حضرت امام علی علیہ السلام(مسلمانوں کے پھلے امام )

حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی تعلیم وتربیت کے پھلے کامل نمونہ تھے۔

علی علیہ السلام نے بچپن سے ھی پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے دامن میں پرورش پائی تھی، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی زندگی کے آخری لمحہ تک ایک سایہ کے مانند ساتھ ساتھ رھے اورآپ(ص) کی شمع وجود کے گرد پروانہ کی طرح پرواز کرتے رھے۔ جب آخری بارآپ(ع) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے جدا ھوئے، یہ وہ لمحہ تھا جب آپ(ع) نے آنحضرت(ص) کے جسد مطھر کوآغوش میں لے کر سپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام ایک عالمی شخصیت ھیں۔ دعوی کے ساتھ یه کھا جاسکتا ھے کہ جتنی گفتگو اس عظیم شخصیت کے بارے میں ھوئی ھے، اتنی کسی بڑے سے بڑے عالمی شخصیت کے بارے میں نھیں ھوئی ھے۔ شیعہ وسنی اور مسلم وغیر مسلم دانشوروں اور مصنفوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ایک ہزارسے زائد کتا بیں تالیف کی ھیں۔ آپ(ع) کے بارے میں دوست ودشمن بے شمار تحقےق اور کھوج کے باوجود آپ(ع) کے ایمان میں کسی قسم کا کمزور نقطہ پیدانھیں کر سکے یاآپ(ع) کی شجاعت، عفت، معرفت، عدالت اور دوسرے تمام پسندیدہ اخلاق کے بارے میں شمّہ برابر نقص نھیں نکال سکے، کیونکہ آپ(ع) ایک ایسے شخص تھے، جوفضیلت وکمال کے علاوہ کسی چیز کو نھیں پہچانتے تھے اوراسی طرح آپ(ع) میں فضیلت وکمال کے علاوہ کوئی چیز نھیں پائی جاتی تھی۔

تاریخ گواہ ھے کہ، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی رحلت سے آج تک جتنے حکّام نے اسلامی معاشرہ میں حکومت کی ان میں صرف حضرت علی علیہ السلام اےسے ھیں کہ جنھوں نے اسلامی معاشر ہ پر اپنی حکومت کے دوران پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی سیرت پر پوری طرح عمل کیا اور آنحضرت(ص) کی روش سے ذرہ برابر منحرف نھیں ھوئے اوراسلامی قوانین اورشریعت کو کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر اسی طرح نافذ کیا، جس طرح پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیات میں نافذ ھوئے تھے۔

دوسرے خلیفہ کی وفات کے بعد نئے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے خلےفہ دوم کی وصیت کے مطابق جو چھ رکنی کمیٹی بنا ئی گئی تھی، اس میں کافی گفتگو کے بعد خلافت کا مسئلہ علی(ع) اور عثمان کے درمیان تذبذب میں پڑاعلی(ع) کو خلافت کی پیشکش کی گئی، لیکن اس شرط پرکہ ”لوگوں میں خلیفہ اول اور دوم کی سیرت پر عمل کریں“حضرت علی(ع) نے ان شرائط کوٹھکراتے ھوئے فرمایا:”میں اپنے علم سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھوں گا۔“

اس کے بعدوھی شرائط عثمان کے سامنے رکھی گئیں، انھوں نے قبول کیا اور خلافت حاصل کی، اگر چہ خلافت ھاتھ میں آنے کے بعددوسری سیرت پر عمل کیا۔

علی علیہ السلام نے راہ حق میں جن جاں نثاریوں، فداکاریوں اورعفو وبخشش کا مظاھرہ کیا ھے ان میں آپ(ع) پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے اصحاب میں بے نظیر تھے۔ اس حقیقت سے ھرگزانکار نھیں کیاجاسکتا، کہ اگراسلام کا یہ جاں نثار اور سورمانہ ھوتا، توکفارو مشرکین ہجرت کی رات کو، اس کے بعد بدرواحد، خندق وخیبر وحنین کی جنگوں میں نبوت کی شمع کوآسانی کے ساتھ بجھا کر حق کے پر چم کو سر نگوں کر دےتے۔

