خطبہ ۷۸

جنگِ جمل سے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کی مذمت میں فرمای

اے لوگو ! عورتیں ایمان میںناقص ، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں ، نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے آدھا ہوتا ہے ۔ بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ آگے بڑھ کر وہ بری باتوں منوانے پر نہ اتر آئیں۔

(۱) یہ خطبہ جنگ جمل کی تباہ کاریوں کے بعد ارشاد فرمیا، اور چونکہ اس جنگ کی ہلاکت آفرینیاں ایک عورت کے حکم پر آنکھ بند کر کے چل پڑنے کا نتیجہ تھیں ۔ اس لئے اس میں ان کے فطری نقائص اور ان کے وجوو و اسباب کا ذکر فرمایا ہے ۔ چنانچہ ان کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ہر مہینہ میں چند دنوں کے لئے نماز و روزہ سے دستبردار ہونا پڑت اہے اور یہ اعمال سے علیحدگی ان کے ایمان کے نقص کی دلیل ہے ۔ اگرچہ ایمان کے حقیقی معنی تصدیقِ قلبی و اعتقاد باطنی کے ہیں ۔ مگر بطورِ مجاز عمل و کردار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چونکہ اعمال ایمان کا آئینہ ہوتے ہیں ، لہذا اعمال کو بھی ایمان کا جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ امام علی ابنِ موسیٰ الرضا سے مروی ہے کہ:۔
ایماندل سے تصدیق ، زبان سے اقرار ، اور اعضا سے عمل کرنے کا نام ہے ۔
دوسریکمزوری یہ ہے کہ ان کی فطری استعداد عقلی تصرفات کو پورے طور سے قبول کرنے سے قاصر ہوتی ہے ۔ لہذا ان کے میدان عمل کی وسعت ہی کے لحاظ سے فطرت نے ان کو قوائے عقلیہ دیئے ہیں۔ جو حملِ ولادت ، رضاعت ، تربیتِ اولاد اور امُورِ خانہ داری میں ان کی رہنمائی کر سکیں اور اسی ذہنی و عقلی کمزوری کی بناء پر ان کی گواہی کو مرد کی گواہی کا درجہ نہیں دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ‘ کا ارشاد ہے :۔
اپنےمردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی۔
تیسریکمزوری یہ ہے کہ ان کی میراث کا حصہ مرد کے حصہ میراث سے نصف ہوتا ہے ۔ جیساکہ قرآنِ کریم میں ہے :۔
خداتمہاریاولادکے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا۔“
اسسے عورت کی کمزوری کا پتہ یوں چلتا ہے کہ میراث میں اس کا حصہ نصف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کفالت کا بار مرد ہوتا ہے ۔ تو جب مرد کی حیثیت ایک کفیل و نگران کی قرار پائی ، تو نگرانی و سرپرستی کی محتاج صنف اپنی کمزوری کی خود آئینہ دار ہو گی۔
انکی فطری کمزوریوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند پَیروی اور غلط اطاعت کے مفاسد کا ذکر کرتے ہیں کہ بُری بات تو خیر بُری ہوتی ہی ہے ۔ اگر وہ کسی اچھی بات کے لئے بھی کہیں، تو اسے اس طرح انجام نہیں دینا چاہئے کہ انہیں یہ خیال ہونے لگے کہ یہ ان کی خاطر اور رضا جوئی کے لئے بجا لائی گئی ہے ۔ بلکہ اس طرح کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ اس اچھے کام کو اس کے اچھا ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے اس میں ان کی خواہش و رضامندی کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ اور اگر ان کو یہ وہم بھی ہو گیا کہ اس میں ان کی خوشنودی کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو وہ ہاتھ پکڑتے ہوئے پہنچ پکڑنے پر اتر جائیں گی ۔ اور یہ چاہنے لگیں گی کہ ان کی ہر بری سے بری بات کے آگے سر جھکایا جائے ۔ جس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہو گا۔ امیر الموٴمنین علیہ السلام کے اس ارشاد کے متعلق علامہ محمد عبدہ‘ تحریر کرتے ہیں کہ :۔
امیر الموٴمنین علیہ السلام نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ طویل صدیوں کے تجربے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔“