امام  علی علیه السلام کی صفین سے کوفہ کی طرف روانگی

حکمیت کا مسئلہ ایک ایسا امر ھے جسے امام علیہ السلام نے زور وزبردستی اور تمام راستے بند ھوجانے کی صورت میں  قبول کیا کیونکہ اگر اس کا مقابلہ کرتے تو خود اپنی فوج کے مخالفین،معاویہ کی فوج کی مدد سے امام علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاتے جس کا انجام آپ اور آپ کے وفادار ساتھیوں کی بربادی کے علاوہ کچھ نہ ھوتا یھی وجہ ھے کہ جب حکمیت کے تعیین کا مسئلہ ختم ھوا تو امام علیہ السلام اپنے نمائندوں کو اعزام اور فیصلہ اور مشکلات کے رفع،دفع کرنے اور اس پر ناظر وغیرہ معین کرنے کے لئے کوفہ واپس آگئے  اور وہاں سے روانہ ھوتے وقت اس دعا کو پڑھا جو پیغمبر اسلام(ص) سے نقل ھوئی ھے: ” بارالٰہا سفر کی مشکلات اور غم سے نجات عطا کر اور اھل وعیال اور مال پر بری نظر ڈالنے والوں سے پناہ مانگتاھوں۔

امام علیہ السلام نے اس دعا کو پڑھا اور فرات کے کنارے سے کوفہ کی طرف روانہ ھوگئے اور جب ” صندوداء“[1]شہر کے پاس پھونچے تو قبیلہ بن سعید کے لوگ آپ کے استقبال کے لئے آئے اور خواہش ظاہر کی کہ ھمارے قبیلے میں  تشریف لائیے اور ھمیں  رونق بخشیں لیکن امام علیہ السلام نے ان کی دعوت قبول نھیں کیا[2] آپ جب کوفہ کے نخلستان(کھجور کے باغ) میں  پھونچے تو ایک ضعیف شخص سے ملاقات ھوئی جو ایک گھر کے سائے میں  بیٹھا تھا اور اس کے چہرے سے بیماری کے آثار نمایا ں تھے امام اور اس کے درمیان جو باتیں ھوئیں وہ یہ ھیں:

 امام علیہ السلام:تیرے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ھے؟ کیا بیمار ھے؟

ضعیف:جی ہاں۔

امام علیہ السلام: بیماری کو اچھا نھیں سمجھتے؟

ضعیف: نھیں، میں  نھیں چاہتا کہ بیمار پڑوں۔

امام علیہ السلام:کیا اس طرح کی بیماریاں خدا کے سامنے ” بہترین نیکی“ شمار نھیں ھوتیں؟

ضعیف: کیوں نھیں؟

امام علیہ السلام: مبارک ھو خدا کی رحمت نے تمہارا احاطہ کیا ھے اور تمہارے گناھوں کو بخش دیا ھے، تمہارا کیا نام ھے؟

ضعیف: میرا نام صالح بن سلیم ھے اور سلامان بن طیّ اور اس کے وفادار سلیم بن منصور قبیلے سے ھوں۔

 آپ نے خوش ھوکر فرمایا: تمہارا اور تمہارے باپ اور تمہارے وفاداروں کا نام کتنا بہترین ھے کیا ھماری جنگوں میں  تم نے شرکت کی ھے؟

ضعیف:نھیں، میں  جنگ میں  شریک نھیں ھوسکا لیکن اس کی طرف مائل تھا جیسا کہ آپ دیکھ رھے ھیں کہ جسم کی کمزوری نے جو بخار کی وجہ سے ھے مجھے ان کاموں سے روک دیا ھے۔

امام علیہ السلام: خدا کے کلام کو غور سے سنو وہ فرماتاھے: ”لیس علی الضعفاء ولا علی المرضی ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نَصحُواللہ ورسولہ ماعلی المحسنین من سبیل واللہ غفور رحیم  “(توبہ: ۹۱)(اے رسول جہاد میں  نہ جانے کا) نہ توکمزوروں پر کچھ گناہ ھے نہ بیماروں پراورنہ ان لوگوں پر جو کچھ نھیں پاتے کہ خرچ کریں بشرطیکہ یہ لوگ خدا اور اس کے رسول کی خیر خواھی کریں، نیکی کرنے والوں پر(الزام) کوئی سبیل نھیں ھے اورخدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ھے۔

امام علیہ السلام: شامیوں کے ساتھ ھمارے کام کے متعلق لوگ کیا کہتے ھیں؟

ضعیف:آپ کے دشمن اس کام سے خوش ھیں لیکن آپ کے حقیقی دوست ناراض اور افسوس کرتے ھیں۔

امام علیہ السلام: تم سچ کہتے ھو خدا تمہاری بیماریوں کو تمہارے گناھوں کی بخشش کا سہارا قرار دے اگرچہ بیماری کا کوئی اجر نھیں ھے مگر یہ کہ گناہ بخش دئے جاتے ھیں، اجر و ثواب، انسان کے کردار وگفتار پر منحصر ھے لیکن کبھی بھی حسن نیت(اچھی نیت) سے غفلت نھیں برتنا چاھیے کیونکہ خداوندعالم بہت زیادہ گروھوں کو ان کی بہترین نیت کی وجہ سے جنت میں  داخل کرے گا امام علیہ السلام اتنا کہنے کے بعد اپنے سفر پر روانہ ھوگئے۔[3]

    ابھی امام علیہ السلام نے تھوڑا ھی راستہ طے کیا تھا کہ عبداللہ بن ودیعہ انصاری سے ملاقات ھوئی  آپ نے چاہا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کے متعلق لوگوں کے نظریہ سے آگاھی پیدا کریں لہٰذا اس کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ھوئی جسے ھم یہاں نقل کرتے ھیں۔

امام علیہ السلام: ھمارے کاموں کے بارے میں  لوگوں کا کیا نظریہ ھے؟

انصاری: آپ کے متعلق لوگوں کے دو نظریے ھیں بعض لوگوں نے اسے پسند کیا ھے اور بعض لوگ اس سے ناراض ھیں اور(قرآن کی تعبیر کے مطابق” ولا یزالون مختلفین “)ھمیشہ اختلاف کے خواہاں ھیں۔

