غدیر پر هونے والے اعتراضات کے جوابات

پھلا سبب: صحابہ کے درمیان دو نظریوں کا وجود

جو شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ یا ان کے بعد حیات صحابہ کے سلسلہ میں کتابوں کی ورق گردانی کرے تو اس کو یہ معلوم ھوجائے گا کہ صحابہ کرام کے درمیان فکری لحاظ سے دو نظرئے پائے جاتے تھے:

الف۔ نص کے مقابل اجتھاد کا نظریہ

اس نظریہ پر اعتقاد رکھنے والے اس بات کا عقیدہ رکھتے تھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تمام خبروں اور احکام پر ایمان لانا اور ان کو بدون چون و چرا قبول کرنا ضروری نھیں ھے؛ بلکہ دینی تحریروں (نصوص) میں مصلحت کے پیش نظر اجتھاد کرتے ھوئے دخل و تصرف کیا جاسکتا ھے۔ یہ نظریہ مکتب خلفاء کا بنیادی مسئلہ ھے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس نظریہ کی وجہ سے بہت سے مصائب برداشت کئے ھیں۔

ب۔ اس نظریہ کے مقابلہ میں ایک دوسرا نظریہ بھی ھے جس کا اعتقاد ھے کہ دین و شریعت کے تمام احکام کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے ا ور ان کو چون و چرا کے بغیر قبول کیا جائے۔ یہ نظریہ وھی اھل بیت علیھم السلام کا راستہ یا دوسرے لفظوں میں اھل بیت علیھم السلام کا مکتب ھے۔

اجتھادی طریقہ کے طرفداران

چونکہ ”نص کے مقابل اجتھاد“، مصلحتوں کی رعایت کی خاطر انسان کی اپنی مرضی اور خواہشات نفس کے مطابق ھوتا ھے، لہٰذا بعض اصحاب نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ھی یہ کام کرنا شروع کردیا، اور عملی طور پر آنحضرت  سے مقابلہ شروع کیا، جن میں سر فھرست حضرت عمر بن خطاب کا نام آتا ھے۔ موصوف نے صلح حدیبیہ کے موقع پر شدیداً پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مخالفت کی[1] اور اذان میں دخل و تصرف کیا ”حیّ علیٰ خیر العمل“[2] کو نکال دیا اور اس کی جگہ صبح کی اذان میں ”الصلاة خیر من النوم“

کو رکھ دیا[3]،  متعة النساء کو حرام کیا[4] اور حج تمتع کی تعطیل کردی[5]، موصوف نے اور بھی دیگر امور جیسے: لشکر اسامہ میں شرکت کرنے[6] اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے آخری وقت وصیت لکھنے کے لئے قلم و کاغذ حاضر کرنے کی عملی طور پر مخالفت کی[7] ۔ یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ اصحاب کے درمیان ایک مخصوص نظریہ پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو وحی کے علاوہ دوسری چیزوں میں ایک عام انسان فرض کیا کرتے تھے۔

عمر بن خطاب، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے وصیت نامہ لکھے جانے کی مخالفت کا سبب بیان کرتے ھوئے کہتے ھیں:

 ”میں حانتا تھا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کیا چیز لکھنا چاہتے تھے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)چاہتے تھے کہ اپنے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کے لئے وصیت کریں، لیکن میں اسلام کی دلسوزی اور مھربانی کی خاطر اس کام میں مانع ھوگیا۔“[8]

امام علی(ع)کی مخالفت میں مکتب خلفاء کا بھانہ

تاریخ اور مکتب خلفاء کے ارکان کے کلام کو دیکھنے کے بعد یہ معلوم ھوتا ھے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے حق خلافت کو چھیننے کی کوششوں میں مختلف بھانوں کا سھارا لیا گیا ھے، جو نہ صرف ان کے لئے شرعی اور عقلی عذر نھیں ھیں بلکہ خود ان ھی کے نظریات کے باطل ھونے پر دلالت کرتے ھیں۔ اب ھم یھاں پر ان توجیھات و تاویلات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔ قریش کا پسند نہ کرنا

کبھی کبھی اپنے ناشائستہ عمل کو صحیح پیش کرنے کے لئے ایسے جملے کہتے تھے جیسا کہ آج بھی بہت سے لوگ اس طرح کے نعرے اپنی زبانوں پر جاری کرتے ھیں اور ان کا سھارا لیتے ھیں۔ چنانچہ وہ کہتے تھے: قریش کو یہ بات ناپسند تھی کہ نبوت اور خلافت ایک ھی خاندان میں جمع ھوجائے، اگر نبوت خاندان بنی ھاشم میں تھی تو امامت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خلافت کسی دوسرے خاندان میں ھونا چاہئے[9] اور چونکہ اسلامی حکومت میں سیاسی وسعت ھونا چاہئے لہٰذا قریش کی توجہ کو مبذول کرنے کے لئے علی (علیہ السلام) سے کہ جو بنی ھاشم سے تھے؛ خلافت و امامت کو چھین لینا چاہئے۔

جواب:

اس استدلال کا بہترین جواب اسی زمانہ میں جناب ابن عباس نے دیا تھا۔ انھوں نے ان لوگوں کے جواب میں کھا:

 ”اگر قریش نے اپنے لئے خلافت کا انتخاب کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خداوندعالم کا یھی ارادہ تھا، اس میں کوئی مشکل نھیں ھے، لیکن حق اس کے برخلاف ھے، خداوندعالم نے بعض لوگوں کی کراہت کو بیان کرتے ھوئے فرمایا:

<ذَلِکَ بِاٴَنَّہُمْ کَرِہُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمَالَہُمْ>[10]

”یہ اس لئے کہ انھوں نے خدا کے نازل کئے ھو احکام کو برا سمجھا تو خد انے بھی ان کے اعمال کو ضائع کر دیا۔“

خداوندعالم کی مرضی یھی تھی کہ علی اور ان کے اھل بیت کو دوسروں پر فضیلت دے، کیونکہ ان کے دل، قلب رسول خدا سے ھیں۔ یہ وہ حضرات ھیں جن کے وجود سے خداوندعالم نے رجس اور برائی کو دور رکھا ھے اور ان کے دلوں کو پاک و پاکیزہ قرار دیا ھے۔“[11]

قارئین کرام! جو حکومت، اسلام اور دین کے نام پر قائم ھو، اس کے لئے جائز نھیں ھے کہ بعض بے دین اور بے توجہ نیز اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو بلا وجہ امتیاز دے، یھاں تک کہ اھم عہدے ان کے سپرد کردے، یا معاشرہ کی رھبری کے لئے خداوندعالم کی جانب سے عادل اسلامی حاکم معین ھو، اس کو معزول کرکے نا اھل لوگوں کو اس عہدہ پر بٹھا دے۔ کیا یہ قریش وھی نھیں تھے جن کے لئے وہ دلسوزی کرتے ھیں کہ جب تک مکہ و مدینہ میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)با حیات رھے، اسلام اور مسلمانوں اور خود آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر خطرناک حملے کئے، اور آخر میں مسلمانوں سے خوف زدہ ھوکر اسلام کو اختیار کرلیا؟

کیا ایسے لوگوں کی توجہ جلب کرنے کے لئے حق و حقیقت سے ھاتھ دھولیا جائے؟! اور صاحب حق کو خانہ نشین کردیا جائے، اور کسی ایسے شخص کو اسلامی حکومت کے عہدہ پر مقرر کردیا جائے، جس کو دین و اسلام کی خاص معلومات بھی نہ ھو؟

۲۔ عرب کو علی(ع) برداشت نھیں تھے

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو غصب کرنے کے لئے کبھی کبھی یہ بھانہ پیش کرتے ھیں:

چونکہ حضرت علی علیہ السلام عدل و عدالت کے مظھر تھے، عرب امام علی علیہ السلام کے عدل و انصاف کو برداشت نھیں کرسکتے تھے؛ لہٰذا ان کے لئے خلیفہ بننے میں مصلحت نھیں تھی[12]

جواب:

اول: یہ نص کے مقابل اجتھاد ھے۔ جو لوگ بالفرض ایسی نیت رکھتے تھے، کیا ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی اتنی زیادہ سفارشیں، وصیتیں اور بہت زیادہ تاکیدات کو نھیں دیکھا تھا؟ آیا وہ رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو معصوم، امت کا خیر خواہ اور امت کے لئے مصلحت اندیش نھیں مانتے تھے؟ کیا حق کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے حق سے منھ موڑ کر باطل کا رخ کیا جاسکتا ھے؟ایسا باطل جس میں گمراھی کے علاوہ کچھ بھی تو نھیں ھے۔ خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

<۔۔۔فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ ۔۔۔>[13]

”اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ بھی نھیں ھے۔“

اگر ایسا ھے تو پھر کیوں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مشرکین کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اپنے اصول سے ایک قدم پیچھے نھیں ہٹے؟ یھاں تک کہ آپ کو اپنے وطن سے ہجرت اور جنگ جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ اپنے اصول سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔

دوسرے: کیا عرب علی علیہ السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی نسبت راضی تھے جو علی سے راضی نہ تھے؟ کیا ایسا نھیں تھا کہ سعد بن عبادہ ایک بڑے قبیلہ کے سردار نے ابوبکر کی مخالفت نھیں کی[14] کیا ایسا نھیں تھا کہ ایک گروہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دین سے بالکل نکل گیا اور مرتد ھوگیا؟ کیا ایسا نھیں ھے کہ بعض لوگوں نے قسم کھائی کہ جب تک زندہ ھیں ”ابا فصیل“ کی بیعت نھیں کریں گے؟[15] کیا سقیفہ میں انصار نے ابوبکر پر اعتراض نھیں کیاجس کی بنا پر قریش غضب ناک ھوگئے یھاں تک کہ ان کے درمیان جھگڑا ھوگیا اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور نازیبا الفاظ کھنے لگے[16]

کبھی بھی انصار کا ارادہ یہ نھیں تھا کہ علی علیہ السلام کو خلافت سے دور رکھا جائے، کیونکہ ان میں سے اکثر لوگ یہ کہتے تھے: ھم علی کے علاوہ کسی کی بیعت نھیں کریں گے[17]

اگر علی علیہ السلام خلافت پر پھنچ جاتے تو کسی بھی صورت میں عرب کے قبیلے آپ کے خلاف کوئی سرکشی نھیں کرسکتے تھے، وہ خود اپنے درمیان علی علیہ ا لسلام سے بہتر خلافت رسول کا مستحق نھیں مانتے تھے۔

جناب آلوسی صاحب اس واقعہ کی تاویل میں ”کہ کیوں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے سورہ برائت کی تبلیغ کو ابوبکر سے لے کر حضرت علی بن ابی طالب کا انتخاب کیا؟ اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”اس سورہ کی تبلیغ میرے یا مجھ جیسے شخص کے علاوہ کوئی نھیں کرسکتا“ کہتے ھیں: ”کیونکہ عرب کا ماننا یہ تھا کہ کوئی الٰھی عہد و میثاق یا اس کے نقض کا متولی نھیں ھوسکتا مگر خود پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)یا جو ان کے قریبی ھو، تاکہ لوگوں پر حجت تمام ھوجائے۔“[18]

جناب آلوسی کی گفتگو سے اچھی طرح معلوم ھوجاتا ھے کہ مسلمان رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نمائند اور خلیفہ کو اچھی طرح قبول کرلیتے لیکن کیا کریں کہ بعض لوگوں نے اپنی مخصوص چالوں اور چالاکیوں سے لوگوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کو منحرف کردیا۔

قارئین کرام!   حق یہ ھے کہ عرب یا قریش جس سے راضی نھیں تھے اور اس کی سرپرستی کو قبول نھیں کرنا چاہتے تھے وہ علی علیہ السلام نھیں تھے؛ بلکہ وھی مھاجرین کے چند لوگ تھے کہ جن کی حقیقت سب پرمعلوم تھی، لہٰذا اپنے اہداف و مقاصد تک پھنچنے کے لئے ھر طریقہ کار کو اپنایا یھاں تک کہ طاقت و تلوار کا بھی سھارا لیا گیا۔

ابن ابی الحدید کہتے ھیں:

”اگر حضرت عمر کے تازیانے اور شلاقیں نہ ھوتیں تو ابوبکر کی خلافت قائم نہ ھوتی۔“[19]

انھوں نے حق و حقیقت اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے حق ولایت اور امامت کی طرف دعوت دینے کے بجائے لوگوں کو دور کیا، اور ان کی عقلوں کو مسخر کرلیا۔ لوگوں کو دھوکہ دیا اور خلافت کو اپنے نام کرلیا۔ مخصوصاً حضرت عمر نے ابوبکر کی خلافت کے لئے جو کارنامے انجام دئے ھیں اگر ان کے آدھے بھی حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دئے ھوتے تو نوبت یھاں تک نہ پھنچتی۔ کیا ابوسفیان، طلحہ و زبیر اس زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے مدافع اور آپ کے طرفدار نھیں تھے، کیا ابوسفیان سردار قریش نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کرنے کا مشورہ نھیں دیا۔ کیا مھاجرین و انصار کے ایک گروہ نے ابوبکر کی مخالفت کرتے ھوئے حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف میں پناہ نھیں لی تھی، یھاں تک کہ ان کو خوف زدہ کرکے بیعت کے لئے لے جایا گیا، کیا زبیر نے تلوار نھیں نکالی اور کیا یہ نھیں کھا کہ میں اپنی تلوار نیام میں نھیں رکھوں گا جب تک علی علیہ السلام کی بیعت نہ ھوجائے؟[20]

ان لوگوں نے مختلف بھانوں سے حضرت علی علیہ السلام کا حق غصب کرلیا کیونکہ یہ لوگ صرف اپنی من مانی حکومت چاہتے تھے، انھیں اسلام اور دیگر لوگوں کی کوئی فکر نھیں تھی، لیکن انھوں نے ان بھانوں اور سازشوں کے ذریعہ لوگوں کی عقلوں کو مسخر کرلیا۔

خضری کہتے ھیں:

”اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر خلیفہ اول اھل بیت نبوت میں سے ھوتا تو یقینی طور پر لوگ زیادہ مائل ھوتے، اور بھر پور رضایت کے ساتھ اس کی بیعت کرتے، جیسا کہ لوگوں نے اپنی مکمل مرضی و رغبت کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بیعت کی تھی اور ان کے ارد گرد جمع ھوگئے تھے، کیونکہ لوگوں کے درمیان دینی پھلو بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے دوسری صدی ہجری کے شروع میں اھل بیت پیغمبر کے عنوان سے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی جاتی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ھوئے ھیں۔۔۔۔“[21]

۳۔ کم عمرھونا

عمر بن خطاب، ابن عباس کے اعتراض کے جواب میں کہتے ھیں کہ جب انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ کیوں تم نے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کا حق لے لیا ھے ؟ کہتے ھیں:

 ”میں گمان نھیں کرتا کہ علی (علیہ السلام) کو خلافت سے روکنے میں اس علت کے علاوہ کوئی اور وجہ ھو کہ قوم ان کو کم عمر اور چھوٹا شمار کرتی ھے۔“

ابن عباس نے حضرت عمر کے جواب میں کھا:

”چونکہ خداوندعالم نے ان کو منتخب کیا ھے لہٰذا علی علیہ السلام کو چھوٹا شمار نھیں کیا ھے۔“[22]