علی علیہ السلام نے جس دن سماجی زندگی میں قدم رکھا، اسی لمحہ سے انتھائی سادہ زندگی گزارتے تھے، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیات میں ، آپ(ص) کی رحلت کے بعد، یھاں تک کہ اپنی با عظمت خلافت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے تھے، خوراک، لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اور آپ میں کوئی فرق نھیں تھا اور آپ(ع) فرماتے تھے۔

”ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ھو۔“[1]

علی علیہ السلام اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت و مزدوری کرتے تھے، خاص کر کھیتی باڑی سے دلچسپی رکھتے تھے، درخت لگا تے تھے اور نھر کھو دتے تھے، لیکن جو کچھ اس سے کماتے تھے یا جنگوں میں جومال غنےمت حاصل کرتے تھے، اسے فقرا اورحاجتمندوں میں تقسیم کرد ےتے تھے۔ جن زمینوں کو آباد کرتے تھے انھیں یا وقف کرتے تھے یا ان کو بیج کر پیسے حاجتمندوں کو دیتے تھے۔ اپنی خلافت کے دوران ایک سال حکم دیا کہ آپ(ع) کے اوقاف کی آمدنی کو پھلے آپ(ع) کے پاس لایا جائے پھرخرچ کےا جائے۔جب مذکورہ آمدنی جمع کی گئی تو یہ سونے کے ۲۴ ہزاردینار تھے۔

علی علیہ السلام نے اتنی جنگوں میں شرکت کی لیکن کبھی کسی ایسے دشمن سے مقابلہ نہ کیا جسے موت کے گھاٹ نہ اتار دیا ھو۔ آپ(ع) نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہ دکھائی اور فرماتے تھے:

”اگر تمام عرب میرے مقابلہ میں آجائیں اور مجھ سے لڑیں تو بھی میں شکست نھیں  کھاؤں گا اور مجھے کوئی پروانھیں ھے۔ “

علی علیہ السلام اےسی شجاعت وبھادری کے مالک تھے کہ دنیا کے بھادروں کی تاریخ آپ(ع) کی مثال پیش نہ کرسکی، اس کے باوجود آپ انتھائی مھر بان، ھمدرد، جوانمرد اور فیاض تھے۔ جنگوں میں عورتوں، بچوں اور کمزوروں کو قتل نھیں کرتے تھے اور ان کو اسیر نھیں بناتے تھے بھاگنے والوں کآپیچھانھیں کرتے تھے۔

جنگ صفین میں معاویہ کے لشکرنے سبقت حاصل کر کے نھرفرات پر قبضہ کرلیا اور آپ(ع) کے لشکر پر پانی بند کر دیا، حضرت علی علیہ السلام نے ایک خونین جنگ کے بعدنھر سے دشمن کا قبضہ ہٹا دیا، اس کے بعد حکم دیا کہ دشمن کے لئے پانی کاراستہ کھلا رکھیں۔

خلافت کے دوران کسی رکاوٹ اوردربان کے بغیر ھر ایک سے ملاقات کر تے تھے اورتنھااورپیدل راستہ چلتے تھے، ۔گلی کوچوں میں گشت زنی کرتے تھے اور لوگوں کو تقوی کی رعایت کرنے کی نصےحت فرماتے تھے اور لوگوں کو ایک دوسروں پرظلم کرنے سے منع کرتے تھے، بے چاروں اوربیوہ عورتوں کی مھر بانی اور فروتنی سے مدد فرماتے تھے۔ یتیموں اورلاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے، ان کی زندگی کی ضرورتوں کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اوران کی تربیت بھی کرتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام علم کو بے حد اھمیت دےتے تھے اورمعارف کی اشاعت کے میں خاص توجہ دےتے تھے، اور فرماتے تھے:

”نادانی کے مانند کوئی درد نھیں ھے“[2]

