جب(۱) آپ ﷺ نے خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، تو آپ سے کہا گیا کہ وہ نہر وان کا پل عبور کر کے ادھر جا چکے ہیں، تو آپﷺ نے فرما دیا:۔
ان کے گرنے کی جگہ تو پانی
کے اسی طرف ہے ۔ خدا کی قسم! ان میں سے دس بھی بچ
کر نہ
جا سکیں گے ، اور تم میں سے دس بھی ہلاک نہ ہوں گے ۔
سیدرضی فرماتے ہیں کہ اس خطبہ میں نطفہ سےمراد نہر (فرات) کا پانی ہے اور پانی کے لئے یہ بہترین
کنا یہ ہے چاہے پانی
زیادہ بھی ہو۔
جب خوارج مارےگئے تو آپ سے کہا گیا کہ وہ لوگ سبکے سب ہلاک ہوگئے ۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ابھی تو وہ مردوں کی
صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں موجود
ہیں (۲)
جب بھی
ان میں کوئی سردار ظاہر ہو گا، تو
اسے کاٹ کر
رکھ دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کی اخروی
فردیں چور اور ڈاکو ہو کر رہ جائیں
گی۔
انہیخوارج کے متعلق فرمایا:۔ میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا ۔
اس لئے
کہ جو حق کا طالب ہی کی طلب میں ہو اور پھر اسے بھی پالے
۔ سید رضی کہتے ہیں کہ
اس سے مراد
معاویہ اور اسکے ساتھی ہیں۔
(۱)
اے
پشین گوئی کو فراست و ثاقب نظری کا نتیجہ نہیں قرار
دیا جاسکتا ۔ کیونکہ دُور رس نظریں فتح و شکست کا اندازہ تو لگا
سکتی ہیں اور جنگ کے نتائج کو بھانپ لے جا سکتی ہیں۔ لیکن دونوں
فریق کے مقتولین کی صحیح صحیح تعداد سے آگاہ کر
دینا ان کی
حُدود
ِ پرواز سے باہر ہے ۔ یہ اسی کی باطن ِ بین
نگاہیں حکم لگا سکتی ہیں کہ جو غیب کے پَردے الٹ کر آنے والے منظر کو اپنی
آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ اور علمِ امامت کی چھوٹ مستقبل کے صفحہ پر ابھرنے والے نقوش اس کو
دکھا رہی ہو۔ چنانچہ اس وارثِ علم نبوت نے جو فرمایا تھا وُہی ہوا ، اور
خوارج میں سے نو آدمیوں کے علاوہ سب کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن میں سے دو
عمان کی طرف دو سجستان کی طرف دو کرمان کی طرف اور دو جزیرہ کی طرف بھاگ گئے
اور ایک یمن میں تل مورون چلا آیا، اور آپ کی جماعت میں سے
صرف آٹھ آدمی شہیدہو گئے ، جن کے نام یہ ہیں۔
روبہابن وبز بجلی ،سعیدابن خالد سبیعی ، عبداللہ ابن حماد اجنی ، فیاض ابن
خلیل از دی، کیسوم ابن سلمہ جہنی ، عبیدابن عبیدخولانی ،
جمیع ابن جعثم کندی ، حبیب ابن عاصم اسدی ،
(۲) امیر المومنین کی یہ پشینگوئی بھی ھرف بحرف پوری ہوئی اور خوارج میں جو سردار بھیاٹھا، تلواروں پر دھر لیا گیا۔ چنانچہ ان کے چند سرداروں کا ذکر
کیا جاتا
ہے
کہ جو بُری طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے ۔
نافعابن ازرق :۔ خوارج کا سب سے بڑا گروہ ازارقہ اسی کی طرف منسوب ہے ۔یہ مسلم ابن عبیس کے لشکر کے مقابلہ میں سلامہ باہلی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
نجدہابن عامر:۔ خوارج کا فرقہ بخداد اسکی طرف منسوب ہے ۔ ابو فدیک خارجی نے اسےقتل کرو ادیا۔
عبداللہابنِ اباض:۔ فرقہاباحنیہاسکی طرف منسوب ہے ۔ یہ عبداللہ ابن محمد ابن عطیہ کے
مقابلہ میں مارا گیا۔
ابوبہیس ہیصم ابنِ جابر:۔ فرقہ بیہسیہ اس کی طرف
منسوب ہے ۔ عثمان ابنِ جبان والیٴ مدینہ نے پہلے اس کے ہاتھ
پیر کٹوائے اور پھر اسے قتل کر دیا۔
عروہابن اُویہ:۔ معاویہ کے عہد حکومت میںزیاد نے اسے قتل
کیا۔
قطریابن فجاء ة :۔طبرستانکے علاوہ میں جب سفیان ابن ابرو کی فوج کا اس کا لشکر سے ٹکراؤں
ہوا تو سورہ ابن
ابجر دارمی نے اسے قتل کیا۔
شوذبخارجی :۔ سعید ابن عمرو حرشی کے مقابلہ میں مارا گیا۔
