ھو تجھ پر اگر عدالت ھمارے پاس نہ ھوگی تو پھر کہاں ھوگی؟ عمر نے اس وقت درخواست کی کہ اسے قتل کردیں، لیکن پیغمبر نے اس کی درخواست قبول نھیں کی اور ان کے بھیانک نتیجے کے بارے میں کہا، اسے چھوڑدو کیونکہ اس کی پیروی کرنے والے ایسے ھوں گے جو دینی امور میں حد سے زیادہ تحقیق وجستجو کرنے والے ھوں گے اور بالکل اسی طرح کہ جس طرح سے تیر کمان سے خارج ھوتا ھے وہ دین سے خارج ھوجائیں گے۔ [4]
بخاری نے اپنی کتاب ” مولفة القلوب“میں اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ھے وہ لکھتے ھیں:
پیغمبر نے اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں یہ کہا ھے ” یمرقون من الدین ما یمرقُ السَّھمُ من الرّمیَّةِ “[5]
پیغمبر نے لفظ ” مرق“ استعمال کیا ھے جس کے معنی پھینکنے کے ھیں کیونکہ یہ گروہ دین کے سمجھنے میں اس قدر ٹیڑھی راھوں پر چلے گئے کہ دین کی حقیقت سے دور ھوگئے اور مسلمانوں کے درمیان مارقین “ کے نام سے مشھور ھوگئے۔[6]
اعتراض کرنے والاحرقوص کے لئے سزاوار یہ تھا کہ شیخین کی خلافت کے زمانے میں خاموشی کو ختم کردیتا اور ان دونوں خلیفہ کے چنے جانے اور ان کی سیرت پر اعتراض کرتا، لیکن تاریخ نے اس سلسلے میں اس کا کوئی رد عمل نقل نھیں کیا ھے،صرف ابن اثیر نے ” کامل “ میں تحریر کیاھے کہ اھواز کی فتح کے بعد حرقوص خلیفہ کی طرف سے اسلامی فوج کا سردار معین تھا اور عمر نے اھواز اورورق کے بعد جو اسے خط لکھا اس کی عبارت بھی ذکر کی ھے [7]
طبری نقل کرتے ھیں کہ ۳۵ ہجری میں حرقوص بصریوں پر حملہ کرکے، عثمان کی حکومت میں مدینہ آگیا اور مصر اور کوفہ کے لوگوں کے ساتھ خلیفہ کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔[8]
اس کے بعد سے تاریخ میں اس کے نام ونشان کا پتہ نھیں ملتا اور اس وقت جب حضرت علی علیه السلام نے چاہا کہ ابوموسیٰ کو فیصلہ کرنے کے لئے بھیجیں،تو اس وقت اچانک حرقوص زرعہ بن نوح طائی کے ساتھ امام کے پاس آیا اور دونوں کے درمیان سخت بحث ومباحثہ ھوا جسے ھم ذکر کررھے ھیں۔
حرقوص:وہ غلطیاں جو تم نے انجام دی ھیں اس کے لئے توبہ کرو اور حکمین کو قبول نہ کرو اور ھمیں دشمن سے جنگ کرنے کے لئے میدان میں روانہ کرو تاکہ ان کے ساتھ جنگ کریں اور شھید ھوجائیں۔
امام علیہ السلام: جب حکمین کا مسئلہ طے ھورہا تھا اس وقت میں نے اس کے بارے میں تم کو بتایا تھا لیکن تم نے میری مخالفت کی اور اب جب کہ ھم نے عہد وپیمان کرلیا ھے تو مجھ سے واپس جانے کی درخواست کررھے ھو؟ خداوندعالم فرماتاھے ” وَاٴوفو بعھد اللّٰہ اذاعا ھدتم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلاً انّ اللّٰہ یعلم ماتفعلون“(نحل ۹۱) یعنی خدا کے عہدوپیمان، جب تم نے وعدہ کرلیا ھے تو اس کو وفا کرو اور جو تم نے قسمیں کھائی ھیں ان کو نہ توڑو،جب کہ تم نے اپنی قسموں پر خدا کو ضامن قراردیا ھے اور جوکچھ بھی تم کرتے ھو خدا اس سے باخبرھے۔
حرقوص: یہ ایسا گناہ ھے کہ ضروری ھے کہ اس سے توبہ کرو۔
امام علیہ السلام: یہ گناہ نھیں ھے بلکہ فکروعمل میں ایک قسم کی سستی ھے کہ تم لوگوں کی وجہ سے مجھ پر آپڑی ھے اور میں نے اسی وقت تم کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور اس سے روکا تھا۔
زرعہ بن نوح طائی: اگر حکمیت سے باز نھیں آئے تو خد ااور اس کی مرضی حاصل کرنے کےلئے تم سے جنگ کریں گے!
علی علیہ السلام: بے چارہ بدبخت، تمہارے مردہ جسم کو میدان جنگ میں دیکھ رہا ھوں گا کہ ھوا اس پر مٹی ڈال رھی ھے،
زرعہ: میں چاہتا ھوں کہ ایسا ھی ھو۔
علی علیہ السلام:شیطان نے تم دونوں کو گمراہ کردیا ھے۔
پیغمبر اسلام(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام سے حرقوص کی غیر مہذب اور احمقانہ باتیں اس کے برخلاف ھیں کہ اسے ایک معمولی مسلمان سمجھیں، جب کہ وہ مفسرین اسلامی [9] کی نظر میں منافقوں میں سے ھے اور یہ آیت اس کی شان میں نازل ھوئی ھے:
” ومنھم من لم یلمزْکَ فی الصّدقاتِ فان اٴعطوامنھارضواوان لم یعطوا منھااذاھم یسخطون“(توبہ ۵۸)، منافقون میں سے بعض غنیمت تقسیم کرنے کے بارے میں تم پر اعتراض کرتے ھیں اگر ان کو کچھ حصہ دیدیا جائے تو وہ راضی ھوجائیں گے اور اگر محروم ھوجائیں تو اچانک غصہ ھوجائیں گے۔
خوارج کی ایک ذوالثدیہ کی ھے اور رجال کی کتابوں میں اس کا نام ” نافع“ ذکر ھوا ھے اکثر محدثین کا خیال یہ ھے کہ حرقوص جو ذوالخویصرہ کے نام سے مشھور ھے وھی ذوالثدیہ ھے لیکن شہرستانی نے اپنی کتاب ملل ونحل میں اس کے برخلاف نظریہ پیش کیا ھے وہ کہتے ھیں ”اَوَّلُھم ذوالخویصرہ وآخرُھم ذوالثدیہ “[10]جب کے پیغمبر پر دونوں کے اعتراض کا طریقہ ایک ھی تھا اور دونوں نے مال غنیمت بانٹنے پر پیغمبر سے کہا تھا ” عدالت کرو“ اور آپ نے دونوں کو ایک جواب دیا تھا[11]غالباً تصور یہ ھے کہ یہ دونام ایک ھی شخص کے ھیں لیکن تاریخ میں ذوالثدیہ کی جو صفت بیان کی گئی ھے اور جو پیغمبر کی زبان پر آیا ھے ہرگز اس طرح ذوالخویصرہ کے بارے میں وارد نھیں ھو اھے۔
ابن کثیر جس نے مارقین سے متعلق تمام آیتوں اور روایتوں کو جمع کیا ھے اس کے بارے میں کہتاھے،پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا:
کچھ گروہ دین سے اس طرح خارج ھوں گے جس طرح تیر کمان سے نکلتا ھے اور دوبارہ واپس نھیں آتے اور اس گروہ کی نشانی یہ ھے کہ ان لوگوں کے درمیان کالے رنگ کے آدمی جس کے ہاتھ ناقص ھوں گے اس کے آخر میں گوشت کا ٹکڑا عورت کے پستان کی طرح اور جاذب ھوگا پرکشش۔ [12]امام علیه السلام نے جنگ نہروان سے فارغ ھونے کے بعد حکم دیا کہ ذوالثدیہ کی لاش کو قتل ھوئے لوگوں میں تلاش کریں اور اس کے کٹے ھوئے ہاتھ کے بارے میں تحقیق کریں جس وقت اس کی لاش لے کر آئے تو اس کا ہاتھ اسی طرح تھا جیسا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا تھا۔
