خطبہ۱۴۹

میں اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں اور ان چیزوں کیلئے اس سے مدد مانگتا ہوں کہ جو شیطان کو راندہ اور دور کرنے والی اور اس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی پانہ میں رکھنے والی ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے عہد و رسول اور منتخب و برگزیدہ ہیں۔نہ ان کے فضل و کمال کی برابری اور نہ ان کے اٹھ جانے کی تلافی ہوسکتی ہے۔ تاریک گمراہیوں اور بھرپور جہالتوں اور سخت و درشت (خصلتوں) کے بعد شہروں (کے شہر) ان کی وجہ سے روشن و منور ہوگئے جبکہ لوگ حلال کو حرام اور مرد زیرک و دانا کو ذلیل سمجھتے تھے۔ نبیوں سے خالی زمانہ میں جیتے تھے اور گمراہی کیحالت میں مر جاتے تھے پھر یہ کہ اے گروہ عرب تم ایسی ابتلاؤں کا نشانہ بننے والے ہو کہ جو قریب پہنچ چکی ہیں‘ عیش و تنعم کی بدمستیوں سے بچو اور عذاب کی تباہ کاریوں سے ڈرو۔ شبہات کے دھندلکوں اور فتنہ کی کجرویوں میں اپنے قدموں کو روک لو جبکہ اس کا چھپا ہوا خدشہ سر اٹھائے اور مخفی اندیشہ سامنے آجائے اور اس کا کھونٹا مضبوط ہو جائے۔ فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوا کرتے ہیں اور انجام کار ان کی کھلم کھلا برائیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان کی اٹھان ایسی ہوتی ہے۔ جیسے نوخیز بچے کی اور ان کے نشانات ایسے ہوتے ہیں جیسے پتھر (کی چوٹوں) کے ظالم آپس کے عہد و پیمان سے اس کے وارث ہوتے چلے آتے ہیں۔ اگلا پچھلے کا رہنما اور پچھلا اگلے کا پیرو ہوتا ہے۔ وہ اسی رذیل دنیا پر مر مٹتے ہیں اور اس سڑے ہوئے مردار پر ٹوٹ پڑے ہیں جلد ہی پیرو کار اپنے پیشتر و رہنماؤں سے اظہار بیزاری کریں گے اور ایک دوسرے کی دشمنی کے ساتھ علیحدگی اختیار کرلیں گے اور سامنے ہونے پر ایک دوسرے کو لعنت کریں گے- اس دور کے بعد ایک فتنہ ایسا آئے گا جو امن و سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا اور تباہی مچانے والا اور خلق خدا پر سختی کے ساتھ حملہ آور ہوگا‘ تو بہت سے دل ٹھہراؤ کے بعد ڈانوا ڈول اور بہت سے لوگ (ایمان کی) سلامتی کے بعد گمراہ ہوجائے گے اس کےحملہ آور ہونے کے وقت خواہشیں بٹ جائیں گی اور اس کے ابھرنے کے وقت رائیں مشتبہہ ہوجائیں گی جو اس فتنہ کی طرف جھک کر دیکھے گا وہ اسے تباہ کر دے گا۔ اور جو اس میں سعی و کوشش کرے گا اسے جڑ بنیاد سے اکھیڑ دے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹنے لگیں گے جس طرح وحشی گدھے اپنی بھیڑ میں ایکدوسرے کو دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ اسلام کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل جائیں گے۔ صحیح طریق کار چھپ جائے گا۔ حکمت کا پانی خشک ہوجائے گا اور ظالموں کی زبان کھل جائے گی وہ فتنہ باویہ نشینوں کو اپنے ہتھوڑوں سے کچل دے گا اور اپنے سینہ سے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اس کے گرد و غبار میں اکیلے دو کیلے تباہ و برباد ہوجائیں گے اور سوار اس کی راہوں میں ہلاک ہوجائیں گے۔ وہ حکم الہٰی کی تلخیاں لے کر آئے گا اور (دودھ کے بجائے) خالص خون دوہے گا۔ دین کے میناروں کو ڈھا دے گا اور یقین کے اصولوں کو توڑ دے گا۔ عقلمند اس سے بھاگیں گے اور شرپسند اس کے کرتا دھرتا ہونگے وہ گرجنے اور چمکنے والا ہوگا اور پورے زوروں کے ساتھ سامنے آئے گا۔ سب رشتے ناطے اس میں توڑ دئیےجائیں گے اور اسلام سے علیحدگی اختیار کرلیجائے گی۔ اس سے الگ تھلگ رہنے والا بھی اس میں مبتلا ہو جائے گا اور اس سے نکل بھاگنے والا بھی اپنے قدم اس سے باہر نہ نکال سکے گا۔

اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے : (جس میں ایمان والوں کی حالت کا ذکر ہے) کچھ تو ان میں سے شہیدہوں گے کہ جن کا بدلہ نہ لیا جاسکے گا اور کچھ خوف زدہ ہوں گے جو اپنے لیے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے انہیں قسموں اور (ظاہری) زبان کی فریب کاریوں سے دھوکا دیا جائےگا۔ تم فتنوں کی طرف راہ دکھانے والے نشان ا ور بدعتوں کے سربراہ نہ بنو‘ تم (ایمان والی) جماعت کے اصولوں اور ان کی عبادت و اطاعت کے طور طریقوں پر جمے رہو۔ اللہ کے پاس مظلوم بن کر جاؤ ظالم بن کر نہ جاؤ۔ شیطان کی راہوں اور نمرود سرکشی کے مقاموں سے بچو۔ اپنے پیٹ میںحرام کے لقمے نہ ڈالو۔ اس لیے کہ تم اس کی نظروں کے سامنے ہو جس نے معصیت اور خطا کو تمہارے لیے حرام کیا ہے اور اطاعت کی راہیں آسان کر دی ہیں۔