پیغمبر کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگو حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردہ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے ۔ نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا۔ اور غرور نے مہکا دیا تھا اور بھر پور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھودی تھیں اور حالات کے ڈانوں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے ۔ چنانچہ نبی نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا خود سیدھے راسے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے ۔