خطبہ ۵۸

آپ ﷺ کا کلام خوارج کو مخاطب فرماتے ہوئے

تم پر سخت آندھیاں آئیں اور تم میں کوئی اصلاح کرنے والا باقی نہ رہے ۔ کیا میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کرنے کے بعد اپنے اوپر کفر کی گواہی دے سکتا ہوں؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا، اور ہدایت کی گواہی دے سکتا ہوں ؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا۔ تم اپنے (پرانے) بدترین ٹھکانوں کی طرف پلٹ جاؤ۔ یاد(۱) رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلت اور کاٹنے والی تلوار سے دو چار ہونا ہے ، اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں۔

(۱) تاریخ شاہد ہے کہ امیرالموٴمنین  کے بعد خوارج کو ہر طرح کی ذلتوں اور خواریوں سے دو چار ہونا پڑا، اور جب بھی انہوں نے فتنہ انگیزی کےلئے سر اٹھایا ، تو تلواروں اور نیزوںپر دھر لئے گئے ۔ چنانچہ زیاد ابن ابیہ ، عبیداللہ ابن زیاد، مصعب ابنِ زبیر ، حجاج ابنِ یوسف اور مہلب ابن ابی صفرہ نے انہیں صفحہ ہستی سے نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیںرکھی۔ خصوصاً مہلب نے انیس برس تک ان کا مقابلہ کر کے ان کے سارے دم خم نکال دیئے اور ان کی تباہی و بربادی کو تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیا۔
طبرینے لکھا ہے کہ مقامِ سلی سلبری میں جب دس ہزار خوارج جنگ و قتال کے لئے سمٹ کر جمع ہر گئے ، تو مہلب نے اس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ سات ہزار خارجیوں کو تہِ تیغ کر دیا اور بقیہ تین ہزار کو مان کی طرف بھاگ کر جان بچا سکے ۔ لیکن والیٴ فارس عبیداللہ ابنِ عمر نے جب ان کی شورش انگیزیاں دیکھیں ، تو مقامِ سابور میں انہیں گھیر لیا اور ان میں کافی تعداد وہیں پر ختم کر دی اور جو بچے کھچے رہ گئے ، وہ پھر اصفہان و کرمان کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے وہاں سے پھر جتھا بنا کر بصرہ کی راہ سے کوفہ کی طرف بڑھے، تو حارث ابن ابی ربیعہ اور عبدالرحمٰن ابن مخنف چھ ہزار جنگ آزماؤں کو لے کر ان کا راستہ روکنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور عراق کی سرحد سے انہیں نکال باہر کیا یُوں ہی تا بڑ توڑ حملوں نے ان کی عسکری قوتوں کو پامال کر کے رکھ دیا اور آبادیوں سے نکال کر صحروؤں اور جنگلوں میں خال چھاننے پر مجبور کر دیا اور بعد میں بھی جب کبھی جتھا بنا کر اٹھے تو کچل کر رکھ دیئے گئے ۔
علامہ رضی فرماتےہیں کہ حضرت کے اس ارشاد لاَ بَقِیَ مِنکُم ْ آبِر-’‘ (تم میںکوئی اصلاح کرنے نہ رہے ) میں لفظ آبر”ب“ اور ”ر“ کے ساتھ روایت ہوا ہے اور یہ عربوں کے قول رَجُل’‘ آبِر’‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی خرما کے درختوں کے چھانٹنے والے اور ان کی اصلاح کرنے والے کے ہیں ۔ اور ایک روایت میں آثِر’‘ ہے اور اس کے معنی خبر دینے والے اور اقوال نقل کرنے والے کے ہیں میرے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے ۔ گویا حضرت یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم میں کوئی خبر دینے والا نہ بچے۔ اور ایک روائیت میںآبِز’‘ زائے معجمہ کے ساتھ آیا ہے ۔ جس کے معنی کودنے والے کے ہیں اور ہلاک ہونے والے کو بھی آبز’‘کہا جاتا ہے ۔