اپنے اصحاب(۱) کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا:
زرہ پوش کو آگے رکھو اور بے زرہ کو پیچھے کر دو اور دانتوں کو بھینج لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اُچٹ جاتی ہیں اور تیزوں کی انیوں کو پہلو بدل کر خالی دیا کرو کہ اس سے ان سے ان کے رخ پلٹ جاتے ہیں آنکھیں جھکانے رکھو کہ اس سے حوصلہ مضبوط رہتا ہے اور دل ٹھہرے رہتے ہین اور آوازوں کو بلند نہ کرو کہ اس سے بزدلی دور رہتی ہے اور اپنا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے دو اور نہ اسے اکیلا چھوڑ و اسے اپنے جوانمردوں اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھوں ہی میں رکھو، چونکہ مصیبتوں کے ٹوٹ پڑنے پر وہی لوگ صبر کرتے ہیں اور آگے پیچھے سے اس کا احاطہ کر لیتے ہیں وہ پیچھے نہیں ہٹتے کہ (اسے) دشمنوں کے ہاتھوں میں سونپ دیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اسے اکیلا چھوڑ دیں ۔ ہر شخص اپنے مد مقابل سے خود نپٹنے اور دل و جان سے اپنے بھائی کی بھی مدد کرلے اور اپنے حریف کو کسی اور بھائی کے حوالے نہ کرے کہ یہ اور اس کا حریف ایکا کر کے اس پر ٹوٹ پڑیں خدا کی قسم تم اگر دنیا کی تلوار سے بھاگے تو آخرت کی تلوار سے نہیں بچ سکتے تم تو عرب کے جوانمرد ار سر بلند لو گ ہو (یاد رکھوکہ ) بھاگنے میں اللہ کا غضب اور نہ مٹنے والی رسوائی اور ہمیشہ کے لیے ننگ و عار ہے بھاگنے والا اپنی عمر بڑھا نہیں لیتا اور نہ اس میں اور اس کی موت کے دن میں کوئی چیز حائل ہو جاتی ہے اللہ کی طرف جانے والا تو ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا پانی تک پہنچ جائے ۔ جنت نیزوں کی انیوں کے نیچے ہے ۔ آج حالات پرکھ لیے جائیں گے ۔ خدا کی قسم میں ان دشمنوں سے دو بدو ہر کر لڑنے کا اس سے زیادہ مشتاق ہوں جتنا یہ اپنے گھروں کو پٹنے کے مشتاق ہوں گے خدا وند! اگر یہ حق کو ٹھکرا دیں تو انکے جتھے کو توڑ دے اور انہیں ایک آواز پر جمع نہ ہونے دے اور ان کے گناہوں کی (پاداش میں انہیں تباہ و برباد کر یہ اپنے موقف (شروفساد) سے اس وقت تک ہٹنے والے نہیں جب تک تابڑ تو ڑ نیزوں کے ایسے وارنہ ہوں (کہ جس سے زخموں کے منہ اس طرح کھل جائیں کہ) ہوا کے جھونکے گزر سکیں اور تلواروں کی ایسی چوٹیں نہ پڑیں کہ جو سرون کو شگافتہ کر دیں اور ہڈیوں کے پرخچے اڑادیں اور بازوؤں اور قدموں کو توڑ کر پھینک دیں اور پے درپے لشکروں کا نشانہ نہ بنائے جائیں اور ایسی فوجیں ان پر ٹوٹ نہ پڑیں کہ جن کے پیچھے (کممک کے لیے) اور شہسواروں کے دستے ہوں اور جب تک کہ ان کے شہروں پر یکے بعد دیگرے فوجوں کی چڑھائی نہ ہو یہاں تک کہ گھوڑے ان کی زمینوں کو آخر تک روند ڈالیں اور ان کے سبزہ زاروں اور چراگاہوں کو پامال کردیں۔
سید رضی کہتے ہیں کہ دعق کے معنی روندنے کے ہیں اور اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ گھوڑے اپنے سموں سے ان کی زمینوں کو روند دیں اور نواحرار ضہم سے مراد وہ زمینین ہیں جو ایک دوسرے کے بالمقابل ہوں ۔ عرب اگر یوں کہیں کہ منازل بنی فلاں تتناحر تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں قبیلے کے گھر ایک دوسرے کے آنے سامنے ہیں۔