امام علیہ السلام: عقلمندوں کا کیا نظریہ ھے؟

انصاری: ان لوگوں کا کہنا ھے کہ کچھ گروہ علی کے ساتھ تھے لیکن علی نے انھیں دور کردیا بہترین قلعہ تھا لیکن اسے ویران کردیا اب علی کب ان لوگوں کو اپنے پاس بلائیں گے جنھیں دور کردیا ھے اور جس قلعہ کو ویران کیا ھے اسے کب آباد کریں گے؟ اگر وہ اسی گروہ کے ساتھ جو ان کے تابع تھے جنگ کو جاری رکھتے تو یا تو کامیاب ھوجاتے یا ختم ھوجاتے انھوں نے عقلمندی اور بہترین سیاست سے کام انجام دیا تھا۔

امام علیہ السلام: میں  نے ویران کیا ھے یا ان لوگوں(خوارج) نے؟ میں  نے ان لوگوں کو دور کردیا یا ان لوگوں نے اختلاف اور تفرقہ ایجاد کیا؟ اور جو یہ کہتے ھو کہ حسن تدبیر یہ تھی کہ جس وقت کچھ لوگوں نے میرے خلاف بغاوت کیا تھا تو میں  اپنے وفاداروں کے ساتھ جنگ جاری رکھتا یہ ایک ایسا نظریہ نہ تھاکہ میں  اس سے غافل ھوتا، میں  اس بات پر حاضر تھا کہ اپنی جان کو قربان کر دیتا او رموت کو خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگا تا لیکن حسن وحسین پر نھیں رویا اور دیکھا کہ وہ مجھ سے پھلے شھید ھونا چاہتے ھیں لہذا میں  نے اس بات کا خوف محسوس کیا کہ ان دونوں کے مرنے سے پیغمبر اسلام(ص) کی نسل نہ منقطع ھوجائے لہٰذا اس کام کو نھیں پسند کیا خدا کی قسم اگر اس مرتبہ شامیوں سے مقابلہ ھواتو اس راہ کو انتخاب کروں گا اور ہرگز وہ دونوں(حسن و حسین) میرے ساتھ نہ ھوں گے۔ [4]

امام علیہ السلام کے ساتھ انصاری کی صاف صاف باتیں دو مطلب کو واضح کرتی ھیں:

۱۔وہ ماحول جس میں  امام علیہ السلام زندگی بسر کررھے تھے وہ آزاد ماحول تھا اور لوگوں کو یہ حق حاصل تھاکہ وہ حکومت وقت کے بارے میں  اپنے افکار و نظریات کو پیش کرسکیں اور امام علیہ السلام کی نظر میں  اپنے نظریہ کو ظاہر کرنے میں  مخالف وموافق برابر تھے اور جب تک کہ مخالف اسلحہ نھیں اٹھاتااور حملہ نھیں کرتا مکمل آزاد رہتا تھا۔

۲۔پیغمبر اسلام(ص) کی نسل کی حفاظت کہ جسے قرآن کریم نے لفظ ” کوثر“ سے تعبیر کیا ھے اسلام کے واجبات سے اھم ھے اور اگر امام علیہ السلام معاویہ اور اپنے مخالفوں سے جنگ جاری رکھتے کہ جن کی تعداد کم نہ تھی تو خود امام علیہ السلام اور حسنین علیھم السلام شھید ھوجاتے اور پیغمبر اسلام(ص) کی نسل ختم ھوجاتی  جس کا نتیجہ یہ ھوتا کہ خود ” امامت“ ھی ختم ھوجاتی، جب کہ پروردگار عالم کا ارادہ اس بات کو ثابت کرتا ھے کہ معصومین علیھم السلام کی نسل ظھور امام زمان علیہ السلام تک باقی رھے اسی لئے امام علیہ السلام نے حکمیت کو قبول کرلیا، اور تمام علتوں میں  سے ایک یہ بھی علت تھی جس کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اسے قبول کیا۔

 امام  علیه السلام خباب بن ارت کی قبر پر

امام علیہ السلام چلتے چلتے بنی عوف کے گھروں کے پاس پھونچے راستے کے داہنی طرف ایک اونچی جگہ پر آپ نے سات یا آٹھ قبروں کو دیکھا امام علیہ السلام نے ان قبروں میں  دفن کے نام پوچھے، قدامہ بن عجلان ازدی نے جواب دیا، آپ کے صفین جانے کے بعد خباب بن ارت کا انتقال ھوگیا اور اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اسے بلند جگہ پر دفن کیا جائے یہاں پر اس کے دفن ھونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے مردوں کو بھی اس کے اطراف میں  دفن کرنا شروع کردیا، امام علیہ السلام نے خباب کے لئے رحمت ومغفرت طلب کرنے کے بعد اس کے متعلق کہا اس نے صدق دل سے اسلام قبول کیا اور اپنی مرضی سے ہجرت کیا تھا اور پوری عمر جہاد کیا اور پھر اس کا جسم کمزور ھوگیا خداوندعالم اچھے لوگوں کے اجر کو ضائع نھیں کرتا اور پھر وہاں پر دفن ھوئے تمام لوگوں کے بارے میں  فرمایا:

” اے خوفناک زمین اور بے آب وگیاہ محلہ میں  رہنے والو! تم پر درود وسلام ھو اے مؤمن اور مومنات، تم نے ھم پر سبقت حاصل کی ھم بھی تمہارے پیچھے آ رھے ھیں اور کچھ ھی دیر میں  تم لوگوں سے ملحق ھوجائیں گے خدایا ھمیں  اور ان لوگوں کو بخش دے اور ان کی اور ھماری غلطیوں کو معاف کردے۔(پھرفرمایا)اس خدا کا شکر جس نے زمین کو مردوں اور زندوں کے جمع ھونے کی جگہ بنائی، شکر اس خدا کا جس نے ھمیں  پیدا کیا اور پھر ھم اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے اور اس کے سامنے حاضر ھوں گے کتنے خوش نصیب ھیں وہ لوگ جو قیامت کو یاد کرتے ھیں اور حساب وکتاب کے دن کے لئے صحیح امور انجام دیتے ھیں اور اپنے امور میں  قناعت کرتے ھیں۔[5]