خوارج نے سب سے پھلے حکمیت کے مسئلہ پر امام علیہ السلام کی مخالفت کی اور اسے قرآن مجید کے خلاف شمار کیا اس سلسلے میں کوئی دوسری علت نہ تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یھی واقعہ ایک عقیدتی مذہب کی صورت میں ابھر کر سامنے آگیا اور اس کے اندر مختلف شعبے اور فرقے وجود میں آگئے اور ”محکّمہ“ کے علاوہ بہت سے دوسرے فرقے وجود میں آگئے مثلاً، ازارقہ، نجدات، بیہسیہ، عجاردہ، ثعالبہ، اباضیّہ اور صفریّہ۔یہ تمام گروہ زمانے کے ساتھ ختم ھوگئے لیکن صرف فرقہ اباضیّہ(عبداللہ بن اباض کا پیرو جس نے مروانیوں کی حکومت کے آخر میں خروج کیا)باقی بچا ھے جو خوارج کے معتدل لوگوں میں شمار ھوتا ھے اور عمّان، خلیج فارس اور مغرب مثلاً الجزایر وغیرہ میں منتشر ھوھے۔
خوارج کی تاریخ، جنگ نہروان کے علاوہ بھی تمام اسلامی مؤرخین کے نزدیک قابل توجہ رھی ھے اور اس سلسلے میں طبری نے اپنی ”تاریخ “میں مبرد نے ” کامل “میں اور بلاذری نے ” انساب“ میں اور۔ ۔۔۔ خوارج کے سلسلے میں تمام واقعات کو نقل کیاھے اور ان واقعات نقلی تاریخ کی صورت میں ذکر کیاھے۔ آخری زمانے کے مورخین نے چاھے وہ اسلامی ھوں یا غیر اسلامی، اس سلسلے میں متعدد تنقیدی و تجزیاتی کتابیں لکھی ھیں جن میں سے کچھ یہ ھیں:
۱۔ تلخیص تاریخ الخوارج: موٴلف محمد شریف سلیم، ۱۳۴۲ ہجری، قاہرہ سے شائع ھوئی۔
۲۔ الخوارج فی الاسلام: موٴلف عمر ابو النصر، ۱۹۴۹ عیسوی، بیروت سے شائع ھوئی۔
۳۔وقعہٴ النہروان: موٴلف خطیب ہاشمی ، ۱۳۷۲ ہجری، تہران سے شائع ھوئی۔
۴۔ الخوارج فی العصر الاموی: موٴلف ڈاکٹر نایف محمود جو دو مرتبہ بیروت سے شائع ھوئی۔دوسری مرتبہ کی تاریخ ۱۴۰۱ ہجری ھے۔
مستشرقین میں سے بھی کچھ لوگوں نے اس موضوع کی طرف توجہ دی ھے اور مختصر کتابیں تحریر کی ھیں۔مثلاً:
۵۔ الخوارج والشیعہ:جرمنی موٴلف فلوزن نے ۱۹۰۲ء میں جرمنی زبان میں لکھا ھے عبدالرحمٰن بدوی نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا ھے۔
۶۔ ادب الخوارج: یہ زھیر قلماوی کے ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۰ء ایم اے کی تحقیق(تھیسیس) تک ھے قلماوی نے اس تحقیق میں خوارج کے بہت سے شاعروں کا تذکرہ کیا ھے مثلاً عمران بن حطان یہ کتاب ۱۹۴۰ ء میں شائع ھوئی ھے۔
میں نے(اس کتاب کے موٴلف نے) خوارج کے واقعات کی تحقیق و تنقید میں اسلام کی اصل کتابوں سے رجوع کیاھے اور ایک خاص طریقے سے جیسا کہ اسلامی تاریخ میں تحقیق و تنقید کا رواج ھے موضوعات کو تحریر کیا ھے خود کو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز نھیں سمجھتا۔
لفظ خوارج بہت زیادہ استعمال ھونے والے لفظوں میں سے ھے اور علم تاریخ اور علم کلام کی بحثوں میں بہت زیادہ استعمال ھوا ھے اور عربی لغت میں یہ لفظ حکومت پر شورش وحملہ کرنے والوں کے لئے استعمال ھوتا ھے اور خوارج ایسے گروہ کو کہتے ھیں جو حکومت وقت پر کے خلاف ھنگامہ کھڑا کرے اور اسے قانونی نہ جانے، لیکن علم کلام اور تاریخ کے علماء کی اصطلاح میں امام علیہ السلام کے سپاھیوں میں سے نکلے ھوئے گروہ کو کہتے ھیں جنھوں نے ابوموسیٰ اشعری اور عمرو عاص کی حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے کو امام علیہ السلام سے جدا کرلیا اور اس جملے سے اپنا نعرہ قرار دیا ” ان الحکم الا للّٰہ “اوریہ نعرہ ان کے درمیان باقی رہا اور اسی نعرہ کی وجہ سے علم ملل ونحل میں انھیں ” محکمہ “ کے نام سے یاد کیا گیاھے۔
امام علیہ السلام نے حکمیت قبول کرنے کے بعد مصلحت سمجھی کہ میدان صفین کو چھوڑدیں اور کوفہ واپس چلے جائیں اور ابوموسیٰ اور عمروعاص کے فیصلے کا انتظار کریں، حضرت جس وقت کوفہ پھونچے تو اپنی فوج کے کئی باغی گروہ سے روبرو ھوئے، آپ اور آپ کے جانبازوں نے مشاہدہ کیا کہ بہت سے سپاھیوں نے جن کی تعداد بارہ ہزار لوگوں پر مشتمل تھی کوفہ میں آنے سے پرھیز کیا اور حکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے بعنوان اعتراض کوفہ میں آنے کے بجائے ” حروراء“ نامی دیہات کی طرف چلے گئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے” نخیلہ “ کی چھاوٴنی میں پڑاوٴ ڈالا۔حکمیت، جسے خوارج نے عثمان کا پیراہن بنا کر امام علیہ السلام کے سامنے لٹکایا تھا، وھی موضوع تھا کہ ان لوگوں نے خود اس دن، جس دن قرآن کو نیزہ پر بلند کیا گیا تھا، امام علیہ السلام پر اسے قبول کرنے کے لئے بہت زیادہ دباوٴ ڈالا تھا یہاں تک کہ قبول نہ کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد اپنی شیطانی فکروں اور اعتراضی مزاج کی وجہ سے اپنے عقیدے سے پلٹ گئے اور اسے گناہ اور خلاف شرع بلکہ شرک اور دین سے خارج جانا اور خود توبہ کیا اور امام علیہ السلام سے کہا کہ وہ بھی اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کریں اور حکمیت کے نتیجے کے اعلان سے پھلے فوج کو تیار کریں اور معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھیں۔
لیکن علی علیہ السلام ایسے نہ تھے کہ جو گناہ انجام دیتے اور غیر شرعی چیزوں کو قبول کرتے اور جو عہد وپیمان باندھا ھے اسے نظر انداز کردیتے امام علیہ السلام نے اس گروہ پر کوئی توجہ نھیں دی اور کوفہ پھونچنے کے بعد پھر اپنی زندگی بسر کرنے لگے، لیکن شرپسند خوارج نے اپنے برے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف کام کیے جن میں بعض یہ ھیں:
۱۔ امام علیہ السلام سے خصوصی ملاقاتیں کرنا تاکہ انھیں عہد وپیمان توڑنے پر آمادہ کریں۔
۲۔ نمازجماعت میں حاضر نہ ھونا۔
۳۔ مسجد میں علی علیہ السلام کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگانا۔
۴۔ علی علیہ السلام اور جو لوگ صفین کے عہد وپیمان کو مانتے تھے انھیں کافر کہنا۔
۵۔ عظیم شخصیتوں کو قتل کرکے عراق میں بد امنی پیدا کرنا۔
۶۔ امام علیہ السلام کی حکومت کے مقابلے میں مسلّحانہ قیام۔