(۱) حضرت نے یہ خطبہ جنگِ صفین کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ یہ جنگِ امیر الموٴمنین ﷼ اور امیر شاہ معاویہ کے درمیان ۲۷ ئھ میں خون عثمان کے قصاص کے نام سے لڑی گئی مگر اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ نہ تھی کہ امیرشام جو حضرت عمر کے عہد سے شام کا خود مختار حکمران چلا آرہا تھا۔ حضرت ہاتھوں پر بیعت کر کے شام کی ولایت سے دستبردار ہونا نہ چاہتا تھا اور قتل عثمان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات اس کے شاید ہیں کہ اس نے حکومت حاصل کر لینے کے بعد خونِ عثمان کے سلسلہ میں کوئی عملی قدم نہ اٹھایا اور بھولے سے بھی قاتلین عثمان کا نام نہ لیا۔ امیر الموٴمنین کو اگرچہ پہلے سے اس کا اندازہ تھا کہ اس سے ایک نہ ایک دن جنگ ضرور ہو گی۔ تاہم اس پر اتمام حجت کر دنیا ضروری تھا۔ اس لیے جب ۱۲ رجب روز دو شنبہ ۳۶ ئھ میں جنگ جمل سے فارغ ہو کر و ارد کوفہ ہوئے تو جو یرابن عبداللہ بجلی کو خطہ دے کر معاویہ کے پاس ومشق روانہ کیا جس میں تحریر فرمایا کہ مہاجرین و انصار میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں لہذا تم بھی میری اطاعت قبول کرتے ہوئے پہلے بیعت کرو اور پھر قتل عثمان کا مقدم میرے سامنے پیش کرو تاکہ میں کتاب و سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں مگر معاویہ نے جریر کو حیلے بہانوں سے روک لیا اور عمر وابن عاص سے مشورہ کرنے کے بعد خون عثمان کے بہانہ سے بغاوت شروع کر دی اور شام کے س برآوردہ لوگوں کے ذریعہ تنگ نظر و نافہم عوام کو یقین دلا دیا کہ حضرت عثمان کے بہانہ سے بغاوت شروع کر دی اور شام کے سر پر آوردہ لوگوں کے ذریعہ تنگ نظر و نافہم عوام کو یقین دلا دیا کہ حضرت عثمان کے قتل کی ذمہ داری حضرت علی پر عائد ہوتی ہے اور وہی اپنے طرز عمل سے محاصرہ کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے والے اور انہیں اپنے دامن میںپناہ دینے والے ہیں اور ادھر حضرت عثمان کا خون آلودہ پیرا ہن اور ان کی زوجہ نائلہ بنت فرافصہ کی کٹی ہوئی انگلیاں دمشق کی جامع مسجد میں منبر پر لٹکا دیں ۔ جس کے گرد ستر ہزار شامی دھاڑیں مار مار کر روتے اور قصاصِ عثمان کے عہدو پیمان باندھتے تھے جب معاویہ نے شامیوں کے جذبات اس حد تک بھڑکا دیئے کہ وہ جان دینے اور کٹ مرتنے کے لیے آمادہ ہو گئے تو خونِ عثمان کے قصاص پر ان سے بیعت لی اور حرب و پیکار کے سرو سامان کرنے میں مصروف ہو گیا اور جریر کو یہ سارا نقشہ دکھا کر کامران رخصت کر دیا۔
