جب(۱) آپ نے جنگ خوارج کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا، تو ایک شخص نے کہا کہ:۔
یا امیر
الموٴمنین اگر آپ اس وقت نکلے تو علمِ نجوم کی رُو سے
مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اپنے مقصد
میں کامیاب و کامران نہیں ہو سکیں گے ۔ جس پر
آپ نے فرمایا کہ:۔
کیاتمہارا یہ خیال ہے کہ تم اس گھڑی کا پتہ دیتے ہو کہ اگر
کوئی اس میں نکلے تو اس کے لئے
کوئی بُرائی نہ ہو گی اور اس لمحے سے خبردار کرتے ہو، کہ اگر کوئی
اس میں نکلے تو اسے نقصان درپیش ہو گا، تو جس نے اسے صحیح
سمجھا، اس نے قرآن کو جھٹلایا اور مقصد
کے پانے اور مصیبت کے دوُر کرنے میں اللہ کی مدد سے بے
نیاز ہو گیا، تم اپنی
ان باتوں سے یہ چاہتے ہو کہ جو تمہارے کہے پر عمل کر ے وہ اللہ کو چھوڑ
کر تمہارے گُن گائے ۔ اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اس ساعت کا
پتہ دیا، کہ جو اس کے لئے فائدہ کا سبب
، اور نقصان سے بچاؤ کا ذریعہ بنی۔ (پھر آپ لوگوں
کی طرف متوجہ ہوئے ، اور
فرمایا):۔
اے لوگو! نجومکے سیکھنے سے پرہیز کرو، مگر اتناکہ جس سےخشکی اور تری میں راستے معلوم کر سکو۔ اس لئے کہ نجوم کا سیکھنا کہانت اور غیب گوئی کی طرف لے جاتا ہے اور منجم حکم میں مثل کاہن کے ہے اور کاہن مثل ساھر کے ہے اور ساحر مثل کافر کے ہے، اور کافر کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ بس اللہ کا نام لے کرچل کھڑے ہو۔
(۱)
جب
امیرالموٴمنین ﷼ کی
شورشوں کو دبانے کے لئے نہروان کا ارادہ کیا، تو عفیف ابن قیس نے آپ سے عرض کیا
کہ یہ ساعت اچھی نہیں ہے، اگر آپ ﷼ اس وقت روانہ ہوئے تو فتح و ظفر مندی
کے بجائے شکست و ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ مگر حضرت نے اس کی بات کو درخورِ
اعتنانہ سمجھا اور اسی وقت لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ اور
نتیجہ میں
خوارج
کو ایسی شکست ف
اش ہوئی کہ ان کے چار ہزار جنگجوؤں میں سے
صرف نو آدمی بھاگ کر اپنی جان بچا سکے، اور باقی کا صفایا
ہوگیا۔
امیرالموٴمنین﷼ نے نجومکے غلط و نادرستہونے پر تین طرح سے استدلال فرمایا ہے ۔ پہلے یہ کہ اگر
منجم کی باتوں کی درست مان لیا جائے، تو قرآن کو جھٹلانا پڑے
گا۔ کیونکہ منجم ستاروں کو دیکھ کر غیب میں چھپی
ہوئی چیزوں کے جاننے کا ادعا کرتا ہے ، اور قرآن یہ کہتا
ہے کہ:۔
آسمانو زمین کے بسنے والوں میں سے کوئی بھی غیب
نہیں جانتا سوائے اللہ کے ۔
دوسرےیہ کہ وہ اپنے زعمِ ناقص میں یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ
مستقبل کے حالات سے
مطلع
ہو کر اپنے نفع و نقصان کو جان سکتا ہے ، تو وہ اللہ کی طرف رجوع ہونے اور
اس سے مدد
چاہنے میں اپنے کو بے نیاز سمجھے گا۔ اور یہ اللہ سے بے
اعتنائی اور اس کے
مقابلہ
میں خود اعتمادی ایک طرح کازندقہ و الحاد ہے ۔ جو اللہ سے
اس کے توقعات ختم
کر
دیتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اگر وہ کسی مقصد میں
کامیاب ہو گا تو اس کامیابی کو اپنے علم کا نتیجہ قرار دے گا۔ جس سے وہ اللہ کے
بجائے خود اپنے نفس کو سراہے گا۔ اور اس سلسلہ میں جن کی راہنمائی کرے گا۔
ان سے بھی یہی چاہے گا کہ وہ اللہ کے شکر گذار ہونے کے بجائے اس کے
شکر گزار ہوں ۔ یہ تمام چیزیں فنِ نجوم میں اس حد
تک مداخلت سے
نہیں
روکتیں، جس حد تک نجوم کی تاثیر کو منجانب اللہ دواؤں کے
طبعی اثر کے قبیل سے مانا جائے ۔ جس میں قدرت الٰہی
پھر بھی موانع پیدا کر کے سدِ راہ ہو سکتی ہے ۔ ہمارے اکثر علماءِ
اسلام جو علمِ نجوم میں مہارت حاصل کئے ہوئے تھے ، وہ اسی بناء پر صحیح ہے کہ
وہ اس کے نتائج کو قطعی نہ سمجھتے تھے ۔