اس کے مقابلے میں امام علیہ السلام نے جو کام خوارج کے فتنے کو ختم کرنے کے لئے انجام دیا ان امور کو بطور خلاصہ پیش کررھے ھیں:
۱۔صفین میں حکمیت کے مسئلہ پر اپنے مؤقف کو واضح کرنا اور یہ بتانا کہ آپ نے ابتداء سے ھی اس چیز کی مخالفت کی اوراس پر دستخط کرانے کے لئے زوروزبردستی اور دباوٴ سے کام لیا گیا ھے۔
۲۔ خوارج کے تمام سوالوں اور اعتراضوں کا جواب اپنی گفتگو اور تقریروں میں بڑی متانت و خوش اسلوبی سے دینا۔
۳۔اچھی شخصیتوں کو مثلاً ابن عباس کو ان لوگوں کے ذہنوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے بھیجنا۔
۴۔ تمام خوارج کو خوشخبری دینا کہ خاموشی اختیار کریں اگرچہ ان کی فکر ونظر تبدیل نہ ھوںتو دوسرے مسلمانوں اور ان میں کوئی فرق نھیں ھوگا اور اسی وجہ سے بیت المال سے ان کا حصہ دیا گیا اور ان کے وظیفوں کو ختم نھیں کیا۔
۵۔ مجرم خوارج جنھوں نے خباب اور ان کی حاملہ بیوی کو قتل کیا تھا، ان کا تعاقب کرنا۔
۶۔ ان کے مسلّحانہ قیام کا مقابلہ کرکے فتنہ وفساد کو جڑ سے ختم کرنا۔
یہ تمام عنوان اس حصے میں ھماری بحث کا موضوع ھیں اور خوش بختی یہ ھے کہ تاریخ نے ان تمام واقعوں کے وقوع کے وقت کو دقیق طور پر نقل کیا ھے اور ھم تمام واقعات کو طبیعی محاسبہ کے اعتبار سے بیان کریں گے۔
ایک دن خوارج کے دو سردار زرعہ طائی اور حرقوص امام علیہ السلام کی خدمت میں پھونچے اور بہت سخت تکرارو گفتگو جسے ھم نقل کررھے ھیں۔
زرعہ وحرقوص: ”لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰہِ“
امام علیہ السلام:میں بھی کہتا ھوں:”لا حُکْمَ اِلاّٰ لِلّٰہِ“
حرقوص: اپنی غلطی کی توبہ کرو اور حکمیت کے مسئلے سے بازآجاوٴ اور ھم لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کرو، تاکہ اس کے ساتھ جنگ کریں اور خدا کی بارگاہ میں شہادت پاجائیں۔
امام علیہ السلام: میں نے یھی کام کرنا چاہا تھا لیکن تم لوگوں نے صفین میں مجھ سے زورو زبردستی کی اور حکمیت کے مسئلہ کو مجھ پر تحمیل کردیا اور اس وقت ھمارے اور ان کے درمیان عہدوپیمان ھوا ھے اور ھم نے اس پر دستخط بھی کئے ھیں اور کچھ شرائط کو قبول کیا ھے اور ان لوگوں کو وعدہ دیا ھے اور خداوندعالم فرماتاھے:
”وَاٴَوْفُوا بِعَہْدِ اللهِ إِذَا عَاہَدْتُمْ وَلاَتَنقُضُوا الْاٴَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمْ اللهَ عَلَیْکُمْ کَفِیلاً إِنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ “(نحل ۹۱)
اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہر گز نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بنا چکے ھو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ھے۔
حرقوص: یہ کام گناہ ھے اور ضروری ھے کہ آپ توبہ کریں۔
امام علیہ السلام: یہ کام گناہ نھیں ھے بلکہ میں تم کمزور فکر و رائے تھے(جس کا باعث خود تم لوگ تھے) اور میں نے تم لوگوں کو اس سلسلے میں پھلے ھی بتایا تھا اور اس کے انجام سے منع کیاتھا۔
زرعہ: خدا کی قسم اگر مردوں کی حاکمیت کو خدا کی کتاب [13] میں (قرآن کے مطابق) ترک نھیں کیا تو خدا کی مرضی کے لئے ھم تم سے جنگ کریں گے۔
امام علیہ السلام(غیظ وغضب کے عالم میں ): اے بدبخت تو کتنا برا آدمی ھے بہت ھی جلد تجھے ھلاک شدہ دیکھوں گااور ھوائیں تیرے لاشے پر چل رھی ھوں گی۔
زرعہ: میری آرزو ھے کہ ایسا ھی ھو۔
امام علیہ السلام: شیطان نے تم دونوں کی عقل چھین لیا ھے خدا کے عذاب سے ڈرو، اس دنیامیں جس چیز کے لئے جنگ کرنا چاہتے ھو اس میں کوئی فائدہ نھیں ھے۔
اس وقت دونوں لَا حُکْمَ الِّٰا للّٰہِ کا نعرہ لگاتے ھوئے امام کے پاس سے اٹھ کرچلے گئے۔[14]
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ایک مستحب عمل ھے اور اس کی مخالفت گناہ نھیں ھے لیکن اسلام کے آغاز میں دوسرے حالات تھے اور جماعت میں مسلسل شرکت نہ کرنے کی صورت میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ حکومت وقت پر معترض اور منافق ھے، اسی وجہ سے اسلامی روایتوں میں نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید ھوئی ھے کہ فی الحال یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نھیں ھے۔[15]
خوارج نے مسجد میں حاضری نہ دے کر اور نماز جماعت میں شریک نہ ھوکراپنی مخالفت کو ظاہر کردیا بلکہ جب نماز جماعت ھوتی تھی تو اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے۔
ایک دن امام علیہ السلام نماز پڑھ رھے تھے کہ خوارج کے ایک سردار ” ابن کوّاء“ نے اعتراض کے طور پر یہ آیت پڑھی: ” ولقد اٴوحِیَ الیک والی الّذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطَنَّ عملک ولتکوننَّ من الخاسرین“(سورہ زمر ۶۵)
اور(اے رسول)تمہاری طرف اور ان(پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پھلے ھوچکے ھیں یقینا یہ وحی بھیجی جاچکی ھے کہ اگر(کھیں) شرک کیا تو یقینا تمہارے سارے اعمال برباد ھوجائیں گے اور تم ضرور گھاٹے میں ھوگے۔
امام علیہ السلام نے پوری سنجیدگی اور قرآن کے حکم کے مطابق ” وَاذَاقُرِیَ القرآنُ فَاستَمِعُو الہ٘ واٴنصِتُوا لعلّکم تُرحَمون“ [16](سورہ اعراف،۲۰۴)، خاموش رھے تاکہ ابن کوّاء آیت کو تمام کردے، پھر آپ نے نماز پڑھی لیکن اس نے پھر آیت پڑھی اور امام پھر خاموش رھے، ابن کوّاء نے کئی مرتبہ یھی کام کیا اور امام علیہ السلام صبروضبط کے ساتھ خاموش رھے، بالآخر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرماکر اس کا جواب اس طرح دیا کہ نماز پر بھی کوئی اثرنہ پڑا اور اسے خاموش و سرکوب کردیا، آیت یہ ھے: ”فَا صبِر اِنَّ وَعَد اللّٰہ حقٌّ ولا یَستَخِفَّنَّکَ الّذین لایُومنون “(روم، ۶۰)،(اے رسول)تم صبر کرو بے شک خدا کا وعدہ سچا ھے اور(کھیں) ایسا نہ ھوکہ جو لوگ ایمان نھیں رکھتے تمھیں ھلکا بنادیں۔[17]
