اسلامی معاشرہ کے دینی اور دےنوی امور کی سرپرستی کو”امامت“ کہتے ھیں۔امامت دین اسلام کے مقدس اصولوں میں سے ایک مسلم اصول ھے۔ جن آیات میں خدائےمتعال نے اپنے دین کی تشکیل کوبےان کےا ھے، ان میں اس مطلب کی بھی وضاحت کی ھے۔
”امامت“کا مقصد لوگوں کی دنیا میں دین کی رھبری کرنا ھے اور پیشوا شخص کو ”امام“کہتے ھیں۔
شیعوں کاعقےدہ ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی رحلت کے بعد خدائےمتعال کی طرف سے ایک امام معین ھو نا چاہئے تاکہ وہ معارف اور دینی احکام کا محافظ ونگھبان ھو اور حق کی طرف لوگوں کی راھنمائی کرے۔
جب ایک ملک میں ایک حکومت تشکیل پاتی ھے اور وہ لوگوں کے عمو می کام کا نطم و نسق ھے، تو و ہ کام خودبخود انجام نھیں پاتا، بلکہ اگر کچھ شائستہ افراد اور ماھر لوگ اس کی حفاظت کی کوشش نہ کریں تونظام باقی ھی نہ رھے اور لوگوں کو اپنے فوائد سے بھرہ مند بھی نہ کرسکے۔۔انسانی معاشرہ میں جو بھی ادارہ وجود میں آتا ھے، جیسے ثقافتی اور مختلف اقتصادی ادارے، وہ بھی یھی حکم رکھتے ھیں اور ھر گز قابل وشائستہ مدیروں سے بے نیاز نھیں ھیں ورنہ بہت ھی کم مدت میں نابود ھو جائیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ھے، جسے سادہ لوح انسان بھی سمجھتا ھے اور بہت سے تجربوں اورآزمائشوں سے بھی اس کے صحیح ھونے کی گواھی ملتی ھے۔
بیشک دین اسلام کا نظام ----- بھی ےھی حکم رکھتا ھے کہ جس کے بارے میں جراٴت کے ساتھ یه کھا جاسکتا ھے کہ دنیا کاسب سے بڑانظام ھے اور وہ اپنی بقااور حفاظت میں بھی مدیروں کا محتاج ھے اور ھمیشہ شائستہ افراد کو چاہتا ھے تاکہ وہ اس کے قوانین اور معارف کو لوگوں تک پھنچائیں اور اس کے دقیق ضوابط اور قوانین کواسلامی معاشرہ میں نافذ کریں اور ان کی رعایت اور حفاظت میں کسی قسم کی غفلت ولآپر وائی نہ کریں۔
دوسرے اعتبار سے، یه کہ ھم نے نبوت کی دلیل میں ذکر کیا ھے، کہ خلقت کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی سیدھے راستہ پر ھدایت کرنا ھے۔ جس طرح خدائےمتعال نے اپنی تمام مخلوقات کی ضرورتوں کو پورا کیا ھے اور ان کی ترقی کے وسائل کو ان کے اختیار میں دیدیا ھے، اس طرح اس کے لٴے ضروری ھے کہ انسان کے صحیح عقاےٴد، پسندیدہ اخلاق اور نیک کامو ںکی ضرورتوں کو پور کرنے کے لئے انبےاء کو بھیجے تا کہ وہ اس کے پیغام کو لوگوں تک پھنچائیں۔
اسی دلیل کی بنآپر، خدائے مھربان کو چاہئے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ لیہ وآل وسلم کی رحلت کے بعد دین کی حفاظت اور لوگوں کی ھدایت کے لئے امام اور پیشوا معین کر ے اور لوگوں کوان کی مرضی پر نہ چھوڑے، جو اکثراوقات ھواوھوس سے مغلوب ھوتی ھے۔ جس طرح پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو لوگوں کی ضرورتوں اور انسان کی انفرادی و اجتماعی بےمارےوںکے علاج سے آگاہ کےا اور ان کو ھر طرح کے سھو ونسان سے محفوظ رکھا، اسی طرح ضروری ھے کہ امام اور ایک دینی پیشواکو بھی علم وعصمت عطا کرے۔ اس عقلی دلیل سے واضح ھوتا ھے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کی ھدایت، دین کے تحفظ او راسلام کے قوانین کو نافذ کرنے کےلئے خدا کی طرف سے امام معین ھو۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے مختلف طریقوں سے روایت کی گئی ھے کہ امت اسلامیہ کے لئے آپ(ص) کی رحلت کے بعد بعض پیشوا اورامام ھیں جو آپ کے جانشین ھوں گے۔ ایک معروف روایت، جسے شیعہ وسنی راویوں نے نقل کیا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے فرمایا:
”امام بارہ افراد ھوں گے اور سب کے سب قریش سے ھوں گے “۔[1]
ایک اور مشھورروایت میں آنحضرت(ص) نے جابر انصاری سے فرمایا:
”امام بارہ افراد ھیں“[2]
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ایک ایک کرکے ان کے نام بتائے اور جابر سے فرمایا:
”تم اماموں میں سے پانچویں امام کو درک کروگے، ان کو میراسلام کھنا “[3]
اس کے علاوہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے حضرت امیرالموٴ منین علی علیہ السلام کو(خصوصاً)اپنے جانشین کے طور پر تعیین فرمایا ھے، آپ(ع) نے بھی اپنے بعدوالے امام کا تعارف کراےا، اسی طرح ھر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کراےا۔
اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ جب سے تاریخ بشرےت کا آغاز ھوا اور انسانیت کے خاندان میں اجتماعی زندگی بڑھتی گئی، تو دنیا کے اطراف واکناف میں ، چھوٹے ےا بڑے، ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ معاشرے وجود میں آتے گئے، لیکن حا کم اور سرپرست کے بغیرکوئی معاشرہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہ سکا۔ جھاں پر بھی کوئی معاشرہ تشکیل پایا اس میں ایک حاکم اور سر پرست قھر و غلبہ یاانتخاب کے ذرےعہ ھوا کرتا تھا، یھاں تک کہ چھوٹے اور چند افراد پر مشتمل خاندانوں میں بھی یھی طرےقہ رائج تھا۔ بیشک یھاںپرانسان اپنی خداداد فطرت سے سمجھتا ھے کہ ھر معاشرہ کے لئے ایک سر پرست کی ضرورت ھے۔ خدائےمتعال فرماتا ھے:
<فاقم وجھک لِلدّیِن حنیفاً فطرت اللّہ الّتی فطر النّاس علیھا لا تبدیل لخلق اللّہ ذلک الدِّینِ القیِّم۔ ۔۔> (روم /۳۰)
”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رھیں کہ یہ دین وہ فطرت الھی ھے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے اورخلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نھیں ھو سکتی ھے۔یقینا یھی سیدھا اور مستحکم دین ھے“
پروردگارعالم، اس آیہ شریفہ میں اپنے دین کو دین فطرت سے تعبےر کرتا ھے اور بیان فرماتا ھے کہ اس مقدس دین کے احکام ان چیزوں کے مطابق ھیں کہ جن کو انسان اپنی خالص فطرت سے سمجھتاھے۔
خدائےمتعال، اس آیه شریفہ میں ، انسان کے تمام فطری ادراکات اور اس کی خالص فطرت کے فیصلوں کو معتبر قرار دےتا ھے اور ان کی تائےد کرتاھے ان فطری فےصلوں میں سے ایک معاشرہ کی سرپرستی اور اسکی باگ ڈور سنبھالنا ھے۔
خدائےمتعال اپنے پیغمبراکرم (ص) کی توصیف میں فرماتا ھے:
<لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ما عنتّم حریصٌ علیکم بالمئومنین رؤفٌ رّحیم> (توبہ/۱۲۸)
”یقیناتمھارے پاس وہ پیغمبر آیا ھے جوتمھیںمیں سے ھے اوراس پر تمھاری ھر مصیبت شاق ھوتی ھے وہ تمھاری ھدایت کے بارے میں حرص رکھتا ھے اور مو منین کے حال پر شفیق اور مھر بان ھے“
اس بات پر ھرگز ےقےن نھیں کیا جاسکتا ھے کہ وہ پیغمبر(ص) جو قرآن مجید کی نص کے مطابق اپنی امت پر تمام لوگوں سے زیادہ ھمدردومھر بان تھا، وہ احکام الھیٰ میں سے ایک حکم کے بارے میں اپنی پوری عمر خاموش رھے، اور اس کے بیان سے چشم پوشی کرے جو اسلامی معاشرہ میں بلا شک و شبہ پھلے درجہ کی اھمیت کا حاصل ھو اور عقل سلےم اور فطرت کے مطابق ھو۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم تمام لوگوں سے بہتر جانتے تھے کہ اسلام کا تشکیل پایا ھوا یہ وسیع نظام(جو دنیا کے وسیع ترین نظاموں میں سے ھے )صرف دس بیس سال تک کے لئے نھیں ھے کہ اس کی سرپرستی کو آپ خود کریں، بلکہ یہ نظام عالم بشریت کو ھمیشہ چلا نے والا ھے۔
