جب صفین میں معاویہ کے ساتھیوں نے امیرالموٴمنین کے اصحاب پر غلبہ پا کر فرات کے گھاٹ پر قبضہ جما لیا اور پانی لینے سے مانع ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:۔
وہ(۱) تم سے جنگ کے لقمے طلب کرتے ہیں ۔ تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی و حقارت پر سرِ تسلیم خم کر دو ۔ یا تلاروں کی پیاس خون سے بُجھا کر اپنی پیاس پانی سے بجھاؤ ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنا بھی جینے کے برابر ہے ۔ مُعاویہ گم کر دہ راہ سر پھروں کا ایک چھوٹا سا جتھا لیے پھرتا ہے اور واقعات سے انہیںاندھیرے میں رکھ چھوڑا ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سینوں کو موت( کے تیروں ) کا ہدف بنا لیا ہے ۔
(۱) امیرالمومنین ابھی صفین میںپہنچے نہ تھے کہ معاویہ نے گھاٹ کا راستہ بند کرنے کےلئے دریا کے کنارے چالیس ہزار ۴۰۰۰۰ آدمیوں کا پہرہ لگا دیا۔ تاکہ شامیوں کے علاوہ کوئی وہاں سے پانی نہ لے سکے۔ جب امیرالموٴمنین کا لشکر وہاں پر اترا تو اس گھاٹ کے علاوہ آس پاس کوئی گھاٹ نہ تھا کہ وہاں سے پانی لے سکتے اور اگر تھا، تو اونچے اونچے ٹیلوں کو عبور کر کے وہاں تک پہنچنا دشوار تھا۔ حضرت نے صعصعہ ابن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا ، اور اسے کہلوایا کہ پانی سے پہرا اٹھا لیا جائے مگر معاویہ نے اس ے انکار کیا۔ ادھر امیرالموٴمنین کا لشکر پیاسا پڑا تھا۔ حضرت نے یہ صورت دیکھی ، تو فرمایا کہ اٹھو اور تلواروں کے زور سے پانی حاصل کرو۔ چنانچہ ان تشنہ کاموں نے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں اور تیر کمانوں میں جوڑ لئے ۔ اور معاویہ کی فوجوں کو درہم و برہم کرتے ہوئے دریا کے اندر تک اُتر گئے اور ان پہرہ داروں کو مار بھگایا اور خود گھاٹ پر قبضہ کر لیا۔ اب حضرت کے اصحاب نے بھی چاہا کہ جس طرح معاویہ نے گھاٹ پر قبضہ جما کر پانی کی بندش کر دی تھی ، ویسا ہی اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ کیا جائے ، اور ایک شامی کو بھی پانی نہ لینے دیا جائے، اور ایک ایک کو پیاساتڑپا کر مارا جائے۔ مگر امیرالموٴمنین نے فرمایا کہ کیا تم بھی وہی جاہلانہ قدم اٹھانا چاہتے ہو جو ان شامیوں نے اٹھایا تھا؟ ہرگز کسی کو پانی سے نہ روکو۔ چو چاہے پئے اور جس کا جی چاہے لے جائے۔ چنانچہ امیرالموٴمنین علیہ السلام کی فوج کا دریا پر قبضہ ہونے کے باوجود کسی کو پانی سے نہیں روکا، اور ہر شخص کو پانی لینے کی پُوری پُوری آزادی دی گئی ۔