پھر امام علیہ السلام نے اپنے سفر کو جاری کیا اور قبیلہ ھمدان کے گھروں کے پاس سے گزر رھے تھے کہ آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی، جو جنگ صفین میں  قتل ھونے والے اپنے رشتہ داروں پر رورھی تھیں۔

امام علیہ السلام نے شرحبیل کو بلایا اور کہا: کہ اپنی عورتوں سے کھو کہ صبر کریں اور چیخ و فریاد نہ کریں اس نے امام علیہ السلام کے جواب میں  کہا: اگر بات صرف چند گھروں کی ھوتی تو اس درخواست پر عمل کرنا ممکن تھا لیکن تنہا صرف اس علاقے سے ۱۸۰ آدمی قتل ھوئے ھیں اور کوئی بھی ایسا گھر نھیں ھے جہاں گریہ وزاری نہ ھو لیکن ھم سب مرد ہرگز نھیں روتے بلکہ ھم لوگ ان کی شہادت پر بہت خوش ھیں، امام علیہ السلام نے ان کے مرنے والوں پر رحمت کی دعا دی، امام علیہ السلام چونکہ گھوڑے پر سوار تھے اور شرحبیل نے چاہا کہ آپ کو کچھ دور جا کر خداحافظ کرے لہذا اس سے فرمایا: ارجع فان مشی مثلک فتنة لِلوالی ومذ لة للمومنین [6]یعنی واپس چلے جاوٴ کہ اس طرح سے مشایعت کرنا(کسی کو رخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور جانا) حاکم کے غرور ارو مومنین کی ذلت کا سبب ھے۔

 جب آپ کوفہ پھونچے تو چار سو لوگوں کو حکمین کے کاموں پر بعنوان ناظر معین کیا اور شریح کو فوج کا سردار اور ابن عباس کو مذہبی پیشوا معین کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ اپنے زبردستی منتخب ھونے والے نمائندے یعنی ابوموسیٰ اشعری کوبھیجیں[7]

امام علیہ السلام اپنے دور خلافت کے آغا ز ھی سے اپنی خلافت ورہبری میں  اس کی بے پرواھی سے باخبر تھے اور لوگ بھی اس کی سادگی اور بے وقوفی سے آگاہ تھے یھی وجہ ھے کہ اس کو بھیجنے کے وقت امام علیہ السلام اور لوگوں نے اس سے گفتگو کی اس میں  سے بعض باتوں کو ھم یہاں نقل کررھے ھیں۔

 امام علیہ السلام اور ابو موسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

    ابو موسیٰ اشعری کی بیوقوفی اور کم عقلی کودوست ودشمن سبھی جانتے تھے اور اسے(بغیر دھار اور قبضے کی چھری)اور کم ظرف کہتے تھے لیکن علی علیہ السلام کیا کرسکتے تھے؟ ان کے سادہ اور کم ظرف دوستوں نے جو ابوموسیٰ اشعری ھی کی صفت کے تھے امام کو دو چیزوں پر مجبور کردیا تھا۔کہ خود حکمیت کو قبول کریں اور حکم کے عنوان سے ابو موسی اشعری ھی ھو امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ کو ” دومة الجندل“ بھیجتے وقت اس سے اور اپنے کاتب عبیداللہ بن ابی رافع سے اس طرح گفتگو کی:

امام علیہ السلام نے ابو موسیٰ سے کہا ” احکم بکتاب اللہ ولا تجاوزہ “ یعنی خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس سے تجاوز نہ کرنا۔

جب ابو موسیٰ روانہ ھوا تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں  دیکھ رہا ھوں کہ وہ اس واقعہ میں  ضرور دھوکہ کھائے گا۔

 عبیداللہ: اگر واقعا ایسا ھے اور وہ دھوکہ کھائے گا تو پھر اسے کیوں بھیج رھے ھیں؟

امام علیہ السلام: ”لوعمِلَ اللّہُ فی خَلقِہِ بعلمہ مااحتج علیھم بالرسل “ [8]یعنی اگر خداوندعالم اپنے علم کے مطابق اپنے بندوں سے محاسبہ کرتاتو وہ پیغمبروں کو نہ بھیجتا اور ان کے ذریعے سے ان لوگوں پر اپنی دلیلیں قائم نھیں کرتا۔

فوج کے سردار اور ابوموسیٰ اشعری کے درمیان گفتگو

سردار شریح بن ہانی جسے امام علیہ السلام نے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ دومة الجندل بھیجا تھا اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑ کر کہا، تمہارے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ھے ایسا کام نہ کرنا کہ جس کی تعمیر ممکن نہ ھو، جان لو کہ اگر معاویہ نے عراق پر قبضہ کرلیا تو پھر عراق باقی نہ رھے گا لیکن اگر علی نے شا م پر قبضہ کرلیا تو شامیوں پر کوئی آفت ومشکل نھیں آئے گی تم نے امام علیہ السلام کی حکومت کے اوائل میں  خاموشی اختیار کی، اگرتم نے پھر ایسا کیا توجان لو کہ گمان یقین میں  اور امید، نا امیدی میں  بدل جائے گی۔

ابو موسیٰ اشعری نے اس کے جواب میں  کہا: وہ گروہ جو ھم پر الزام لگارہا ھے اس کے لئے بہتر نھیں ھے کہ مجھے قاضی کے طور پر معین کرےکہ باطل کو ان لوگوں سے دور اور حق کو ان لوگوں سے قریب کروں[9] امام علیہ السلام کی فوج کے مشھور شاعر اور ابوموسیٰ کے دوست نجاشی نے اس کے لئے اشعار کھے جس میں  اسے حق اور عدالت کی رعایت کرنے کی تاکید کی اور جب وہ اشعار ابوموسیٰ کو سنایا گیا تو اس نے کہا، میری خدا سے دعا ھے کہ میرا نصیب چمک اٹھے اور خدا کی مرضی کے مطابق اپنے فریضہ کو انجام دوں۔[10]

