تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جو حمد کا پیوند نعمتوں سے اور نتمتوں کا سلسلہ شکر سے ملانے والا ہے ۔ ہم اس کی نعمتوں پر اسی طرح حمد کرتے ہیں جس طرح اس کی آزمائشوں پر ثناء و شکر بجالاتے ہیں اور ان نفسوں کے خلاف اس سے مدد مانگتے ہیں کہ جو احکام کے بجالانے میں سست قدم اور ممنوع چیزوں کی طرف بڑھنے میں تیز گام ہیں ۔ اور ان گناہوں سے ) مغفرت چاہتے ہیں کہ جن پر اس کا علم محیط اور نامئہ اعمال حاوی ہے ۔ نہ علم کوئی کمی کرنے والا ہے ۔ ہم اس شخص کے مانند اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس نے غیب کی چیزوں کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیا ہو اور وعدہ کی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہو چکا ہو۔ ایسا ایمان کہ جس کے خلوص نے شرک کو اور یہ یقین نے شک کو دور پھینک دیا ہو، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں ۔ یہ دونوں شہادتیں (اچھی) باتوں کو اونچا اور (نیک ) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہو گا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہو سکتا۔
اے اللہ کے بندو ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اس لیے کہ یہی تقویٰ زاد راہ ہے اور اسی کو لے کر پلٹنا ہے ۔ یہ زاد (منزل تک ) پہنچا نے والا اور یہ پلٹنا کامیاب پلٹنا ہے ۔ اس کی طرف سب سے بہتر سنا دینے والے نے دعوت دی ، اور بہترین سننے والے نے اسے سن کر محفوظ کر لیا چنانچہ دعوت دینے والے نے سنا دیا ، اور سننے والا بہرہ اندوز ہو گیا۔ اللہ کے بندو! تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو منہیات سے بچایا ہے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے ۔ یہاں تک کہ ان کی راتیں جاگتے اور تپتی ہوئی دو پہریں پیاس میں گزر جاتی ہیں اور اس تعب و کلفت کے عوض راحت (دائمی ) اور اس پیاس کے بدلہ میں( تسنیم و کوثر سے ) سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے موت کو قریب سمجھ کر اعمال میں جلدی کی اور امیدوں کو جھٹلا کر اجل کو نگاہ میں رکھا پھر یہ دنیا تو فنا اور مشقت تغیر اور عبرت کی جگہ ہے چنانچہ فنا کرنے کی صورت یہ ہے کہ زمانہ اپنی کمان کا چلہ چڑھائے ہوئے ہے جس کے تیر خطا نہیں کرتے اور نہ اس کے زخموں کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے ، زندہ پر موت کے تندرست پر بیماری کے ، اور محفوظ پر ہلاکت کے تیر چلاتا رہتا ہے ۔ وہ ایسا کھاؤ ہے کہ سیر نہیں ہوتا اور ایسا پینے والا ہے کہ اس کی پیاس بجھتی ہی نہیں اور رنج و تعب کی صورت یہ ہے کہ انسان مال جمع کرتا ہے ۔ لیکن اس میں سے کھانا اسے نصیب نہیں ہوتا۔ گھر بناتا ہے ۔ مگر اسی میں رہنے نہیںپاتا اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح چل دیتا ہے کہ نہ مال ساتھ اٹھا کر لے جاسکتا ہے اوور نہ گھر ہی ادھر منتقل کر سکتا ہے اور اس کے تغیر کی یہ حالت ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے اور وہ (دیکھتے ہی دیکھتے)اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر رشک کھایا جائے ۔ اور قابل رشک آدمی کو دیکھتے ہو کہ (چند ہی دنوںمیں ) اس کی حالت پر ترش آنے لگتا ہے ۔ اس کی یہی وجہ تو ہے کہ اس سے نعمت جاتی رہی ، اور اس پر فقرہ افلاس ٹوٹ پڑا۔ اس سے عبرت حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں کی انتہا تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت پہنچ کر امیدوں کے سارے بندھن توڑ دیتی ہے اس طرح یہ امیدیں برآتی ہیں اور نہ امیدیں باندھنے والا ہی باقی چھوڑا جاتا ہے ۔ اللہ اکبر ! اس دنیا کی مسرت کی فریب کاریاں اور اس کی سیرابی کی تشتہ کامیاں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے سایہ میں دھوپ کی شرکت کتنی زیادہ ہیں اور اس کے سایہ میں دھوپ کی شرکت کتنی زیادہ ہے ، نہ آنے والی موت کو پلٹا یا جا سکتا ہے اور نہ جانے والا پلٹ کر آ سکتا ہے ۔ سبحان اللہ! زندہ مردوں سے انہی میں مل جانے کی وجہ سے کتنا قریب ہے اور مردہ زندوں سے تمام تعلقات کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کس قدر دور ہے ، بیشک کوئی بدی سے بدتر شے نہیں سوا اسی کے عذاب کے اور کوئی اچھائی سے اچھی چیز نہیں سو ا اسی کے ثواب کے دنیا کی ہر چیز کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہے ۔ مگر آخرت کی ہر شئے کا دیکھنا سننے سے کہیں بڑھا چڑھا ہوا ہے ۔ تم اسی سننے سے اس کی اصلی حالت کا ، جو مشاہدہ میں آئے گی اندازہ اور خبر ہی سُن کر اس غیب کی تصدیق کر لو، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کی کمی اور آخرت کا اضافہ عقبیٰ کی کمی اور دنیا کے اضافے سے کہیں بہتر ہے ۔ بہت سے گھاٹا اٹھانے والے فائدہ میں ہرتے ہیں اور بہت سے سمیٹ لینے والے نقصان میں رہتے ہیں ۔ جن چیزوں کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے (اور تمہارے لیے جائز رکھی ہیں) ان کا دامن ان چیزوں سے کہیں وسیع ہے ۔ جن سے روکا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں سے حلال چیزیں کہیں زیادہ ہیں۔ لہذا زیادہ چیزوں کی وجہ سے کم چیزوں کو چھوڑ دو، اور تنگنا ئے حرام سے نکل کر حلال کی وسعتوں میں آ جاؤ۔ اس نے تمہارے رزق کا ذمہ لے لیا ہے اور تمہیں اعمال بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے لہذا جس چیز کا ذمہ لیا جا چکا ہے اس کی تلاشو طلب اعمال و فرائض کے بجا لانے سے تمہاری نظروں میں مقدم نہ ہونا چاہئے مگر خدا کی قسم ! تمہارا طرز عمل ایسا ہے کہ دیکھنے والے کو شبہ ہونے لگے ۔ اور ایسا معلوم ہو کہ رزق کا حاصل کرنا تو تم پر فرض ہے اور جو واقعی تمہرا فریضہ ہے یعنی واجبات کا بجا لانا، وہ تم سے ساقط ہے ۔ عمل کی طرف بڑھو اور موت کے اچانک آجانے سے ڈرو۔ اس لیے کہ عمر کے پلٹ کر آنے کی آس نہیں لگائی جا سکتی ۔ جب کہ رزق کے پلٹنے کی امید ہو سکتی ہے ۔ جو رزق ہاتھ نہیں لگا، کل اس کی زیادتی کی توقع ہو سکتی ہے ۔ اور امید نہیں کہ عمرو کا گزرا ہوا۔ ”کل“ آج پلٹ آئے گا۔ امید تو آنے والے کی ہو سکتی ہے ۔ اور جو گزر جائے اس سے تو مایوسی ہی ہے اللہ سے ڈرو، جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور جب موت آئے ، تو تم کو بہر صورت مسلمان ہونا چاہیئے۔