جب امیر الموٴمنین ﷼ کو جریر ابنِ عبداللہ کی زبانی ان واقعات کا علم ہو ا تو آپ اس کے خلاف قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور مالک بن حبیب پر بوعی کو وادیٴ نخیلہ میں فوجوں کی فراہمی کا حکم دیا چنانچہ کوفہ اور اطراف و جوانب کے لوگ وہاں پر جو ق در جوق آنے شروع ہو ئے اور بڑھتے بڑھتے ان کی تعداد اسی ۸۰ہزارسے متجاوز ہو گئی ۔ حضرت نے پہلے آٹھ ہزار کا ایک ہراول دستہ زیادہ بن نضر حارثی کی زیر قیادت اور چار ہزار کا ایک دستہ شریح بن ہانی کی زیر سر کردگی شام کی جانب روانہ کیا اور اس مقدمة الجیش کی روانگی کے بعد ۵ شوال روز چہار شنبہ خود بھی بقایا لشکر کو لے کر شام کی جانب چل دیئے جب حدود کوفہ سے نکلے تو نماز ظہر ادا فرمائی اور دیر ابو موسلی ، نہر نرس قبہ قین ۔ بابل ، دیر کعب ، کربلا ، ساباط ، بُہر سیر، ابنار اور جزیرہ میں منزل کرتے ہوئے مقام رقہ پر پہنچے ۔ یہاں کے لوگ حضرت عثمان کے ہواہ خواہ تھے اور یہیں پر سماک ابن مخرمہ اسدی بن اسد کے آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ مقیم تھا۔ یہ لوگ امیر الموٴمنین ﷼ سے منحرف ہو کر معاویہ کے پاس جانے کے لیے کوفہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے جب انہوں نے حضرت کی فوج کو دیکھا تو دریا ئے فرات پر سے کشتیوں کا پل اتار دیا تاکہ آپ کی فوج ادھر سے دریا کو عبور کر کے دوسری طرف نہ جا سکے مگر مالک اشتر کے ڈرانے دھمکانے سے وہ لوگ خوفزدہ ہو گئے اور آپس میں مشورہ کر نے کے بعد کشتیوں کو پھر سے جوڑ دیا جس سے حضرت اپنے لشکر شمیت گزر گئے ۔ جب دریا کے اس پار اترے تو دیکھا کہ زیاد اور شریح بھی اپنے اپنے دستوں کے ساتھ وہاں پر موجود ہیں چونکہ ان دونوں نے دریائے فرات کے کنارے خشکی کا راستہ اختیار کیا تھا اور یہاں پہنچ کر جب انہیں معلوم ہوا کہ امیر شام اپنی فوجوں کے ہمراہ فرات کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس خیال سے کہ وہ شامی فوج کا مقابلہ نہ کر سکیں گے ۔ امیر الموٴمنین ﷼ کے انتظار میں ٹھہر گئے تھے ۔ جب ان لوگوں نے اپنے رک جانے کی وجہ بیان کی تو حضرت نے ان کے عذر کو صحیح قرار دیا اور یہاں سے پھر انہیں آگے کی جانب روانہ کر دیا ۔ جب یہ فصیل روم کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ابو الاعور سلمی سپاہ شام کے ساتھ چھاؤنی ڈالے ہوئے ہے۔ ان دونوں نے امیر الموٴمنین ﷼ کو اس کی اطلاع دی جس پر حضرت نے مالک بن حارث اشتر کو سپہ سالار بنا کر ان کے عقب میں روانہ کر دیا اور انہیں تاکید فرما دی کہ جنگ میںپہل نہ کریں اور جہاں تک بن پڑے انہیں سمجھانے بجھانے اور حقیقت ِ حال پر مطلع کرنے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ مالک اشتر نے وہاں پہنچ کر ان کے تھوڑے فاصلہ پر پڑاؤ ڈال دیا ۔ جنگ تو ہر وقت شروع کی جا سکتی تھی ۔ مگر انہوں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا اور نہ کوئی ایسا قدام کیا کہ جس سے جنگ کے چھڑنے کی کوئی صورت پیدا ہوتی ۔ مگر ابو الا عور نے اچانک رات کے وقت ان پر ہلہ بول دیا ۔ جس پر انہوں نے بھی تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ان کی روک تھام کے لیے آمادہ وہ گئے کچھ دیر تک آپس میں جھڑپیں ہوتی رہیں ۔ آخر وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ جنگ کی ابتدا تو ہو چکی تھی ۔ صبح ہوتے ہی عراقیوں کے ایک سپہ سالار ہاشم ابن عتبہ میدان میں آ کھڑے ہوئے ۔ ادھر سے بھی فوج کا ایک دستہ مقابلہ کے لیے اتر آیا اور دونوں طرف سے جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے آخر مالک اشتر نے ابولاعور کو اپنے مقابلہ کے لیے للکارا ۔ مگر وہ ان کے مقابلہ میں آنے کیجراٴت نہ کر سکا اور شام کے وقت اپنے لشکر کو لے کر آگے کی طرف بڑھ گیا ۔ دوسرے دن امیر الموٴمنین ﷼ بھی اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہچن گئے اور ہراول دستوں اور فوجوں کےہمرا ہ صفین کے رخ پر چل دیے کہ جہاں معاویہ نے پہلے ہی پہنچ کر مناسب جگہوں پر مورچے قائم کر لیے تھے اور فرات کے تھاٹ پر پہرہ بٹھا کر اس پر قبضہ کر لیا تھا حضرت نے وہاں پہنچ کر اسے فرات پر سے پہرا اٹھا لینے کے لیے کہلوایا مگر اس نے انکار کیا جس پر عراقیوں نے تلواریں کھینچ لیں اور دلیرانہ حملہ کر کے فرات پر قبضہ کر لیا۔ جب یہ مرحلہ طے ہو گیا تو حضرت نے بشیر ابن عمرو انصاری سعید بن قیس ہمدانی اور شیت بن ربعی تمیمی کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ اسے جنگ کے نشیب و فراز سمجھائیں اور مصالحت و بیعت کے لیے آمادہ کریں ۔ مگر اس نے یہ جواب دیا کہ ہم کس طرح عثمان کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اب ہمارا فیصلہ تلوار ہی کرے گی چنانچہ ذی الحجہ ۳۶ ھ میں دونوں فریق میں جنگ کی ٹھن گئی اور دونوں طرف سے مردان کا رزار اپنے حریف کے مقابلہ کے لیے میدان میں اتر آئے ۔ حضرت کی طرف سے میدانِ مقابلہ میں آنے والے حجر بن عدی کندی، شیث بن ربیع ، خالکد بن معمرہ زیاد بن نصر ۔ زیاد بن خصفہ تمیمی ، سعید بن قیس، قیس بن سعد اور مالک بن حارث اشتر تھے اور شامیوں کی طرف سے عبدالرحمٰن بن خالک مخزجومی ، ابو الا عور سلمی حبیب بن مسلمہ فہری ، عبداللہ ابن ذی الکلاع حمیری ، عبیداللہ بن عمر بن خطاب ، شرجیل ابن سمط کندی اور حمزہ بن مالک ہمدانی تھے۔ جب ذی الحجہ کا مہینہ ختم ہو گیا تو محرم میں جنگ کا سلسلہ روک دینا پڑا اور یکم صفر روز چہار شنبہ سے پھر جنگ شروع ہو گئی۔ اور دونوں فریق تلواروں ، نیزوں، تیروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے ۔ حضرت کی طرف سے اہل کوفہ کے سواروں پر مالک اشترا اور پیادوں پر معمار بن یاسر اور ہل بصرہ کے سواروں پر سہل بن حنیف اور پیادوں پر قیس بن سعد سپہ سالار متعین ہوئے اور علم لشکر ہاشم بن عتبہ کے سپرد کیا گیا اور سپاہ شام کے میمنہ پر ابن ذی الکلاع اور میسرہ پر جیب بن مسلمہ اور سواروں پر عمو بن عاص اور پیادوں پر ضحاک بن قیس امیر سیاہ مقرر ہوئے ۔
پہلے دن مالک اشتر اپنے دستہ کے ساتھ میدان دغا میں آئے اور ادھر سے ان کے مقابلہ میں حبیب بن مسلمہ اپنی فوج کر لے کر نکلا اور دونوں طرف سے خونریز جنگ شروع ہو گئی ۔ اور دن بھر تواروں سے اور نیزے نیزوں سے ٹکراتے رہے دونوں لشکر ایک دوسرے سے قریب ہوئے تو سوار سواروں اور پیادے پیادوں پر ٹوٹ پڑے اور بڑے صبرو استقلال سے ایک دوسرے پر وار کرتے اور سہتے رہے ۔
