جب(۱) حضرت ابو ذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان سے خطاب کر کے فرمایا:۔
اے ابو ذر! تم اللہ کے لیے غضب ناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے لہذا جس چیز کے لیے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑو اور جس شے کےلیے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے جھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جار ہے ہو۔ کاش کہ وہ سمجھتے کہ وہ اس کے کتنے حاجتمند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں ، اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کے لیے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہئے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہئے ۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لیے مقرر کر ا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے ۔
(۱) ابو ذر غفاری کا نام جندب ابن خبادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اذیتوں پہنچائیں ۔ مگر آپ کے ثباتِ قدم میں لغزش نہ آئی ۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں ہیں اور اس سبقت اسلامی کے ساتھ آپ کے زہدو اتقاء کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ ابو ذرمی امتی شبیہ عیسیٰ ابن مریم نی زہدہ و درعہ میری امت میں ابو ذر زہدو ورع میں عیسیٰ ابن مریم کی مثال ہیں ۔
آپ حضرت عمر کے دور حکومت میں شام چلے گئے اور حجرت عثامن کے زمانہ خلافت میں بھی وہیں مقیم تھے ۔زندگی کے شب و روز ہدایت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دیتے ۔ اہل بیت رسول کی عظمت سے روشنا س کرنے اور جادئہ حق کی طرف رہنمائی فرمانے میں گزرتے تھے ۔ چنانچہ شام اور حبل عامل میں شیعیت کے جو اثرات پائے جاتے ہیں ۔ وہ آپ ہی کی تبلیغ و مساعی کا نتیجہ اور آپ ہی کے بوئے ہوئے بیج کے برگ و بار ہیں امیر شام معاویہ کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی چنانچہ وہ ان کے کھلم کھللا لے دے کرنے اور حضرت عثمان کی زر اندوزی و بے راہ روی کے تذکرے کرنے سے انتہائی بیزار تھے مگر کچھ بنائے بنتی تھی آخر اس نے حضرت عثمان کو لکھا کہ اگر یہ کچھ عرصہ اور یہاں مقیم رہے تو ان اطراف کے لوگوں کو تم سے برگشتہ کر دیں گے ۔ لہذا اس کا انسداد ہونا چاہئے جس پر انہوں نے لکھا کہ ابو ذر کو شتر بے پالان پر سوار کر کے مدینہ روانہ کر دیا جائے چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا گیا ۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کر دی ۔ مسلمانوں کو پیغمبر کا عہد یاد دلاتے ۔ کسر دی و قیصری شان کے مظاہروں سے روکتے ۔ جس پر حضرت عثمان جُزیز ہوتے ۔ ان کی زبان بندی کی تدبیریں کرتے چنانچہ ایک دن انہیں بلا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے پھرتے ہو کہ پیغمبر نے فرمایا تھا کہ :۔
جب بنی امیہ کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو وہ اللہ کے شہروں کو اپنی جاگیر اور اس کے بندوں کو اپنا غلام اور اس کے دین کو فریب کاری کا ذریعہ قرار دے لیں گے ۔
آپ نے کہا کہ بیشک میں نے پیغمبر اسلام کو یہ فرماتے سنا تھا ۔ عثمان نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور پاس بیٹھنے والوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے ۔ سب نے نفی میںجواب دیا ۔ جس پر حضرت ابو ذر نے فرمایا کہ امیر الموٴمنین ﷼ علی ابن ابی طالب سے دریافت کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کو بلا کر دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے اور ابو ذر سچ کہتے ہیں ۔ عثمان نے کہا کہ آپ کس بنا پر اس حدیث کی صحت کی گواہی دیتے ہیں ۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر کو فرماتے سنا ہے کہ :۔
”کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ راست گو ہو۔ “
اب حضرت عثمان کیا کہہ سکتے تھے اگر جھٹلاتے تو پیغمبر کی تکذیب لازم آتی تھی ۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور کوئی تردید نہ کر سکے ۔ ادھر حضرت ابو ذر نے سرمایہ پرستی کے خلاف کُھلم کھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عثمان کو دیکھتے تو اس آیت کی تلاوت فرماتے ۔
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ ان کا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیاں ، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لیے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔
حضرت عثمان نے مال و دولت کا لالچ دیا مگر اس طائر آزاد کو سنہیر جال میں نہ جکڑ سکے ۔ تشدد و سختی سے بھی کام لیا مگر ان کی زبان حق ترجمان کو بند نہ کر سکے آخر انہیں مدینہ چھوڑ دینے اور ربذہ کی جانب چلے جانے کا حکم دیا اور طرید رسول کے فرزند مردان کو اس پر مامورکیا کہ وہ انہیں مدینہ سے باہر نکا ل دے اور اس کے ساتھ یہ قربانی فرمان بھی صادر فرمایا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ انہیں الوداع کہے ، مگر امیرا لموٴمنین ﷼ ، امام حسن ﷼ ، امام حسین ﷼ عقیل ، عبداللہ ، ابن جعفر اور عماریا سر نے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہیں رخصت کرنے کے لیے ساتھ ہو لیے اور اسی رخصت کے موقعہ پر حضرت نے ان سے یہ کلمات فرمائے ۔
زبذہ میں حضرت ابو ذر ۻ کی زندگی بڑی ابتلاؤں میں کئی ۔ یہیں پر آپ کے فرزند ذر اور اہلیہ نے انتقال کیا اور جو بھیڑ بکریاں گزارا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں ۔ وہ بھی ہلاک ہو گئیں ۔ اولاد میں صرف ایک دختر رہ گئی جو فاقوں اور دکھوں میں برابر کی شریک تھی ۔ جب سرو سامان زندگی ناپید ہو گئے اور فاقوں پر فاقے ہونے لگے تو اس نے حضرت ابو ذر ۻ سے عرض کیا کہ بابا یہ زندگی کے دن کس طرح کٹیں گے کہیں آنا جانا چاہئے اور رزق کی تلاش کرنا چاہئے ۔ جس پر حضرت ابو ذر اسے ہمراہ لے کر صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے مگر گھا س پات بھی میسر نہ آسکا ۔ آخر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور ریب جمع کر کے اس کا ڈھیر بنایا اور اس پر وسر رکھ کر لیٹ گئے اسی عالم میں سانسیں اکھڑ گئیں پتلیاں اوپر چڑھ گئیں نزع کی حالت طاری ہو گئی ۔ جب دختر ابو ذر نے یہ حالت دیکھی تو سراسیمہ و مضطرب ہو کر کہنے لگی کہ بابا اگر آپ نے اس لق و دق صحرا میں انتقال فرمایا تو میں اکیلی کیسے دفن و کفن کا سامان کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹی گھبراؤ نہیں پیغمبر اکرم مجھ سے فرما گئے تھے کہ اے ابو ذر تم عالم غربت میں مرو گے اور کچھ عراقی گزرے تو اس سے کہنا کہ پیغمبر کے صحابی ابو ذر نے انتقال کیا ہے ۔ چنانچہ ان کی رحلت کے بعد وہ سر راہ جا کر بیٹھ گئی ۔کچھ دیر کے بعد ایک قافلہ گزرا جس میں ہلال ابن مالک مزنی ، احنف ابن قیس تمیمی صعصعہ ابن صومان عبدی ، اسود ابنِ قیس تمیمی اور مالک ابن حارث اشتر تھے ۔ جب انہوں نے حضرتے ابو ذر کے انتقال کی خبر سنی تو اس بیکسی کی موت پر تڑپ اٹھے ۔ سواریاں روک لیں اور ان کی تجہیز و تکفین کے لیے سفر ملتوی کر دیا۔ مالک اشتر نے ایک حلہ کفن کے لیے دیا جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی اور تجہیزو تکفین کے فرائض سر انجام دے کر رخصت ہوئے ۔ یہ واقعہ ۸ ذی الحجہ ۲۳ ئھ کا ہے ۔