حوثرہ ابن وداع اسدی:۔ بنی طے کے ایک شخص کے ہاتھ سے قتل ہوا۔
مستوردابن عرفہ :۔ معاویہ کے عہد میں مغفل ابنِ قیس کے ہاتھ سے
مارا گیا۔
شبیبابن یزید خارجی:۔ دریا میں ڈوب کر مرا۔
عمرانابن حرب سراسبی :۔ جنگ ددلاب میں مارا گیا۔
زحافابن طائی :۔ بنو طاحیہ کے مقابلہ میں مارا
گیا۔
زبیرابنِ علی سلیطی :۔ عتاب ابنِ ورقاء کے مقابلہ میں
مارا گیا۔
علیابنِ بشیر:۔ اسے حجاج نے قتل کر وایا۔
عبیداللہابنِ بشیر :۔ مہلب ابن ابی صفرہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
عبداللہابنِ الماحوز:۔ جنگ دد لاب میں مارا گیا۔
عبیداللہابن الماحوز:۔ عتاب ابن ورقاء کے مقابلہ میں مارا گیا۔
ابوالوازع :۔ مقبرہ بنی یشکر میں ایک شخص نے اسپر دیوار گرا کر اسے ختم کر دیا۔
عبیداللہ ابنیحییٰ کندی:۔ مروان ابن محمد کے عہد
میں ابن عطیہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(۳) قتلِ خوارج سے روکنے کی وجہ یہ تھی کہچونکہ امیرالموٴمنین ﷼ کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آپ کےبعد تسلط و اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا جو جہاد کے موقعہٴ و محل سے بے خبر ہوں گے، اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے تلواریں چلائیں گے ۔ اوریہ وہی لوگ تھے کہ جو امیرالموٴمنین کو بُرا سمجھنے
اور بُرا کہنے میں
خوارج
سے بھی بڑھے چڑھے ہوئے تھے ۔ لہذا جو خود گم کر دہ راہ ہوں ۔
انہیں دوسرے
گمراہوں
سے جنگ و قتال کا کوئی حق نہیںپہنچتا ۔ اور نہ جان بوجھ کر
گمراہیوں میںپڑے رہنے والے اس کے مجاز ہو سکتے ہیں کہ بھولے سے بے
راہ ہو جانے والوں کے خلاف صف آرائی کریں ۔ چنانچہ
امیرالموٴمنین ﷼ کا
یہ ارشاد واضح طور سے اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے ۔ کہ خوارج کی گمراہی جان بوجھ
کر نہ تھی۔ بلکہ شیطان کے بہکائے میں آکر باطل کو حق سمجھنے
لگے ، اور اسی پر اڑ گئے اور معاویہ اور اس کی جماعت کی
گمراہی
کی
یہ صورت تھی کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر ٹھکرایا اور باطل کو
باطل سمجھ کر
اپنا
شعار بنائے رکھا۔ اور دین کے معاملہ میں ان کی
بیباکیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیںکہ نہ انہیں غلط فہمی کا
نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ، اور نہ ان پر خطائے اجتہادی کا پردہ ڈالا جا سکتا ہے ۔ جب کہ وہ
علانیہ دین کے حدود کو توڑ دیتے تھے۔ اور اپنی رائے
کے سامنے پیغمبرﷺ کے ارشاد کو درخورِ
اعتنانہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ پیغمبرﷺ کے
صحابی ابو الدرداء نے معاویہ کے ہاں سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال دیکھا، تو
فرمایا، کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو
فرماتے سنا
کہ
”ان الشارب فیھما لتجر جر فی جرفہ نار جھنم“ چاندی اور سونے کے
برتنوں میں پینے والے کے پیٹ میں دوزخ کی آگ کے لپکے
اٹھیں گے ۔ “ تو معایہ نے کہا کہ ”اما انا فلا ادری بذلک
باسا۔ لیکن میری رائے میں تو اس میں
کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اسی طرح زیاد ابن ابیہ کو
اپنے سے ملا لینے کے لئے قولِ پیغمبر کو ٹھکرا کر اپنے اجتہد کو کار فرما کرتا ، منبر
رسول ﷺ پر اہل
بیت رسول کو برا کہنا حدودِ شرعیہ کو پامال کرنا ، بے گناہوں کے خون سے
ہاتھ رنگنا ۔ اور ایک فاسق کو مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر کے زندقہ و الحاد
کی راہیں کھول دینا، ایسے واقعات ہیں کہ
انہیں کسی غلط فہمی پر محمول کرنا حقائق سے عمداً چشم پوشی کرنا ہے ۔