(۱) اے لوگو! میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں چھوڑ ڈالی ہیں۔ اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں۔ اور (دیوانے کتوں کی طرح ) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی ، تو میرے علاوہ کسی ایک میں جراٴت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھنا۔ اب (موقعہ ہے ) جو چاہو مجھ(۲) سے پوچھ لو۔ پیچتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ہے تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کوہدایت کی جو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (سازو سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتاؤ ں گا۔ اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے ۔ او رکون (اپنی موت ) مرے گا اور جب میں ہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت شکیں پیش آئیں گی تو (دیکھا لینا ) کہ بہت سے پوچھنے والی پریشانی سے سر نیچے ڈال دیا گے اور بتانے والی عاجز و درماندہ ہو جائیں گے ۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی۔ اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ یہاں تک کہ خدا وند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔ فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں ، تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل ) کا امتیاز تمہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی پیچھے ہٹے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں کہ اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے ۔ میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لیے بنی امیہ ّ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کے لیے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا۔ اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا۔ وہ ان سے بچارہے گا۔ خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہّ کو اپنے لیے بدترین حکمران پاؤ گے ۔ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو ۔ اور ادھر ادھر پیر مارتی ہو ۔ اور دو ہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو۔ اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے ۔ جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم ازکم) ان کے لیے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی ۔ کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گا۔ جیسے غلام کے لیے اپنے آقا سے اور مُرید کی اپنے پیر سے تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا۔ اور زمانہٴ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لیے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا، اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔ ہم (اہل بیت ﷼ رسول ) ان فتنہ انگیزیوں کے گناہ سے ) بچے ہوں گے ، اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہوگا پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزار چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور(موت کے )تلخ جام پلائے ، اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے۔ ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا۔ جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے ۔ اس وقت قریش دینار ، فیہا کے بدلہ میں یہ چاہیں گے ۔ کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے ۔ کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
(۱) امیر الموٴمنین نے یہ خطبہ جنگ نہرواں کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں فتنہ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر کی جنگوں سے جداگانہ تھی (کیوں کہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے ) اس لیے لوگو اہل قبلہ سے جنگ کرنے کے لیے مترود تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا ۔ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے ۔ بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے ۔ جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باگی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں ام الموٴمنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیرا ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے خمشیر بکف کھڑے ہونے کی جراٴت وہی کر سکتا تھا جو اسن کے مکنون قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو۔ اور یہ امیرالموٴمنین ع ہی کی بصیرت خاص و ایمانی ، جراٴت کام تھا۔ کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑی ہوئے اور پیغمبر کے اس ارشاد کی تصدیق فرماد ی ستقا تل بعدی التاکثین والقاسطین والمارقین اے علی ﷼ تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل ) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج ہے جنگ کرو گے ۔
(۲) پیغمبر اکرم کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ چنانچہ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں لکھا ہے کہ لم یکن احدامن الصحابتہ بقول سلونی الا علی ابن ابی طالب:صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعوے ٰ نہ کر سکا کہ جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا ابن ابی طالب کے ۔ البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جراٴت کی جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان ، قتادہ ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ مگر ان میں سے ہر شخس سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے ٰ کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیرالموٴمنین ہی وہ ورکشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ ۔ اعوذ باللہ من معضلتہ لیس لھا ابو الحسن ۔ میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کے لیے امیرالموٴمنین ﷼ نہ ہوں ۔ یونہی مستقبل کے متعلق جو پشین گوئیاں آپ نے کیں، وہ حر بحر ف پوری ہو کر آپ کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق ۔ وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق ۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ﷺ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے ۔