تیسرے دن عمار بن یاسر اور زیاد بن نضر سوار و پیادے لے کر نکلے اور ادھر سے عمرو بن عاص سپاہ کثیر لے کر بڑھا زیاد نے فوج ِ مخالف کے سواروںپر اور عمار یا سر نے پیادوں پر ایسے جوش و خروش سے حملے کیے کہ سپاہ دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور وہ تاب مقاومت نہ لا کر اپنی قیام گاہوں کی طرف پلٹ گئے ۔
چوتھے دن محمد بن حنفیہ اپنے دستہ فوج کے ساتھ میدان میں آئے اور ادھر سے عبید اللہ بن عمر شامیوں کے لشکر کے ساتھ بڑھا اور دونوں فوجوں میںگھمسان کی لڑائی ہوئی ۔
پانچویں دن عبداللہ بن عباس آگے بڑھے اور ادھر سے ولید بن عتبہ سامنے آیا۔ عبداللہ بن عباس نے بڑی پا مردی و جراٴت سے حملے کئے اور اس طرح جوہر شجاعت دکھائے کہ دشمن میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔
چھٹے دن قیس بن سعد انصاری فوج کو لے کر بڑھے اور ان کے مقابلہ میں ذو الکلاع اپنا دستہ لے کر بڑھا اور ایسا سخت دن پڑا کہ قدم قدم پر لاشے تڑپتے اور خون کے سیلاب بہتے ہوئے نظر آنے لگے ۔ آخر رات کے اندھیرے نے دونوں لشکروں کو جدا کر دیا:۔
ساتویں دن مالک اشتر نکلے اور ان کے مقابلہ میں حبیب ابن مسلمہ اپنی سپاہ کے ساتھ بڑھا اور ظہر تک معرکہ کا رزار گرم رہا۔ آٹھویں دن خود امیر المومنین لشکر کے جلو میں نکلے اور اس طرح حملہ کیا میدان میں زلزلہ آگیا صفوں کو چیرتے اور تیرو سنان کے حملے روکتے ہوئے دونوں صفوں کے درمیان آکھڑے ہوئے اور معاویہ کو للکار ا جس پر عمرو ابن عاص کر لیے ہوئے کچھ قریب آیا تو آپ نے فرمایا: ابز رالی فاینا قتل صاحبہ فالا مرلہ ، تم خود میرے مقابلہ کے لیے نکلو، اور پھر جو اپنے حریف کو مارے و خلافت کو سنبھال لے “۔ جس پر عمرو ابن عاص نے معاویہ سے کہا کہ علی ﷼ بات تو انصاف کی کہتے ہیں ۔ ذرا جراٴت کرو اور مقابلہ کر دیکھو ۔ معاویہ نے کہا کہ میں تمہارے تاننے کی وجہ سے اپنی جان گنوانے کے لیے تیار نہیں اور یہ کہہ کر واپس ہو گیا ۔ حضرت نے اسے جاتے دیکھا تو مسکرا کر خود بھی لوٹ گیا۔
امیر الموٴمنین ﷼ نے صفین کے میدان میں جس بے جگری سے حملے کئے اسے اعجازی قوت ہی کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے چنانچہ جب آپ میدان میں للکارتے ہوئے نکلتے دشمن کی صفین ابتری اور سراسیمگی کے عالم میں منتشر ہو جاتیں اور جی توڑ کر لڑنے والے بھی آپ کے مقابلہ میں آنے سے ہچکچانے لگتے ۔ اسی لیے حضرت بعض دفعہ لباس تبدیل فرما کر میدان میں آئے تاکہ دشمن پہچان نہ سکے اور کوئی دو بدو ہو کر لڑنے کے لیے تیار ہو جائے ۔ چنانچہ ایک دفعہ عباس ابن ربیعہ کے مقابلہ میں ادھر سے غراز ابن ادہم نکلا اور دونوں داؤ پیچ دکھاتے رہے مگر کوئی اپنے حریف کو شکست نہ دے سکا اتنے میں عباس کو اس کی زرہ کا ایک حلقہٴ دھیلا دکھائی دیا۔ چنانچہ انہوں نے نہایت چاہکدستی سے اس حلقہ کو تلوار کی نوک میں پرو لیا اور جھٹکادے کر زرہ کے حلقے چیڑ والے اور پھر تاک کر ایسا وار کیا کہ تلوار اس کے سینہ کے اندر اتر گئی ۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر نعرہ تکبیر بلندی کیا ۔ معاویہ اس آواز پر چونکا اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ غراز مارا گیا تو پیچ و تاب کھانے لگا اور پکار کر کہا کہ کوئی ہے جو عباس کو قتل کر کے غراز کا بدلہ لے جس پر قبیلہ بنی لخم کے دو شمشیر زن اٹھ کھڑے ہوئے اور عباس کو اپنے مقابلہ میں للکارا ، عباس نے کہا کہ میں اپنے امیر سے اجازت لے آتا ہوں اور یہ کہہ کر حضرت کے پاس اجازت طلب کرنے لیے آئے ۔ حضرت نے انہیں روک کر ان کا لباس خود پہن لیا اور انہی کے گھوڑے پر سوار ہر کر میدان میں آ گئے ۔ لخمی آپ کے عباس سمجھ کر کہنے لگا کہ کیا اپنے امیر سے اجازت لے آئے ہو۔ حضرت نے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی َ (ترجمہ) جن (مسلمانوں) کے خلاف (کافر) لڑا کرتے ہیں اب انہیں بھی جنگ کی اجازت ہے کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ ان کی حدود پر یقینا قادر ہے ۔
اب ان میں سے ایک فیل مست کی طرح چنگھاڑتا ہوا نکلا اور آپ پر حمل کیا مگر آپ نے اس کا وار خالی جانے دیا اور پھر اس طرح صفائی سے اس کی کمر پر تلوار چلائی کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے لوگوں نے یہ سمجھا کہ وار خالی گیا ہے مگر جب اس کا گھوڑا اچھلا تو اس کے دونوں ٹکڑے الگ الگ زمین پر جا پڑے ۔ اس کے بعد دوسرا نکلا اور وہ بھی چشم زدن میں ڈھیر ہو گیا پھر حضرت نے دوسروں کو مقابلہ کے لیے للکارا مگر دشمن تلوار کے وارے سمجھ گیا کہ عباس کے بھیس میں خود امیر الموٴمنین ہیں اس لیے کسی نے سامنے آنے کی جراٴت نہ کی۔
نویں دن میمنہ عبداللہ ابن بدیل کے اور میسرہ عبداللہ ابن عباس کے زیر کمان تھا اور قلب لشکر میں خود امیر الموٴمنین رونقِ افزا تھے اور ادھر سے جیب ابن مسلمہ سپاہ شام کی قیادت کررہا تھا ۔ جب دونوں صفین ایک دوسرے کے قریب ہوئیں تو بہادروں نے تلواریں سونت لیں اور ایک دوسرے پر بپھرے ہوئے شیر کی طرح جھپٹ پڑے اور ہر طرف رن پر رَن پڑنے لگا۔ حضرت کے میمنہ لشکر کا علم بنی ہمدان کے ہاتھوں میں گردش کر رہا تھا ۔ چنانچہ جب بھی ان میں سے کوئی شہید ہو رکر گرتا تھا تو دوسرا بڑھ کر علم اتھا لیتا۔ پہلے کریب ابن شریح نے علم سپاہ بلند کیا ان کے شہید ہونے پر شرجیل ابن شریح نے پھر مرثدابن شریح نے پھر ہیبرہ ابن شریح نے پھر ندیم ابن شریح نے ان سب بھائیوں کے مارے جانے کے بعد عمیر ابن بشیر نے بڑھ کر علم لے لیا ان کے شہید ہونے کے بعد حارث ابن بشیر نے اور پھر وہب ابن کریب نے اٹھا لیا۔ آج دشمن کا زیادہ زور میمنہ ہی پر تھا اور اس کے حملے اتنے شدید تھے کہ میمنہ لشکر کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگا اور رئیس میمنہ عبداللہ ابن بدیل کے ہمراہ صرف دو تین سو آدمی رہ گئے ۔ امیر الموٴمنین ﷼ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو مالک اشتر سے فرمایا ۔ ذرا انہیں پکارو اور کہو کہ کہاں بھاگے جارہے ہو۔ اگر زندگی کے دن ختم ہو چکے ہیں تو بھاگ کر موت سے بچ نہیں سکے ادھر میمنہ لشکر کی ہزیمت سے قلب لشکر کا متاثر ہونا بھی چونکہ ضرور تھا اس لیے حضرت میسرہ کی طرف مڑ گئے اور صفوں کو چیر کر آگے بڑھ رہے تھے کہ بنی امیہ کے ایک غلام احمر نامی نے حضرت سے کہا کہ خدا مجھے مارے اگر میں آج آپ کو قتل نہ کروں یہ سن کر حضرت کا غلام کیسان اس کی طرف جھپٹا مگر اس کے ہاتھ سے شہید ہو گیا ۔ حضرت نے یہ دیکھا تو بڑھ کر اسے دامنِ زرہ سے پکڑ لیا اور اونچا لے جا کر اس طرح زمین پر ٹپکا کہ اس کے جوڑ بند الگ ہو گئے اور امام حسن ﷼ اور محمد ابن حنفیہ نے بڑھ کر اسے دالبوار میں پہنچا دیا ۔ ادھر مالک اشتر کے للکارنے اور شرم و غیرت دلانے سے بھاگنے والے پلٹ پڑے اور پھر جم کر اس طرح حملہ دشمن کو دھکیلتے ہوئے وہیں پہنچ گئے جہاں عبداللہ ابن بدیل نرغہ میں گھرے ہوئے تھے جب انہوں نے اپنے آدمیوں کو دیکھا تو ان کی ہمت بندھ گئی اور تلوار سونت کر معاویہ کے خیمہ کی طرف لپلے مالک اشتر نے انہیں روکنا چاہا۔ مگر وہ نہ رکے اور سات شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر معاویہ کی قیام گاہ کے قریب پہنچ گئے ۔ معاویہ نے جب انہیں بڑھتے دیکھا تو ان پر پتھراؤ کا حکم دیا جس سے آپ نڈھال ہو کر گر پڑے اور شامیوں نے ہجوم کر کے آپ کو شہید کر دیا ۔ مالک اشتر نے دیکھا تو قبیلہ ہمدان اور بن مذحج کے جنگجوؤں کے ہمراہ معاویہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑھے اور اس کے گرد حلقہ کرنے والے حفاظی دستوں کو منتشر کرنا شروع کیا جب ان کے پانچ حلقوں میں سے صرف ایک حلقہ منتشر ہونے سے رہ گیا تو معاویہ نے گھوڑے کی رکاب میں پیر رکھ دیا اور بھاگنے پر تیار ہو گیا مگر ایک شخص کے ڈھارس بندھانے سے پھر رک گیا۔
ادھر میدان کا رزار میں عمار ابن یاسر ہاشم ابن عتبہ کی تلواروں سے اس سرے سے لے کر اس سرے تک تلاطم برپا تھ ا۔ حضرت معار جدھر سے ہو کر گزرتے تھے صحابہ ہجوم کر کے آپ کے ساتھ ہو لیتے تھے اور پھر اس طرح حملہ کرتے تھے کہ دشمن کی صفوں میں تہلکہ مچ جاتا تھا۔ معاویہ نے جب ان کو بڑھتے دیکھا تو اپنی تازہ دم فوجیں ان کی طرف جھونک دیں ۔ مگر آپ تلواروں اور سنانوں کے ہجوم میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے آخر ابو عاد یہ مری نے آپ پر نیزہ لگایا جس سے آپ سنبھل نہ سکے اور ابن جون نے آگے بڑھ کر آپ کو شہید کر دیا۔ عمار یاسر کی شہادت سے معاویہ کی فوج میں ہلچل مچ گئی کیونکہ ان کے متعلق پیغمبر کا ارشاد تقتل عمار انفئتہ الباغیتہ : عمار ایک باغی گروہ کے ہاتھ سے قتل ہو ں گے وہ سن چکے تھے۔