چنا نچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم اپنے بعد ہزاروں سال تک کے حالات کے بارے میں دور اندیشی فرماتے تھے، اور اس سلسلہ میں ضروری احکام جاری فرماتے تھے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم جانتے تھے کہ دین، ایک اجتماعی نظام ھے اور کوئی بھی اجتماعی نظام حاکم اور سر پرست کے بغیر ایک گھنٹہ کے لئے بھی زندہ باقی نھیں رہ سکتا ۔
اس بنآپر، سر پرستی ضروری ھے تاکہ دین کے معارف اور قوانین کی حفاظت کی جائے اور معاشرہ کے نظام کو چلا یا جاسکے اور لوگوں کی دنیاوآخرت کی سعادت کی طرف رھنمائی ورھبری کی جائے۔ لہذا کیسے ممکن ھے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم اپنی رحلت کے بعد آنے والے کل کوبھول جائیں یا اس کے بارے میں کوئی دلچسپی نہ رکھیں؟
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم جب کبھی جنگ یاحج کے لئے صرف کچھ دنوں کے لئے مدینہ سے باھرتشریف لے جاتے تھے، تو لوگوں کے امور کو چلانے کے لئے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین مقرر فرماتے تھے اوراسی طرح مسلمانوں کے ھاتھوں فتح ھوئے شھروں کے لئے گورنرمقرر فرماتے تھے اور جنگ پر روانہ ھونے والے فوجی لشکر یاگروہ کے لئے کمانڈر اورامیر مقرر فرماتے تھے اور کبھی اس حد تک فرماتے تھے کہ:”تم لوگوں کا امیر فلاں شخص ھے اگر وہ ماراگیا تو فلاں شخص ھوگا “۔پیغمبراکرم(ص) کی اس روش کے باوجود کیسے ےقےن کیا جاسکتا ھے کہ آپ(ص) نے اپنے سفر آخرت کے موقع پراپنی جگہ پر کسی کو معےّن نھیں کیا ھوگا ؟
مختصر یہ کہ جو بھی شخص گھری نگاہ سے اسلام کے بلند مقاصد اور ان کولانے والے عظیم الشان پیغمبر کے مقصد پر نظر ڈالے، توکسی شک وشبہہ کے بغیر تصدیق کرے گا کہ مسلمانوں کے لئے ولایت وامامت کا مسئلہ حل شدہ اور واضح ھو چکا ھے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے اپنے بعدمسلمانوں کے امور کی سرپرستی اور مسئلہ ولایت کے سلسلہ میں صرف سر بستہ بیانات پرھی اکتفانھیں فرمایا بلکہ پھلے ھی دن سے توحید ونبوت کی دعوت کے ساتھ ساتھ مسئلہ ولایت کو بھی واضح طور پر بیان فرمایا اور دین ودنیا کے تمام امور میں حضرت علی علیہ السلام کی سرپرستی اور جانشینی کو تمام مسلمانوں میں اعلان فرمایا۔
جیسا کہ بیان ھوا، اس رواےت کے مطابق جسے شیعہ وسنی راویوں نے نقل کےا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآل وسلم جب پھلے دن اعلانیہ دعوت دےنے پر مامور ھوئے۔توآپ(ص) نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اورانھیں ایک جگہ پر جمع کیا اوراس محفل میں حضرت علی علیہ السلام کے وزےر، وصی اور خلّےفہ ھونے کوآشکار طور پر ثابت اور مستحکم فر مایا اوراسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں غدیرخم کے مقام پر ایک لاکھ بیس ہزار کے ایک عظیم مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ کو پکڑکر بلند کرکے فرمایا:
”من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ“
”جس جس کا میں مولا ھوں، اس کے یه علی(ع) بھی مولا ھیں “
چنانچہ نبوت کی بحث میں واضح ھوا کہ خالق کائنات کااپنی مخلوق پر عنایت وتوجہ کا تقاضا یہ ھے کہ اپنی مخلوقات میں سے ھر مخلوق کی معین مقصد(جو کمال کے درجہ تک پھنچنا ھے) کی طرف رھنمائی کرے مثال کے طورپر پھل دار درخت کی رشد، نمو، کونپلیں کھلنے اور پھل دینے کی طرف راھنمائی کی جائے اور اسکی زندگی کا طرےقہ ایک پرندہ کی زندگی کے طرےقہ سے جدا ھے۔ اس طرح ایک پرندہ بھی اپنی زندگی خاص راستہ کو طے کرتا ھے اور اپنے خاص مقصد کے پیچھے جاتاھے، نہ کہ درخت کے راستہ اور مقصد کے پےچھے، اسی طرح ھر مخلوق کی اپنی منزل مقصود تک پھنچنے اور مناسب راستہ کو طے کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف راھنمائی نھیں کی جاتی اور معلوم ھے کہ انسان بھی خدا کی ایک مخلوق ھونے کے ناطے ھدایت کے اس کلی قانون میں شامل ھے۔