جمل کی خونین جنگ میں آپ(ع) اپنے لشکر کی صف آرائی میں مشغول تھے، ایک عرب نے سامنے آ کر”توحید“کے معنی پوچھے۔لوگ ھر طرف سے عرب پر ٹوٹ پڑے اور اس سے کھاگےا ایسے سوالات کا یھی وقت ھے؟! حضرت(ع) نے لوگوں کو اعرابی سے ہٹاکر فرمایا:

”ھم لوگوں سے ان ھی حقائق کو زندہ کرنے کے لئے لڑ رھے ھیں “[3]

اس کے بعد اعرابی کواپنے پاس بلایا، اپنے لشکرکی صف آ رائی کرتے ھوئے اعرابی کو ایک دلکش بیان سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔

اس قسم کے واقعات حضرت علی علیہ السلام کے دینی نظم وضبط اور ایک حیرت انگیزخدائی طاقت کی حکایت کرتے ھیں۔ جنگ صفین کے بارے میں مزید نقل کیا گیا ھے کہ، جب دو لشکر دو تلاطم دریاؤں کے مانند آپس میں لڑرھے تھے اور ھر طرف خون کادریا بہہ رھاتھا۔ توحضرت(ع) اپنے ایک سپاھی کے پاس پھنچے، اس سے پینے کے لئے پانی مانگا۔

سپاھی نے لکڑی کا ایک پیالہ نکالااوراس میں پانی بھر کے پیش کیا، حضرت(ع) نے اس پیالہ میں ایک شگاف مشاھدہ کیا اور فرمایا:”ایسے برتن میں پانی پینااسلام میں مکروہ ھے۔“

سپاھی نے عرض کی:اس حالت میں کہ جب ھم ہزاروں تیروں اور تلواروںکے حملہ کی زد میں ھیں اس قسم کی دقت کرنے کا موقعہ نھیں ھے!

اس سپاھی کو آپ(ع) نے جوجواب دیا، اس کا خلاصہ یہ ھے:”ھم ان ھی دینی احکام و قوانین کو نافذکر نے کے لئے لڑ رھے ھیں اور احکام چھوٹے بڑے نھیں ھوتے ھیں“

اس کے بعد حضرت(ع) نے اپنے دونوں ھاتھوں کو ملاکر سامنے کےا اورسپاھی نے پیالہ میں بھرآپانی آپ(ع) کے ھاتھوں میں ڈال دیا۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام کے بعداےسے پھلے شخص ھیں کہ جنھون نے علمی حقائق کو فلسفی طرز تفکر، یعنی آزاداستدلال میں بیان فرمایااور بہت علمی اصطلا حیں وضع کیں اور قرآن مجید کی غلط قراٴت اورتحریف سے حفاظت کے لئے عربی زبان کے قو ا ئد ”علم نحو“ وضع کئے اور ان کو مرتب کیا۔

آپ کی تقریروں، خطوط اوردیگرفصیح بیانات میں ، معارف الھی، علمی، اخلاقی، سیاسی یھاں تک کہ ریاضی کے مسائل میں جوباریک بنیی پائی جاتی ھے، یقینا وہ حیرت انگیزھیں۔

امام علی علیہ السلام کے فضائل کا خلاصہ

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چھ سال کی عمر میں حضرت ابوطالب کے یھاں سے اپنے گھر لے آئے اور ان کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔حضرت علی علیہ السلام اسی دن سے ایک سایہ کے مانند پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ساتھ ساتھ رھے اورآنحضرت(ص) سے آخری بار اس وقت جدا ھوئے، جب آپ(ع) نے آنحضرت(ص) کے جسد مطھر کوسپرد خاک کیا۔

حضرت علی علیہ السلام پھلے کامل نمونہ ھیں جو پیغمبراسلام (ص)  کی تعلیم وتربیت کے مکتب میں پروان چڑھے۔ آپ(ع) پھلے شخص ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم پر ایمان لائے اور آپ(ع) ھی سب سے آخر میں حضرت(ص) سے جدا ھوئے۔

بعثت کے پورے زمانہ میں جو خدمات حضرت علی علیہ السلام نے خدا کے دین کے لئے انجام دیئے، دوست ودشمن گواہ ھیں کہ وہ خدمات کوئی اورانجام نھیں دے سکا ھے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اسلام کی سب سے اھم جنگوں میں شرکت فرمائی اور جنگ کے تمام خونین میدانوں میں مسلمانوں کے اندربے مثال بھادری اور کامیابی کا راز آپ ھی تھے۔ چنانچہ بڑے بڑے صحابی جنگوں میں بار ھا بھاگ جاتے تھے، لیکن آپ(ع) نے کبھی دشمن کو پیٹھ نھیں دکھائی اور کوئی حریف آپ(ع) کی تلوار کی وار سے بچ نہ سکا۔ اس بے نظیر شجاعت، جوضرب المثل بن چکی تھی، کے باوجودآپ ھمدرداورمھر بان تھے، کبھی اپنے زخمی دشمن کوقتل نھیں کرتے تھے اور جنگ سے بھاگنے والوں کاپیچھانھیں کرتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام، اپنی تقریروں، کلمات قصار اور اپنے گوھربار بیانات، جویاد گار کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ھیں، کے اعتبار سے مسلمانوں میں قرآن مجید کے بلند مقاصد کے بارے میں معروف ترےن شخص ھیں۔ آپ(ع) نے اسلام کے اعتقادی و علمی معارف کو کما حّقہ حاصل کر کے حدیث شریف: ”انا مدینةالعلم وعلی بابھا“[4] کوثابت کردیا اوراس علم کوعملی جا مہ پھنایا۔

حضرت علی علیہ السلام کا دےنداری، عفت نفس اورزھدوتقویٰ میں کوئی نظیر نھیں تھا۔آپ(ع) اپنے معاش کے لئے روزانہ محنت ومشقت کرتے تھے، بالخصوص زراعت کو بہت پسند کرتے تھے۔ بنجر زمینوں کوآباد کرتے تھے، نھریں کھودتے تھے، درخت لگاتے تھے، جس جگہ کو آباد کرتے اسے مسلمانوں کے لئے وقف کر دےتے تھے یا اس کو بیچ کر پیسے فقراء میں تقسیم کر دےتے تھے اورخود نھاےت زھدوقناعت کے ساتھ فقےرانہ زندگی گزارتے تھے۔ جس دن شھید ھوئے۔ باوجوداس کے کہ تمام اسلامی ممالک کے فرمانروا تھے۔ آپ(ع) کی پونجی صرف سات سودرھم تھی جنھیں آپ(ع) اپنے گھر کے لئے ایک خدمت گار پرصرف کرنا چاہتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی عدالت ایسی تھی کہ خداکے احکام کے نفاذاور لوگوں کے حقوق کو زندہ کرنے میں ھرگز کسی طرح کے استثناء کے قائل نھیں تھے۔ آپ(ع) ذاتی طور پرگلی کوچوں میں گشت لگاتے تھے اور لوگوں کو اسلامی قوانین کی رعایت کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

حضرت امیرالمؤ منین(ع) کا طریقہ

چنانچہ ھم جانتے ھیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں ولی ھونا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی نص کے مطابق خدائےمتعال کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے لئے مخصوص تھا، لیکن اسے انتخابی خلافت میں تبدیل کیا گیا اور اس طرح خلافت کی کرسی پر دوسرے لوگوں نے قبضہ جمایا۔

حضرت علی علیہ السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے چند خاص صحابیوں جیسے سلمان فارسی، ابوذرغفاری اورمقداد اسدی نے لوگوں سے ایک اعتراض کیا لیکن انھیں مثبت جواب نھیں ملا۔

حضرت علی علیہ السلام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک مدت تک اپنے گھر میں قرآن مجیدجمع کرنے میں مصروف رھے۔ اس کے بعد کچھ خاص صحابیوں اور چنددیگرافراد کی تعلیم وتربیت میں مشغول ھوئے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ماضی درخشان اور بے مثال تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی حیات میں آپ(ع) آنحضرت(ص) کے وزیر اور اسلامی فتوحات کی کلید تھے۔ علم ودانش میں ، فیصلہ دینے میں ، سخن وری اور دیگرتمام معنوی فضائل میں آپ(ع) تمام مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے۔ اس کے باوجودخلیفہ اول کے زمانے میں اجتماعی مسائل اور عمومی کام میں آپ(ع) سے کسی قسم کا استفادہ نھیں کیاگیا، اس لئے آپ(ع) صرف خدا کی عبادت اور چند اصحاب کی علمی وعملی تربیت میں مشغول رہتے تھے اورایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے۔