ابن کوّاء نے اس آیت کی تلاوت کرکے بڑی بے حیائی و بے شرمی سے پیغمبر اسلام کے بعد سب سے پھلے مومن کومشرک قرار دیا تھاکیونکہ غیر خدا کو حکمیت کے مسئلہ میں شریک قراردیا تھا۔ھم بعد میں الھی حاکمیت کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔
خوارج اپنی موجودگی کا اعلان اور امام علیہ السلام کی حکومت سے مخالفت ظاہر کرنے کے لئے مسلسل مسجد اور غیر مسجد میں لاحکم الا للّٰہ کا نعرہ لگاتے تھے اور یہ نعرہ قرآن سے لیا تھا اور یہ درج ذیل جگھوں پر استعمال ھوا ھے:
۱۔” إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْرُ الْفَاصِلِینَ “(سورہ انعام:۵۷)
حکم خدا سے مخصوص ھے اور وہ حق کا حکم دیتا ھے اور وھی بہترین فیصلہ کرنے والا ھے۔
۲۔”ِ اٴَلاَلَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ اٴَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ“(سورہ انعام:۶۲)
آگاہ ھوجاوٴ کہ حکم صرف اسی کے لئے ھے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ھے۔
۳۔” اِن الْحُکْمُ الا للّٰہ اَمَرَ اٴلَّا تَعْبُدُوا اِلَّا ایّٰاہُ “(سورہ یوسف: ۴۰)
حکم صرف خدا سے مخصو ص ھے اس نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔
۴۔”إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ “ (سورہ یوسف:۶۸)
حکم خدا سے مخصوص ھے اسی پر بھروسہ کرو اور بھروسہ کرنے والے بھی اسی پر بھروسہ کئے ھیں۔
۵۔ ” لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٴُولَی وَالْآخِرَةِ وَلَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ‘ ‘(سورہ قصص: ۷۰)
دنیا وآخرت میں تعریف اسی سے مخصوص ھے اور حکم بھی اسی کا ھے اور اسی کی بارگاہ میں واپس جاناھے۔
۶۔” َإِنْ یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلَّہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیر“(سورہ غافر:۱۲)
اگر اس کے لئے شریک قرار دیا تو تم فورا مان لیتے ھو تو اب حکم بھی اسی بزرگ واعلیٰ خدا سے مخصوص ھے۔
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ ان تمام آیتوں میں ” حکم “ خدا سے مخصوص ھے اور حکم کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے منسوب کرنا شرک ھے لیکن دوسری آیت میں بیان ھوا ھے کہ بنی اسرائیل کو کتاب، حکم اور نبوت دیا ھے: ” وَلَقَدْ آتَیْنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ “(سورہ جاثیہ: ۱۶)
ایک دوسری جگہ خداوندعالم نے پیغمبر(ص) کو حکم دیا کہ حق کا حکم کریں۔
” فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ وَلاَتَتَّبِعْ اٴَہْوَائَہُمْ “(سورہ مائدہ: ۴۸)
آپ ان لوگوں کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔
ایک جگہ پر حضرت داوٴد کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان کے ساتھ فیصلہ کریں۔
” فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی ٰ “(سورہ ص: ۲۶)
کتنے رنج وافسوس کی بات ھے کہ امام علیہ السلام ایسے مٹھی بھر جاھل اور نادان گروہ سے دوچارھوئے جو ظاہر آیات کو اپنی دستاویز قرار دیتے تھے اور معاشرے کو گمراہ اور برباد کرتے تھے۔
گروہ خوارج قرآن کا حافظ وقاری تھالیکن پیغمبر کے فرمان کے مطابق، قرآن ان کے حلق اور سینہ سے نیچے نھیں اترا تھا، اور ان کی فکر اور سمجھ سے بہت دور تھا۔
وہ سب اس فکر میں نہ تھے کہ امام علیہ السلام اور قرآن کے واقعی مفسر یا ان کے تربیت یافتہ حضرات کی خدمت میں پھونچیں، تاکہ ان لوگوں کو قرآن کی آیتوں کے معانی و مفاھیم کے مطابق ان کی رہبری کریں اور ان لوگوں کو سمجھائیں کہ حکم کس معنی میں خدا سے مخصوص ھے کیونکہ جیسا گذر چکا ھے، حکم کے کئی معنی ھیں یا اصطلاحاً یہ کھیں کہ اس کے بہت سے ایسے موارد ھیں بطور خلاصہ ھم تحریر کررھے ھیں:
۱۔عالم خلقت کی تدبیر اور خدا کے ارادے کا نفوذ،(یوسف: ۶۰)
۲۔ قانون سازی اور تشریع(انعام: ۵۷)
۳۔ لوگوں پر حکومت اور تسلط ایک اصل حق کے طور پر(یوسف:۴۰)
۴۔ الٰھی اصول وقوانین کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان ھوئے اختلاف کا فیصلہ وانصاف(مائدہ:۴۹)
۵۔ لوگوں کی سرپرستی،رہبری اور پیشوائی، الٰھی امانت دارکے عنوان سے(جاثیہ ۱۶)
اب جبکہ ھمیں معلوم ھوا کہ حکم کے بہت سے مفاھیم ھیں یا بہ عبارت صحیح، مختلف مواردمقامات ھیں تو کس طرح ممکن ھے کہ ایک آیت کے ظاہری معنی پر عمل کیا جائے اور صفین میں حکمین کا کی طرف رجوع کرنے اس کے مخالف قرار دیا جائے؟
اب اس وقت یہ دیکھنا ھے کہ کون سا حکم خدا سے مخصوص ھے پھر امام علیہ السلام کے عمل کی تحقیق ھو اور اس کی موافقت یا مخالفت کو دیکھا جائے اور یہ ایسا کام ھے جس میں صبر، ضبط، تدبیر اور فکر کا ھونا ضروری ھے اور یہ کبھی بھی نعروں اور شوروغوغا سے حل نھیں ھوسکتا۔
امام علیہ السلام نے اپنے مخصوص صبروضبط کے ساتھ اپنے بعض احتجاجات میں ان لوگوں کو آیتوں کے مقصد اورمفھوم سے روشناس کرایا، اسی وجہ سے ان لوگوں کو تسلیم ھونا پڑا لیکن ضد، ہٹ دھرمی اور دشمنی کا کوئی علاج نھیں ھے اور تمام انبیاء اور مصلحین اس کے علاج سے عاجز وناتواں رھے ھیں۔
ھم گذشتہ آیتوں کے معانی و مفاھیم تحقیق کرنے سے پھلے خوارج کی بعض اشتعال انگیز اور تندسخت مقابلوں کو یہاں نقل کررھے ھیں تاکہ اس گروہ کی سرکشی اور ہٹ دھرمی بخوبی واضح ھوجائے۔
امام -کی بلند ھمتی اور خوش اخلاقی
ہرصاحب قدرت ایسے بے ادب اور بے غیرت جسورلوگوں کو جو ملک کے حاکم کو کافر اور مشرک کہتے تھے، ضرور سزا دیتا لیکن امام علیہ السلام نے تمام حاکموں کے طریقے کے برخلاف بڑی ھی بلند ھمتی اور کشادہ دلی کے ساتھ ان سب کے ساتھ روبرو ھوئے۔