  ابو موسیٰ اشعری اور احنف کے درمیان گفتگو

سب سے آخر میں  جس نے ابو موسیٰ اشعری کو خدا حافظ کیا وہ احنف تھا، اس نے ابو موسیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اس سے یہ کہا اس کام کی عظمت کی قدر کرو اور جان لو کہ یہ کام جاری رھے گا اگر عراق کوبربادکیا تو پھر عراق ختم ھوجائے گا، خدا کی مخالفت کرنے سے پرھیز کرو، خدا دنیا وآخرت کو تمہارے لئے ذخیرہ کرے گا اگر آئندہ عمروعاص سے تمہاری ملاقات ھو تو تم  پھلے سلام مت کرنا اگر چہ پھلے سلام کرنا مستحب ھے لیکن وہ سلام کے لائق نھیں ھے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں  نہ دینا کیونکہ تیرا  ہاتھ امت کی امانت ھے ممکن ھے کہ تجھے مجمع میں  صدر جگہ پر بٹھائے تو جان لو کہ اس کام میں  دھوکہ وفریب ھے اور اگر تم سے اکیلے میں  بات کرنا چاھے تو اس سے پرھیز کرنا کیونکہ ممکن ھے وہاں کچھ لوگوں کو گواہ کے طور پر چھپائے رھے تاکہ بعد میں  وہ لوگ تمہارے خلاف گواھی دیں۔

پھر احنف نے ابو موسیٰ کو آزمانے کے لئے کہ امام علیہ السلام سے اسے کتنا خلوص ھے اس سے یہ درخواست کی کہ، اگر عمرو کے ساتھ امام علیہ السلام کے بارے میں  توافق نہ ھوسکے تو اس سے درخواست کرنا کہ عراقی لوگ شام میں  رہنے والے قرشیوں میں  سے کسی کو بھی خلیفہ چن سکتے ھیں اور اگر اسے قبول نہ کیا تو دوسری درخواست کرنا اور وہ یہ کہ شامی لوگ عراقیوں میں  سے کسی ایک کو بھی خلیفہ منتخب کرسکتے ھیں [11]

ابو موسیٰ نے اس بات کو، جس میں  امام علیہ السلام کا خلافت سے معزول ھونا اور دوسرے خلیفہ کا انتخاب تھا، سنا لیکن اس نے کوئی عکس العمل نہ دکھایا۔

 احنف فوراً امام علیہ السلام کی خدمت میں  آئے اور پورا واقعہ آپ سے بیان کیا اور کہا کہ ھم ایسے شخص کو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لئے بھیج رھے ھیں جو آپ کے عزل اور دور ھونے کی پرواہ نھیں کرتا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ” ان اللّٰہ غالب علیٰ امرہ“احنف نے کہا یہ کام ھم لوگوں کی ناراضگی کا سبب ھے۔[12]

سعد وقاص اور اس کا بیٹا عمر

سعد وقاص ان لوگوں میں  سے تھاجس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت نھیں کیا تھا لیکن خود کو قضیے میں  داخل نھیں کیا تھا اور جنگ صفین کی آگ بھڑکنے کے بعد وہ سرزمین بنی سلیم چلا گیا اور مستقل دونوں فوجوں کی خبروںسے آگاہ ھورہاتھا، اسی فکر میں  غرق تھا کہ ایک دن دور سے اسے سواری نظر آئی جو اسی کی طرف آرھی تھی لیکن جب نزدیک پھونچی تو معلوم ھوا کہ وہ اس کا بیٹا عمر ھے(یہ وھی شخص ھے جس نے کربلا میں  امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کو قتل کیا تھا) باپ نے اس سے حالات معلوم کئے اور عمر نے جبری حکمیت اور دومة الجندل میں  حکمین کے اجتماع کی خبر دی اور اپنے باپ سے کہا کہ اسلام کی آپ نے بہت خدمتیں کی ھیں لہٰذا آپ اس علاقے میں  ضرور جائیں،شاید کہ خلافت اسلامی پر آپ کا قبضہ ھوجائے، باپ نے کہا، بیٹا خاموش رھو میں  نے پیغمبر سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا ھے کہ میرے بعد فتنہ برپا ھوگا اور بہترین شخص وہ ھے جو اس سے بچا رھے اور اس سے دور رھے، خلافت کا مسئلہ ایک ایسا امر ھے کہ میں  نے پھلے ھی دن سے اس میں  دخالت نھیں کی اورآئندہ بھی داخل نھیں ھووٴں گا اور اگر بنا یہ ھو کہ میں اس میں   دخالت کروں تو علی کا ساتھ دوں گا لوگوں نے تلوار سے مجھے ڈرایالیکن میں  نے اسے آگ پر مقدم کیا۔[13]

سعد وقاص نے دونوں طرف سے کسی ایک کی مدد کرنے کو فتنہ وفساد سمجھا اور اس کے نتیجہ واختتام کو آگ تصورکیا لیکن اس کے باوجود اس نے علی علیہ السلام کی شخصیت کو معاویہ پر ترجیح دیا اور اسی رات جو اس نے اشعار کھے تھے اس میں  علی علیہ السلام کی تعریف اور معاویہ کی مذمت کی تھی اور کہا تھا:

ولو کنت یوماً لا محالة وافداً                تبعت علیاً والھویٰ حیث یُجعلُ        

اگربنا ھو کہ کسی دن اس کام کے لئے اقدام کروں تو علی کی پیروی کروں گا یہاں تک کہ وہ راضی ھوں، اس کے اندھے دل کے لئے بس اتنا ھی کافی ھے کہ امام علیہ السلام کی پیروی اور اطاعت جو غدیر خم میں  سب پر واضح اور روشن ھوگئی اور عثمان کے قتل کے بعد تمام مہاجرین وانصار نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، کو فتنہ میں  داخل کرتاھے جب کہ ایسے امام سے منھ موڑنے والے کا انجام جہنم میں  داخل ھونا ھے [14]

