خطبہ۸۱

اس خطبہ کا نام خطبئہ غراء ہے جو امیر الموٴمنین علیہ السلام کے عجیب و غریب خطبوں میں شمار ہوتا ہے

تما حمد اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کے اعتبار سے بلند، اپنی بخشش کے لحاظ سے قریب ہے ۔ ہر نفع و زیادتی کا عطا کرنے والا، اور ہر مصیبت و ابتلاء کا دور کرنے والا ہے ۔ میں اس کے کرم کی نوازشوں اور نعمتوں کی فراوانیوں کی بناء پر اس کی حمدو ثناء کرتا ہوں میں اس پر ایمان رکھتا ہوں ۔ چونکہ وہ اوّل و ظاہر ہے اور اس سے ہدایت چاہتا ہوں ۔ چونکہ وہ قریب تر اور ہادی ہے اور اس سے مدد چاہتا ہوں، چونکہ وُہ قادر و توانا ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں، چونکہ وہ ہر طرح کی کفایت اور اعنات کرنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے عبد و رسول ہیں ۔ جنہیں احکام کے نفاذ اور حجت کے اتما م اور عبرتناک و اقاعات پیش کر کے پہلے سے متنبہ کر دینے کے لئے بھیجا۔
خدا کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کیوصیت کرتا ہوں۔ جس نے تمہارے ( سمجھانے کے ) لئےمثالیں پیش کیں اور تمہاری زندگی کے اوقات مقرر کئے ۔تمہیں(۱) (مختلف) لباسوں ڈھانپا اور تمہارے رزق کا سامان فراواں کیا۔ اس نے تمہارا پورا جائزہ لے رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا مقرر کی ہے اور تمہیں اپنی وسیع نعمتوں اور فراخ عطیوں سے نوازا اور موٴثر دلیلوں سے تمہیں متنبہ کر دیا ہے ۔ وہ ایک ایک کر کے تمہیں گنِ چکا ہے اور اس مقام آزمائش و محلِ عبرت میں اس نے تمہاری عمر یں مقرر کر دی ہیں اس میں تمہاری آزمائش ہے اور اس کی درآمد و برآمد پر تمہارا حساب ہو گا۔ اس دنیا کا گھاٹ گندلا اور سیراب ہونے کی جگہ کیچڑ سے بھری ہوئی ہے ۔ اس کا ظاہر خوشنماء اور باطن تباہ کن ہے ۔ یہ ایک مٹ جانے والا دھوکا، غروب ہو جانے والی روشنی ، ڈھل جانے والا سایہ اور جھکا ہوا ستون ہے ۔ جب اس سے نفرت کرنے والا اس دے دل لگا لیتا ہے ۔ اور اجنبی اس سے مطمئن ہو جاتا ہے ، تو یہ اپنے پیروں کو اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیتی ہے اور اس کے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تار قبر اوروحشت ناک منزل تک لے جاتی ہے کہ جہاں سے وہ اپنا ٹھکانا(جنت یا دوزخ دیکھ لے ، اور اپنے کئے کا نتیجہ پالے ۔ بعد میں آنے والوں کی حالت بھی اگلوں کی سی ہے ۔ نہ موت کانٹ چھانٹ سے منہ موڑتی ہے اور نہ باقی رہنے والے گناہ سے باز آتے ہیں۔ باہم ایک دوسرے کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے منزلِ منتہاؤ مقامِ فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے ، اور دنیا کی عمر تمام ہو جائے گی ، اور قیامت کا ہنگام آ جائے گا۔ تو اللہ سب (۲) کو قبر کے گوشوں ، پرندوں کے گھونسلوں ، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت گاہوں سے نکالے گا۔ گروہ درگروہ ، صامت و ساکت ، ایستادہ وصف بستہ امر الٰہی کی طرف بڑھتے ہوئے اور اپنء جائے بازگشت کی جانب دوڑتے ہوئے ۔ نگاہِ قدرت ان پر حاوی اور پُکارنے والے کی آواز ان سب کے کان میں آتی ہوئی ہو گی ۔ وہ ضعف و بے چارگی کا لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور عجزو بے کسی کی وجہ سے ذلت ان پر چھائی ہوئی ہو گی ۔ حیلے اور ترکیبیں غائب اور امیدیں منقطع ہو چکی ہوں گی ۔ دل مایوُسا نہ خاموشیوں کے ساتھ بیٹھتے ہوں گے ۔ آوازیں دب کر خاموش ہو جائیں گی۔ پسینہ منہ میں پھندا ڈال دے گا۔ وحشت بڑھ جائے گی ، اور جب انہیں آخری فیصلہ سنانے ، عملوں کا معاوضہ دینے ، اور عذاب و عقوبت اور اجرو ثواب کے لئے بُلایا جائے گا، تو پکارنے والے کی گر جدار آواز سے کان لرز اٹھیں گے ۔ یہ بندے اس کے اقتدار کا ثبوت دینے کے لئے وجود میں آئے ہیں۔ اور غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے ۔ نزو کے وقت انف کی روحیں قبض کر لی جاتی ہیں اور قبروں میں دکھ دیئے جاتے ہیں۔ (جہاں) یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور(پھر) قبروں سے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور عملوں کے مطابق جزا پائیں گے اور سب کو الگ الگ حساب دینا ہو گا۔ انہیں دنیا میں رہتے ہوئے گلو خلاصی کا موقع دیا گیا تھا۔ اور سیدھا راستہ بھی دکھایا جا چکا تھا، اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مہلت بھی دی گئی تھی ۔ شک و شبہات کی تاریکیاں ان سے دُور کر دی گئی تھیں۔ اور اس مدتِ حیات و آماجگاہ عمل میں انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ آخرت میں دوڑ لگانے کی تیاری ، اور سوچ بچار سے مقصد کی تلاش کر لیں اور اتنی مہلت پائیں، جتنی فوائد کے حاص کرنے اور اپنی آئندہ منزل کا سامان کرنے کے لئے ضروری ہے ۔ یہ کتنی ہی صحیح مثالیں اور شفا بخش نصیحتیں ہیں۔ بشرطیکہ انہیںپاکیزہ دل اور سننے والے کان اور مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہوں۔ اللہ سے ڈرو، اس شخص کے مانند جس نے نصیحت کی باتوں کس سُنا تو جھک گیا۔ گناہ کیا تو اس کا اعتراف کیا ڈرا، تو عمل کیا ۔ خوف کی اتو نیکیوں کی طرف بڑھا قیامت کا یقین کیا، تو اچھے اعمال بجا لایا ۔ عبرتیں دلائی گئیں ، تو اس نے عبرت حاصل کی اور خوف دلایا گیا تو بُرائیوں سے رُک گیا ۔ اور (اللہ کی پکار پر) لبیک کہی تو پھر اس کی طرف رخ موڑ لیا۔ اور اس کی طرف توبہ و انابت کے ساتھ متوجہ ہوا (اگلوں کی ) پوری پوری پیروی کی اور حق کے دکھائے جانے پر اسے دیکھ لیا۔ ایسا شخص طلبِ حق کے لئے سرگرمِ عمل رہا، اور دنیا کے بندھنوں سے ) چھوٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ذخیرہ فراہم کیا،ا ور باطن کو پاک و صاف رکھا، اور آخرت کا گھر آباد کر لیا۔ سفرِ آخرت اور اس کی راہِ نوردی کے لئے اور احتیاج کے مواقع اور فقر فاقہ کے مقامات کے پیشِ نظر اس نے زاد اپنے ہمراہ بار کر لیا ہے ۔ اللہ کے بندو! اپنے پیدا ہونے کی غرض و غایت کے پیش نظر اس سے ڈرتے رہو، اور جس حد تک اس نے تمہیں ڈرایا ہے ۔ اس حد تک اس سے خوف کھاتے رہو، اور اس سے اس کے سچے وعدے کا ایفاء چاہتے ہوئے اور ہولِ قیامت سے ڈرتے ہوئے ان چیزوں کا استحقاق پیدا کرو، جو اس نے تمہارے لئے مہیا کر رکھی ہیں۔
اسی خطبہ میں کے یہبھی الفاظ ہیں:۔ اس نے تمہارے لئے کان بنائے تاکہ ضروری اور اہم چیزوں کو سن کر محفوط رکھیں ، اور اس نے تمہیں آنکھیں دی ہیں تاکہ وہ کوری و بے بصری سے نکل کر روشن و ضیاء بار ہوں اور جسم کے مختلف حصے جن میں سے ہر ایک میں بہت سے اعضاء ہیں جن کے پیچ و خم ان کی مناسبت سے ہیں اپنی صورتوں کی ترکیب اور عمر کی مدتوں کے تناسب کے ساتھ ساتھ ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنے ضروریات کو پرا کر رہے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ ہیں جو اپنی غذائے روحانی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ علاوہ دیگر بڑی نعمتوں اور احسان مند بنانیوالی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے اور اس نے تمہاری عمریں مقرر کر دی ہیں جنہیں تم سے مخفی رکھا ہے اور گذشتہ لوگوں کے حالات و واقعات سے تمہارے لئے عبرت اندوزی کے مواقع باقی رکھ چھوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لذت اندوز تھے اور کھلے بندوں آزاد پھرتے تھے ۔ کس طرح امیدوں کے بر آنے سے پہلے موت نے انہیں جا لیا اور عمر کے ہاتھ نے انہیں ان امیدوں سے دُور کر دیا۔ اس وقت انہوں نے کچھ سامان نہ کیا کہ جب بدن تندرست تھے ، اور اس وقت عبرت و نصیحت حاصل نہ کی کہ جب جوانی کا دَور تھا۔ کیا یہ بھر پور جوانی والے کمر جھکا دینے والے بڑھاپے کے منتظر ہیں اور صحت کی تراتازگی والے ٹوٹ پڑنے والی بیماریوں کے انتظار میں ہیں۔ اور یہ زندگی والے فنا کی گھڑیاں دیکھ رہے ہیں؟ جب چل چلاؤ کا ہنگام نزدیک اور کوچ قریب ہو گا اور (بسترِ مرگ پر) قلق و اضطراب کی بے قراریاں اور سوزو تپش کی بے چنیناں ، اور لعابِ دہن کے پھندے ہونگے اور عزیز و اقارب اور اولاد احباب سے مدد کے لئے فریاد کرتے ہوئے ادھر ادھر کروٹیں بدلنے کا وقت آ گیا ہو گا، تو کیا قریبیوں نے موت کو روک لیا، یا رونے والیوں کے (رونے نے) کچھ فائدہ پہنچایا ۔ اسے تو قبرستان میں قبر کے ایک تنگ گوشے کے اندر جکڑ باندھ کر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ سانپ اور بچھوؤں نے اس کی جلد کو چھلنی کر دیا ہے ۔ اور (وہاں کی ) پامالیوں نے اس کی تروتازگی کو فنا کر دیا ہے ۔ آندھیوں نے اس کے آثار مٹا ڈالے اور حادثات نے اس کے نشانات تک محو کر دیئے ۔ ترو تازہ جسم لاغر و پژ مُردہ ہوگئے ۔ ہڈیاں گل سڑ گئیں اور رُوحیں (گناہ کے ) بار گراں کے نیچے دبی پڑی ہیں اور غیب کی خیروں پر یقین کر چکی ہیں۔ لیکن ان کے لئے اب نہ اچھے عملوںاضافہ کی کوئی صورت ، اور نہ بد اعمالیوں سے توبہ کی کچھ گنجائش ہے ۔ کیا تم انہی مر چکنے والوں کے بیٹے، باپ ، بھائی اور قریبی نہیں ہو۔ آخر تمہیں بھی تو ہوُ بُہو انہی کے سے حالات کا سامنا کرنا اور انہی کی راہ پر چلنا ہے ، اور انہی کی شاہراہ پر گزرنا ہے ۔ مگر دل اب بھی خطو سعادت سے بے رغبت ، اور ہدایت سے بے پروا ہیں اور غلط میدان میں جا رہے ہیں۔ گویا انکے علاوہ کوئی اور مراد و مخاطب ہے ، اور گویا ان کے لئے دنیا سمیٹ لینا ہی صحیح راستہ ہے ۔ یاد رکھو کہ تمہیں گزرنا ہے صراط پر اور وہاں کی ایسی جگہوں پر جہاں قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ اور پَیر پھسل جاتے ہیں ، اور قدم قدم پر خوف و دہشت کے خطرات ہیں۔ اللہ سے اس طرح ڈرو، جس طرح وہ مردِ زیرک و دانا ڈرتا ہے کہ جس کے دل کو (عقبیٰ کی) سوچ بچارنے اور چیزوں سے غافل کر دیا ہو اور خوف نے اس کے بدن کو تعب و کلفت میں ڈال دیا ہو، اور نمازِ شب نے اس کی تھوڑی بہت نیند کو بھی بیداری سے بدل دیا ہو۔ اور امید ثواب میں اس کے دن کی تپتی ہوئی دو پہریں پیاس میںگزرتی ہوں اور زہدو درع نے اس کی خواہشوں کو روک دیا ہو۔ اور ذکرِ الٰہی سے اس کی زبان پر وقت حرکت میں ہو۔ خطروں کے آنے سے پہلے اس نے خوف کھایا ہو اور کٹی پھٹی راہوں سے بچتا ہوا سیدھی راہ پر ہو لیا ہو، اور راہِ مقصود پر آنے کے لئے سیدھا راستہ اختیار کیا ہو ، نہ خوش فریبیوں نے اس میں پیچ و تاب پیدا کیا ہو، اور نہ مشتبہ باتوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہو۔ بشارت کی خوشیوں اور نعمت کی آسائشوں کو پا کر میٹھی نیند سوتا ہے ۔ اور امن چین سے دن گزارتا ہے ۔ وہ دنیا کی عبور گاہ سے قابلِ تعریف سیرت کے ساتھ گذر گیا، اور آخرت کی منزل پر سعادتوں کے ساتھ پہنچا (وہاں کے) خطروں کے پیش ِ نظر اس نے نیکیوں کی طرف ودمف بڑھایا اور اچھائیوں کے لئے اس وقفہٴ حیات میں تیز گام چلا۔ طلبِ آخرت میں دلجمعی و رغبت سے بڑھتا گیا اور برائیوں سے بھاگتا رہا اور آج کے دن کل کا خیال رکھا اور پہلے سے اپنے آگے کی ضرورتوں پر نظر رکھی ۔ بخشش و عطا کے لئے جنت اور عقاب و عذاب کے لئے دوزخ سے بڑھ کر کیا ہوگا، اور انتقام لینے اور مدد کر نے کے لئے اللہ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے اور سندو حجت بن کر اپنے خلاف سامنے آنے کے لئے قرآن سے بڑھ کر کیا ہے ؟ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی چیزوں کے ذریعے عذر تراشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی، اور سیدھی راہ دکھا کر حجت تمام کر دی ہے اور تمہیں اس دشمن سے ہوشیار کر دیا ہے جو چپکے سے سینوں میں نفوذ کر جاتا ہے اور کانا پھوسی کرتے ہوئے کانوںمیںپھونک دیتا ہے ۔ چنانچہ وہ گمراہ کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے اور وعدے کر کے طفل تسلیوں سے ڈھارش بند ھائے رکھتا ہے ۔ (پہلے تو) بڑے سے بڑے جوموں کو سنوار کر سامنے لاتا ہے اور بڑے بڑے مہلک گناہوں کی ہلکا اور سبک کر کے دکھاتا ہے ۔ اور جب بہکائے ہوئے نفس کو گمراہی کے دھوئے پر لگا دیتا ہے اور اسے اپنے پھندوں میں اچھی طرح جکڑ لیتا ہے تو جسے سجایا تھا اس کو برا کہنے لگتا ہے ، اور جسے ہلکا اور سبک دکھایا تھا اس کی گراں باری و اہمیت بتا تا ہے ۔ اور جس سے مطمئن اور بے خوف کیا تھا۔ اس سے ڈرانے لگتا ہے ۔ (اسی خطبے کا ایک جُز یہ ہے کہ جس میںانسان کی پیدائش کا بیان ہے )۔
یا پھر اسے دیکھو، جسے (اللہ نے) ماں کےپیٹ کی اندھیاریوں اور پردے کی اندرونی تہوں میں بنایا۔ جوایک (جراثیم حیات) سے چھلکتا ہوا نطفہ اور بے شکل و صورت منجمد خون تھا۔ (پھر انسانی خط و خال کےسانچے میں ڈھل کر، جنین بنا اور (پھر) طفلِ شیر خوار اور(پھر حد رضاعت سے نکل کر ، طفل (نوخیز) اور (پھر) پورا پورا جو ان ہوا۔ اللہ نے اسے نگہداشت کرنے والا دل اور بولنےوالی زبان اور دیکھنے والی آنکھیںدیں تاکہ عبرت حاصل کرتے ہوئے کچھ سمجھے بوُجھے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے مگر ہوا یہ کہ جب اس (کے اعضاء) میں توازن اور اعتدال پیدا ہو گیا اور اس کا قدو قامت اپنی بلندی پر پہنچ گیا تو غرور و سرمستی میں آخر (ہدایت سے ) بھڑک اٹھا، اور اندھا دھند بھٹکنے لگا۔ اس طرح کہ رندی و ہوس ناکی کے ڈول بھر بھر کے کھینچ رہا تھا اور نشاط و طرب کی کیفیتوں اور ہوس بازی کی تمناؤں کو پوُرا کرنے میں جان کھپائے ہوئے تھا۔ نہ کسی مصیبت کو خاطر میں لاتا تھا۔ نہ کسی ڈر اندیشے کا اثر لیتا تھا۔ آخر انہی شوریدگیوں میں غافل و مدہوش حالت میں مر گیا اور جو تھوڑی بہت زندگی تھی اسے بیہودگیوں میں گزار گیا۔ نہ ثواب کمایا نہ کوئی فریضہ پورا کیا۔ ابھی وہ باقی ماندہ سر کشیوں کی راہ ہی میں تھا کہ موت لانے والی بیماریاں اس پو ٹوٹ پڑیں کہ وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا اور اس نے رات اندوہ و مصیبت کی کلفتوں اور درود آلام کی سختیوں میں جاگتے ہوئے اس طرح گزار دی کہ وہ حقیقی بھائی ، مہربان باپ، بے چینی سے فریاد کرنیوالی ماں اور بیقراری سے سینہ کوٹنے والی بہن کے سامنے سکرات کی مدہوشیوں اور سخت بدحواسیوں اور درد ناک چیخوں اور سانس اکھڑنے کی بے چینیوں اور نزع کی درماندہ کر دینے والی شدتوں میں پڑا ہوا تھا۔ پھر اسے کفن میں مامرادی کے عالم میں لپیٹ دیا گیا اور وہ بُڑے چپکے سے بلا مزاحمت دوسروں کی نقل و حرکت کا پابند رہا۔ پھر اسے تختے پر ڈالا گیا ۔ اس عالم میں کہ وہ محنت و مشقت سے خستہ حال ، اور بیماریوں کے سبب سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اسے سہارا دینے والے نوجوانوں ، اور تعاون کرنے والے بھائیوں نے کاندھا دے کر پردیس کے گھر تک پہنچا دیا کہ جہاں میل ملاقات کے سارے سلسلے ٹوٹ جاتے ہیں اور جب مشایعت کرنیوالے اور مصیبت زدہ (عزیز و اقارب) پلٹ آئے، تو اسے قبر کے گڑھے میں اٹھا کر بٹھا دیا گیا۔ فرشتوں کے سوال و جواب کے واسطے سوال کی دہشتوں اور امتحان کی ٹھوکریں کھانے کے لئے اور پھر وہاں کی سب سے بڑی آفت کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی اور جہنم میں داخل ہونا ہے اور دوزخ کی لپٹیں ، اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کی تیزیاں ہیں نہ اس میں راحت کے لئے کوئی وقفہ ہے اور نہ سکون و راحت کے لئے کچھ دیر کے لئے بچاؤ ہے ۔ نہ روکنے والی کوئی قوت ہے ، اور نہ اب سکون دینے والی موت، نہ تکلیف کو بھلا دینے لے لئے نیند، بلکہ وہ ہر وقت قسم قسم کی موتوں اور گھڑی گھڑی کے (نت نئے) عذابوں میں ہو گا۔ ہم اللہ ہی سے پناہ کے خواستگا ر ہیں۔
اللہ کے بندو! وہ لوگ کہاںہیں جنہیں عمریں دی گئیں تو وہ نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور انہیں بتایا گیا تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور وقت دیا گیا تو انہوں نے وقت غفلت میںگزار دیا ، اور صحیح و سالم رکھے گئے تو اس نعمت کو بھول گئے ۔ انہیں لمبی مہلت دی گئی تھی ، اچھی اچھی چیزیں بھی انہیں بخشی گئی تھیں ، درد ناک عذاب سے انہیں ڈرایا بھی گیا تھا اور بڑی چیزوں کے ان سے وعدے بھی کئے گئے تھے ۔ (تو اب تم ہی) ورطئہ ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی خطاؤں سے بچتے رہو۔
اے چشم، گوش رکھنے والو!اے صحت و ثروت والو! کیا بچاؤ کی کوئی جگہ یا چھٹکارے کی کوئی گنجائش ہے ؟ یا کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانا ہے ؟ بھاگ نکلنے کا موقع یا پھر دنیا میںپلٹ کر آنے کی کوئی صورت ہے ؟ اگر نہیں ہے تو پھر کہاں بھٹک رہے ہو، اور کدھر کا رخ کئے ہوئے ہو، یا کن چیزوں کے قریب میں آگئے ہو؟ حالانکہ اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم میں سے ہر ایک کا حصہ اپنے قد بھر کا ٹکڑا ہی تو ہے کہ جس میں وہ مٹی سے اٹا ہوا رخسار کے بَل پڑا ہوگا۔ یہ ابھی غنیمت ہے خدا کے بندو ، جبکہ گردن میں پھندا نہیں پڑا ہوا ہے اور روح بھی آزاد ہے ۔ ہدایت حاصل کرنے کی فرصت اور جسموں کی راحت اور مجلسوں کے اجتماع اور زندگی کی بقایا مہلت ، اور از سرِنو اختیار سے کام لینے کے مواقع، اور توبہ کی گنجائش ، اور اطمینان کی حالت میں قبل اس کے کہ تنگی و ضیق میں پڑجائے اور خوف و اضمحلال اس پر چھا جائے اور قبل اس کے کہ موت آ جائے ، اور قادر و غالب کی گرفت اسے جکڑ لے ۔
سید رضی فرماتے ہیں کہ وارد ہوا ہے کہ جبحضرت نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ۔ تو بدنلرزنے لگے، رونگٹے کھڑی ہو گئے ۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، اور دل کانپ اتھے ۔ بعض لوگو اس خطبہ کو خطبئہ غرا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

