ہم (مسلمانوں ) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر اپنے باپ، بیٹوں ، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔ اس سے ہمارا ایمان بڑھتا تھا۔ اطاعت اور راہِ حق کی پَیروی میں اضافہ ہوتا تھا اور کرب و الم کی سوزشوں پر صبر میں زیادتی ہوتی تھی اور دشمنوں سے جہاد کرنےکی کوششیں بڑھ جاتی تھیں ۔ (جہاد کی صورت یہ تھی کہ) ہم میں کا ایک شخص اور فوج ِ دشمن کا کوئی سپاہی دونوں مردوں کی طرح آپس میں بھڑتے تھے اور جان لینے کے لئے ایک دوسرے پر جھپٹے پڑتے تھے، کہ کون اپنے حریف کو موت کا پیالہ پلاتا ہے ۔ کبھی ہماری جیت ہوتی تھی، اور کبھی ہمارے دشمن کی۔ چنانچہ جب خدا وندِ علم نے ہماری (نیتوں کی ) سچائی دیکھ لی ۔ تو اس نے ہمارے دشمنوں(۱) کو رسوا و ذلیل کیا، اور ہماری نصرت و تائید فرمائی، یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ پر جم گیا ، اور اپنی منزل پر برقرار ہو گیا۔ خدا کی قسم! اگر ہم بھی تمہاری طرح کرتے تو نہ کبھی دین کا ستون گڑتا۔ اور نہ ایمان کا تنا برگ وبار لاتا۔ خدا کی قسم! تم اپنے کئے کے بدلے میں دودھ کے بجائے ) خون دو ہو گے ۔ اور آخر تمہیں ندامت و شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔
(۱)
جب
محمد ابن ابی بکر شہید کر دیئے گئے، تو معاویہ نے عبداللہ
ابنِ عامر حضرمی
کو بصرہ کی طرف بھیجا تا کہ اہلِ بصرہ کو پھر سے قتلِ عثمان کے انتقام
کے لئے آمادہ
کرے۔ چونکہ بیشتر ابالیٴ بصرہ اور خصوصاًبنی
تمیم کا طبعی رجحان حضرت عثمان کی طرف تھا چنانچہ وہ بنی تمیم ہی
کے ہاں آ کر فروکش ہوا۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ والیٴ بصرہ عبداللہ ابن
عباس ، زیاد ابنِ عبید کو قائم مقام بنا کر محمد ابن ابی بکر
کی تعزیت
کےلئے کوفہ گئے ہوئے تھے۔
جببصرہ کی فضا بگڑنے لگی، تو زیاد نے امیرالموٴمنین ﷼ کو تمام واقعات سے اطلاع دی۔حضرت نے کوفہ کے بنی تمیم کو بصرہ لے لئے آمادہ کرنا چاہا ۔ مگر انہوں نے چپ سادھلی اور کوئی جواب نہ دیا۔ امیرالموٴمنین نے جب ان کی اسکمزوری و بے حمیتی کو دیکھا، تو یہ خطبہ ارشاد
فرمایا
کہ
ہم پیغمبرﷺ کے زمانہ میں
یہ نہیںدیکھتے تھے کہ ہمارے ہاتھوں سے قتل ہونے والے ہمارے ہی
بھائی بند اور قریبی عزیز ہوتے ہیں۔ بلکہ جو
حق سے ٹکراتا تھا ہم اس سے
ٹکرانے
کے لئے تیار ہو جاتے تھے اور اگر ہم بھی تمہاری طرح غفلت و بے
عملی کی راہ
پر
چلتے تو نہ دین کی بنیادیں مضبوط ہوتیں ، اور نہ
اسلام پروان چڑھتا ۔ چنانچہ اس جھنجھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اعین ابن
صبیعہ تیار ہوئے ۔ مگر وہ بصرہ پر پہنچ کر دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہو گئے ۔ پھر
حضرت نے جاریہ ابن قدامہ کو بنی تمیم پچاس افراد کے ساتھ روانہ کیا۔ انہوں نے اپنے قوم
قبیلے کو سمجھانے بجھانے کی سر توڑ کوششیں کیں مگر وہ راہ راست پر آنے کے بجائے
گالم گلوچ اور دست درازی پر اتر آئے ، تو جاریہ نے زیاد اور بنی ازد کو
اپنی مدد کے لئے پکارا ۔ ان کے پہنچتے ہی ابن حضرمی
اپنی جماعت کو لے کر نکل آیا ۔ دونوں طرف سے کچھ دیر تک
تلواریں چلتی رہیں ۔ آخر ابن حضرمی ستر آدمیوں کے ساتھ بھاگ کھڑا
ہوا۔ اور سبیل سعدی کے گھر میں پناہ لی ۔ جاریہ کو جب کوئی چارہ نظر نہ
آیا۔ تو انہوں نے اس کے گھر میں آگ لگوا دی۔ جب آگ کے شعلے بلند ہوئے ،
تو وہ سراسیمہ ہو کر بچنے کے لئے ہاتھ پَیر مارنے لگے مگر فرار میں
کامیاب نہ ہو سکے ، کچھ دیوار کے نیچے دب کر مر گئے اور کچھ قتل
کر دیئے گئے۔