معاویہ کا حالات سے پریشان ھونا

    بعض صحابہ اور ان کے بیٹے،جنھوں نے علی علیہ السلام سے دور رہنے کے بعد بھی معاویہ کا ساتھ نھیں دیا تھا اور جنگ تمام ھونے کے بعد معاویہ کے کہنے پر شام آگئے تھے مثلا ً عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر، مغیرہ بن شعبہ “ معاویہ نے مغیرہ سے التجا کی کہ وہ اس کام میں  اس کی مدد کرے اور اسے حکمین کی فکروں سے آگاہ کرے مغیرہ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور دومة الجندل کے لئے روانہ ھوگیا اور حکمین کے نظریات معلوم کرنے کے لئے ہر ایک سے الگ الگ ملاقات کی، سب سے پھلے اس نے ابو موسیٰ سے ملاقات کی اور کہا اس شخص کے بارے میں  تمہارا کیا نظریہ ھے جس نے اس اضطرابی کیفیت سے پرھیز اور قتل وخوں ریزی سے دوری اختیار کی ھے؟ ابو موسیٰ نے کہا، وہ لوگ نیک اور اچھے افراد ھیں! ان کی پیٹھ خون کے بوجھ سے ھلکی اور ان کے پیٹ حرام مال سے خالی ھیں۔

 پھر اس نے عمرو سے ملاقات کی اور یھی سوال اس سے بھی کیا اس نے جواب دیاکہ کنارہ کشی کرنے والے بدترین لوگ ھیں نہ ان لوگوں نے حق کو پہچانا ھے اور نہ باطل کا انکار کیاھے۔ مغیرہ شام واپس آگیا اور معاویہ سے کہا میں  نے دونوں حکم کا امتحان لیا، ابو موسیٰ،علی کو خلافت سے دور کردے گا اور عبداللہ بن عمر جو اس واقعہ میں  شریک نھیں ھوا تھا اسے خلافت دیدے گا لیکن عمرو عاص تمہارا قدیمی ساتھی ھے لوگوں کا کہنا ھے وہ خلافت خود لینا چاہتا ھے اور تجھے اپنے سے بہتر نھیں جانتا۔[15]

 فتنہ حکمیت کا خاتمہ

وہ مسائل جن کے لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے نمائندے اس موضوع پر گفتگو کریں اور اس کے حکم کو کتاب وسنت سے نکالیں اور امام علیہ السلام اور معاویہ کے ساتھیوں کو اس کی خبر کردیں وہ موضوع یہ ھیں:

۱۔ عثمان کے قتل کی تحقیق۔

۲۔ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ھونا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی قانونی حکومت سے معاویہ کی مخالفت اور اس کا صحیح ھونا۔

۴۔ وہ چیز جو ایسے حالات میں  صلح کی ضامن بنے۔

لیکن افسوس کہ حکمین نے جس موضوع پر بحث وگفتگو نھیں کی وہ یھی چار موضوع تھے کیونکہ ان میں  سے ہر ایک خاص سابقہ،تجربہ کے ساتھ حکمیت کے میدان میں  وارد ھوا اور اپنی ھی خواہش کے مطابق حکم چلانا چاہا اور ایسا معلوم ھوتا ھے کہ ان موضوعات کاحکمین سے کوئی تعلق ھی نھیں تھا۔

حکمین اور نظارت کرنے والوں کے بہت دنوں تک دومة الجندل میں  رہنے کی وجہ سے اسلامی معاشرے کے اندر تشویش اور خوف کا سماں بن گیا اور ہر آدمی طرح طرح کی باتیں سوچ رہا تھا عجلت  کرنے والے، اسی طرح کم عقل لوگ کچھ اور فکر میں  تھے تو دور اندیش اور دانشمند کچھ اور فکر کررھے تھے۔

سب سے پھلے جس موضوع پر بحث ھونی تھی وہ یہ تھی کہ خلیفہ سوم اور اس کے حاکم کے عمدہ امور جس پر اعتراضات ھوئے ھیں انھیں صحیح سندوں کے ساتھ پیش کیا جائے اور پھر جن لوگوں نے خلیفہ کو قتل کیا ھے چاھے عراقی ھوں یا مصری یا صحابی، انھیں دعوت دی جائے اور ا س مسئلہ کی دقیق تحقیق و جستجو کی جائے اور قاتلوں کے اس دعوے کو کہ خلیفہ نے اسلامی اصولوں کو نظر انداز کردیا تھا اور رسول خدا(ص) کی سیرت حتیٰ شیخین سے بھی منحرف ھوگیاتھا، منصفانہ تحقیق کی جائے لیکن اس سلسلے میں  دقت سے کام نھیں لیا گیا اور صرف عمروعاص نے اپنے مقصد کے حصول(امام کو خلافت سے دور کرکے اس جگہ پر معاویہ یا اپنے بیٹے عبداللہ کو مسند خلافت پر بٹھائے)کے لئے ابو موسیٰ سے کہا: کیا تو اس بات کو قبول کرتاھے کہ عثمان مظلوم قتل ھواھے؟ اس نے بھی ایک طرح سے تصدیق کردی[16] اور کہا، خلیفہ کے قاتلوں نے انھیں تو بہ کرایا پھر قتل کردیا جب کہ مجرم توبہ کرلے تو اس کے گناہ معاف ھوجاتے ھیں۔

    اور اسی طرح وہ موضوع جو اصلاً زیر بحث نہ رہا وہ امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ھونا تھا، وہ حکومت جو مہاجرین وانصار کے اتحاد واتفاق سے علی علیہ السلام کو ملی اور خودآپ ابتداء میں  اسے قبول نھیں کررھے تھے اور جب مہاجرین وانصار کے مجمع کو دیکھا کہ سب کے سب اصرار کررھے ھیں کہ ان کے علاوہ کسی کے ہاتھ پر بیعت نھیں کریں گے اس وقت آپ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور حکومت قبول کی، اگر سقیفہ میں  خلیفہ اول کی خلافت چند آدمیوں کی بیعت سے قانونی ھوگئی اور خلیفہ دوم کی خلافت ابوبکر کے نصب کرنے سے قانونی ھوگئی تو امام علیہ السلام کی خلافت تمام مہاجرین وانصار(علاوہ پانچ لوگوں) کی بیعت کی وجہ سے قطعاً حقیقی اور قانونی تھی اور اس کے بارے میں  ہرگز شک وتردد نھیں کرنا چاھیے۔