(۱) خدا وندِ عالم نے ہر جاندار کو قدرتی لباس سے آراستہ کیا ہے جو سردی اور گرمی میں اس کے بچاؤ کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ کیس کو پَروں میں ڈھانپ رکھا ہے ۔ اور کسی کو اونی لبادے اڑھا دیئے ہیں۔ مگر انسانی شعور کی بلندی اور اس کی شرم و حیا کا جوہر دوسری مخلوقات سے امتیاز چاہتا ہے ۔ لہذا اس کے امتیاز کو برقرار رکھنے کے لئے اسے تن پوشی کے طریقے بتائے گئے ۔ اسی فطری تقاضے کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت آدم  کے بدن سے لباس اتروا لیا گیا، تو انہوں نے جنت کے پتوں سے اپنی ستر پوشی کر لی جیسا کہ قدرت کا ارشاد ہے :۔
جب ان دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھا تو اُن کے لباس اتر گئے ، اور بہشت کے پتوں کو جوڑ کر اپنے اوپرڈھانپنے لگے۔
یہ اس عتاب کا نتیجہ تھا،جو ترک ِ اولیٰ کی وجہ سے ہو ا تھا۔ تو جب لباس کا اُترو اناعتاب کا اظہار ہے تو اس کا پہنانا لطف و احسان ہوگا۔ اور یہ چونکہ انسان کے لئے مخصوصہے، اس لئے خصوسیت سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
(۲) مقصدیہ ہے کہ خدا وندِ عالم تمام مرنے والوں کو محشورکرے گا۔ خواہ وہ درندوں کا لقمہ، اور گوشت خور پرندوںکی غذا بن کر ان کے جزوِ بدن ہو چکے ہوں۔ اس سے ان حکماء کی ردّ مقسود ہے کہ جو المعدوم لایعاد(اعادہ معدوم محال ہے) کی بناء پر معاد جسمانی کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز فنا ہو کر معدوم ہو جائے ، وہ بعینہٖ دوبارہ پلٹ نہیں سکتی۔ لہذا کائنات کے مٹ جانے کے بعد کسی چیز کا دوبارہ پلٹ کر آنا ناممکن ہے ۔ لیکن یہ عقیدہ درست نہیں ۔ کیونکہ اجزاء کا منتشر و پاشاں ہو جانا ان کا نابود ہو جانا نہیں ہے کہ ان کے دوبارہ ترکیب پا کر یکجا ہونے کا اعادئہ معدوم سے تعبیر کیا جائے۔ بلکہ متفرق و پراگندہ اجزاء کسی نہ کسی شکل و صورت میں موجود رہتے ہیں۔ البتہ اس سلسلہ میں یہ اعتراض کچھ وزن رکھتا ہے کہ جب ہر شخص کو بعینہٖ اپنے اجزاء کے ساتھ محشور ہوتا ہے تو درصورتیکہ ایک انسان دوسرے انسان کو نگل چکا ہو گا۔ اور ایک اکے اجزائے بدن دوسرے کے اجزائے بن چکے ہوں گے ، تو ان دونوں کو انہی کے اجزائے بدن کے ساتھ کیوں کو پلٹا نا ممکن ہو گا۔ جب کہ اس سے کھا جانے والے انسان کے اجزاء میں کمی کا رونما ہونا ضروری ہے ۔
اس کا جواب متکلمین نےیہ دیا ہے کہ بدن میں کچھ اجزاء اصلی ہوتے ہیں، اور کچھ اجزاء غیر اصلی ، اصلی اجزاء ابتدائے عمر سے آخر عمر تک قائم و برقرار رہتے ہیں اور ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور حشرو نشر کا تعلق انہیں اصلی اجزاء سے ہے کہ جن کے پلٹا لینے سے کھا جانے والے انسان کے اجزاء میں کمی پیدا نہ ہو گی ۔