کیا مقام و فضیلت ،عمر اور سن و سال کے لحاظ سے ھوتی ھے؟ کیا ایسا نھیں ھے کہ اسامہ بن زید ایک ۱۹ یا ۲۰ سال کے جوان تھے،کیوں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے لشکر کی امارت کے لئے اتنا اصرار کیایھاں تک کہ عمر اور ابوبکر وغیرہ کی طرف سے بہت اصرار ھوا کہ وہ (اسامہ بن زید) کم سن ھیں، ھمارے درمیان جنگ میں ماھر اور تجربہ کار لوگ موجود ھیں، پھر آپ نے ان کو لشکر کی سرداری کے لئے کیوں منتخب فرمایا؟ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دی، اور فرمایا: ”اگر آج تم ان کی امارت اور سرداری میں شک و شبہ کا اظھار کرتے ھوتو پھلے بھی ان کے باپ کی سرداری میں بھی شک و شبہ کرتے تھے“۔  پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اس طریقہ کار سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ عہدہ و مقام، صلاحیت کی بنا پر ھوتا ھے نہ کہ سن و سال کے لحاظ سے۔

۴۔ خدا نے نھیں چاھا

بعض لوگوں نے اپنی غلط کارکردگی کی تصحیح کے لئے مسئلہ ”جبر“ کا سھارا لیتے ھوئے یہ کھا:

”اگر ایسا ھوا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے نھیں چاھا کہ علی علیہ السلام کو خلافت ملے، اگرچہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس سلسلہ میں کافی کوشش کی، اور جب خداوندعالم اور رسول خدا کے ارادہ میں تعارض اور ٹکراؤ ھو تو خداوندعالم کا ارادہ مقدم ھے۔“[23]

جواب:

اول: یہ تاویل ، در حقیقت مسئلہ”جبر“ کا باب کھولنا ھے، کہ اگر یہ دروزاہ کھل جائے تو پھر یہ مسئلہ گناھان کبیرہ تک بھی پھنچ جاتا ھے، جس کے نتیجہ میں تمام عقلائی ، عقلی اور منقولہ بنیادیں درھم و برھم ھوجاتی ھیں، خداوندعالم ھر انسان سے اپنے اختیار سے کوئی عمل چاہتا ھے نہ کہ جبر کی بنا پر۔

دوسرے: کیا ولایت علی بن ابی طالب کی درخواست حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ذات سے مخصوص ھے، جس کا خداوندعالم کی مرضی سے ٹکراؤ ھوجائے؟ کیا خداوندعالم نے قرآن مجید کی بہت سی آیات جیسے آیہ ولایت میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں گفتگو نھیں کی ھے؟

تیسرے: کیا حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)خداوندعالم کی مرضی کے خلاف کوئی ارادہ کرسکتے ھیں؟ کیا قرآن مجید میں ارشاد نھیں ھوا ھے:

<قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ۔۔۔>[24]

”اے پیغمبر !  آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔“

نیز ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

<مَنْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللهَ۔۔۔>[25]

”جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“

نتیجہ :

پھلی تاویل میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد اصحاب کا حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے اعراض اور روگردانی کے بارے میں ھم نے کھا کہ اصحاب کے درمیان دو روش فکر اور دو نظریہ پائے جاتے تھے، جن میں سے بعض خود کو شریعت کے مقابل، صاحب نظر جانتے تھے اور وہ شریعت کے مقابل مصلحت اندیشی اور اجتھاد کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کے دلائل کے ساتھ بھی ایسا ھی کچھ کیا۔ اور مختلف بھانوں سے اس کی تصحیح کرنا چاھی۔

دوسری طرف اصحاب کے ایک دوسرے گروہ پر یہ بات ظاھر نہ ھوسکی، کیونکہ وہ اس نظریہ کے حامل لوگوں کو بھی حقیقی اصحاب گردانتے تھے جو لوگ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے پاس بیٹھتے ھوں، اس دوسرے گروہ کو یہ یقین نھیں تھا کہ اس گروہ کے لوگ اتنے زیادہ مکار ھیں اور حق و حقیقت کو پاؤں تلے روندھ دیتے ھیں۔

ایک اور گروہ جو حضرت علی علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق ”ھمج رعاع“ تھا جو ھر ھوا کے جھونکے میں اڑنے لگتا تھا، مخصوصاً جو لوگ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات سے مصیبت زدہ اور بہت غم زدہ تھے یھاں تک کہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی باقی نھیں تھی، لہٰذا مکتب خلفاء کے سرداروں نے اس وقت کو بہترین غنیمت شمار کیا، اپنے نقشوں کو عملی جامہ پھنانے کی کوشش کی، بہت تیزی کے ساتھ سقیفہ میں گئے اور مسئلہ خلافت کو اپنے حق میں تمام کرلیا۔

دوسرا سبب: دشمنی و کینہ

امام علی علیہ السلام نے انھیں بہت سے تازہ مسلمانوں کے کافر و فاسق آباء و اجداد کو مختلف جنگوں میں قتل کیا تھا، لہٰذا ان کے دل میں آپ کی دشمنی بھری ھوئی تھی۔

علی بن حسن بن فضال نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ھے: میں نے امام ابو الحسن علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا کہ لوگوں نے آپ سے کس وجہ سے منھ موڑا اور دوسروں کی طرف مائل ھوگئے، جبکہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک آپ کی بہت زیادہ عظمت تھی؟ اس موقع پر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

 ”اس کی وجہ یہ ھے کہ امام علی علیہ السلام نے ان کے آباء و اجداد، بھائیوں، چچا، ماموں اور دوسرے ان رشتہ داروں میں سے بہت سے لوگوں کو قتل کیا تھا جو دشمن خدا و رسول تھے، اس وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں آپ کی دشمنی اور کینہ بھرا ھوا تھا، لہٰذا وہ نھیں چاہتے تھے کہ علی (علیہ السلام) ان کے سرپرست ھوں، لیکن حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی دشمنی ان کے دلوں میں ا تنی نھیں تھی جتنی حضرت علی علیہ السلام کی تھی، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی طرح کسی نے بھی مشرکین سے جھاد نھیں کیا ھے، اسی وجہ سے امام علی علیہ السلام سے لوگوں نے منھ موڑ لیا اور دوسروں کی طرف چلے گئے۔“[26]

عبد اللہ بن عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

 ”آپ کو قریش کس طرح دوست رکھیں جبکہ آپ نے جنگ بدر و اُحد میں ان کے ستر بزرگوں کو قتل کیا ھے۔“[27]

حضرت اما م زین العابدین علیہ السلام اور ابن عباس سے سوال ھوا: کیوں قریش ، حضرت علی علیہ السلام سے بغض رکھتے تھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:

 ”کیونکہ ان میں سے ایک گروہ کو واصل جھنم کیا اور ان کے ایک گروہ کو ذلیل و خوار کیا۔“[28]

ابو حفص کہتے ھیں:

”حریز بن عثمان ، حضرت علی علیہ السلام پر شدید حملہ کیا کرتا تھا اور منبر پر جاکر آپ کو گالیاں دیتا تھا، اور وہ ھمیشہ کہتا تھا: میں اس وجہ سے ان کو دوست نھیں رکھتا کہ انھوں نے میرے آباء و اجداد کو قتل کیا ھے۔“[29]

لہٰذا ھم تاریخ میں دیکھتے ھیں کہ یزید بن معاویہ نے حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام کو قتل کرنے کے بعد آپ کے سرِ مبارک سے خطاب کیا اور ”ابن زبعری“ کے ان اشعار کو پڑھا جن میں بدر کے مقتولین کے بدلہ کی طرف اشارہ ھے۔

