خطبہ۶۷

اپنے اصحاب کی مذّمت میں فرمایا:۔

کب تک میں تمہارے ساتھ ایسی نرمی اور رور عایت کرتا رہوں گا۔ جیسی ان اونٹوں سے کی جاتی ہے ۔ جن کی کو ہانیں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہوں اور ان پھٹے پرانے کپڑوں سے کہ جنہیں ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتے ہیں ۔ جب بھی شامیوں کے ہروال دستوں میں سے کوئی دستہ تم پر منڈلاتا ہے ، تو تم سب کے سب (اپنے گھروں ) کے دروازے بند کر لیتے ہو اور اس طرح اندر دبک جاتے ہو ج سطرح گوہ اپنے سُوراخ میں اور بجو اپنے بھٹ میں جس کے تمہارے ایسے مدد گار ہوں۔ اسے تو ذلیل ہی ہونا ہے اور جس پر تم (تیر کی طرح ) پھینکے جاؤ تو گویا اس پر ایسا تیر پھینکا گیا جس کا سوفار بھی شکستہ ، اور پیکان بھی ٹوٹا ہوا ہے ۔ خدا کی قسم (گھروں کے ) صحن میں تو تم بڑی تعداد میں نظر آتے ہو۔ لیکن جھنڈوں کے نیچے تھوڑے سے ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کس چیز سے تمہاری اصلاح اور کس چیز سے تمہاری کجروی کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن میں اپنے نفس کو بگاڑ کر تمہاری اصلاح کرنا نہیں چاہتا ۔ خدا تمہاری چہروں کو بے آبرو کرے، اور تمہیں بد نصیب کرے جیسی تم باطل سے شناسائی رکھتے ہو، ویسی حق سے تمہاری جان پہچان نہیں اور جتنا حق کو مٹاتے ہو۔ باطل اتنا تم سے نہیں دبایاجاتا.