چنانچہ ان کی شہادت سے پہلے ذوالکلاع نے عمرو ابن عاص سے کہا بھی تھا کہ میں عمار کو علی کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کیا وہ باغی گروہ ہم ہی تو نہیں جس پر عمرو نے یہ کہا تھا کہ آخر میں عمار ہمارے ساتھ مل جائیں گے مگر جب وہ امیر الموٴمنین ﷼ کی طرف جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے تو اگرچہ باغی گروہ بے نقاب ہو چکا تھا اور کسی تاویل کی گنجائش نہ رہی تھی مگر معاویہ نے شامیوں سے یہ کہنا شروع کیا عمار کے قاتل ہم نہیں بلکہ علی ہیں ۔ چونکہ وہی انہیں مدیان جنگ میں لانے والے ہیں ۔ امیر الموٴمنین ﷼ نے یہ پُر فریب حملہ سنا تو فرمایا کہ پھر حمزہ کے قاتل رسول اللہ تھے جو نہیں میدان احد میںلائے تھے ۔ اس معرکہ میں ہاشم ابن عتبہ بھی کام آ گئے جو حارث ابن منذر کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور ان کے بعد علمِ لشکر ان کے فرزند عبداللہ نے سنبھال لیا۔
جب ایسے ایسے جان نثار ختم ہو چکے تو حضرت نے قبیلہ ہمدان اور ربعیہ کے جوانمردوں سے کہا کہ تم میرے لیے بمنزلہ زرہ اور نیزہ کے ہو۔ اتھو اور ان باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچا ؤ۔ چنانچہ قبیلہ ربیعہ و ہمدان کے بارہ ہزار نبرد آزما شمشیر بکف اٹھ کھڑ ہوئے علم لکشر حصین ابن منذر نے اٹھا لیا اور دشمن کی صفوں میں گھس کر اس طرح تلواریں چلائیں کہ سرکٹ کٹ کر گرنے لگے ۔ لاشوں کے انبار لگ گئے اور ہر طرف خون کے سیلاب بہہ نکلے ۔ مگر ان شمشیرزنوں کے حملے کس طرح رکنے میں نہ آتے تھے یہاں تک کہ دن اپنی ہولناکیوں کے ساتھ سمٹنے لگا اور شام کے بھیانک اندھیرے پھیلنے لگے ۔ اور وہ دہشت انگیز و بلاخیز رات شروع ہونی جسے تاریخ میں ”لیلتہ الریر“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہتھیاروں کی کھڑکھڑاہٹ ، گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اور شامیوں کی چیخ پکار کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ امیر الموٴمنین ﷼ کے باطل شکن نعروں سے ایک طرف دلوں میںہمت و شجاعت کی لہریں دوڑ رہی تھی ۔ اور دوسرے طرف سینوں میں کلیجے دہل رہے تھے جنگ اپنے پورے زوروں پر تھی ۔ تیر اندازوں کے ترکش خالی ہو چکے تھے نیزوں کی چوبیں ٹوٹ چکی تھی ۔ صرف تواروں سے دست بدست جنگ ہوتی رہی اور کشتوں کے پشتے لگتے رہے ۔ یہاں تک کہ صبح ہونے تک مقتولین کی تعداد تیس ہزار سے متجاوز ہو گئی ۔
دسویں دن امیر الموٴمنین کے لشکریوں کے وہی دم خم تھے ۔ میمنہ پر مالک اشتر اور میسرہ پر ابن عباس متعین تھے اور تازہ دم سپاہیوں کی طرح حملوں پر حملے کیے جا رہے تھے ۔ شامیوں پر شکست کے آثار ظاہر ہو چکے تھے اور وہ میدان چھور کر بھاگ نکلنے کو تیار ہی تھے کپ پانچ سو ۵۰۰ قرآن نیزوں پر بلند کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا گیا ۔ چلتی ہوئی تواریں رک گئیں۔ فریب کا حربہ چل نکلا اور باطل کے اقتدار کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ۔ اس جنگ میں ۴۵ ہزار شامی مارے گئے اور ۲۵ ہزار عراقی شہید ہوئے ۔
کتاب صفین (نصر ابن مزاحم المنقری المتوفی ۲۱۲ ء ئھ (تاریخ طبری)