حضرت کے اصحاب میں سے ایک شخص اٹھ کر آپ ﷼ کے سامنے آیا اور کہا کہ یا امیر الموٴمنین ﷼ پہلے تو آپ نے ہمیں تحیکم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا۔ نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح ہے ( یہ سنُ کر) حضرت ﷼ نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا، اور فرمایا جس نے عہدو وفا کو توڑ دیا ہو، اس کی یہی پاداش ہوا کرتی ہے خدا کی قسم ! جب میں نے تمہیں تحیکم کے مان لینے کا حکم دیا تھا اگر اسی امر ناگوار(جنگ پر تمہیں ٹہرائے رکھتا کہ جس میں اللہ تمہارے لیے بہتری ہی کرتا چنانچہ تم اس پر جمے رہتے ۔ تو تمہیں سیدھی راہ لے چلتا اور اگر ٹیڑے ہوئے ہے تو تمہیں سیدھا کر دیتا اور اگر انکار کرتے تو تمہارا تدارک کرتا تو بلاشبہ یہ ایک مضبوط طریق کا ر ہوتا لیکن کسی کی مدد سے ادرکس کے بھروسے پر ، میں تم سے اپنا چارہ چاہتا تھا اور تم ہی میرا مرض نکلے۔ جیسے کانٹے کو کانٹے سے نکالنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آگئے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آگے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والے تھک کر بیٹھ گئے ہیں (۱) اور وہ لوگ کہاں ہیں کہ جنہیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی ، تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور قرآن کو پڑھا، تو اس پر عمل بھی کیا۔ جہاد کے لیے انہیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف انہوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا، اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پالیا۔ (ان میں سے کچھ مر گئے ، کچھ بچ گئے ۔ نہ زندہ رہنے والوں کے مژدہ سے وہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مرنے والوں کی تعزیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ رونے سے ان کی آنکھیں سفید ، روزوں سے ان کے پیٹ لاغر، دعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہو گئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرف ان کے چہرے خاک آلود ر ہتے تھے۔ یہ میرے وہ بھائی تھے ۔ جو دنیا سے ) گزر گئے ۔ اب ہم حق بجانب ہیں ۔ اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں، اور ان کے فراق میں اپنی بوٹیاں کاٹیں ۔ بے شک تمہارے لیے شیطان نے اپنی راہیں آسان کردی ہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑ ے رہو، اور نصیحت کی پیش کش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو ۔ اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔
(۱) امیر الموٴمنین ﷼ کے پرچم کے نیچے جنگ کرنے والے گو آپ ہی کی جماعت میں شمار ہوتے تھے ۔ مگر جن کی آنکھوں میں آنسو چہروں پر زردی ، زبانوں پر قرآن نغمہ ، دلوں میں ایمانی ولولہ، پیروں میں ثبات و قرار ، روح میں عزم و ہمت اور نفس میں صبرو استقامت کا جوہر ہوتا تھا، انہی کو صحیح معنوں میں شیعان علی ﷼ کہا جاتا ہے ۔ اور یہی وہ لوگ تھے جن کی جدائی میں امیر الموٴمنین ﷼ کے دل کی بے تابیاں آہ بن کر زبان سے نکل رہی ہیں ، اور آتش فراق کے لو کے قلب و جگر کو پھونکے دے رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو دیوانہ وار موت ی طرف لپکتے تھے ، اور بچ رہنے پر انہیں مسرت و شادمانی نہ ہوتی تھی۔ بلکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی تھی، کہ
شرمندہ ماندہ ایم کہ چرازندہ ماندہ ایم
جس انسان میں ان صفات کی تھوڑی بہت جھلک ہوگی ، وہی متبع آلِ محمد (علیہ و علیہم الصّٰلٰوة والسلام) ، اور شیعہ علی علیہ السلا م کہلا سکتا ہے۔ ورنہ ایک ایسی لفظ ہوگی ، جو اپنے معنی کو کھو چکا ہو، اور بے محل استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی عظمت کو گنوا چکا ہو۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ امیر الموٴمنین ﷼ نے ایک جماعت کو اپنے دروازہ پر دیکھا تو قنبر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ قنبر نے کہا کہ یا امیرالموٴمنین ﷼ یہ آپ بکے شیعہ ہیں ۔ یہ سن کر حضرت کی پیشانی پر بَل آیا اور فرمایا:
کیا وجہ سے کہ یہ شیعہ کہلاتے ہیں ، اور ان میں شیعوں کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آتی۔ “ اس پر قنبر نے دریافت کیا کہ شیعوں کی علامت کیا ہوتی ہے ؟ تو حضرت نے جواب میں فرمایا:
بھوک سے ان کے پیٹ لاغر، پیاس سے ان کے ہونٹ خشک اور رونے سے ان کی آنکھیں بے رونق ہو گئی ہوتی ہیں۔“