واضح ھوا کہ انسان کی زندگی کی سعادت چونکہ خود اس کے اختیار اور ارادہ سے حاصل ھوتی ھے، لہذا ھدایت الٰھی اور، دعوت وتبلیغ بھی انبےاء اور دین کو بھیجنے کے ذریعہ ھونی چاہئے تاکہ خدائےمتعال پر انسان کی کوئی حجت باقی نہ رھے۔ ذےل کی آےت اسی معنیٰ پر دلالت کرتی ھے:
<رسلاً مّبشِّرین ومنذرین لئلاّیکون للناس علی اللّہ حجةً بعد الرُّسّل۔۔۔>
(نساء/۱۶۵)
”یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدآپر قائم نہ ھونے پائے“
جو دلیل پیغمبروںکے بھیجنے اور دین کی دعوت کی برقراری کا تقاضا کرتی ھے وھی دلےل اس چیز کا بھی تقاضا کرتی ھے کہ، اپنی عصمت سے دین کی حفاظت اورلوگوں کی رھبری کرنے والے پیغمبرکی رحلت کے بعد، خدائےمتعال کو چاہئے کہ اوصاف کمالی میں (وحی ونبوت کے علاوہ )آپ(ص) کے مانند ایک شخص کو آپ(ص) کاجانشین مقرر فرمائے تاکہ وہ دین کے معارف اوراحکام کی کسی انحراف کے بغیر حفاظت کرے اور لوگوں کی رھنمائی کرے، ورنہ عام ھدایت کا نظام درھم برھم ھو جا ئے گا اور خدائےمتعال پر لوگوں کی حجت تمام ھوجائے گی۔
عقل میں چوںکہ خطا ولغزش پائی جاتی ھے لہذا وہ لوگوںکو خدا کے پیغمبروں سے بے نیاز نھیں کر سکتی، اسی طرح امت میں علمائے دین کی موجودگی اورانکی دینی تبلیغات، لوگوں کو امام کے وجود سے مستغنی نھیں کر سکتے، کیونکہ، جیسا کہ واضح ھوا کہ بحث اس میں نھیں ھے کہ لوگ دین کی پیروی کرتے ھیں یانھیں، بلکہ بحث اس چیز میں ھے کہ خدا کا دین کسی قسم کی تحریف وتبدیلی یانابودی کے بغیر لوگوں تک پھنچ سکے۔
معلوم ھے کہ علمائے امت کتنے بھی صالح اور متّقی ھوں، لیکن خطاو گناہ سے محفوظ و معصوم نھیں ھیں اور بعض معارف اوردینی قوانین کا ان سے پائمال ھونا ےا تبدیل ھونا، اگرچہ عمدا ًنہ ھو، محال نھیں ھے۔ اس کی بہترین دلیل اسلام میں گوناگون مذاھب اوراختلافات کا وجود میں آنا ھے۔
لہذا، ھر حالت میں امام کا وجود لازم اور ضروری ھے تاکہ دین خدا کے معارف اور اس کے حقیقی قوانین اس کے پاس محفوظ رھیں اور جب بھی لوگوں میں استعداد پیدا ھو جائے وہ ان کی رھنمائی سے استفادہ کر سکیں۔
مذکورہ بیانات سے واضح ھوتا ھے کہ امام کو بھی پیغمبر کے مانند خطا ومعصیت سے محفوظ ھونا چاہئے، کیونکہ اگر ایسا نہ ھو تو دین کی دعوت ناقص رھے گی اور الہٰی ھدایت اپنا اثر کھودے گی۔
امام میں شجاعت، شھامت، عفت، سخاوت اور عدالت جیسی اخلاقی فضیلتیں موجود ھونی چاہئیں، کیونکہ جو معصیت سے محفوظ ھے وھی تمام دینی قوانیں پر عمل کرتا ھے اور پسندیدہ اخلاق دین کی ضروریات میں سے ھیں اس لئے اس کو اخلاقی فضائل میں تمام لوگوں سے افضل ھونا چاہئے، کیونکہ کسی کا اپنے سے برتر وبالاتر کی رھبری کرنا بے معنی اور عدل الہٰی کے منافی ھے۔
چونکہ امام دین کا حامل اور تمام لوگوں کآپےشوا ھوتاھے، لہذا ضروری ھے کہ وہ لوگوں کی دنیا وآخرت اور انسان کی سعادت سے متعلق تمام مسائل کا علم رکھتا ھو، کیونکہ عقل کے مطابق جاھل کآپیشوا بننا جائز نھیں ھے اور عام الہٰی ھدایت کی روسے بھی یہ بے معنی ھے۔
[1] احمد بن حنبل،مسند،ج۵،ص۹۲۔
[2] ینابیع المودہ ،باب ۷۷،ص۵۰۳۔
[3] ینابیع المودہ،باب ۹۴،ص۵۵۳و۵۵۴۔