ایک دن امام علیہ السلام خطبہ دے رھے تھے اور لوگوں کو موعظہ ونصیحت کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک خوارج میں سے ایک شخص مسجد کے گوشہ سے اٹھا اور بلند آواز سے کہا: لَاحُکْمَ اِلّٰا لِلّٰہِ جب وہ نعرہ لگا چکا تو دوسرا شخص اٹھا اوروھی نعرہ لگایا اس کے بعد ایک گروہ اٹھا اور وھی نعرہ لگا نا شرو ع کردیا۔
امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا: ان لوگوں کا کلام ظاہر میں تو حق ھے لیکن وہ لوگ باطل کو مراد لے رھے ھیں پھر فرمایا ” اٴما انَّ لکم عندنا ثلاثاً فَا صبَحتمو نا “یعنی جب تک تم لوگ ھمارے ساتھ ھو تین حق سے بہرہ مند رھو گے(اور تمہاری جسارتیں اور بے ادبیاں اس سے مانع نھیں ھوں گی کہ ھم تمھیں ان حقوق سے محروم کردےں۔)
۱۔” لٰا نَمْنَعُکُمُ مَسٰاجِدَ اللّٰہِ اٴنْ تَذْکُروْا فِیْھٰا اِ سْمَہُ“ تم کو مسجد میں داخل ھونے سے محروم نھیں کریں گے تاکہ تم وہاں نماز پڑھو۔
۲۔” لٰا نَمْنَعُکُمْ مِنَ الْفَئِی مَادَامَتْ اَیْدِیْکُمْ مَعَ اَٴیْدِیْنٰا“تم کو بیت المال سے محروم نھیں کریں گے جب تک کہ تم ھماری مصاحبت میں ھو(اور دشمن سے نھیں ملے ھو)۔
۳۔” لا نُقٰاتِلُکُم حَتّٰی تَبْدَ وٴُوْنا“ جب تک تم جنگ نھیں کرو گے ھم بھی تمہارے ساتھ جنگ نھیں کریں گے۔[18]
ایک دوسرے دن بھی جب امام علیہ السلام مسجد میں تقریر فرمارھے تھے کہ خوارج میں سے ایک شخص نے نعرہ لگایا اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کرلیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:” اَللّہُ اَکْبَرُ، کَلِمةُ حَقًّ یُرادُ بِھا الْبَاطِلِ“ یعنی بات تو حق ھے لیکن اس سے باطل معنی مراد لیا جا رہا ھے۔پھر فرمایا:اگر یہ لوگ خاموش رھیں تو دوسروں کی طرح ان سے بھی پیش آؤں گا اور اگر بات کریں تو جواب دوں گا اور اگر فتنہ وفساد برپا کریں گے تو ان سے جنگ کروں گا۔ اس وقت خوارج میں سے ایک دوسرا شخص یزید بن عاصم محاربی اٹھا اور خدا کی حمدوثناء کے بعد کہا: خدا کے دین میں ذلت قبول کرنے سے خدا کی پناہ مانگتا ھوں، خدا کے کام میں یہ ایک ایسا دھوکہ اور ذلت ھے کہ اس کا انجام دینے والا خدا کے غضب کا شکار ھوتا ھے، علی مجھے قتل سے ڈراتے ھو؟
امام علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نھیں دیا(اس لئے کہ جواب جاھلان باشد خموشی)اور آئندہ کے حادثوں کا انتظار کرنے لگے۔[19]
امام علیہ السلام کی فوج کا ایک حصہ جو آپ کا مستحکم بازو شمارھوتا تھا اس کے فتنہ وفساد نے امام کے لئے مشکلات کھڑی کردیں اور یہ فتنہ دوبار اٹھا ایک مرتبہ صفین میں ، فتنہ وفساد کرنے والوں کی وہاں مانگ یہ تھی کہ جنگ روک دیں اور حکمین کے فیصلے کو قبول کریں ورنہ آپ کو قتل کردیں گے۔ دوسری مرتبہ یہ فتنہ اس وقت اٹھا کہ جب عہد وپیمان ھوگیا اور حکمیت کو اسی گروہ کی وجہ سے مان لیاجو کہ اس مرتبہ پھلے مطالبہ سے بالکل برعکس مطالبہ کر رھے تھے اور عہد وپیمان کو توڑنے اور اسے نظر انداز کرنے کے خواہاںتھے۔
ان کی پھلی خواہش نے اگرچہ امام علیہ السلام کی جیت اورفتح کو ختم کر دیالیکن صلح کرنا ایسے حالات میں کہ امام علیہ السلام کے سادہ لوح سپاھی نہ صرف جنگ کرنے کے لئے حاضر نہ تھے بلکہ یہاںتک آمادہ تھے کہ حضرت کو قتل کردیں، غیر شرعی کام اور عقل کے اصول وقوانین کے خلاف نہ تھا؟ اور خود امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق،(جیسا کہ) آپ نے خوارج کے سرداروں کو خطاب کرتے ھوئے فرمایا: ” حکمین کے فیصلے کا قبول کرنا اپنے فوجیوں کے دباوٴ کی وجہ سے تھا جو تدبیر میں ناتوان اور انجام کارمیں کمزور تھے انھیں لوگوں کی وجہ سے مجھے قبول کرنا پڑا “[20]جب کہ ان کی دوسری خواہش قرآن کے صریحاً برخلاف تھی کیونکہ قرآن تمام لوگوں کو اپنے عہدو میثاق اور پیمان کو پورا کرنے کی دعوت دیتاھے۔
اس صورت میں امام علیہ السلام کے پاس صرف ایک ھی راستہ تھا کہ آپ ثابت واستوار رھیں اور فریب خوردہ افراد کو ہدایت ونصیحت کریں اور ان کو منتشر اور متفرق کرنے کی کوشش کریں، اسی وجہ سے آپ نے پھلے ہدایت کرناشروع کیا اور جب یہ چیز موٴثر ثابت نہ ھوئی تو حالات کے مطابق دوسرے طریقے استعمال کئے مثلاً آپ نے اپنے فاضل وعالم اصحاب جوکہ مسلمانوں کے درمیان کتاب وسنت کی تعلیم کی آگاھی میں مشھور ومعروف تھے اور انھیں خوارج کی قیام گاہ بھیجا۔
ابن عباس امام علیہ السلام کے حکم سے خوارج کی قیام گاہ(چھاوٴنی) گئے اور ان سے گفتگو کی جسے ھم نقل کررھے ھیں:
ابن عباس: تمہاراکیا کہناھے اورا میر المومنین علیہ السلام پر تمہارا کیا اعتراض ھے؟
خوارج: وہ امیرالمومنین تھے لیکن جب حکمیت قبول کی تو کافر ھوگئے،انھیں چاھیے کہ اپنے کفر کا اعتراف کرکے توبہ کریں تاکہ ھم لوگ ان کے پاس واپس چلے جائیں۔
ابن عباس: ہرگز مومن کے شایان شان نھیں ھے کہ جب تک اس کا یقین اصول اسلامی میں شک سے آلودہ نہ ھو اپنے کفر کا اقرار کرے۔
خوارج: ان کے کفر کی علت یہ ھے کہ انھوں نے حکمیت کو قبول کیا۔
ابن عباس: حکمیت قبول کرنا ایک قرآنی مسئلہ ھے کہ خدا نے کئی جگہ پر اس کا تذکرہ کیا ھے، خدا فرماتاھے:” وَمَنْ قَتَلَہُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ“(سورہ مائدہ: ۹۵)
(اے ایمان لانے والو شکار کو حالت احرام میں قتل نہ کرو) اور تم میں سے جو بھی اسے عمداً قتل کرے تو اسے چاھیے کہ اسی طرح کا کفارہ چوپایوں سے دے، ایسا کفارہ کہ تم میں سے دو عادل شخص اسی جانور کی طرح کے کفارے کی تصدیق کریں۔
اگرخداوندعالم حالت احرام میں شکار کرنے کے مسئلہ میں کہ جس میں کم مشکلات ھیں،تحکیم کا حکم دے تو وہ امامت کے مسئلہ میں کیوں نہ حکم دے اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کے لئے مشکل پیش آئے اس وقت یہ حکم قابل اجراء نہ ھو؟
خوارج: فیصلہ کرنے والوں نے ان کے نظریہ کے خلاف فیصلہ کیا ھے لیکن انھوں نے قبول نھیں کیا ھے۔
ابن عباس: فیصلہ کرنے والوں کا مرتبہ امام علیہ السلام کے مرتبہ وعظمت سے بلند نھیں ھے۔ جب بھی مسلمانوں کا امام غیر شرعی کام کرے تو امت کو چاھیے کہ اس کی مخالفت کرے، تو پھر اس قاضی کی کیا حیثیت جو حق کے خلاف حکم کرے؟
