خطبہ ۱۰۹

میںتمہیںدنیا سے ڈراتا ہوں، اس لیے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوش گوار، تروتازہ و شاداب ہے نفسانی خواہشیںاس کے گرد گھیر ا ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی جلد میسر آجانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوری سی (آرائشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے ۔ وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی ۔ اور دھوکے اور فریب سے نبی سنوری ہوئی ہے ۔ نہ اس کی مسرتیں دیر پا ہیں اور نہ اس کی ناگہائی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے ۔ وہ دھوکے باز، نقصان رساں ، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے ، ختم ہونے والی ، اور مٹ جانے ولی ہے ، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے ۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزؤں تک پہنچ جاتی ہے ۔ تو بس وہی ہوتا ہے ، جو اللہ سبحانہ‘ نے بیان کیا ہے (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے ) ”جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا، تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا جسے ہوائیں (ادھر سے ادھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ جو شخص اس دنیا کا عیش و آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رخ دیکھتا ہے ۔ وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رخی بھی دکھاتی ہے ۔ اور جس شخص پر راحت و آرام کی بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں اس پر مصیبت و بلا کی دھواں دھار بارشیں بھی ہوتی ہیں یہ دنیا ہی کے مناسب حال سہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے ) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہو جائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا یک جنبہ شیریں و خوشگوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلانگیز جو شخص بھی دنیا کی توتازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لا دیتی ہے جسے امن و سلامتی کے پردبال پر شام ہوتی ہے ، تو اسے صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے ۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا دہ خود بھی فنا ہو جانے والی ہے ۔ اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے ۔ اس کے کسی زاد میں سواز ا و تقویٰ کے جلالی نہیں ہے جو شخص کم حصہ لتا ہے وہ اپنے لیے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے ۔ اور جو دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے ، وہ اپنے لیے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے ۔(حالانکہ ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے ، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا پر بھروسہ کیا، اور اس نے انہیں مصیبتوں میں ڈال دیا۔ اور کتنے ہی اس پر اطمینا کے لیے بیتھے تھے جنہیں اس نے پچھاڑ دیا اور کتنے ہی رعب و طبطنہ والے تھے ، جنہیں حقیو پست بنا دیا ، اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے ۔ جنہیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز ، اس کا سر چشمہ گندلا، اس کا خوش گوار پانی کھاری ، اس کی حلاوتیں ایلوا( کے ماندن تلخ) ، میں ۔ اس کے کھانے زہر ہلاہل اور اس کے اسباب و ذروئع کے سلسلے بودے ہیں۔زندہ رہنے والا معرض ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے اس کی سلطنت چھن جانے والی ، اس کا زبردست زیردست بننے ولا، مالدار بدبغیتیوں کا ستایا ہوا، اور ہمسار لُٹا لٹیا ہوا ہے ۔ کیا تم انہیں سبابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے ، پائدار نشانیوں والے بڑی بڑی امیدیں باندھنے والی ، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لاؤ لشکر والے تھے ؟ وہ دنیا کی کس کس طرح پر پرستش کرتے رہے ، اور اسے آخرت پر کیسا کیسا ترجیح دیتے رہے ۔ پھر بغیر کسی ایسے زادو راحلہ کے جو انہیں راستہ طے کر کے منزل تک پہنچاتا، چل دیے ۔ کیا تمہیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے ۔ کہ دنیا نے ان کے بدلہ میں کسی فدیہ کی پیشکش کی ہو یا۔ انہیں کوئی مدد پہنچائی ہو یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی سہی ہو ؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے آفتوں سے انہیں عائز و در ماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا، اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹیا ۔ تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا ار اسے اختیار کیا اور اس ے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) جنیت اختیار کر لی یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو کر چل دیے ، اور اس نے انہیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹہرنے کا سامان نہ کیا، اور سوا گھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا، تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو ، یااسی پر مطمئن ہو گئے ہو ، یا اسی پر مرے جارہے ہو ، جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے ، اس کے لیے یہ بتہ بُرا گھر ہے ۔ جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ، کہ(ایک نہ ایک دن ) تمہیں دنیا کو چھوڑنا ہے ، اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ” ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے ۔“ انہیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا ۔ مگر اس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھا جا ئے انہیں قبروں میں اتاردیا گیا مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیا گیا ہے ۔ وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ جو پکارنے والے کے جواب نہیں دیتے ۔ اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے ، اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی ۔ وہ ایک جگہ ہیں، مگر الگ الگ ، وہ آپس میں ہمسائے ہیں مگر دور دور ۔ پاس پاس ہیں۔ مگر میل ملاقات نہیں قریب قریب ہیں۔ مگر ایک دوسرے کے پاس نہیںپھٹکتے وہ برد بار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مت گئے نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے ، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انہوں نے زمیں کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے اور گھر بار پر دیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح نگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ویسے ہی زمین میں (پیو ند خاک) ہو گئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ‘ نے فرما یا ہے ، جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ۔ اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے ۔ اس وعدہ کاپورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے ۔“