خطبہ ۴۸

اللہ کے لئے حمدو ثنا ہے جب بھی رات آئے اور اندھیرا پھیلے ، اور اللہ کے لئے تعریف و توصیف ہے جب بھی ستارہ نکلے اور ڈوبے اور اس اللہ کے لئے مدح و ستائش ہے کہ جس کے انعامات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جس کے احسانات کا بدلہ اتارا نہیں جا سکتا۔
(آگاہ رہو کہ) میں نے فوج کا ہراول دستہ آگے بھیج دیا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ میرا فرمان پہنچنے تک اس دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے رہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پانی کو عبور کر کے اس چھوٹے سے گروہ کے پاس پہنچ جاؤں جو اطراف دجلہ ّمدائن ) میں آباد ہے ، اور اسے بھی تمہارے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا کروں اور انہیں تمہاری کمک کےلئے ذخیرہ بناؤں ۔ علامہرضی کہتے ہیں کہ امیر الموٴمنین علیہ السلام نے اس مقام پر ملطاطسے وہ سمت مرا دلی ہے جہاں انہیں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا۔ اور وہ سمتکنارہ فرات ہے اور لمطاط کنارہ دریا کو کہا جاتا ہے ۔ اگرچہ اس کے اصل معنی ہموارزمین کے ہیں ، اور نطفہ (صاف و شفاف پانی ) سے آپ کی مراد آبِ فرات ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں سے ہے ۔“

(۱) جب امیرالموٴمنین کے ارادہ سےوادی ٴ نخلیہ میں پڑاؤ ڈالا۔ تو ۵ شوال ۳۷ھ ء بروز چہار شنبہ یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔اس میں حضرت نے جس ہراول دستے کا ذکر کیا ہے ، اس سے وہ بارہ ہزار افراد مراد ہیںجو زیاد ابنِ نضراور شریح ابنِ ہانی کے زیرِ قیادت صفین کی طرف روانہ فرمائےتھے۔ اور مدائن کے جس چھوٹے سے گروہ کا ذکر کیا ہے ، وہ بارہ سو افراد کا ایک جتھا تھا جوآپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوا تھا۔