اور تیسرے مرحلے میں بھی مثل دوسرے مرحلے کے اصلاً گفتگو نہ ھوئی کیونکہ دونوںحَکم جانتے تھے کہ معاویہ کے مخالفت کرنے کی صرف وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام کو منصب خلافت سے ہٹا کر خلافت پر قبضہ کرلے، معاویہ کی پوری زندگی، اس کے رفتار وکردار چاھے عثمان کے قتل سے پھلے چاھے اس کے بعد سب پر واضح ھے کہ وہ بہت دنوں سے خلافت کو بنی امیہ میں  لے جانا چاہتاھے تاکہ خلافت اسلامی کے نام پر قیصر وکسریٰ کی سلطنت کو زندہ کرے اور ” خلیفہ کے خون کا بدلہ اور قاتلوں کو سزا وقصاص دینا“ یہ سب قانون توڑنے اور مخالفت کی توجیہ کرنے کے لئے ایک بہانہ تھا اگر وہ حقیقت میں  اپنے کوعثمان کے خون کا ولی سمجھتا تو ضروری تھا کہ تمام مسلمانوں کی طرح امام علیہ السلام کی قانونی حکومت کی پیروی کرتا اور ا س وقت خلیفہ وقت سے کہتا کہ عثمان کے قاتلوں کے قصاص کے بارے میں  اقدام کریں۔

امام علیہ السلام نے معاویہ کی مخالفت کے اوائل ھی میں  کئی مرتبہ خلیفہ کے مخالفوں کی مخالفت میں  دلیل وغیرہ قائم کر کے دکھایا اور کہا کہ میرا سب سے پھلا فریضہ یہ ھے کہ میں  لوگوں کو متحد کروں اور مہاجرین وانصار کی شوریٰ(انجمن) کا احترام کروں اور پھر دعوے اور قصاص وغیرہ کے مسئلہ کو حل کروں اور جب تک وہ حکومت کو صحیح تصور نھیں کرتا تو وہ کسی بھی مسئلہ کو بیان کرنے کا حق نھیں رکھتا۔

چوتھے مرحلے میں ، ابوموسیٰ نے بجائے اس کے کہ معاویہ کی سرکشی کی اس حکومت پر جو مہاجرین وانصار کے توسط سے بنی تھی مذمت کرتا،یا خود اپنے کو امام علیہ السلام کی خلافت کے اوائل میں  بیعت نہ کرنے کی وجہ سے مقصر سمجھتا، اس نے دونوں طرف کے لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا اور چاہا کہ ایسے شخص کوخلافت کے لئے منصوب کرے کہ جس کے افتخار کے لئے یھی کافی تھا کہ وہ خلیفہ دوم کا بیٹا ھے اور ان تمام چیزوں سے دورتھا جب کہ عبداللہ بن عمر کام وغیرہ کرنے میں  اتنا ضعیف تھا کہ اس کے باپ نے اس کے بارے میں  کہا تھا کہ میرا بیٹا اس قدر سست ھے کہ اپنی عورت کو طلاق دینے سے بھی عاجزھے [17]

جب کہ حکمین کا فریضہ یہ تھا کہ ان چاروں موضوع پر منصفانہ بحث وگفتگو کرتے اور شاید امام علیہ السلام کی حکومت کا قانونی ھونا اور مرکزی حکومت معاویہ کی سرکشی پر توجہ دینا ھی کافی تھا کہ دوسرے مواردمیں  صحیح رائے ومشورہ لیا جاتا،لیکن افسوس امام علیہ السلام کے نادان دوستوں نے آپ پر ایسے نمائندہ کو تحمیل کردیا تھا کہ جو فیصلہ اور دلیل قائم کرنے میں  ایسے ذرات کی طرح تھا جسے ھوا کے جھونکے ادھر سے ادھر کرتے ھیں۔

عمروعاص نے دومة الجندل میں  قدم رکھتے ھی ابوموسیٰ اشعری کا پیغمبر کا صحابی اور اپنے سے بزرگ ھونے کی حیثیت سے اس کا احترام کرنے لگا اور گفتگو کرتے وقت ھمیشہ اسے مقدم کرتاتھا اور جس وقت یہ طے پایا کہ دونوں حَکم علی اور معاویہ کو معزول کریں اس وقت بھی عمروعاص نے اپنا نظریہ ظاہر کرنے اور اپنے پیشوا کو معزول کرنے میں  بھی اسی کو مقدم رکھا، کیونکہ دنوں کے دومة الجندل میں  دونوں کی روش یھی تھی، اسی وجہ سے پھلے ابو موسیٰ نے امام علیہ السلام کو خلافت سے دور کیا اور چلتے وقت تمام دوستوں نے جو سفارشیں کی تھیں اسے نظر اندازکردیالیکن عمرو عاص نے فوراً ھی معاویہ کو مسند خلافت پر بٹھا دیا! یہاں بھی دونوں کے درمیان ھوئی باتوں کو نقل کررھے ھیں تاکہ معلوم ھوجائے کہ حکمیت کا کھیل کس طریقے سے ختم ھوا اور امام علیہ السلام کے سادہ لوح اور ضدی ساتھیوں نے اسلام کو کیا نقصان پھونچایا:

عمروعاص: کیا تم جانتے ھو کہ، عثمان مظلوم قتل ھوئے ھیں؟

ابوموسیٰ: ہاں۔

عمروعاص: اے لوگو تم لوگ گواہ رہنا علی کے نمائندے نے عثمان کے مظلوم ھونے کا اعتراف کرلیا ھے، اس وقت ابو موسیٰ کی طرف متوجہ ھوکر کہا،کیوں معاویہ سے کہ جو عثمان کا ولی ھے اپنا منھ پھیرے ھو جب کہ وہ بھی قرشی ھے؟ اور اگر لوگوں کے اعتراض کرنے کی وجہ سے ڈر رھے ھو کہ لوگ کھیں گے کہ ایسے شخص کو خلافت کے لئے چنا ھے جس کا اسلام میں  کوئی سابقہ، خدمات نھیں ھے توتم یہ جواب دے سکتے ھو کہ معاویہ خلیفہ مظلوم کا ولی ھے اور خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کی قدرت رکھتا ھے اور تدبیر وسیاست کے لحاظ سے ممتاز ھے اور پیغمبر سے نسبت کے اعتبار سے پیغمبر کی بیوی(ام حبیبہ) کا بھائی ھے اس کے علاوہ اگر خلافت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں  ھوگی تو سب سے زیادہ تمہارا احترام کرے گا۔