اس وقت خوارج لاجواب ھوگئے اور انھوں نے شکست تو کوردل کافروں کی طرح دشمنی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور ابن عباس پر اعتراض کیا اور کہا: تم اسی قریش کے قبیلے سے ھو جس کے بارے میں خدا نے کہا ھے: ” بَل ھُم قومٌ خصِمُون “(زخرف: ۵۸) یعنی قریش جھگڑالوگروہ ھے۔ اورنیز خدا نے کہا ھے: ” وتُنذر بہ قوماً لدّاً “(مریم:۹۷) قرآن کے ذریعےجھگڑالوگروہ کو ڈراوٴ۔[21]
اگر وہ لوگ حق کے طلبگار ھوتے اورکوردلی، اکٹر اور ہٹ دھرمی ان پر مسلط نہ ھو تو ابن عباس کی محکم و مدلل معقول باتوں کو ضرور قبول کرلیتے اور اسلحہ زمین پر رکھ کر امام علیہ السلام سے مل جاتے اور اپنے حقیقی دشمن سے جنگ کرتے، لیکن نہایت ھی افسوس ھے کہ امام علیہ السلام کے ابن عم کے جواب میں ایسی آیتوں کی تلاوت کی جو مشرکین قریش سے مربوط ھیں نہ کہ قریش کے مومنین سے۔
حَکَم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ھے کہ قرآن نے ان لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں بھی مثلاً گھریلو اختلاف کو حل کرنے کے لئے جائز قرار دیا ھے اور اس کے نتیجے کو دونوں طر ف کے حسن نیت کو نیک شمار کیا ھے،جیسا کہ ارشادھواھے: وان خِفتُم شقاقٌ بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ و حکماً من اٴھلِھا ان یریدا اصلاحاً یوفِقُ اللّٰہُ بینھما ان اللّٰہ کان علیماً خبیراً(سورہ نساء: ۳۵)” اور اگر تمھیں میاں بیوی کی نااتفاقی کا خوف ھو تو مرد کے کنبہ سے ایک حکم اور زوجہ کے کنبہ سے ایک حکم بھیجواگر یہ دونوں میں میل کرانا چاھیں گے تو خدا ان کے درمیان اس کا موافقت پیدا کردے گا، خدا تو بے شک واقف وبا خبر ھے“۔
یہ ہر گز نھیں کہا جا سکتا کہ امت کا اختلاف تین مھینے کی شدید جنگ کے بعد میاں اور بیوی کے اختلاف سے کم ھے لہذا یہ بھی نھیں کہا جا سکتا کہ اگر امت دونوں طرف سے دو آدمیوں کے فیصلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں چاھے تو کام انجام دےا ھے اور کفر اختیار کیا ھے جس کے لئے ضروری ھے کہ توبہ کرے [22]
ان آیتوں پر توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ خوارج کا مسئلہٴ حکمین کو غلط کہنا سوائے ہٹ دھرمی، دشمنی اور انانیت کے کچھ نہ تھا۔ ابن عباس نے صرف ایک ھی مرتبہ احتجاج نھیں کیا بلکہ دوسری مرتبہ بھی امام علی السلام نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ابن عباس کو بھیجا اور اس پر گواہ یہ ھے کہ انھوں نے پچھلے مناظرہ میں قرآنی آیتوں سے دلیلیں پیش کی تھیں، جب کہ امام علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں انھیں حکم دیا تھا کہ خوارج کے ساتھ پیغمبر کی سنت سے مناظرہ کریں، کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت زیادہ احتمال اور مختلف توجیھیں کی جا سکتی ھیں اور ممکن ھے خوارج ایسے احتمال کو لیں جو ان کے لئے مفید ھو، جیسا کہ حضرت فرماتے ھیں: ” لا تخاصِمھم بالقرآن، فان القرآن حمّال ذو وجوہٍ تقول ویقولون ولکن حاججھُم بالسُّنة فانّھُم لن یجدوا عنھا محیصاً “ [23]خوارج کے ساتھ قرآن کی آیتوں سے مناظرہ نہ کرو کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت سے وجوہ و احتمالات پائے جاتے ھیں اس صورت میں تم کچھ کھو گے اور وہ کچھ کھیں گے(اور کوئی فائدہ نہ ھوگا) لیکن سنت کے ذریعے ان پر دلیل قائم کرو تو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ان کے پاس نہ ھوگا۔
جب امام علیہ السلام عظیم اور بزرگ شخصیتوں مثلاً صعصعہ بن صوحان عبدی، زیاد بن النضر اور ابن عباس وغیرہ کو ان کے پاس ہدایت وراہنمائی کے لئے بھیجا مگر مایوس ھوئے تو خود آپ نے ارادہ کیا ان کے پاس جائیں تاکہ پوری تشریح، وضاحت کے ساتھ حکمین کے قبول کرنے کے مقدمات اورعوامل و اسباب کو ان کے سامنے بیان کریں اور یہ بتائیں کھوہ لوگ خود اس کام کے باعث بنے ھیں(مجبور کیا تھا)، شاید اس کے ذریعے تمام خوارج یا ان میں سے کچھ لوگوں کو فتنہ وفساد سے روک دیں۔
امام نے روانہ ھوتے وقت صعصعہ سے پوچھا: فتنہ وفساد کرنے والے خوارج کون سے سردار کے زیر نظر ھیں؟ انھوں نے کہا: یزید بن قیس ارحبی[24] لہذا امام علیہ السلام اپنے مرکب پر سوار ھوئے اور اپنی چھاوٴنی سے نکل گئے اور یزید بن قیس ارحبی کے خیمے کے سامنے پھونچے اور دورکعت نماز پڑھی پھر اپنی کمان پر ٹیک لگائی اور خوارج کی طرف رخ کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:
کیا تم سب لوگ صفین میں حاضر تھے؟ انھوں نے کہا:نھیں۔آپ نے فرمایا: تم لوگ دوگروھوں میں تقسیم ھوجاوٴ تاکہ ہر گروہ سے اس کے مطابق گفتگو کروں۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا: ”خاموش رھو شور وغل نہ کرو اور میری باتوں کو غور سے سنو، اپنے دل کو میری طرف متوجہ کرو اور جس سے بھی میں گواھی طلب کروں وہ اپنے علم وآگاھی کے اعتبار سے گواھی دے “ اس وقت اس سے پھلے کہ آپ ان لوگوں سے گفتگو کرتے اپنے دل کو پروردگارکی طرف متوجہ کیا اور پھر تمام لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کیا اور کہا:
” خدایا یہ ایسی جگہ ھے کہ جو بھی اس میں کامیاب ھوا وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ھوگا اور جو بھی اس میں محکوم مذموم ھوگا وہ اس دوسری دنیا میں بھی نابینا اور گمراہ ھوگا“۔