خلیفہ دوم کے زمانے میں بھی کسی کام کوآپ کے حوآل نھیں کیا جاتا تھا، لیکن کسی حدتک آپ سے رجوع کرتے تھے اور اھم مسائل میں آپ(ع) کے نظریات سے استفادہ کےا جاتا اور آپ سے مشورہ لیا جاتاتھا۔ چنانچہ خلیفہ دوم نے بارھا کھا ھے:(اگرعلی کی رھنمائی نہ ھوتی، توعمرھلاک ھوجاتا)۔[5]

خلیفہ سوم کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ آپ(ع) کی طرف زیادہ ھوئی اوراس پوری ۲۵سالہ مدت میں آپ(ع) کی تعلیم وتربیت کادائرہ دن بدن وسیع تر ھوتاگیا یھاں تک کہ مکتب ولایت سے بالواسطہ اور بلاواسطہ تربیت پانے والوں کی ایک بڑی جماعت نے خلیفہ سوم کے قتل کے فورابعد آپ(ع) کے پاس ہجوم کیا اورآپ(ع) کوخلافت قبول کرنے پر مجبور کیا۔

حضرت امیرالمو منین نے خلافت کی باگ ڈورسنبھالتے ھی پیغمبراسلام (ص) کی سیرت کو۔جیسے مدتوں سے فراموش کیاگیاتھا۔پھر سے زندہ کیا۔آپ(ع) نے مساوات اوراجتماعی عدالت نافذ کرکے تمام بےجا امتیازات کوختم کردیا۔تمام لاابالی گورنروں اورفرمانرواوٴں کو معزول کردیااورانکے بیت المال سے لوٹے گئے مال ودولت اور خلیفہ کی طرف سے مختلف لوگوں کوبے حساب دی گئی جاگیروں و املاک کوضبط کیا، اور دینی ضوابط اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کومناسب سزائیں سنائیں۔

اثرو رسوخ رکھنے والے لیڈروںاورناجائز منافع حاصل کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کے ذاتی منافعے خطرے میں پڑ رھے ھیں، توانھوں نے مخالفت کاپرچم بلند کر کے عثمان کے خو ن کابدلہ لینے کے بھانے سے داخلی خونین جنگوں کی آگ بھڑکادی جوحضرت(ع) کی مشکلات کاسبب اوراصلاحات رکھنے میں رکاوٹ بن گئیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے پانچ سالہ دور میں کمر توڑ َمشکلات کے باوجود بے شمار افراد کی تربیت کی اوراپنی تقریروں اورفصیح بیانات کے ذریعہ علمی میدان کے مختلف ھنروفنون کے گراں بھا خزانے یادگارکے طور پر چھوڑدئے، ان میں سے ایک علم نحوکے اصولوں کا وضع کرنا ھے جو حقیقت میں عربی زبان کے قواعد وضوابط ھیں۔

آپ(ع) کی بر جستہ شخصیت کے اوصاف ناقابل بیان ھیں، آپ(ع) کے فضائل بے انتھا اور بے شمار ھیں۔ تاریخ ھرگز کسی ایسے شخص کو پیش نھیںکر سکتی جس نے آپ(ع) کے برابر دنیا کے دانشوروں، مصنّفوں اور متفکروں کے افکار کو اپنی طرف جذب کیا ھو۔


[1] نہج البلاغہ فیض الاسلام ،خطبہ ۲۰۰،ص۶۶۳۔

[2] شرح غرر الحکم ،ج۲،ص۳۷۷،ح۲۸۸۲۔

[3]بحارالانوار،ج۳،ص۲۰۷ ،ح۱۔

[4]بحارالانوار،ج۴۰،ص۲۰۱۔

[5]بحارالانوار،ج۴۰ص۲۲۹۔