ابوموسیٰ: خدا سے ڈر،خلافت ان لوگوں کے لئے ھے جو اھل دین وفضیلت ھیں اور اگر خلافت کے لئے خاندانی شرافت معیار ھے تو قریش میں  سب سے شریف علی ھیں، میں  نے ہرگز پھلے مہاجرین کو نظر انداز نھیں کیا، معاویہ کو خلافت کے لئے منتخب نھیں کروں گا، یہاں تک اگر معاویہ میرے لئے خلافت سے دور ھوجائے پھر بھی میں  اس کی خلافت کے لئے رائے نھیں دوں گا اگر تو چاھے تو عمر بن خطاب کا نام زندہ کریں اور عبداللہ بن عمر کو خلافت کے لئے منتخب کریں۔

عمرو عاص: اگر تو عبداللہ بن عمر کی خلافت چاہتا ھے تو کیوں میرے بیٹے عبداللہ کی تائید نھیں کرتاکہ وہ ہرگز اس سے کم نھیں ھے اور اس کی سچائی اور فضیلت سب پر واضح ھے؟

ابوموسیٰ: وہ بھی اپنے باپ کی طرح اس فتنے میں  شریک ھے اور خلافت کے لائق نھیں ھے۔

عمروعاص: خلافت اس کے لئے قطعی ھے جو خود بھی کھائے اور دوسرے کوبھی کھلائے اور عمر کے بیٹے میں  یہ چیز موجود نھیں ھے۔

ابھی تک ھم لوگ کسی فرد پر متفق نھیں ھوئے کوئی دوسرا مشورہ دو شاید اس پر توافق ھو جائے اس کے بعد دونوں نے خفیہ طور پر جلسہ منعقد کیا جس چیز پر دونوں نے توافق کیا وہ حسب ذیل ھیں:

ابوموسیٰ: میرا نظریہ ھے کہ دونوں(علی اور معاویہ)کو خلافت سے معزول کر دیں اور خلافت کا فیصلہ مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں، تاکہ وہ لوگ جس کو بھی چاھیں خلیفہ منتخب کریں۔

عمروعاص: میں  اس نظریہ سے موافق ھوں اور ضروری ھے کہ اپنے نظریہ کو باقاعدہ طور پر اعلان کروں، ناظر اور دوسرے افراد جو حکمین کے فیصلے کے منتظر تھے سب کے سب جمع ھوگئے تاکہ ان دونوں کی گفتگو سنیں، اس وقت عمرو نے ابوموسیٰ کی بیوقوفی اور کم عقلی سے فائدہ اٹھایا اور اسے مقدم کیا کہ گفتگو کا آغاز کرے اور اپنے نظریہ کو بیان کرے، ابوموسیٰ ان تمام چیزوں سے غافل تھا کہ ممکن ھے کہ عمروعاص میری گفتگو کے بعد اس نظریہ کی جس پر دونوں نے موافقت کی تھی تائید نہ کرے لہٰذا اس نے اپنی گفتگو شروع کی اور کہا:

” میں  اور عمروعاص ایک نظریہ پر متحد ھیں اور امید ھے کہ اس میں  مسلمانوں کی کامیابی اور مصلحت ھو گی۔

عمروعاص: بالکل صحیح ھے اپنی گفتگو کو جاری رکھئے۔

اس موقع پر ابن عباس ابوموسیٰ کے پاس پھونچے اور اسے متنبہ کیا اور کہا کہ اگر تم لوگ ایک ھی نظریہ پر متحد ھوتو اجازت دو کہ پھلے عمروعاص گفتگو کرے اور پھرتم اپنے نظریہ کو بیان کرو، کیونکہ اس سے کوئی بعید نھیں ھے کہ وہ جس چیز پر متحد ھے اس کے برخلاف بیان کرے، لیکن ابوموسیٰ نے ابن عباس کے منع کرنے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نھیں دی اور کہا، چھوڑدو، ھم دونوں نے ایک ھی نظریہ پر موافقت کی ھے اور پھر اٹھا اور کہا:

ھم لوگوں نے امت کے حالات کا جائزہ لیا اور اختلاف ختم کرنے اور پھر سے متحد ھونے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نھیں دیکھا کہ علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیں اور خلافت کے مسئلے کو مسلمانوں کی شوریٰ کے حوالے کردیں تاکہ وہ لوگ جس کو چاھیں بہ عنوان خلیفہ منتخب کرلیں، اس بنیاد پر، میں  نے علی اور معاویہ کو خلافت سے معزول کردیا۔

یہ جملے کہنے کے بعد وہ بیٹھ گیا پھر عمروعاص ابوموسیٰ کی جگہ پر کھڑا ھوا اور خداکی حمد وثناء کے بعد کہا ” اے لوگو، تم نے ابوموسیٰ کی گفتگو سنی اس نے اپنے امام کو معزول کردیا اور میں  اس سلسلے میں  اس کا موافق ھوں اور انھیں خلافت سے معزول کررہا ھوں لیکن اس کے برخلاف،میں  نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا ھے وہ عثمان کا ولی اور اس کے خون کا بدلہ لینے والا ھے اورخلافت کے لئے بہترین شخص ھے“۔

ابوموسیٰ نے غصہ میں  آکر عمروعاص سے کہا: تو کامیاب نھیں ھوگا جوتو نے مکروفریب اور گناہ کیا ھے تیری مثال اس کتے کی ھے کہ اگراس پر حملہ کیا جائے تو اپنا منھ کھولتا ھے اور اپنی زبان کو باہر نکالتاھے اور اگر اسے چھوڑدیا جب بھی وہ ویسا ھی ھے[18]

عمروعاص: تیری بھی حالت گدھے کی طرح ھے اگرچہ اس کی پیٹھ پر بہت کتابیں ھوں[19]

اس وقت عمرو کا مکروفریب سب پر ظاہر ھوگیا اور لوگ منتشر ھوگئے [20]