”کیا تم لوگوں نے قرآن کودھوکہ اور فریب کے ساتھ نیزہ پر بلند کرتے وقت یہ نھیں کہا تھا کہ وہ لوگ ھمارے بھائی اور ھمارے ساتھ کے مسلمان ھیں اور اپنے گزشتہ کاموں کوچھوڑدیا ھے اور پشیمان ھوگئے ھیں اور خدا کی کتاب کے سایہ میں پناہ لئے ھوئے ھیں ھمارے لئے ضروری ھے کہ ان کی بات کو قبول کریں اور ان کے غم واندوہ کو دور کردیں؟اور میں نے تمہارے جواب میں کہاتھا: یہ ایک ایسی درخواست ھے کہ جس کا ظاہر ایمان اورباطن دشمنی،بغض وحسداورکینہ ھے اس کی ابتدا رحمت اور راحت اور اس کا انجام پشیمانی اور ندامت ھے۔لہذا اپنے کام پر باقی رھو اپنے راستہ سے نہ ہٹو، اور دشمن سے جہاد کرنے پر دانتوں کو بھینچے رھو اور کسی بھی نعرہ باز کی طرف توجہ نہ دو، کیونکہ اگر اس سے موافقت کروگے تو گمراہ ھوجاؤگے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ذلیل وخوار ھوجائے گا۔بہرحال یہ کام(مسئلہٴ تحکیم) میری تاکید کے برخلاف انجام پایا اور میں نے دیکھا کہ ایسا موقع تم نے دشمن کو دیدیا ھے۔[25]
ابن ابی الحدید ۳۶ ویں خطبہ کی شرح میں کہتا ھے:خوارج نے کہا: جو کچھ بھی تم نے کہا ھے وہ سب حق ھے اور بجا ھے لیکن ھم کیا کریں ھم سے تو بہت بڑا گناہ ھوگیا ھے اور ھم نے توبہ کرلیا ھے اور تم بھی توبہ کرو، امام علیہ السلام نے بغیر اس کے کہ کسی خاص گناہ کی طرف اشارہ کریں، بطور کلی کہا: ” اَستغفِر اللّٰہ من کلّ ذنبٍ “ اس وقت چھ ہزار لوگ خوارج کی چھاوٴنی سے نکل آئے اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ھوگئے اور ان پر ایمان لے آئے۔
ابن ابی الحدید اس استغفار کی توضیح میں کہتا ھے: امام علیہ السلام کی توبہ ایک قسم کا توریہ اور ”الحرب خُد عةٌ “ کے مصادیق میں سے ھے۔آپ نے ایک ایسی مجمل بات کھی جو تمام پیغمبرکہتے ھیں اور دشمن بھی اس پر راضی ھوگئے، اس کے بغیرکہ امام علیہ السلام نے گناہ کا اقرار کیا ھو۔ [26]
جب خوارج اپنی چھاوٴنی سے کوفہ واپس آئے تو انھوں نے لوگوں کے درمیان یہ خبر پھیلادی کہ امام نے حکمیت قبول کرنے سے انکار کردیا ھے، اسے ضلالت وگمراھی سمجھا ھے اور ایسے وسائل آمادہ کررھے ھیں کہ لوگوں کو حکمین کی رائے کے اعلان سے پھلے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں۔
اسی دوران اشعث بن قیس جس کی زندگی اور امام علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی روش مکمل طور پر نفاق آمیز تھی، ظاہرمیں دوستانہ طور پر لیکن باطن میں معاویہ کے نفع کے لئے اس نے کام کرنا شروع کیا اور کہا: لوگ کہتے ھیں کہ امیرالمومنین نے اپنے عہد وپیمان کو توڑدیا ھے اور مسئلہ حکمیت کو کفر و گمراھی سے تعبیر کیا ھے اور مدت ختم ھونے کے انتظار کو خلاف جاناھے۔
اشعث کی گفتگو نے امام علیہ السلام کوایسی مصیبت میں قرار دیا کہ ناچار امام علیہ السلام نے حقیقت بیان کردی اور کہا: جو شخص یہ فکر کررہا ھے کہ میں نے تحکیم کے عہد وپیمان کو توڑ دیا ھے وہ جھوٹ بول رہاھے اور جو شخص بھی اس کو گمراھی وضلالت سے تعبیر کررہا ھے وہ خود گمراہ ھے۔
حقیقت بیان کرنا خوارج کے لئے اتنا سخت ھوا کہ لاحکم الاّ للّٰہ کا نعرہ لگاتے ھوئے مسجد سے
باہر چلے گئے اور دوبارہ اپنی چھاوٴنی میں واپس چلے گئے۔
ابن ابی الحدید کہتے ھیں کہ امام علیہ السلام کی حکومت میں ہر طرح کا رخنہ وفساد اشعث کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر وہ اس مسئلہ کو نہ چھیڑتا تو امام علیہ السلام حقیقت کو بیان نہ کرتے، اور خوارج جو استغفار کلی پر قناعت کئے ھوئے تھے امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر معاویہ سے جنگ کرتے،لیکن وھی(اشعث) سبب بنا کہ امام علیہ السلام توریہ کے پردہ کو چاک کرکے حقیقت کو واضح وآشکار کردیں۔
مبرّد اپنی کتاب ” کامل “ میں امام علیہ السلام کا دوسرا مناظرہ نقل کرتے ھیں جو پھلے والے مناظرہ سے بالکل الگ ھے اور احتمال یہ ھے کہ یہ دوسرا مناظرہ ھے جو امام علیہ السلام نے خوارج سے کیا ھے، جس کا خلاصہ یہ ھے:
امام علیہ السلام: کیا تمھیں یاد ھے جس وقت لوگوں نے قرآن کو نیزے پر بلند کیا اس وقت میں نے کہا تھا کہ یہ کام دھوکہ اورفریب ھے، اگر وہ لوگ قرآن سے فیصلہ چاہتے تو میرے پاس آتے اور مجھ سے فیصلے کے لئے کہتے؟ کیا تمہاری نگاہ میں کوئی ایسا ھے جو ان دونوں آدمیوں کے مسئلہٴ حکمیت کو میرے اتنا برا اور خراب کہتا؟
خوارج: نھیں۔
امام علیہ السلام: کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ھو کہ تم لوگوں نے مجھے اس کام مجبور کیا جبکہ میں اسے ہر گز نھیں چاہ رہا تھا اور میں نے مجبور ھوکر تمہاری درخواست کو قبول کیا اور یہ شرط رکھی کہ قاضیوں کا حکم اس وقت قابل قبول ھوگا جب خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں؟ اور تم سب جانتے ھو کہ خدا کا حکم مجھ سے تجاوز نھیں کرے گا(اور میں امام برحق اور مہاجرین و انصار کا چنا ھوا خلیفہ ھوں)۔
عبداللہ بن کوّاء: یہ بات صحیح ھے کہ ھم لوگوں کے اصرار پرآپ نے ان دونوں آدمیوں کو دین خدا کے لئے َحکمَ قرار دیا لیکن ھم اقرار کرتے ھیں کہ اس عمل کی وجہ سے ھم کافر ھوگئے اور اب اس سے توبہ کررھے ھیں اورآپ بھی ھم لوگوں کی طرح اپنے کفرکا اقرار کیجئے اور اس سے توبہ کیجئے اور پھر ھم سب کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیجئے۔
امام علیہ السلام: کیا تم جانتے ھو کہ خدا نے میاں بیوی کے اختلاف کے بارے میں حکم دیا ھے کہ دو آدمیوں کی طرف رجوع کریں، جیسا کہ فرمایا ھے:کہ ” فابعثوا حکماً من اٴھلہِ وحکماً من اَھلِھا؟ “اور اسی طرح حالت احرام میں شکار کے قتل کا کفارہ معین کرنے کے بارے میں حکم دیا ھے کہ حَکَم(فیصلہ کرنے والے) کے عنوان سے دد عادلوں کی طرف رجوع کریں جیسا کہ فرمایا ھے: ” یحکم بہِ ذوا عَدل ٍ مِنکُم؟ “
ابن کوّاء:آپ نے اپنے نام سے ” امیرالمومنین “ کا لقب مٹاکر اپنے کو حکومت سے خلع اور برکنار کر دیا۔
