طلبِ باراں کے لیے آپ کے دُعائیہ کلمات :۔
بار الٰہا! (خشک سالی سے ) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل سوکھ گیا ہے اور زمین پر خاک اڑ رہی ہے ہمارے چوپائے پیاسے ہیں اور اپنے چوپالوں میں بوکھلائے ہوئے پھرتے ہیں اور اس طرح چلا رہے ہیں جس طرح رونے والیاں اپنے بچوں پر بین کرتی ہیں اور اپنی چراگاہوں کے پھیرے کرنے اور تالابوں کی طرف بصد شوق بڑھنے سے عاجز آگئے ہیں ۔ پرور دگار! چیخنے والی بکریوں اور ان شوق بھرے لہجے میں پکارنے والے اونٹوں پر رحم کر۔ خدایا! تو راستوں میں ان کی پریشانی اور گھروں میں ان کی چیخ و پکار پر ترس کھا۔ بار خدایا ! جب کہ قحط سالی کے لاغر اور نڈھال اونٹ ہمارے طرف پلٹ پڑے ہیں اور بظاہر برسنے والی گھٹائیں آکے بن برسے گزر گئیں تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں ۔ تو ہی دکھ درد کے ماروں کی آس ہے اور تو ہی التجا کرنے والوں کا سہارا ہے ۔ جب کہ لوگ بے آس ہو گئے اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو گیا اور مویشی بے جان ہو گئے تو ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری گرفت نہ کر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں (اپنے عذاب میں نہ دھرلے۔ اسے اللہ! تو دھواں دار بارشوں والے ابر اور چھاجوں پانی برسانے والی برکھارت اور نظروں میں کھب جانے والے ہریاول سے اپنے دامانِ رحمت کو ہم پر پھیلا دے وہ موسلا دھار اور لگاتار اس طرح برسیں کہ ان سے مری ہوئی چیزیں کو تو زندہ کر دے اور گزری ہوئی بہاروں کو پلٹا دے ۔ خدایا! ایسی سیرابی ہو کہ جو (مردہ زمینوں کو) زندہ کرنے والی ، سیراب بنانے والی ، اور پاکیزہ و برابرکت اور خوشگوار و شاداب ہو، جس سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں۔ شاخیں بار آور اور پتے ہرے بھرے ہو جائیں اور جس سے تو اپنے عاجز و زمین گیر بندوں کو سہارا دے کر اوپر اٹھائے اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش دے اے اللہ! ایسی سیرابی کہ جس سے ہمارے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں اور ندی نالے بہہ نکلیں اور آس پاس کے اطراف سر سبزو شاداب ہو جائیں اور پھل نکل آئیں اور چوپائے جی اٹھیں اور دور کی زمینیں بھی تر بتر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی اس سے مدد پا سکین ۔ اپنی پھیلنے والی برکتوں اور بڑی بڑی بخششوں سے جو تیری تباہ حال مخلوق اور بغیر چرواہے کے کھلے پھرنے والے حیوانوں پر ہیں ۔ ہم پر ایسی بارش ہو ، جو پانی سے شرابور کر دینے والی ، اور موسلا دھار اور لگاتار برسنے والی ہو۔ اس طرح کہ بارشیں بارشوں سے ٹکرائیں اور بوندیں بوندوں کو تیزی سے دھکیلیں ۔ (کہ تار بند جائے ) اس کی بجلی دھوکہ دینے والی نہ ہو۔ اور نہ سفید ابر کے ٹکڑے بکھرے بکھرے سے ہوں اور نہ صرف ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں والی بوندا باندی ہو کر وہ جائے (یوں برسا کہ ) قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبزوں سے خوشحال ہو جائیں اور خشک سالی کی سختیاں جھیلنے والے اس کی برکتوں سے جی اٹھیں ، اور تو ہی وہ ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برستا ہے ، اور اپنی رحمت کے دامن پھیلا دیتا ہے ۔ اور تو ہی والی و وارث اور (اچھی )صفتوں والا ہے ۔
سید رضی فرماتے ہیں۔
کہ امیر الموٴمنین ﷼ کے اس ارشاد ”انصاحت جبالنا“ کے معنی یہ ہیں کہ پہاڑوں میں قحط سالی سے شگاف پڑ گئے ہیں انصاح الثوب اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب کپڑا پھٹ جائے اور انصاح النبت، صاح النبتٰ اور صوح النبت اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب سبزہ خشک ہو جائے اور بالکل سوُکھ جائے اور ہامت دوبنا کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے چوپائے پیاسے ہو گئے ہیں ۔ ھیام کے معنی پیا س کے ہوتے ہیں اور حَدَ ابِیرَ السِنِینَ میں میں حدا بیر ، حد بار کی جمع ہے ۔ جس کے معنی اس اونٹنی کے ہیں جس سفروں نے لاغر اور نڈھال کر دیا ہو۔ چنانچہ حضرت ﷼ نے قحط زدہ سال کی اسی سفروں کی ماری ہوئی اونٹنی سے تشبیہ دی ہے ۔
(عرب کے شاعر) ”ذوالرّمہ“ نے کہا ہے :۔
یہ لاغر اور کمزور اونٹنیاں ہیں کہ جو یا تو بس ہر سختی و صعوبت کوجھیل کر اپنی جگہ پر بیٹھی رہتی ہیں اور پایہ کہ ہم انہیں کسی بے آب و گیاہ جنگل کے سفر میں لے جاتے ہیں تو وہاں جاتی ہیں اور قزع ربا بھا میں قزع چھوٹی چھوٹی بکھری ہوئی بدلیوں کو کہتے ہیں اور شفا ن نھابھا میں شفاف کے معنی ٹھنڈی ہواؤں کے ہیں اور ہلکی ہلکی بوندا باندی کو کہتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں والی پھوہار ۔ اور ذات کی لفظ جس کے معنی ”والی“ ہوتے ہیں اس جگہ خدف فرما دی ہے ۔ اس لیے کہ سننے والا اسے خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