جب قتلِ عثمان کے بعد آپ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کیا گیا ، تو آپ نے فرمایا:۔
مجھے چھوڑ دو، اور (اس خلافت کے لیے ) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں۔ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں( دیکھو افق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ راستہ پہچناننے میں نہیں آتا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا۔ جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی شرزنش پر کان نہیں دھروں گا۔ اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہر سکتا ہے کہ جسے تم اپناامیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیوی مفاد کے لیے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے ۔“
(۱) جب حضرت عثمان کے قتل ہو جانے سے مسندِ حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین ع کی طرف اٹھنے لگیں جن کی سلامت روی اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں نہیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا چنانچہ متفقہ طور پر آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کے لیے اس طرح ٹوٹ پڑے ، جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دو سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں جیسا کہ موٴرخ طبری نے لکھا ہے ۔“
لوگامیرالموٴمنین پر ہجوم کر کے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں، اور پیغمبر کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیس آزمائش ہو رہی ہے ۔ “ مگرامیرالموٴمنیننے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر ان لوگوں نے شور مچایا اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ اسے ابوالحسن ﷼ آپ اسلام کی تباہی پر نظر نہیں کرتے ، فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے کیا آپ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے پھر بھی حضرت نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر کے بعد جو ماحول بن گیا تھا۔ اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے ذہنوں پر مادئیت کے خلاف چڑھ چکے ہیں۔ اور حکومت کو مقصد براریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ اب خلافت الٰہیہ کو بھی مادیٴت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے ۔ ان حالات میں ذہنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے گل جائیں گے ۔ ان تاثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کارفرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تاکہ کل اپنے مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہو گئی تھی ۔ اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ جیسا کہ خلافتِ اول کے متعلق حضرتِ عمر کا یہی نظر یہ تھا جو ان کے اس قول سے ظاہر ہے:۔
ابوبکر کی خلافت بے سوچے سمجھے ہو گئی ۔ مگر اللہ نے اس کے شر سے
بچا لیا
۔ اب اگر
کوئی ایسا کرے تو اسے قتل کر دینا۔
غرضجب اصرار حد سے بڑھا، تو اسموقعپر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ
اگر تم مجھے دنیاوی مقاصد کے لیے چاہتے ہو تو میں تمہارا
آلہ کار بننے کے لیے نہیں مجھے چھور دو، اور اس مقصد کے لیے
کسی اور کو منتخب کر لو جو تمہارے تو قعات پورے کر سکے ۔ تم
میرے
سابقہ
سیرت کو دیکھ چکے ہو کہ میں قرآن و سنت کے علاوہ
کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں اور نہ حکومت کے
لیے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھا ؤں گا۔ اگر تم کسی اور کو منتخب کر و گے تو میں ملکی
قوانین و آئیں حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک
پُر امن شہری کو کرنا چہائے میں نے کسی مرحلہ پر شورش برپا کر
کے مسلمانوں
کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش
نہیں کی۔ چنانچہ اب بھی اسیا ہی ہو گا۔ بلکہ جس طرح مصالح عامہ
کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا ہوں، اب بھی دریغ نہ کروں گااور اگر تم مجھے
اسی سطح پر رہنے دو، تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کے لیے بہتر
ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھوں میں
اقتدار نہیں ہو
گا۔
تمہارے دنیوی مفادات کے لیے سدراہ بن سکوں ، اور تمہاری
من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں اور گر یہ ٹھان چکے ہو کہ میرے
ہاتھوں پر بیعت کئے بغیر نہ رہو گے تو پھر یاد رکھو کہ چاہے تمہاری
پیشانیوں پر بل آئے اور چاہے تمہاری زبانیں
میرے خلاف
کھلیں
میں تمہیں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کروں گا۔ اور حق
کے معاملہ میں کسی کی رورعایت نہیں کروں گا۔ اس پر
بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کر لو۔
امیرالموٴمنین ﷼ نے انلوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا۔ بعد کے واقعات اس کیپوری پوری تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں نے
ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی ۔ جب
انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہو
گئے اور بے
بنیاد الزامات تراش کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