لیت اشیاخی ببدر شہدوا

جزع الخزرج من وقع الاسل

لاٴھلوا و استحلّوا فرحاً

ثمّ قالوا یا یزید لاتشل

قد قتلنا القوم من ساداتھم

و عدلناہ ببدر فاعتدل

لعبت ھاشم بالملک فلا

خبر جاء و لا وحی نزل

لست من خندف ان لم انتقم

من بنی احمد ما کاان فعل[30]

”اے کاش میرے قبیلہ کے وہ آباء و اجداد ھوتے جو جنگ بدر میں قتل ھوگئے تاکہ وہ دیکھتے کہ نیزے لگنے کی وجہ سے قبیلہ خزرج کس طرح سے گریہ و زاری کررھا تھا، یہ دیکھ کر وہ خوشی و مسرت میں یہ نعرہ لگاتے : اے یزید تیرے ھاتھ شَل نہ ھوں! کہ تونے ان کے بزرگوں کو قتل کردیااور یہ بدر کا بدلہ تھا، بنی ھاشم حکومت کے ساتھ کھیلے ھیں کیونکہ نہ کوئی آسمان سے خبر آئی ھے اور نہ وحی نازل ھوئی ھے، میں خندف کی اولاد سے نھیں ھوںاگر آل احمد کی دشمنی کا بدلہ اس کی اولاد سے نہ لے لوں“۔

تیسرا سبب: امام علی علیہ السلام کی عدالت

حضرت علی علیہ السلام تقوی اور الٰھی جھات کے بغیر کسی کو دوسرے پر مقدم نھیں کیا کرتے تھے۔ وہ سبھی کو ایک نظر سے دیکھتے تھے؛ اسی وجہ سے آپ کی خلافت کے خواھاں صرف کچھ ھی لوگ تھے۔ وہ لوگ چاہتے تھے کہ خلافت کے لئے کوئی ایسا شخص معین ھو جو ان کے درمیان فرق کا قائل ھو، اور ان کو مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ فائدہ پھنچائے۔

ابن ابی الحدید لکھتے ھیں:

 ”امیر المومنین علیہ السلام سے عرب کے منھ موڑنے کی سب اھم وجہ مالی مسئلہ تھا۔ کیونکہ علی علیہ السلام ایسے شخص نھیں تھے جو بلا وجہ کسی کو دوسرے پر فضیلت دیتے، اور عرب کو عجم پر ترجیح دیتے، جیسا کہ دیگر بادشاھوں کا رویہ ھوتا ھے۔ آپ کبھی کسی کو اجازت نھیں دیتے تھے کہ کسی خاص وجہ سے آپ کی طرف مائل ھو۔۔۔۔“[31]

ابن ابی الحدید، ھارون بن سعد سے روایت کرتے ھیں کہ عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا: یا امیر المومنین! میں آپ سے مدد چاہتا ھوں ، خدا کی قسم آج کھانے پینے کے لئے بھی کچھ نھیں ھے، مگر یہ کہ اپنی سواری کو بیچ ڈالوں اور اس کی قیمت سے اپنی زندگی کے اخراجات پورا کروں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”نھیں، خدا کی قسم، میں تمھارے لئے کوئی چیز نھیں پاتا ھوں، مگر یہ کہ تم اپنے چچا کو چوری کرنے کا حکم دو جس میں سے وہ تمھیں کچھ دے سکے۔“[32]

وھی کہتے ھیں:

 ”حضرت علی علیہ السلام سے روگردانی کرنے والوں میں سے ”انس بن مالک“ بھی ھیں، جس نے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو چھپایا ھے، اور دنیا کی محبت میں آپ کے دشمنوں کی مدد کی۔۔۔۔“[33]

چوتھا سبب: بنی ھاشم سے دشمنی

تاریخ اس بات کی گواھی دیتی ھے کہ قریش، حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ھی بنی ھاشم سے خاص دشمنی رکھتے تھے۔ یھاں تک کہ جب تک رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)زندہ رھے ھر طرح کے آزار و اذیت سے باز نھیں آئے؛ کیونکہ جب انھوں نے ظھور اسلام اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نئے دین کی دعوت کو دیکھا کہ ھمیں ان کے دین کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان پھنچا ھے، مخصوصاً یہ کہ اس دین کا اصلی مقصد بت پرستی اور ان کے اعتقادات کا خاتمہ تھا۔ چنانچہ جب انھوں نے یہ دیکھ لیا کہ محمد (مصطفی  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)) کا دین روز بروز لوگوں کے دلوں میں نافذ ھوتا جارھا ھے، اور لوگ مسلسل ان کے دین میں داخل ھوتے جا رھے ھیں او ران کے مقابلہ میں ایک عظیم مورچہ تیار ھورھا ھے۔ لہٰذا ان کے دلوں میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دشمنی بھر گئی، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے مقابلہ کی کوشش کرنے لگے اور شدت کے ساتھ آپ کے مقابلہ کے لئے کھڑے ھوگئے۔

عباس بن عبد المطلب ایک روز غصہ کے عالم میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں آئے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان سے سوال کیا: کس وجہ سے آپ غضبناک ھیں؟ انھوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ھم نے قریش کے ساتھ کیا کیا ھے کہ جب وہ آپس میں ایک د وسرے سے ملتے ھیں تو بہت ھی گرم جوشی سے گلے ملتے ھیں لیکن جب ھم سے ملتے ھیں تو ان کا انداز بدلا ھوا ھوتا ھے؟

راوی کہتا ھے:” اس موقع پر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس قدر غضبناک ھوئے کہ آپ کا چھرہ سرخ ھوگیا او رفرمایا: قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے ، کسی کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نھیں ھوسکتا جب تک وہ خدا و رسول کی وجہ سے تم کو دوست نہ رکھے۔۔۔۔“[34]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)چونکہ اپنے الٰھی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے ان سے مقابلہ کرنے پر مجبور تھے، لہٰذا اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام سے بہت مدد لی، ان کی قوم و قبیلہ کے بہت سے لوگ جنگوں میں قتل ھوئے تھے جس کی وجہ سے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے اپنی دشمنی نکالی اور آپ سے ان کا بدلہ لیا، اور خداوندعالم کے معین کئے ھوئے حق تک پھنچنے میں مانع ھوگئے۔

عمر بن خطاب، ابن عباس سے مناظرہ کے آخر میں کہتے ھیں:

”خدا کی قسم! بے شک تمھارا چچا زاد بھائی خلافت کے مسئلہ میں سب سے زیادہ حقدار ھے، لیکن قریش ان کو برداشت نھیں کرسکتے۔“[35]

انس بن مالک کہتے ھیں:

”میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے ساتھ تھا کہ ھمارا گزر ایک باغ کی طرف سے ھوا، علی (علیہ السلام) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کتنا حسِین باغ ھے؟ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: جنت میں آپ کا باغ اس سے کھیں زیادہ حسِین ھے۔ انس کہتے ھیں: ھم سات باغوں سے گزرے اور یھی سوال و جواب تکرار ھوئے، اس موقع پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)رُک گئے، اور ھم بھی کھڑے ھوگئے، اس موقع پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے سر کو علی (علیہ السلام) کے شانے پر رکھا اور گریہ کرنا شروع کردیا، علی (علیہ السلام) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے گریہ فرمانے کی وجہ کیا ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: اس قوم کے دلوں میں آپ کی دشمنی بھری ھوئی ھے جس کو یہ لوگ ابھی ظاھر نھیں کرتے یھاں تک کہ میں اس دنیا سے چلا جاؤں۔۔۔“[36](اس وقت ان کی دشمنی آپ کے سامنے ظاھر ھوجائے گی)۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ایک حدیث کے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:

 ”بے شک میرے بعد عنقریب یہ امت آپ کے ساتھ سازش کرے گی۔“[37]

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:

 ”آگاہ ھوجاؤ کہ میرے بعد عنقریب آپ کو مصائب کا سامنا ھوگا، علی علیہ السلام نے عرض کیا: کیا میرا دین سالم رھے گا؟ تو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ھاں، آپ کا دین سالم رھے گا۔“[38]

حضرت عثمان ، ایک روز حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ھوئے کہتے ھیں:

”میں کیا کروںکہ قریش تم کو دوست نھیں رکھتے، کیونکہ تم نے جنگ بدر میں ان کے ستر لوگوں کو قتل کیا ھے۔“[39]

حضرت علی علیہ السلام خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:

”پالنے والے! تیری بارگاہ میں قریش کی شکایت کرتا ھوں، انھوں نے تیرے رسول کے ساتھ بہت شرارتیں اور د ھوکہ بازیاں کیں، لیکن ان کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے، اور تو ان کے درمیان حائل ھوگیا، لیکن پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد یہ لوگ میرے پاس جمع ھوگئے اور اپنے پلید ارادوں کو مجھ پر جاری کرنے لگے، پالنے والے! حسن و حسین کی حفاظت فرما، اور جب تک میں زندہ ھوں ان کو قریش کے شر سے محفوظ رکھ، اور جب تو میری روح قبض کرلے گا اس کے بعد ان کی حفاظت کرنا اور تو ھر چیز پر شاہد ھے۔“[40]

ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: آپ مجھے بتائیں کہ اگر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا کوئی بالغ اور رشید بیٹا ھوتا تو کیا عرب اس کی خلافت کو قبول کرلیتے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

”ھرگز نھیں، بلکہ اگر جن تدبیروں سے میں نے کام لیا ھے وہ ان تدبیروں سے کام نہ لیتا تو اس کو قتل کر ڈالتے، عرب کو حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے کام پسند نھیں تھے اور جو کچھ خداوندعالم نے اپنے فضل و کرم سے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو عطا کیا تھا اس پر حسد کیا کرتے تھے۔۔۔۔“[41]

حدیث غدیر کے انکار کے نتائج

حضرت رسول ا کرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد اکثر مسلمانوں نے حدیث غدیر سے منھ موڑ لیا اور اس کا انکار کردیا، یا اس کو بھلا ڈالا، جبکہ قرآن مجید اس کی پیروی کی دعوت کرتا ھے، جس کے نتیجہ میں بہت سے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ھوگئے۔

خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

۱۔ <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ۔۔۔>[42]

”اے ایمان والو!  اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کھو جب وہ تمھیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمھاری زندگی (کی بھلائی) ھے۔۔۔۔“

۲۔ <وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللهُ وَرَسُولُہُ اٴَمْرًا اٴَنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ اٴَمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا>[43]

”اور کسی مومن مرد یا عورت کو یہ اختیار نھیں ھے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو اپنے امر کے بارے صاحب اختیار بن جائیں اور جو بھی خداورسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھلی ھوئی گمراھی میں مبتلا ھو گا۔“

۳۔ <وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ۔۔۔>[44]

”اور تمھارا پروردگار جسے چاہتا ھے پیدا کرتا ھے اور جسے چاہتا ھے منتخب کرتا ھے۔“

اھل سنت کی زبان سے حدیث کے انکار کے (بُرے) نتائج کا اقرار

یہ بات ظاھر ھے کہ امام معصوم کے بارے میں الٰھی اور شرعی نص (وحکم) کا انکار کرنے اور اس کام کو امت کے سپرد کرینے کے نتائج خطرناک ھوں گے کہ جو اھل سنت کے روشن فکر حضرات پر مخفی نھیں ھیں۔ اب ھم یھاں پر چند حضرات کی تحریر پیش کرتے ھیں:

۱۔ ڈاکٹر احمد محمود صبحی

موصوف کہتے ھیں:

 ”سیاست اور اصول حکومت کے مسئلہ یا واضح الفاظ میں ”نظام بیعت“ نے اھل سنت کے طرز فکر میں بہت سی مشکلات پیدا کی ھیں، خلفائے ثلاثہ میں سے ھر ایک نے دوسرے کے طریقہ کے برخلاف عمل کیا ھے۔ اس صورت میں ان حضرات کی مختلف کارکردگی سے اسلام کے نظریہ کو کس طرح سمجھا جاسکتا ھے، تاکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ھوجائے۔“[45]

موصوف یہ بھی کہتے ھیں:

 ”جب معاویہ نے یہ سوچا کہ اپنے بعد خلافت کو اپنے بیٹے یزید کے حوالہ کردے، تو اس نے اسلامی نظام میں ایک نئی بدعت پیدا کردی، اور اس سلسلہ میں ایک ایسی تقلید ایجاد کی جس نے سنت سلف کو بدل ڈالا اور خلافت کو فارسی اور بیزنطی بادشاہت کے مشابہ کردیا، اور خلافت کو (جیسا کہ جاحظ نے بھی کھا ھے:) قیصر و کسریٰ کی بادشاہت میں بدل ڈالا۔“[46]

نیز موصوف رقم طراز ھیں:

”جو کچھ بھی اسلام کے نام پر ظالم و ستمگر خلفاء کے زمانہ میں ناگوار واقعات پیش آئے ھیں، دین خدا اس سے بری ھے، اور ان کا گناہ روز قیامت تک انھیں لوگوں کی گردن پر ھے جنھوں نے ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی۔“[47]

موصوف حالانکہ عثمان کے طرفداروں میں سے ھیںلیکن پھر بھی معاویہ کی حکومت کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ھوئے کہتے ھیں:

”۔۔۔معاویہ نے اپنی حکومت کو ظلم و ستم کے ذریعہ آگے بڑھایا اور شوریٰ کے باقی ارکان نیز انصار و مھاجرین کی جماعت پر ظلم و ستم کیا حالانکہ اس سال کو ”سالِ جماعت“ کا نام دیا تھا، وہ جماعت کا سال نھیں بلکہ تفرقہ اور قھر و غلبہ کا سال تھا۔ جس سال امامت، بادشاھی میں بدل گئی اور خلافت ، شھنشاھی منصب بن گیا۔۔۔“[48]

۳۔ ابن قتیبہ

وہ کہتے ھیں:

 ”جھمیّہ اور مشبہہ“ نے حضرت علی (کرم اللہ وجہہ) کی تاخیر میں غلو کیا ھے اور آپ کے حق کو ضایع کیا ھے، اور وہ اپنی گفتگو میں کٹ حجتی کرتے رھے، انھوں نے اپنے ظلم کا اقرار نہ کیا، اور آپ کے خون کو ناحق اور ظلم و ستم کی بنا پر زمین پر بھایا۔۔۔ اور انھوں نے اپنی جھالت کی وجہ سے آپ کو امامت سے خارج کردیا، فتنہ گر اماموں کی صف میں قرار دیدیا، ان کی خلافت پر لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے خلافت کا نام نھیں دیا جبکھیزید بن معاویہ کو لوگوں کے اجماع کی وجہ سے خلافت کا مستحق سمجھ لیا۔۔۔۔“[49]

۴۔ مقریزی

مقریزی صاحب لکھتے ھیں:

”خدا و رسول نے سچ فرمایا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد ایسے خلفاء آئیں گے جو ہدایت اور دین حق کے مطابق فیصلے نھیں کریں گے اور ہدایت کی سنتوں کو بدل دیں گے۔۔۔۔“[50]

۵۔ ابن حزم ظاھری

موصوف کہتے ھیں:

 ”یزید ابن معاویہ نے اسلام پر بُرے نتائج چھوڑے ھیں؛ اس نے اھل مدینہ، بزرگان قوم اور باقی اصحاب کو ”روز حرّہ“ اپنی حکومت کے آخری وقت میں قتل کرادیا اور (امام) حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اھل بیت کو اپنی حکومت کے شروع میں قتل کرایا۔ ابن زبیر کو مسجد الحرام میں گھیر لیا اور خانہ کعبہ اور اسلام کی عظمت کا خیال تک نہ کیا۔۔۔۔“[51]

