میں اس وارِ دنیا کی
حالت کیا بینا کرو ں کہ جس کی ابتداء رنج اور انتہا فناہ ہو۔
جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو ۔ یہاں
کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ ، اور فقیر
ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے جو دنیا کے لئے سعی و کوشش میںلگا
رہتا ہے ۔ اس کی دنیوی آرزوئیں بڑھتی
ہی جاتی ہیں۔ اور جو کوششوں سے ہاتھ
اٹھا
لیتا ہے ۔ دنیا خود ہی اس سے ساز گار ہو جاتی
ہے۔ جو شخص دنیا کو عبرتوںکا
آئینہ
سمجھ کر دیکھتا ہے ، تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا
کر دیتی ہے ، اور جو صرف دنیا ہی
پر نظر رکھتا ہے ۔ تو وہ اسے کو رونا بینا بنا دیتی ہے
۔
(علامہ رضیکہتے ہیں کہ اگر کوئی غورو فکر کرنے والا حضرت کے اس ارشاد ”من ابصر
بہا بصرتہ“ جو
اس دنیا کو عبرت حاصل کرنے کے لئے دیکھے، تو وہ اس
میںعجیب و غریب معنی اور گہرے
مطالب پائے گا
کہ نہ اس کی انتہا تک پہنچ اور نہ اس کے گہراؤ تک رسائی ہو سکتی
ہے خصوصاً
اس کے ساتھ یہ جملہ و من البصر الیھا اعمة اور جر صرف دنیا کو
دیکھتا رہے ، تو وہ اس سے آنکھوں
کی روشنی چھین لیتی ہے “۔ بھلا ملا یا
جائے تو ابصر بھا اور البصر الیھا
میں واضح فرق محسوس کرے گا اور حیرت سے اس کی
آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ
جائیں
گے )۔
(۱)
دنیا
کی ابتداء مشقت اورانتہا ہلاکت ہے ۔ ” یہ جملہ اسی
حقیقت کا ترجمان ہے جسے قرآن نے لقد خلقنا الانسان فی کبد۔ (ہم
نے انسان کو تعب و مشقت میں رہنے والا پید اکیا ہے ) کی لفظوں میںپیش
کیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دورِ حیات
کی کروٹیں
شکم
مادر کی تنگنائیوں سے لے کر فضائے عالم کی وسعتوں تک کہیں
بھی سکون قرار سے
ہمکنار
نہیں ہوتیں۔ جب زندگی سے آشنا ہوتا ہے ، تو وہ
اپنے کو ایک ایسے تہرہ و تار زندان مین جکڑا ہوا پاتا ہے کہ جہاں نہ ہاتھ
پَیروں کو جنبش دے سکتا ہے ، اور نہ پہلو بدل سکتا ہے ۔ اور جب ان جکڑ بندیوں سے
چھٹکارا پا کر دنیا میں آتا ہے تو مخلتف صعوبتوں کے دَور سے اسے گریز کرنا پڑتا ہے
۔ ابتداء میں نہ زبان سے بول سکتا ہے کہ اپنے دُکھ دَرد کو بیان کر سکے ، اور نہ اعضا ٘ و جوارح و سکت رکھتا
ہے کہ اپنی
ضرورتوں کو پورا کر سکے ۔ صرف اس کی دبی ہوئی
سسکیاں اور اشکوں کی روانیاں ہی اس کی ضروریات کا اظہار اور اس کے رنج ق قلق
کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اس دَور کے گزرنے کے بعد جب
تعلیم و تربیت کی منزل میں قدم رکھتا ہے ، تو بات بات پر
ڈانٹ ڈپٹ کی
آوازیں
اس کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ ہر وقت خوف زدہ اور سہما ہوا
دکھائی دیتا ہے ۔ جب اس دورِ محکومیت سے نجات پاتا ہے تو اہل و
عیال کی بندشوں اور معاش کی فکروں میں گھر جاتا ہے ۔
جہاں کبھی ہم پیشہ رقیبوں سے چپقلش ، کبھی دشمنوں سے
ٹکراؤں ، کبھی
حوادثِ
زمانہ کا مقابلہ، کبھی بیماریوں کا حملہ اور کبھی اولاد
کا صدمہ اسے درپیش
رہتا
ہے ، یہاں تک کہ بڑھاپا لاچاریوں اور بے بسیوں کے پیغام
لے کر آ پہنچتا ہے
اور
آخر دل میں حسرت و اندوہ لئے ہوئے اس جہانِ فانی کو خیر
باد کہہ دیتا ہے ۔
پھراس دنیا کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کی حلال چیزوں
میں حساب کی موشگافیاں اور حرام چیزوں میں عقاب کی
سختیاں ہیں جس سے خوشگوار لذتیں بھی اس کےکام و دہن
میں تلخی
پیدا کر دیتی ہیں۔ اگر اس دنیا میں مال
و دولت کی فراوانی ہو تا انسان ایک ایسے چکر میں پڑ جاتا ہے کہ جس سے راحت و سکون
کو کھو بیٹھتا ہے اور اگر تنگدستی و ناداری ہو تو دولت کے غم میں گھلا جاتا ہے ،
اور جو اس دنیا کے لئے تگ و دَو میں لگا رہتا ہے ۔ اس کی آرزوؤں کی
کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ ایک امید بر
آتی ہے ، تو
دوسری
آرزو کو پورا کرنے کی ہوس دامن گیر ہوتی ہے ۔ اس
دنیا کی مثال سایہ کی طرح ہے کہ اگر اس کے پیچھے دوڑو وہ آگے بھاگتا ہے
۔ اور اگر اس سے دامن چھڑا کر پیچھے بھاگو تو وہ پیچھے دوڑنے لگتا ہے ۔
یوُنہی جو اس دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتا ، تو وہ خود اس کے
پیچھے دوڑتی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جر حرص و ہوس کے پھندوں
کو توڑ کر بے جا
دنیا
طلبی سے دست کش ہو جاتا ہے ۔ دنیا اسے بھی حاصل
ہوتی اور وہ اس سے محروم نہیں کر دیاجاتا ۔ لہذا جو شخص دنیا کی
سطح سے بلند ہو کر دنیا کو دیکھے اور اس کے احوال و واردات سے عبرت
حاصل کرے۔ اور اس کی نیرنگیوں اور بو قلمونیوں سے
صانِع عالم کی
قدرت
، تدبیر و حکمت اور رحمت و راٴفت اور اس کی ربو بیت کا
پتہ لگائے ، تو اس کی
آنکھیں
روشن و بینا ہو جائیں گی ۔ اور جو شخص سرف دنیا
کی رنگینیوں میں کھو یا رہتا ہے ۔ اور اس کی آرائشوں پر مَر
مٹتا ہے ، تو وہ دیدئہ دل کی روشنی کھول کر اس کی
اندھیاریوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے ۔ اسی لئے
قدرت نے ایسی نظروں سے دنیا کو دیکھنے سے منع فرمایا ہے ۔
کچھلوگوں کو ہم نے زندگانی دنیا کی شادابی سے بہرہ مند کیا ہےتاکہ ان کو اس سے آزمائیں ۔ تم اس متاعِ دنیا کی
طرف نظر اٹھا کر نہ
دیکھو۔