امام علیہ السلام: پیغمبرا سلام(ص) ھمارے لئے نمونہ ھیں۔ جنگ حدیبیہ میں جس وقت پیغمبر اور قریش کے درمیان صلح نامہ اس طریقے سے لکھا گیا:” ھذا کتابٌ کتبہ محمّدٌ رسولُ اللّٰہ وسُھیلُ بن عَمر “ اس وقت قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا:، اگر آپ کی رسالت کا مجھے اقرار ھوتا تو آپ کی مخالفت نہ کرتا، لہٰذا اپنے نام سے ”رسول اللہ “کا لقب مٹادیجیے، اور پیغمبر نے مجھ سے فرمایا: اے علی! میرے نام کے آگے سے ” رسول اللہ “ کا لقب مٹادو، میں نے کہا: اے پیغمبر خدا(ص)! میرا دل راضی نھیں ھے کہ میں یہ کام کروں، اس وقت پیغمبر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا لقب مٹادیا اور مجھ سے مسکرا کر فرمایا: اے علی!تم بھی میری ھی طرح ایسی سرنوشت سے دوچار ھو گے۔
جب اما م علیہ السلام کی گفتگو ختم ھوئی اس وقت دو ہزار آدمی جو ” حروراء “ میں جمع ھوئے تھے وہ حضرت کی طرف واپس آگئے۔اور چونکہ وہ لوگ(خوارج) اس جگہ پر جمع ھوئے تھے اس لئے انھیں ” حروریّہ “ کہتے ھیں۔[27]
خوارج کے سلسلے میں امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جب تک خون ریزی نہ کریں اور لوگوں کے مال کو برباد نہ کریں اس وقت تک کوفہ اور اس کے اطراف میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ھیں، اگرچہ روزانہ رات دن ان کے انکار کے نعرے مسجد میں گونجتے رھیں اور امام کے خلاف نعرے لگاتے ھیںاس وجہ سے امام علیہ السلام نے ابن عباس کو دوبارہ ” حروراء “ دیہات روانہ کیا، انھوں نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگ کیا چاہتے ھو؟ ان لوگوں نے کہا: جتنے لوگ صفین میں موجود تھے اور حکمیت کی موافقت کی ھے وہ کوفہ سے نکل جائیں اور سب لوگ صفین چلیں اور وہاں تین دن ٹھہریں اور جو کچھ انجام دیا ھے اس کے لئے توبہ کریں اور پھر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے شام روانہ ھوں۔
اس درخواست میں ضدر، ہٹ دھرمی اور بیوقوفی صاف واضح ھے کیونکہ اگر حکمیت کا مسئلہ برا اور گناہ ھو تو ضروری نھیں ھے کہ توبہ اسی جگہ کی جائے جہاں گناہ کیا ھے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہاں تین دن تک قیام کیا جائے! بلکہ توبہ تو صرف ایک لمحہ بھر ھی واقعی شرمندگی اور کلمہ استغفار کے ذریعہ ھوجاتی ھے۔
امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا: کیوں اس وقت ایسی باتیں کررھے ھو جب کہ دو حَکَم معین کر کے بھیج دیئے گئے ھیں اور دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے سے عہد وپیمان کرلیا ھے؟
ان لوگوں نے کہا: اس وقت جنگ طولانی ھوگئی تھی، بہت زیادہ سختی و شدت بڑھ گئی تھی، بہت زیادہ زخمی ھوگئے تھے اور ھم نے بہت زیادہ اسلحے اور سواریاں گنوادی تھیں، اس لئے حکمیت کو قبول کیا تھا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا جس د ن شدت اور سختی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اس دن تم نے قبول کیا ھے؟ پیغمبراسلام(ص) نے مشرکوں کے ساتھ عہد وپیمان کیا تھا، اس کا احترام کیا لیکن تم لوگ مجھ سے کہتے ھو کہ اپنے عہدوپیمان کو ختم توڑ دو!
خوارج نے اپنے اندر احساس ندامت کیا لیکن اپنے عقیدہ کے تعصب کی بنا پرایک کے بعد ایک وارد ھوتے گئے اور نعرہ لگاتے رھے: ”لاحکم الّا للّٰہ ولو کَرِہ َ المشرکون “۔
ایک دن خوارج کا ایک شخص مسجد میں داخل ھوا اور وھی نعرہ لگایا(جسے ابھی ھم نے ذکر کیا ھے)، لوگ اس کے پاس جمع ھوگئے اور اس نے پھر وھی نعرہ لگایا اور ا س مرتبہ کہا: ” لاٰ حُکمَ الّا للّٰہ وَ لوکرِ ہَ ابوالحسنِ “۔امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا:، میں ہرگز خدا کی حکومت(اور اس کے حکم)کو مکروہ تصور نھیں کرتا، لیکن تمہارے بارے میں خدا کے حکم کا منتظر ھوں۔ لوگوں نے امام علیہ السلام سے کہا: کیوں آپ نے ان لوگوں کو اتنی مھلت اور آزادی دی ھے؟ کیوں ان کو جڑ سے ختم نھیں کردیتے؟ آپ نے فرمایا:
”لاٰ یفنُون انّھُم لفِی اصلاب ِ الرّجال واٴرحام ِ النّساء الیٰ یومِ القیامةِ “[28]وہ لوگ ختم نھیں ھوں گے ان لوگوں کا ایک گروہ ان کے باپوں کے صلب اور ماوٴں کے رحم میں باقی ھے اوریہ اسی طرح قیامت کے دن تک رھیں گے۔
[1] تاریخ بغدادی ج۸، ص ۳۴۰
[2] البدایہ والنھایہ جزء۷، ج ۴، ص ۳۰۵
[3] الغدیر ج۳، ص ۱۹۵۔ ۱۸۸، نقد کتاب منہاج السنة
[4] سیرہ ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۷
[5] صحیح بخاری
[6] التنبیہ والرد۔ ملطی ص ۵۰
[7] کامل ج۲، ص ۵۴۵۔ مطبوعہ دارصادر
[8] تاریخ طبری ج۳، ص ۳۸۶ مطبوعہ الاعلمی
[9] مجمع البیان ج۳، ص ۴۰
[10] الملل والنحل ج۱، ص ۱۱۶ ۔ لیکن اس نے اسی کتاب کے ص ۱۱۵ پر دونوں کو ایک شمار کیا ھے اور کہتاھے کہ حرقوص بن زھیر مشھور ” بہ بذی الثدیہ “
[11] کامل مبرد ج۳، ص ۹۱۹مطبوعہ حلبی ۔
[12] سیرت ابن ہشام ج۲، ص ۴۹۶
[13] تاریخ طبری میں عبارت ” کتاب اللہ “ ھے لیکن ظاہراً دین اللہ صحیح ھے۔
[14] تاریخ طبری: ج۴ ص۵۳
[15] رجوع کیجئے ، وسائل الشیعہ: ج۵، باب نماز جماعت ، باب ۱ ،ص۳۷۰۔
[16] ترجمہ:(لوگوں)جب قرآن پڑھا جائے تو غورسے سنو اور خاموش رھو تاکہ ( اسی بہانے) تم پر رحم کیا جائے۔
[17] تاریخ طبری: ج۴، ص۵۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج۲، ص ۲۲۹۔
[18] تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔
[19] تاریخ طبری ج۴، ص۵۳۔
[20] ”ما ھو ذنبٌ لکنّہ‘ عَجزٌ فی الرّاٴی وضعفٌ فی الفِعل“ِ، تاریخ طبری ج۴ ص۵۳۔
[21] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۳۔بحوالہ کامل مبرد ( ص ۵۸۲ مطبوعہ یورپ)۔
[22] میاں اور بیوی کے اختلاف سے مربوط یہ آیت امام علیہ السلام کی دلیلوں میں بیان کی جائے گی ۔
[23] شرح نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۷۷۔
[24] خوارج کا ایک سردار ، قبیلہ یشکر بن بکر بن وائل سے۔
[25] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔
[26] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۸۰۔
[27] کامل مبرّد: ص ۴۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲، ص ۲۷۵،۲۷۴۔
[28] شرح حدیدی ج۲، ص ۳۱۱،۳۱۰۔