شریح بن ہانی اپنی جگہ سے اٹھے اور زبردست تازیانہ عمرو کے سر پر مارا، عمروعاص کا بیٹا اپنے باپ کی مدد کے لئے دوڑا اور شریح پر تازیانہ مارا اور لوگ دونوں کے درمیان میں  آگئے۔ شریح بن ہانی بعد میں  یھی کہتے تھے کہ، میں  بہت پشیمان ھوں کہ کیوں تازیانہ کہ جگہ پر میں  نے اس کے سر پر تلوار نھیں ماری۔[21]

ابن عباس: خدا ابوموسیٰ کے چہرے کو برباد کردے میں  نے اسے عمروعاص کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی۔

ابوموسیٰ: یہ صحیح ھے کہ ابن عباس نے مجھے اس فاسق کے دھوکہ وفریب سے آگاہ کیا تھا لیکن میں  نے اس پر یقین واطمینان کرلیا اور کبھی بھی نھیں سوچا تھا کہ وہ میری خیر خواھی کے علاوہ میرے بارے میں  کچھ کھے گا۔[22]

سعیدبن قیس نے دونوں کو مخاطب کرتے ھوئے کہا: اگر تم لوگ سچائی پرمتفق ھوجاتے توبھی ھم لوگوں کو کوئی فائدہ نھیں پھونچتا چہ جائیکہ تم لوگوں نے گمراھی اور ضلالت پر اتفاق واتحاد کیا، اور تم لوگوں کا نظریہ ھم حجت نھیں ھے آج بھی اسی حالت میں  ھیں جیسے پھلے تھے اور سرکشوں کے ساتھ جنگ جاری رھے گی۔[23]

اس واقعہ میں  سب سے زیادہ ابوموسیٰ اشعری اور اشعث بن قیس(مسئلہ حکمیت کا کھلاڑی)

 لعنت وملامت کے مستحق قرار پائے، ابوموسیٰ مسلسل عمروعاص کو برا بھلا کہتا رہا اور اشعث کی زبان بند ھوگئی تھی وہ بالکل خاموش تھا،آخر کار عمروعاص اور معاویہ کے ساتھیوں نے اپنا بوریا بستر باندھا اور شام کی طرف روانہ ھوگئے اور پورا واقعہ معاویہ کو تفصیل سے سنایا اور اسے خلیفہ مسلمین کے عنوان سے سلام کیا۔ ابن عباس اور شریح بن ہانی بھی کوفہ کی طرف روانہ ھوگئے اور پورا ماجرا بیان کیا، لیکن ابوموسیٰ اپنی غلطیوں کی وجہ سے جو اس نے انجام دی تھیں مکہ کی طرف روانہ ھوگیا اور وھیں رہنے لگا۔[24]

بالآخر جنگ صفین اور حاکمیت کا واقعہ ۴۵ ہزار لوگوں یا ایک قول کی بناء پر ۹۰ ہزار شامی اور ۲۰ یا ۲۵ ہزار عراقیوں کے قتل[25] کے بعد شعبان   ۳۷  ہجری کو ختم ھوگیا [26]اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت اور اسلامی خلافت کے لئے مختلف مشکلیں پیدا ھوگئیں جس میں  سے اکثر ختم نہ ھوسکیں۔


[1] صندوداء، عراق وشام کے درمیان کا شہر ، معجم البلدان،یاقوت حموی

[2] وقعہ صفین ص۵۲۸۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۸۶

[3] وقعہ صفین ص ۵۲۸۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزء۶ ص ۳۲

[4] تاریخ طبری ج، ۳ جزء۶ ص ۳۸ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴،وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹۔

[5] تاریخ طبری ج، ۳ جزء۶ ص ۳۴ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴۔وقعہ صفین ص ۵۳۰،۵۲۹

[6] وقعہ صفین ص ۵۳۱۔ تاریخ طبری ج، ۳ جزء۶ ص ۳۵ ۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۴

[7] وقعہ صفین ص۵۳۳،۔تاریخ طبری ج، ۳ جزء۶ ص ۳۷ ۔مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۶

[8] مناقب ابن شہر آشوب ج۲، ص ۲۶۱

[9] الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۵

[10] وقعہ صفین ص۵۳۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۷

[11] الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۶۔وقعہ صفین ص۵۳۶۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

[12] وقعہ صفین ص۵۳۷

[13] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۴۹

[14] وقعہ صفین ص۵۳۹

[15] وقعہ صفین ص ۵۳۹۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص ۲۵۱۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔

[16] الاخبار الطوال ص۱۹۹

[17] طبقات ابن سعد ج۳، ص ۳۴۳ مطبوعہ بیروت

[18] یہ اس آیت کریمہ کا مفھوم ھے کہ جو لوگ خد ا کی نشانیوں کو جھٹلاتے ھیں انھیں کتے سے شباہت دی جاتی ھے خدا فرماتاھے ” فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث ذالک مثل القوم الذین کذبوا باٴیاتنا“(سورہ اعراف ۱۷۶)

[19] قرآن مجید کی اس آیت سے اقتباس ” کمثل الحمار یحمل اسفاراً“سورہ جمعہ آیت ۵

[20] الاخبارا لطوال ص۱۹۹ ۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸۔تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۳۸۔ کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۷۔ تجارب السلف ص ۴۸۔ مروج الذھب ج۲، ص ۴۰۸

[21] تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

[22] تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ کامل ابن اثیر ص۱۶۸، وقعہ صفین ص ۵۴۶

[23] وقعہ صفین ص ۵۴۷

[24] الاخبارا لطوال ص۲۰۰ ۔کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۶۸۔ تجارب السلف ص۴۹۔ الامامة والسیاسة ج۱، ص ۱۱۸

[25] مروج الذھب ج۲، ص۴۰۴

[26] تاریخ طبری ج۳، جزء ۶، ص ۴۰۔ طبری نے اس قول کو واقدی سے نقل کیا ھے اور مسعودی نے مروج الذھب ( ج۲، ص ۴۰۲) اور التنبیہ الاشراف ( ص،۲۶۵) نے بھی اسی قول کو نقل کیا ھے لیکن سب سے صحیح قول ماہ صفر   ۳۷  ہجری ۔ تجارب السلف ص ۵۰