موصوف کتاب ”المحلّیٰ“ میں کہتے ھیں:

” بنی امیہ بادشاھوں نے نماز سے تکبیر کو ختم کردیا، اور نماز عید فطر اور نماز عید قربان کے خطبوں کو مقدم کردیا یھاں تک کہ یہ مسائل پوری دنیا میں پھیل گئے، لہٰذا یہ کھنا صحیح ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے علاوہ کسی دوسرے کا عمل حجت نھیں ھے۔“[52]

۶۔ ابو الثناء آلوسی

موصوف آیہٴ شریفہ: <۔۔۔وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیدُہُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا>[53] کی تفسیر میں ابن جریر سے، وہ سھل بن سعد سے، وہ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ سے اور ”الدلائل“ میں بیہقی و ابن عساکر سے، وہ سعید بن مسیب سے ، اور روایت ابن ابی حاتم یعلی بن مرّہ سے، اور وہ ابن عمر سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے خواب کے بارے میں روایت کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خواب دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر بندر کی طرح چڑھ رھے ھیں۔ آپ کو یہ خواب ناگوار لگا اور اسی موقع پر خداوندعالم نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔۔۔[54]

۷۔ ڈاکٹر طہٰ حسین مصری

موصوف اپنی کتاب ”مرآة الاسلام“ میں کہتے ھیں:

”۔۔۔خداوندعالم نے قرآن مجید میں مکہ کی عظمت بیان کی ھے، اور مدینہ کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ذریعہ محترم قرار دیا، لیکن بنی امیہ نے مکہ اور مدینہ کی حرمت کو تاراج کردیا۔ یزید بن معاویہ کے زمانہ سے شروع ھوا جس نے مدینہ کو تین مرتبہ مباح اور تاراج کیا ھے۔ عبد الملک بن مروان نے بھی مکہ کو تاراج کرنے کی اجازت حجاج بن یوسف کو دی، اور کیا کیا ظلم و ستم وھاں انجام نہ دئے؟!  اور یہ سب کچھ اسی لئے تھا کہ مقدس شھر (کے رھنے والے) ابو سفیان اور بنی مروان کی اولاد کے سامنے جھکے رھیں، ابن زیاد نے یزید بن معاویہ کے حکم سے (امام) حسین (علیہ السلام) اور آپ کے بیٹوں اور بھائیوں کو قتل کیا اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بیٹیوں کو اسیر کرلیا۔۔۔ مسلمانوں کا مال خلفاء کی ذاتی ملکیت بن کر رہ گیا اور جس طرح چاھا اس کو خرچ کیا، نہ جس طرح سے خداوندعالم چاہتا تھا۔۔۔۔“[55]

نیز موصوف کا بیان ھے:

 ” طغیان و سر کشی مشرق و مغرب تک پھیل گئی، زیاد اور اس کی اولاد زمین پر فساد پھیلا رھے تھے تاکہ بنی امیہ کی حکومت برقرار رہ سکے، اور بنی امیہ نے ان کے لئے ان فسادات کو جائز قرار دے دیا تھا، حجاج ، زیاد و ابن زیاد کے بعد عراق میں وارد ھوا جس نے عراق کو شر و فساد اور برائیوں سے بھر دیا۔“[56]

اسی طرح موصوف اپنی کتاب ”الفتنة الکبریٰ“ میں رقمطراز ھیں:

” علی علیہ السلام، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے سب سے قریبی شخص تھے، وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے تربیت یافتہ اور آپ کی امانتوں کو واپس کرنے میں جانشین تھے۔ وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے عقد اخوت کی بنا پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بھائی تھے۔ وہ داماد پیغمبر اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ذریت کے باپ تھے۔ وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے علمدار اور آپ کے اھل بیت کے درمیان جانشین تھے، اور حدیث نبوی کے مطابق رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک آپ کا مرتبہ جناب موسیٰ کے نزدیک ھارون کے مرتبہ کی طرح تھا۔ اگر تمام مسلمان یھی سب کچھ کہتے اور انھیں مطالب کی وجہ سے علی علیہ السلام کا انتخاب کرتے تو کبھی بھی حق سے دور نہ ھوتے اور منحرف نہ ھوتے۔۔۔

یہ سب چیزیں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی نشانیاں تھیں۔۔۔ آپ کی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے رشتہ داری، اسلام میں سبقت، مسلمانوں کے درمیان عظمت، جھاد اور جنگ میں مصائب کا برداشت کرنا، اور ایسی سیرت جس میں کسی طرح کا کوئی انحراف اور کجی نھیں تھی، دین و فقاہت میں شدت اور کتاب و سنت کا علم اور رائے میں استحکام وغیرہ وغیرہ یہ تمام صفات آپ کی خلافت کا راستہ ھموار کرنے والی تھیں۔۔۔ بنی ھاشم کو خلافت سے بالکل دور رکھا گیا، قریش نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا، کیونکہ وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ بنی ھاشم کے پاس ایک جماعت جمع ھوجائے گی، وہ خلافت کو اپنے قبیلہ کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ میں نھیں جانے دینا چاہتے تھے ۔“[57]

نیز موصوف کہتے ھیں:

”معاویہ کے بارے میں جو کچھ بھی لوگ کھیں ، لیکن وہ ابو سفیان کا بیٹا ھے جو جنگ احد و خندق میں مشرکین کا سردار تھا، وہ ھندہ کا بیٹا ھے جو حمزہ کے قتل کا باعث بنی اور ان کے شکم کو چاک کرکے جگر کونکالا، چنانچہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس کو دیکھ کر گویا آپ کی جان نکلی جارھی ھو۔۔۔۔“[58]

۸۔ مشھور مورّخ سید امیر علی ھندی

موصوف کہتے ھیں:

”حکومت بنی امیہ نے صرف خلافت کے اصول اور اس کی تعلیمات ھی کو نھیں بدلا، بلکہ ان کی حکومت نے اسلام کی بنیادوں کو پلٹ کر رکھ دیا۔“[59]

موصوف ایک دوسری جگہ کہتے ھیں:

 ”جب شام میں معاویہ نے خلافت پر قبضہ کرلیا تو اس کی حکومت گزشتہ بت پرستی کی طرف پلٹ گئی اور اس نے اسلامی ڈیموکریسی کی جگہ لے لی۔۔۔۔“[60]

ایک اور جگہ موصوف تحریر کرتے ھیں:

”اور اس طرح مکہ کی بت پرستی واپس لوٹ آئی اور اس نے شام میں سر نکالا۔“[61]

نیز موصوف کہتے ھیں:

”بنی امیہ میں عمر بن عبد العزیز کے علاوہ سب بت پرست تھے وہ لوگ احکام شریعت کی رعایت نہ کرنے اور ارکان دین کو منہدم کرنے پر فخر و مباھات کیا کرتے تھے، وھی دین جس کا اقرار کرتے تھے۔۔۔ انھوں نے خلافت کی کرسی کو بہت سے جرائم سے ملوّث کیا اور خون کے دریا میں غوطہ دیا۔۔۔۔“[62]

۹۔ ڈاکٹر احمد امین مصری

موصوف اپنی کتاب ”ضحی الاسلام“ میں تحریر کرتے ھیں:

”۔۔۔خلافت کے سلسلہ میں اھل سنت کا نظریہ متعادل تر، مستحکم تر اور عقل کے نزدیک تر ھے! اگرچہ ان سے اس سلسلہ میں باز پرس ھونا چاہئے کہ انھوں نے اپنے نظریہ کو مستحکم اور اچھی طرح عملی نھیں کیا ھے، انھوں نے اپنے ائمہ کی واضح طور پر تنقید نھیں کی ھے اور جب انھوں نے ظلم کیا تو ان کے مقابلہ میں کھڑے نھیں ھوئے، اور جب انھوں نے ظلم کیا تو ان کو راہ مستقیم پر نھیں لائے، اور انھوں نے ایسے قوانین نھیں بنائے جو خلیفہ کو امت پر ظلم کرنے سے روک سکیں، بلکہ ان کے مقابلہ میں سر تسلیم خم کئے رکھا جو واقعاً ناگوار تھا، اسی وجہ سے انھوں نے امت پر بہت بڑا ظلم کیا ھے۔“[63]

وہ اپنی دوسری کتاب ”یوم الاسلام“ میں تحریر کرتے ھیں:

”رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس بیماری میں جس میں آپ کی رحلت ھوئی، یہ ارادہ کیا کہ اپنے بعد کے لئے مسلمانوں کا ولی امر معین کردیں، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: لاؤ تمھارے لئے ایک ایسا خط لکھ دوں جس سے میرے بعد گمراہ نہ ھوں۔۔۔ لیکن ان لوگوں نے خلافت کی مھار کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے ھاتھوں میں لے لیا، اسی وجہ سے خلافت کے سلسلہ میں آج تک اختلاف باقی ھے۔ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں اسلام مستحکم اور متین تھا، لیکن جب آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رحلت ھوئی تو خطرناک جنگیں شروع ھوگئیں۔“[64]

نیز موصوف کہتے ھیں:

”اختلاف کا ایک مصداق وہ اختلاف تھا جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد خلافت کے سلسلہ میں ھوا، اور یہ چیز خود ان لوگوں کی کمزوری کی نشانی ھے، کیونکہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دفن ھونے سے پھلے ھی اختلافات شروع کردئے۔۔۔۔“[65]

موصوف اپنی ایک اور کتاب ”فجر الاسلام“ میں تحریر کرتے ھیں:

 ”جب بنی امیہ نے خلافت کو اپنا ھاتھوں میں لے لیا تو پھر تعصب، زمانہٴ جاھلیت کی طرح اپنی پرانی حالت پر پلٹ گیا۔“[66]

۱۰۔ ڈاکٹر علی سامی نشار

موصوف کہتے ھیں:

 ”۔۔۔ خلیفہ دمشق (یعنی معاویہ) کے کان کنیزوں کے گانوں اور لھو و لعب کے ساز و سامان سے بھرے ھوئے تھے۔ وہ علی الاعلان اور مخفی طور پر گناہ کرتا تھا اور لوگوں کے درمیان فحشاء و منکر کو رائج کرتا تھا۔۔۔۔“[67]

نیز موصوف ایک دوسری جگہ تحریر کرتے ھیں:

”ابو سفیان نے اپنے کفر آمیز عقیدہ کا اظھار اس وقت کیا کہ جب عثمان بن عفان حکومت پر پھنچے، چنانچہ اس نے کھا: ”تیم و عدی“ کے بعد حکومت تم تک پھنچی ھے لہٰذا اس کو گیند کی طرح ایک دوسرے کے ھاتھ میں دیتے رھو اور اس کے ارکان میں بنی امیہ کو قرار دو، کیونکہ خلافت ، ملک اور حکومت ھے اور میں نھیں جانتا کہ جنت و دوزخ ھے بھی یا نھیں؟[68] اور اگرچہ عثمان نے ان کو دور رکھا لیکن کچھ مدت میں اس کافر گھرانہ کی رسی کا جال خلافت پر آ گرا، اور جب اس گھرانہ میں حکومت آئی تو ان کے زھریلے آثار اکثر اوقات ظاھر ھوتے رھے ھیں۔“[69]

نیز موصوف کہتے ھیں:

 ”میں معاویہ کو اس بات سے بری نھیں کروں گا کہ اس نے (امام) حسن (علیہ السلام) کو زھر دیا، کیونکہ یہ شخص ھرگز پکا مسلمان نھیں تھا، بلکہ یوں کھا جائے تو بہتر ھے کہ یہ ایک ایسا جاھل تھا جو اپنے بیٹے کے لئے ھر گناہ اور جرم انجام دینے کے لئے تیار تھا۔ یہ شخص فتح مکہ کے وقت آزاد ھوا تھا،لیکن اس نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے صحابہ جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو درد ناک طریقہ سے قتل کیا اور لوگوں سے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کے لئے نہ جانے کیا کیا کار نامے انجام دئے، لہٰذا خلافت جاھلیت کی بادشاہت میں بدل گئی، جس کو آل معاویہ ایک کے بعد دوسرے کی طرف منتقل کرتے رھے۔“[70]

۱۱۔ عباس محمود عقّاد

موصوف اپنی کتاب ”معاویہ فی المیزان“ میں تحریر کرتے ھیں:

خلافت کے زمانہ کے بعد بنی امیہ کی حکومت کا قائم ھونا تاریخ اسلام اور تاریخ بشری کا سب خطرناک حادثہ تھا۔“[71]

طبری، سعید بن سوید سے ایک مدرک و سند کے ساتھ روایت کرتے ھیں کہ معاویہ نے لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے کھا:

 ”میں نے تمھارے ساتھ اس وجہ سے جنگ نھیں کی ھے کہ تم روزہ رکھو، نماز پڑھو، حج کرواور زکوٰة دو، کیونکہ میں جانتا ھوں کہ یہ اعمال تو تم انجام دیتے ھی ھو، میں نے تم سے صرف اس وجہ سے جنگ کی ھے کہ میں تمھارا امیر ھوجاؤں۔“[72]

۱۲۔ ڈاکٹر محمود خالدی: پروفیسریرموک یونیورسٹی (اُردُن)

موصوف تحریر کرتے ھیں:

”رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد نظام خلافت ایک نئے انداز میں ظاھر ھوا۔۔۔ اور اس میں باب اجتھاد کھل گیا، خلافت کے اوپر عام مسلمانوں کے درمیان بحث و جدل اور اجتھاد کا بازار گرم ھوگیا، اور اس سلسلہ میں بہت سے نظریات پیدا ھوگئے، خلافت کی شکل و صورت اور اس کو اختیار کرنے یا جس گھر سے خلیفہ کا انتخاب ھو ، ان تمام چیزوں کے سلسلہ میں مختلف رائے اور نظریات سامنے آئے، اور اس اختلاف کے نتیجہ میں خلافت کی مختلف شکلیں سامنے آئیں۔۔۔۔“[73]

قارئین کرام!  یہ تمام مشکلات اور اختلافات اھل بیت علیھم السلام اور ان کے سر فھرست حضرت علی علیہ السلام کے متعلق احادیث کے انکار کے نتیجہ ھیں ۔

۱۳۔ مصطفی رافعی، پیرس یونیورسٹی میں حقوق کے ماھر

موصوف بنی امیہ کے زمانہ کے سلسلہ میں کہتے ھیں:

”تمھارے زمانہ میں ایک انقلاب آیا بلکہ تم نے خلافت کو نظام حکومت کے عنوان سے دیکھا۔ ایسی حکومت جو اپنے پھلے جوھر اور دینی عمل کے عنوان سے دور ھوگئی ھے۔ اس زمانہ میں خلیفہ اپنے لئے محل بناتا تھا، اور تکیہ لگاکر خدمت گزار رکھتا تھا۔۔۔ اسی زمانہ میں معاویہ نے نئی سنتوں کا اضافہ کیا اور ان کو عملی جامہ پھنانے کے لئے ھر حیلہ و مکاری سے کام لیا تاکہ عام مسلمان اس نظام کی پیروی کریں۔“[74]

۱۴۔ محمد رشید رضا

موصوف اپنی تفسیر ”المنار“ میں تحریر کرتے ھیں:

”۔۔۔ بنی امیہ نے اس اسلامی حکومت کو کس طرح گندا کردیا، اس کے قواعد و اصول کو پامال کردیا، مسلمانوں کے لئے ذاتی حکومت بنا کر رکھ دیا، لہٰذا جس شخص نے اس پر عمل کیا اور جو شخص روزقیامت تک اس پر عمل کرے گا اس کا گناہ انھیں کی گردن پر ھے۔“[75]

قارئین کرام!  یہ تمام مشکلات خلیفہ مسلمین کی خلافت و امامت پر الٰھی حکم کے انکار کرنے کی وجہ سے پیش آئی ھیں۔ اگر مسلمان رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد ھونے والے حقیقی ائمہ کے بارے میں احادیث کا انکار نہ کرتے تو پھر ایسے مصائب اور مشکلات میں گرفتار نہ ھوتے۔ یہ ایسی مصیبتیں ھیں جن کا اقرار خود اھل سنت کے علماء نے کیا ھے اور وہ ان کے طور و طریقہ سے شکایت کرتے ھیں، لیکن اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کرنے والا شیعہ معاشرہ ان مصیبتوں میں مبتلا نھیں ھے۔


[1] صحیح مسلم، کتاب الجھاد و السیر، باب۳۴، ج۳، ص۱۴۱۲، ح۱۷۸۵۔

[2] سیرہٴ حلبی، ج۲، ص۹۸؛ نیل الاوطار، ج۲، ص۳۲۔

[3]الموطاٴ، ص۵۷، ح۱۵۱۔

[4] صحیح مسلم، ج۴، ص۱۳۱، باب نکاح المتعة۔

[5] زاد المعاد، ج۲، ص۱۸۴؛ صحیح مسلم، ج۴، ص۴۸۔

[6]طبقات ابن سعد، ج۲، ص۱۹۰؛ سیرہٴ حلبی، ج۳، ص۲۰۷۔

[7] صحیح بخاری، ج۷، ص۹، کتاب المرضیٰ۔

[8] شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۱۲، ص۲۱۔

[9]کامل ابن اثیر، ج۳، ص۶۳؛ تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۳؛ شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۰۷۔

[10]سورہ محمد، آیت ۹۔

[11] تاریخ طبری، ج۴، ص۲۲۴۔

[12]الطبقات الکبریٰ، ج۵، ص۲۰؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۵۸؛ قاموس الرجال، ج۶، ص۳۶۔

[13]سورہ یونس ، آیت ۳۲۔

[14] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۳۔

[15] تاریخ طبری، ج۳، ص۲۵۴۔

[16] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۸۔

[17] تاریخ طبری، ج۳، ص۲۰۲؛ الکامل، ج۲، ص۳۲۵۔

[18] روح المعانی، ج۱۰، ص۴۵۔

[19] شرح ابن ابی الحدید، خطبہٴ سوم۔

[20]العقد الفرید، ج۴، ص۸۵۔

[21] تاریخ الامم الاسلامیہ، ص۴۹۷۔

[22] شرح ابن ابی الحدید، ج۶، ص۴۵۔

[23] شرح ابن ابی الحدید، ج۱۲، ص۷۸۔

[24]سورہٴ آل عمران، آیت ۳۱۔

[25]سورہٴ نساء، آیت ۸۰۔

[26] علل الشرایع، ج۱، ص۱۴۶، ح۳؛ عیون اخبار الرضا(ع)، ج۲، ص۸۱، ح۱۵۔

[27]المناقب، ج۳، ص۲۲۰۔

[28]بحار الانوار، ج۲۹، ص۴۸۲؛ تاریخ دمشق، ج۴۲، ص۲۹۱؛ معرفة الصحابة، ابی نعیم، ص۲۲، مخطوط؛ شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۳۔

[29]مختصر تاریخ دمشق، ج۶، ص۲۷۶؛ تہذیب الکمال، ج۵، ص۵۹؛ تہذیب التہذیب، ج۲، ص۲۱۰؛ المجروحین، ابن حبان، ج۱، ص۲۶۸؛ الانساب، سمعانی، ج۳، ص۵۰۔

[30]البدایة و النھایة، ج۸، ص۱۴۲؛ تذکرة الخواص، ص۲۳۵؛ شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۲۸۳۔

[31] شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۱۹۷۔

[32] شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۰۰۔

[33] شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۷۴۔

[34] ینابیع المودة، ج۱، ص۵۳۔

[35] تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ کامل ابن اثیر، ج۳، ص۲۴۔

[36] شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۰۷۔

[37]مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۵۰، ح۴۶۷۶۔

[38]مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۵۱، ح۴۶۷۷۔

[39] شرح ابن ابی الحدید، ج۹، ص۲۳۔

[40] شرح ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص۲۹۸، رقم ۴۱۳۔

[41] شرح ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص۲۹۸، رقم ۴۱۴۔

[42]سورہٴ انفال، آیت ۲۴۔

[43]سورہٴ احزاب، آیت ۳۶۔

[44]سورہٴ قصص، آیت ۶۸۔

[45] نظریة الامامة لدی الشیعة الاثنی عشریة، ص۵۰۱۔

[46]النظم الاسلامی نشاٴتھا و تطورھا، ص۲۶۷۔

[47]النظم الاسلامی نشاٴتھا و تطورھا، ص۲۷۹۔

[48]رسائل جاحظ، ص۲۹۲تا ۲۹۷، رسالہ نمبر ۱۱۔

[49]الاختلاف فی اللفظ والردّ علی الجھمیة والمشبھة، ص۴۷ تا ۴۹۔

[50]النزاع و التخاصم، ج۱۲، ص۳۱۵ تا ۳۱۷۔

[51]جمھرة انساب العرب، ص۱۱۲۔

[52]المحلّیٰ، ج۱، ص۵۵۔

[53]سورہ اسراء، آیت ۶۰، ترجمہ آیت: ”جےسے آپ نے دیکھا ھے وہ ھم نے اس لئے دکھا یا ھے کہ وہ لوگوں کے درمیان فتنہ ھے اور قرآن میں وہ شجرہ ملعونہ ھے اور ھم لوگوں کو ڈراتے رہتے ھیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ھی جارھی ھے۔“

[54] تفسیر آلوسی، مذکورہ آیت کے ذیل میں۔

[55] مراٴة الاسلام، ص۲۶۸ تا ۲۷۰۔

[56] مراٴة الاسلام، ص۲۶۸ تا ۲۷۲۔

[57]الفنتة الکبریٰ، ج۱، ص۱۵۲۔

[58]الفنتة الکبریٰ، ج۲، ص۱۵۔

[59]مختصر تاریخ العرب و التمدن الاسلامی، ص۶۳۔

[60] روح الاسلام، ص۲۹۶۔

[61] روح الاسلام، ص۳۰۰۔

[62] روح الاسلام، ص۳۰۱۔

[63] ضحی الاسلام، ج۳، ص۲۲۵۔

[64] یوم الاسلام، ص۴۱۔

[65] یوم الاسلام، ص۵۳۔

[66] فجر الاسلام، ص۷۹۔

[67] نشاٴة الفکر الفلسفی فی الاسلام، ج۱، ص۲۲۹۔

[68]النزاع و التخاصم، ص۳۱۔

[69] نشاٴة الفکر الفلسفی فی الاسلام، ج۱، ص۱۹۸۔

[70] نشاٴة الفکر الفلسفی فی الاسلام، ج۲، ص۴۶۔

[71]معاویة فی المیزان، ج۳، ص۵۴۲۔

[72]معاویة فی المیزان، ج۳، ص۶۱۱، نقل از طبری ۔

[73]الاصول الفکریة للثقافة الاسلامیة، ج۳، ص۱۶۔

[74]مصطفی رافعی، الاسلام نظام انسانی، ص۳۰۔

[75] تفسیر المنار، ج۵، ص۱۸۸۔